Tag: کپڑا

  • آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوی ایشن نے ای ایف ایس اسکیم پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا

    آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوی ایشن نے ای ایف ایس اسکیم پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا

    کراچی: خام کپاس، کاٹن یارن اور مین میڈیا رن کی درآمد میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوی ایشن نے ای ایف ایس اسکیم پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

    دوسری طرف کراچی میں پاکستان ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل فورم اور ٹیکسٹائل کی ایسوسی ایشنز نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن سسٹم کو ملک کے مفاد میں ایک بہترین سسٹم قرار دے دیا۔

    ٹیکسٹائل انڈسٹریز اور اسٹیک ہولڈرز نے صنعت کو بچانے کا مطالبہ کر دیا ہے، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوی ایشن (اپٹما) نے مطالبہ کیا ہے کہ دھاگے اور کپڑے کو ای ایف ایس سے نکالا جائے۔

    چیئرمین اپٹما کامران ارشد نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ انڈسٹری کو تالا لگانے کی بجائے دوبارہ بحال کیا جائے، کاٹن پر 18 فی صد جی ایس ٹی ختم کی جائے۔ انھوں نے کہا واضح کیا کہ انڈسٹری بھاری بھر کم ٹیکسوں کے ساتھ نہیں چل سکتی۔


    سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ ہو گیا، تازہ ترین کاروباری رپورٹ


    ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر آصف انعام اور ایگریکلچر ٹاسک فورس کے چیئرمین شام لال منگلانی نے کہا کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے خریدار نہیں آ رہے، تو کاٹن کون خریدے گا۔ ای ایف ایس کی وجہ سے انڈسٹری تباہ ہو رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم انڈسٹری بند کر دیں، جس سے بے روزگاری اور بڑھ جائے گی

    ٹیکسٹائل انڈسٹری کے رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ای ایف ایس اسکیم کی خامیوں کو دور کیا جائے اور اس کا غلط استعمال روکا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر صنعت پر بھاری ٹیکسوں اور بلند لاگت کے مسائل حل نہ ہوئے تو ملک کی برآمدات مزید متاثر ہوں گی، اور بے روزگاری بڑھے گی۔

    پی ایچ ایم اے کے صدر محمد بابر خان کا کہنا تھا کہ جب ٹیکس واپس کرنا ہے تو صرف ای ایس ایف پر 18 فی صد ٹیکس لگانے کی کیا ضرورت ہے، ای ایف ایس کی وجہ سے غیر ملکی کپڑا اور دھاگا سستا اور معیاری مل رہا ہے، ای ایف ایس نہ ہوتی تو ایکسپورٹ اور کم ہو جاتی بجلی اور گیس کی وجہ سے ایکسپورٹ کو مسائل کا سامنا ہے۔

    پاکستان ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل فورم اور ٹیکسٹائل نے دعویٰ کیا کہ ای ایف ایس کو نقصان آئرن سیکٹر کی وجہ سے ہوا، ایف بی آر نے آئرن سیکٹر کو ضرورت سے زیادہ لائسنس جاری کیے۔

  • چوروں نے نہایت آسانی سے دکان کا شٹر کھول لیا، ویڈیو وائرل

    چوروں نے نہایت آسانی سے دکان کا شٹر کھول لیا، ویڈیو وائرل

    بھارت میں چوری کی ایک انوکھی واردات پیش آئی جس میں چوروں نے کپڑے کی مدد سے دکان کا بھاری شٹر کھول لیا اور قیمتی سامان اور نقدی لے اڑے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل یہ ویڈیو سی سی ٹی وی کیمرے کی ہے جس نے چوروں کی کارستانی فلمبند کرلی۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 3 سے 4 چور رات کے اندھیرے میں چوری کی نیت سے ایک دکان کے قریب پہنچتے ہیں۔ پہلے تو وہ ہاتھ سے شٹر کھولنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔

    اس کے بعد شٹر کے ہینڈل میں ایک کپڑا پھنساتے ہیں اور سب مل کر کپڑے کو کھینچتے ہیں جس سے شٹر اچھا خاصا کھل جاتا ہے۔

    اس کے بعد چور اندر جا کر دکان کا سامان اور نقدی چراتے ہیں اور باآسانی فرار ہوجاتے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by GiDDa CoMpAnY (@giedde)

    سوشل میڈیا پر صارفین چوروں کی یہ چالاکی دیکھ کر دنگ رہ گئے، ایک صارف نے لکھا کہ اس ویڈیو سے دیگر کئی چوروں کو بھی یہ آئیڈیا مل گیا۔

  • ایسا کپڑا جسے دھونے کی ضرورت نہیں

    ایسا کپڑا جسے دھونے کی ضرورت نہیں

    لندن: برطانیہ میں ماہرین نے ایسا کپڑا تیار کیا ہے جسے دھونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور یہ سورج کی روشنی میں خود بخود صاف ہوجائے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی کارڈف یونیورسٹی میں کیمسٹری کے شعبے کی تحقیقی ٹیم ایک نئے قسم کے کپڑے کی ایجاد میں کامیاب ہوئی ہے جسے سورج کی روشنی کے سامنے کرنے پر 99 فیصد بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں۔

    سورج کی روشنی کپڑے سے داغ اور بدبو کو دور کر دیتی ہے، جس کے بعد آپ انہیں چند منٹ میں دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں۔

    یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے حفظان صحت کے مقاصد کے لیے کپڑا تیار کیا ہے جو غیر زہریلی دھاتوں کے ساتھ مل کر سورج کی توانائی بیکٹیریاز کو مارنے، داغوں اور بدبو دور کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    محقق جینیفر ایڈورڈز نے وضاحت کی کہ اس کپڑے کو پہلے پانی سے دھویا جاتا ہے اور پھر بیکٹیریاز کو مارنے کا عمل شروع کرنے کے لیے دھوپ میں خشک کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس منفرد کپڑے کو دوبارہ استعمال کے قابل سینیٹری پیڈز میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم نے انکشاف کیا کہ سب سے اہم چیز اینٹی بیکٹیریل سرگرمی ہے اور یہ صرف روشنی کے تحت ہوتی ہے اور اندھیرے میں غیرمؤثر ہوتی ہے۔

    ماہرین نے بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن سے مالی اعانت حاصل کی ہے۔ ماہرین اپنی اس ایجاد کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوششوں کو تیز کر رہے ہیں اور اگلے 12 ماہ کے اندر ایک ایسی پروڈکٹ تیار کر رہے ہیں جو مہلک انفیکشن کے امکان کو کم کرنے میں کارآمد ہو۔

  • ایسا کپڑا جو جسم کو گرمی سے بچائے

    ایسا کپڑا جو جسم کو گرمی سے بچائے

    چینی سائنس دانوں نے ایک ایسا کپڑا تیار کیا ہے جو جسم کے درجہ حرارت کو 5 درجہ سینٹی گریڈ تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یوں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کر سکتا ہے۔

    میٹا فیبرک بظاہر عام ٹی شرٹ کا کپڑا لگتا ہے لیکن یہ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے جو مڈ انفرا ریڈ ریڈی ایشن کو خارج کرتی ہے اور یوں پہننے والے کا درجہ حرارت گھٹاتی ہے۔

    جریدے سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ٹیسٹ میں ظاہر ہوا کہ عام سوتی کپڑے پہننے والے شخص کے مقابلے میں میٹا فیبرک پہننے والا شخص اپنے درجہ حرارت کو 4.8 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔ محققین کے مطابق میٹا فیبرک کی کم لاگت اور اعلیٰ کارکردگی اسے ملبوسات اور کولنگ ایپلی کیشنز کے لیے کارآمد بناتی ہے۔

    انسانی جلد ایم آئی آر خارج کرتی ہے، جو دوسری انفرا ریڈ تابکاری کی طرح آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن گرمی کی صورت میں محسوس ہوتی ہے۔ گو کہ جلد کا عام درجہ حرارت تقریباً 37 درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میٹا فیبرک پہننے سے یہ 31 سے 32 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔

    انہوں نے ایسا کپڑا ایجاد کیا ہے جسے مختلف رنگوں میں پیش کیا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا بھر میں لوگوں کو ایسے وقت میں اپنے جسم کا درجہ حرارت کم رکھنے میں مدد ملے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

    یہ ہواچونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ووہان ٹیکسٹائل انڈسٹری، چنگ ڈاؤ کے انٹیلی جنٹ ویئریبل انجینئرنگ ریسرچ سینٹر اور بیجنگ کے چائنا ٹیکنالوجی اکیڈمی کے محققین کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

  • بھنگ کے بعد کیلے سے بھی کپڑا تیار کرلیا گیا

    بھنگ کے بعد کیلے سے بھی کپڑا تیار کرلیا گیا

    پاکستان میں کپڑے کی صنعت میں بڑی پیش رفت دیکھی جارہی ہے، بھنگ کے بعد اب کیلے کے درخت کے تنے سے بھی کپڑا بنا لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کیلے کے درخت کے تنے سے کپڑا تیار کرلیا۔ اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے پروجیکٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد محسن نے اس حوالے سے بتایا۔

    ڈاکٹر محسن کے مطابق پاکستان میں 34 ہزار 800 ہیکٹر پر کیلے کی کاشت ہوتی ہے جو سالانہ کیلے کی 1 لاکھ 54 ہزار 800 ٹن پیداوار ہے۔ کیلے کے درختوں کے 9 ہزار کلو سے زائد تنے ہر سال ضائع ہوجاتے ہیں جنہیں پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر محسن کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے اس تنے سے نہ صرف دھاگہ بنایا ہے بلکہ کپڑا بھی تیار کیا ہے اور اسے رنگنے میں بھی قدرتی طریقہ اجزا استعمال ہوئے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ کپڑا کاٹن کے مقابلے میں زیادہ پائیدار ہے جبکہ اس کی قیمت بھی کاٹن کی قیمت کی نصف ہے۔

    ڈاکٹر محسن کا کہنا ہے کہ کسان پہلے اس تنے کو پھینک دیا کرتے تھے یا جلا دیتے تھے جس سے کچرے اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا تھا، تاہم اب یہ بیکار تنے بھی ان کی آمدن کا ذریعہ بن سکیں گے۔

    علاوہ ازیں یہ کپڑا ماحول دوست ہوگا جبکہ کپاس کی پیداوار میں کمی کو بھی پورا کرسکے گا۔