Tag: کپور فیملی

  • جاوید شیخ کے خاندان اور کپور فیملی میں کیا مماثلت ہے؟ مومل شیخ نے بتا دیا

    جاوید شیخ کے خاندان اور کپور فیملی میں کیا مماثلت ہے؟ مومل شیخ نے بتا دیا

    پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ مومل شیخ نے کہا ہے کہ ہمارا خاندان کپور فیملی جیسا ہے۔

    پاکستان کی معروف اداکارہ مومل شیخ تجربہ کار اسٹار جاوید شیخ کی بیٹی ہیں، ان کا پورا خاندان شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہے اور سب اس انڈسٹری میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہو گئے، مومل شیخ نے شادی کے بعد انڈسٹری میں شروعات کی اور اب وہ ایک جانا پہچانا چہرہ بھی ہیں۔

    اداکارہ مومل شیخ نے حال ہی میں اشنا شاہ کے شو میں شرکت کی جہاں انہوں نے گفتگو کے دوران اپنے خاندان کو بھارتی کپور فیملی سے تشبیہ دے دی۔

    مومل شیخ نے دورانِ گفتگو کہا کہ ہمارا خاندان پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ویسا ہی ہے جیسے بھارت میں کپور فیملی ہے، ہماری فیملی کپوروں کی طرح طرح کامیاب اور شہرت رکھتے ہیں۔

    مومل شیخ کا کہنا ہے کہ جاوید شیخ اور سلیم شیخ بھائی ہیں، اسی طرح بہروز سزواری میرے پھوپھا ہیں، اگر دیکھیں تو شیخ فیملی اور سبزواری فیملی پاکستانی شوبز انڈسٹری میں اسی طرح ہیں جس طرح بالی ووڈ میں کپور فیملی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہ کہا کہ شہرت کے باوجود بھی والد اور سلیم چاچا کبھی کپورز کی طرح برتاؤ نہیں کرتے، کوئی اقرباء پروری نہیں ہے اور وہ کسی کو کبھی کام کے لیے کوئی کال نہیں کرتے، ہم نے انڈسٹری میں اپنی جگہ خود بنائی ہے۔

  • کپور خاندان کی پہلی باغی لڑکی کرشمہ نے اپنی خواتین کے فلم میں کام پر پابندی سے متعلق کیا کہا؟

    کپور خاندان کی پہلی باغی لڑکی کرشمہ نے اپنی خواتین کے فلم میں کام پر پابندی سے متعلق کیا کہا؟

    کپور فیملی کی اسٹار اداکارہ کرشمہ کپور نے خاندان کی خواتین پر شادی کے بعد کام پر پابندی سے متعلق دعوؤں کو مسترد کردیا۔

    بالی ووڈ کی معروف اداکارہ کرشمہ کپور نے حال ہی میں ذاکر خان کے شو ’آپکا اپنا ذاکر ‘میں شرکت کی، اس موقع پر ذاکر خان نے کرشمہ سے ان کے خاندان کے بارے میں ایک مشہور دعوے پر بات کی جس میں کہا گیا کہ کپور خاندان کی خواتین شادی کے بعد کام نہیں کر سکتیں۔

    کرشمہ کپور نے کہا کہ ’یہ سب باتیں ہیں کہ جب میری والدہ اور نیتو آنٹی کی شادی ہوئی، تو یہ ان کا اپنا انتخاب تھا کہ وہ گھر بسانا چاہتی تھیں اور بچوں کی پرورش کرنا چاہتی تھیں کیونکہ ان کے کیریئر پہلے ہی بہت اچھے تھے، یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا‘۔

    کرشمہ کپور نے مزید کہا کہ شمی انکل کی بیوی گیتا بالی جی اور ششی انکل کی بیوی جینیفر آنٹی نے شادی کے بعد بھی کام کیا کیوں کہ انہیں کام کرنا تھا، دونوں کا کام کرنے کا فیصلہ اپنا تھا، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ کپور خاندان میں شادی کے بعد خواتین کام نہیں کر سکتیں ایسی کوئی بات نہیں تھی‘۔

    واضح رہے کہ اداکارہ جینیفر کینڈل کی شادی ششی کپور سے ہوئی تھی، انہوں نے کئی سپر ہٹ فلموں میں کام کیا، جینیفر کا انتقال 1984 میں بڑی آنت کے کینسر کے باعث ہوا تھا۔

    دوسری جانب امرتسر کی گیتا بالی کا شمار اُس وقت کی کامیاب اداکاراؤں میں کیا جاتا تھا ان کا دہائیوں پر محیط ایک شاندار کیریئر تھا، انہوں نے 75 سے زائد فلموں میں اداکاری کی تھی۔

    کرشمہ کپور  اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھیں جس نے 1991 میں صرف 17 برس کی عمر میں بالی ووڈ میں قدم رکھا اور اپنی پہلی ہی فلم ’’پریم قیدی‘‘ میں  اپنی اداؤں اور شاندار پرفارمنس سے فلم بینوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔

  • فلمی دنیا کے وہ نام جو اپنی شہرت برقرار نہ رکھ سکے

    فلمی دنیا کے وہ نام جو اپنی شہرت برقرار نہ رکھ سکے

    تقسیمِ ہند کے بعد چند سال تک پاکستان اور بھارت کی فلم انڈسٹریوں میں فن کاروں‌ کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ فلموں کی نمائش کا منافع بخش کاروبار بھی ہوتا رہا، لیکن پھر حالات بدل گئے اور سنیما پر نمائش کا یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ مگر چند دہائیوں پہلے تک پاکستان میں انڈین فلموں کے کیسٹ خوب فروخت ہوتے تھے۔ اس دور کے شائقین کو بولی وڈ کے وہ نام شاید یاد ہوں جنھوں نے اپنی پہلی ہی فلم سے شہرت اور مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کرلیے۔ مگر پھر وہ بڑے پردے پر دوبارہ نہیں دکھائی دیے۔

    فلمی دنیا میں‌ جن فن کاروں‌ کی قسمت کا ستارہ چمکا اور معدوم ہوگیا، ان میں گورو کمار بھی شامل ہیں جو بولی وڈ کے مشہور اداکار راجندر کمار کے بیٹے ہیں۔

    کمار گورو کی پہلی فلم ’لو اسٹوری‘ تھی۔ 1981ء کی یہ سپر ہٹ فلم تھی جس کے بعد اداکار نے اپنا سفر جاری رکھنے کی ٹھانی مگر قسمت کی دیوی اداکار پر مہربان نہیں ہوئی۔ پہلی فلم کے بعد کمار گورو کو بولی وڈ میں خاطر خواہ کام یابی نہ مل سکی۔ کمار گورو کا بولی وڈ میں سفر جلد ہی تمام ہوگیا۔ ’لو اسٹوری‘ کی بدولت گورو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئے تھے۔ اس زبردست پذیرائی کو دیکھ کر راجندر صاحب کے کہنے پر فلم سازوں نے گورو کو مزید فلموں میں مرکزی کردار سونپے، لیکن ان کی کوئی فلم قابلِ‌ ذکر ثابت نہیں ہوسکی۔

    مہیش بھٹ کی فلم ’نام‘ میں کمار گورو نے ایک مرتبہ پھر خود کو آزمایا مگر نہیں چل سکے۔ 2002 میں فلم ’کانٹے‘ میں گورو کمار نے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی، مگر اس مرتبہ بھی ان کے مقدر کا ستارہ نہیں چمکا۔

    بولی وڈ میں کپور خاندان کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ پرتھوی راج کپور سے رنبیر کپور تک ہر نسل نے فلموں میں قسمت آزمائی کی اور شہرت بھی حاصل کی۔ لیکن اس خاندان کے چند نام ایسے ہیں جو اپنے بڑوں کی شہرت اور تعلقات کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ ان میں سب سے بڑی مثال راج کپور کے بیٹے راجیو کپور کی ہے جن کی ’رام تیری گنگا میلی‘ جیسی سپر ہٹ فلم میں منداكنی کے ساتھ جوڑی بھی خوب مقبول ہوئی۔ مگر راجیو کو بڑے پردے پر 10 سے 12 فلمیں کرکے بھی کچھ نہ ملا۔

    راجیو ان ناکامیوں کے بعد اسکرین سے غائب ہو گئے۔ راجیو کے علاوہ ششی کپور کے بیٹے کنال اور کرن کپور کا حال تو اس سے بھی برا ہوا اور وہ کوئی قابلِ ذکر فلم نہیں حاصل کرسکے۔

    بھاگیہ شری کا نام فلم ’میں نے پیار کیا‘ کے بعد شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ اسے شاید دماغ بہت ہوگیا تھا یا دماغ نے درست فیصلہ کرنے کی سکت کھو دی تھی۔ شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ کر اس اداکارہ نے شادی کا اعلان کیا اور یہ تک کہہ دیا کہ وہ جو بھی فلم کرے گی اپنے شوہر ہماليہ کے ساتھ ہی کرے گی۔ دوسرے لفظوں میں اس نے کہا تھاکہ وہ کسی اور ہیرو کے ساتھ کام نہیں کرے گی۔ اور تب وہ بولی وڈ میں زیرو ہوگئی۔ بعد میں بھاگیہ شری کو بھوجپوری، مراٹھی اور جنوبی بھارتی فلموں کے علاوہ ٹی وی پر کام کرتے دیکھا گیا۔

    راہول رائے اور انو اگروال کی فلم ’عاشقی‘ 1990 میں بنی تھی۔ اس فلم کے ہیرو ہیروئن کو جو شہرت ملی وہ بلاشبہ انھیں انڈسٹری کے چند خوش قسمت فن کاروں‌ میں سے ایک ثابت کرتی ہے۔ راہول اور انو اگروال اس زمانے میں نوجوانوں کے دلوں میں بستے تھے۔ بھارت میں اکثر نوجوان راہول کا ہیئر اسٹائل کی نقل کرتے تھے اور لڑکیوں کے بالوں میں وہی ربن نظر آتا تھا جو فلم کی ہیروئن یعنی انو کے بالوں میں انھوں نے دیکھا تھا۔ اس مقبولیت کے باوجود ان فن کاروں کو بڑے پردے پر مزید کام یابی نہیں ملی۔

    فلم ’سوداگر‘ میں منیشا كوئرالا کے ساتھ وویک مشران نے بڑی داد سمیٹی تھی۔ یہ سبھاش گھئی کی فلم تھی لیکن شائقین اور ناقدین کے چاہنے اور سراہنے کے بعد اس اداکار کو گویا نظر لگ گئی۔ وویک نے ’رام جانے‘ اور ’فرسٹ لو لیٹر‘ جیسی فلمیں کیں مگر کام یابی نہ ملی۔ بعد میں وویک نے ٹی وی کا رخ کیا۔

    50 کی دہائی میں ’جادو‘ وہ فلم تھی جسے بہت کام یابی ملی اور اداکارہ نلنی جيوت کے ساتھ ہیرو کے طور پر سوریش کو بھی بہت سراہا گیا۔ مگر اداکار اس کے بعد فلم نگری میں نظر نہیں آئے۔

    سپر ہٹ فلم ’دوستی‘ کے اہم اداکار سشیل کمار اور سدھیر کمار کا بھی یہی حال رہا۔ ان کے علاوہ بھی ہندی سنیما کے کئی اور نام ایسے ہیں جنھیں اپنی پہلی کام یاب فلم کے بعد دوبارہ بڑے پردے پر نہیں دیکھا گیا۔