Tag: کچرا

  • کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    ایک مصری فنکار نے بھی ایسا ہی ایک طریقہ نکالا ہے۔

    مصر سے تعلق رکھنے والا فنکار شیدی رباب کچرے سے آلات موسیقی بناتا ہے۔ رباب ایک موسیقار ہے جبکہ وہ آلات موسیقی بھی بناتا ہے۔

    وہ کچرے سے مختلف پلاسٹک و شیشے کی بوتلوں کو اکٹھا کر کے ان سے ڈرمز، گٹار اور بانسریاں بناتا ہے۔

    رباب کا کہنا ہے کہ اس طرح سے وہ لوگوں کی توجہ مصر میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کے ڈھیروں کی طرف دلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ دریاؤں اور سمندروں میں کچرا پھینکنا کس قدر نقصان دہ ہے۔

    دریائے نیل کے مغربی کنارے پر رباب کی سازوں کی دکان موجود ہے جہاں ہر وقت موسیقی کے شیدائیوں کا ہجوم رہتا ہے۔

    رباب ان آلات کو موسیقی سیکھنے والے بچوں میں مفت تقسیم کرتا ہے اور جو بچے موسیقی سیکھنا چاہتے ہیں انہیں سکھاتا بھی ہے۔ اسے اقوام متحدہ سے ینگ چیمپئن آف دا ارتھ پرائز بھی مل چکا ہے۔

    رباب کا عزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں پھیلی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس لیے نہ صرف وہ خود کچرے سے آلات موسیقی تیار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے مشن کا حصہ بن سکیں۔

  • ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    کھٹمنڈو: نیپالی حکومت نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی مہم کا آغاز کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق پہاڑ پر کوہ پیماؤں کا پھینکا گیا ٹنوں کچرا وہاں موجود ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کے بلند ترین کچرا گھر کا نام بھی دیا جارہا ہے۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ میں موجود ماؤنٹ ایورسٹ نیپال اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 8 ہزار 8 سو 48 میٹر ہے۔ ہر سال درجنوں کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

    ماؤنٹ ایورسٹ سے اس سے قبل 3 ہزار کلو گرام کچرا اٹھایا جا چکا ہے، اس کچرے میں آکسیجن کے خالی ٹینکس، الکوحل کی بوتلیں، خراب شدہ خوراک، اور خیمے شامل تھے۔ اب ایک بار پھر یہاں کی صفائی مہم شروع کی گئی ہے۔

    گزشتہ ماہ 14 اپریل سے شروع کی جانے والی اس صفائی مہم کا اختتام 29 مئی کو ہوگا، یہ وہ تاریخ ہے جب اس چوٹی کو پہلی بار سر کیا گیا۔

    حکام کو امید ہے کہ 45 دنوں میں یہاں سے 10 ہزار کلو گرام کچرا صاف کرلیا جائے گا۔ اس بلند ترین مقام پر کی جانے والی صفائی مہم پر 2 لاکھ ڈالر اخراجات آرہے ہیں۔

    نیپال نے سنہ 2014 کے بعد سے کوہ پیماؤں پر اپنے ہمراہ کچرا واپس نہ لانے پر جرمانہ بھی عائد کر رکھا ہے۔ اس سے قبل کچرا اکٹھا کی جانے والی مہم میں کچرے کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نیچے لایا گیا تھا۔

    حکام کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر سخت موسم کے باعث وہاں ہلاک ہوجانے والے مہم جوؤں کی لاشیں بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد کم از کم 200 ہے، تاہم ان لاشوں کو فی الحال نیچے نہیں لایا جارہا۔

    ماہرین کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر کچرے کی وجہ صرف کوہ پیماؤں کا کچرا چھوڑ جانا نہیں۔ جس طرح سے ہم اپنی زمین کو کچرے سے آلودہ کر رہے ہیں اور یہ کچرا اڑ اڑ کر سمندر کی تہوں اور دور دراز برفانی خطوں تک جاپہنچا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی بھی کچرے سے اٹ چکی ہے۔

  • سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    دنیا بھر میں پلاسٹک سمیت مختلف اشیا کے کچرے کو کم سے کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور ری سائیکلنگ یعنی دوبارہ استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جارہا ہے۔

    دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست سمجھا جانے والا ملک سوئیڈن بھی اس سلسلے میں مختلف اقدامات کر رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک اور قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ سوئیڈن میں ری سائیکلنگ کے عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے کچرا رکھنے کو مختلف رنگوں کے بیگز متعارف کروائے گئے ہیں۔

    سوئیڈن کے شہر اسکلستونا میں شہریوں کو 7 بیگ ری سائیکلنگ اسکیم فراہم کرنے سے متعلق پوچھا گیا اور 98 فیصد شہریوں نے اس اسکیم کی فراہمی میں دلچسی ظاہر کی۔

    اس ست رنگی بیگز کی اسکیم میں کلر کوڈ سسٹم کے ذریعے کچرے کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ کتھئی رنگ کے بیگ میں دھاتی اشیا، سبز رنگ کے بیگ میں خوراک، نیلے رنگ کے بیگ میں اخبارات، گلابی رنگ کے بیگ میں ٹیکسٹائل مصنوعات، سرخ رنگ کے بیگ میں پلاسٹک اشیا، زرد میں کارٹن اور سفید بیگ میں ٹشو پیپرز اور ڈائپرز وغیرہ پھینکے جاتے ہیں۔

    ان بیگز کی بدولت ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ ری سائیکلنگ پلانٹ میں آنے والے تمام رنگ کے بیگز مکس ہوتے ہیں تاہم ان کے شوخ رنگوں کی بدولت اسکینرز انہیں آسانی سے الگ کرلیتے ہیں جس کے بعد انہیں ان کے مطلوبہ پلانٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    جو اشیا ری سائیکل نہیں کی جاسکتیں انہیں بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ری سائیکلنگ کی بدولت کچرے کے ڈھیر اور آلودگی میں کمی ہوگئی ہے۔

    سوئیڈن نے، یورپی یونین کے سنہ 2020 تک تمام اشیا کو ری سائیکل کیے جانے کے ٹارگٹ کو نصف ابھی سے حاصل کرلیا ہے۔ سوئیڈش انتظامیہ کا کہنا ہے اس وقت وہ ملک کے کچرے کی بڑی مقدار کو ری سائیکل کر رہے ہیں لیکن وہ اس کام مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

  • ان اشیا کو کچرے میں پھینکنے سے گریز کریں

    ان اشیا کو کچرے میں پھینکنے سے گریز کریں

    پھل اور سبزیاں کھاتے ہوئے ہم ان کے کنارے اور چھلکے پھینک دیتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ان چھلکوں میں بھی بے شمار فوائد چھپے ہوتے ہیں۔

    پھینکی جانے والی یہ اشیا لاتعداد وٹامنز اور غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں لہٰذا انہیں پھینکنا کوئی دانشمندانہ بات نہیں، آئیں دیکھتے کہ کن چیزوں کو پھینکنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

    پھول گوبھی کے کنارے

    پھول گوبھی یوں تو صحت کے لیے نہایت فائدہ مند شے ہے تاہم اس کے پھینک دیے جانے والے کنارے بھی نہایت فائدہ مند ہوتے ہیں۔ ماہرین کےمطابق یہ کنارے جسم میں ٹیومر کا خطرہ کم کرتے ہیں جبکہ ڈی این اے کی توڑ پھوڑ میں بھی کمی کرتے ہیں۔

    پیاز کے چھلکے

    پیاز کاٹتے ہوئے اس کے چھلکے پھینکے جانا معمول کی بات ہے۔ پیاز کے سرخ چھلکے کینسر سے بچاؤ فراہم کرسکتے ہیں اور دل کو صحت مند رکھتے ہیں۔

    کھیرے کا چھلکا

    کھیرے کے چھلکے میں وٹامن کے موجود ہوتا ہے جو خون میں لوتھڑے بننے سے حفاظت کرتا ہے اور ہڈیوں کو صحت مند رکھتا ہے۔

    نارنگی کے چھلکے

    نارنگی وٹامن سی سے بھرپور پھل ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں نارنگی کے چھلکے میں پھل سے 3 گنا زیادہ وٹامن سی موجود ہوتا ہے۔ یہ چھلکے ریشہ اور منرلز سے بھرپور ہوتے ہیں۔

    تربوز کے بیج

    تربوز کھاتے ہوئے عموماً اس کے بیجوں اور سفید حصے کو ضائع کردیا جاتا ہے، ان دونوں چیزوں میں امائنو ایسڈ موجود ہوتا ہے جو خون کی روانی کو بہتر بناتا ہے اور دل کو صحت مند رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں تربوز کے بیجوں کو بھون کر سلاد میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    سیب کا چھلکا

    سیب کا چھلکا بھی اپنے اندر گودے سے زیادہ غذائیت رکھتا ہے۔ یہ جسم سے فاسد مواد خارج ہونے میں مدد دیتا ہے جبکہ یہ فائبر اور وٹامن سی سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔

    کیلے کا چھلکا

    کیلے کی اصل غذائیت اس کے چھلکے میں چھپی ہے۔ کیلے کے چھلکے کا سفید حصہ سیروٹونین کا منبع ہوتا ہے جو ڈپریشن کو کم کرنے اور موڈ کو خوشگوار بنانے میں مدد دیتا ہے۔

  • سوئٹزر لینڈ میں کچرا پھینکنے کے لیے قیمت ادا کرنا ضروری

    سوئٹزر لینڈ میں کچرا پھینکنے کے لیے قیمت ادا کرنا ضروری

    یورپی ملک سوئٹزر لینڈ میں شہریوں کو کچرا پھینکنے پر قیمت دینے کا پابند بنایا جارہا ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور ری سائیکلنگ کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔

    سوئٹزر لینڈ میں لوگوں کے گھروں سے کچرے کا تھیلا اسی وقت اٹھایا جاتا ہے جب اس پر پیمنٹ اسٹیکر منسلک ہو، اس کا مطلب ہے کہ اس کچرے کی قیمت ادا کی جاچکی ہے۔

    اس کا مقصد لوگوں کو استعمال شدہ اشیا کو دوبارہ استعمال کرنے یعنی ری سائیکلنگ کی جانب راغب کرنا ہے۔ یہ طریقہ کار کچرے پر ٹیکس لگانے سے زیادہ مؤثر ثابت ہورہا ہے۔

    سوئٹزر لینڈ کے بعض شہروں میں اگر کچرے میں ایسی اشیا پائی جائیں جنہیں ری سائیکل کرنا ممکن ہو تو انہیں پھینکنے والوں پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خاتون انڈیانا جونز کچرا جزیرے کے سفر پر

    ان اقدامات کی بدولت سوئٹزر لینڈ میں ری سائیکلنگ کی شرح اس وقت یورپ کے تمام ممالک سے سب سے زیادہ ہے۔

    دوسری جانب یورپی یونین چاہتی ہے کہ سنہ 2020 تک اس کے تمام رکن ممالک اپنا پھینکا جانے والا 50 فیصد کچرا ری سائیکل کریں۔ سوئٹزر لینڈ پہلے ہی اس ہدف کو حاصل کرچکا ہے۔

    تاہم جرمنی، آسٹریا، ڈنمارک، سوئیڈن اور ناروے کے علاوہ دیگر یورپی ممالک میں ری سائیکلنگ کی شرح صرف 10 فیصد ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 2.12 ارب ٹن سامان کچرے کی صورت پھینک دیا جاتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی خریدتے ہیں ان میں سے 99 فیصد سامان 6 ماہ کے اندر پھینک دیتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہم انسانوں کا پھینکا ہوا کچرا ایک نئی ارضیاتی تہہ تشکیل دے رہا ہے یعنی زمین پر ایک غیر فطری اور گندگی سے بھرپور تہہ بچھا رہا ہے۔

  • سمندرکوصاف رکھنا ہے، ملک بھرکو سرسبزوشاداب رکھنا ہے‘ گورنرسندھ

    سمندرکوصاف رکھنا ہے، ملک بھرکو سرسبزوشاداب رکھنا ہے‘ گورنرسندھ

    کراچی : گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ آب وہوا تبدیل کرنے کے لیے کچرے کا خاتمہ اور شجرکاری ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گورنرسندھ عمران اسماعیل نے کراچی میں سی ویو پرصفائی مہم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کوگندا کرنے میں ہم سب بھی برابرکے ملوث ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھرکوصاف کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا ہے ہمیں سپورٹ کرنی چاہیے، ملک بھر کو صاف رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

    عمران اسماعیل نے کہا کہ سمندرکوصاف رکھنا ہے، ملک بھرکوسرسبزوشاداب رکھنا ہے، سمندر قدرت کا انمول تحفہ ہے جسے ہمیشہ نظراندازکیا گیا۔

    گورنر سندھ نے کہا کہ کراچی میں جہاں نظردوڑائیں کچرا ہی کچرا نظرآتا ہے، آلودگی کے سبب نایاب خوبصورت پرندےغائب ہوگئے۔

    انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ کی صفائی مہم قابل تعریف ہے، سمندرنہایت آلودہ ہوچکا ہے، نومبرمیں بھی سخت گرمی کی وجہ آب وہوا ہے۔

    گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ آب وہوا تبدیل کرنے کے لیے کچرے کا خاتمہ اور شجرکاری ضروری ہے۔

    کراچی میں صفائی کا بہترنظام اورپانی کا منصوبہ اولین ترجیح ہے‘ عمران خان

    یاد رہے کہ 16 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان نے کراچی کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں صفائی کا بہترنظام اورپانی کا منصوبہ اولین ترجیح ہے۔

  • کچرا دے کر بس میں‌ مفت سفر کریں، حکومت کی انوکھی عوامی سہولت

    کچرا دے کر بس میں‌ مفت سفر کریں، حکومت کی انوکھی عوامی سہولت

    جکارتہ: انڈونیشیا کے شہر سورا بایا کی مقامی حکومت نے علاقے کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے شاندار عوامی سہولت متعارف کرادی۔

    تفصیلات کے مطابق انڈونیشیا کے شہر سورا بایا کی مقامی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ اب شہری پلاسٹک کی خالی بوتلیں دے کر عوامی ٹرانسپورٹ میں مفت سفر کرسکیں گے۔

    حکومتی ترجمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عوام میں صفائی ستھرائی کی ترغیب اور ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’شہری بس اسٹاپ پر موجود سرخ بسوں کے ٹرمینل پر پلاسٹک کے کین اور بوتلیں جمع کرا کے مفت سفر کا ٹکٹ حاصل کرسکتے ہیں‘۔

    حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’شہر میں روزانہ 400 ٹن کچرا پھینکا جاتا ہے جس میں پلاسٹک کی بڑی تعداد ہوتی ہے، ہم اس پلاسٹک کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بھی بنا سکتے ہیں‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک بس روزانہ 250 کلو گرام سے زیادہ پلاسٹک جمع کرسکتی ہے جو تیس دنوں میں ساڑھے سات ٹن تک پہنچ جائے گا‘۔

    حکومتی ترجمان نے بتایا کہ پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیاء کو جمع کر کے پلاسٹک ری سائیکل کرنے والی کمپنیوں کو فروخت کیا جائے گا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم شہر کو صاف ستھرا، سرسبز و شاداب بنانے کے کام آئے گی۔

  • استعمال شدہ پلاسٹک سے تیار ہونے والا پارک

    استعمال شدہ پلاسٹک سے تیار ہونے والا پارک

    دنیا بھر میں ماحول کو شدید نقصان پہنچانے والے عنصر پلاسٹک کو ختم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور اس ضمن میں ایک اور منصوبہ سامنے آیا ہے۔

    فرانس میں دریا میں پھینکے جانے والے پلاسٹک سے خوبصورت پارک تیار کیے جارہے ہیں۔

    فرانس کے دریا میوز کے کناروں پر خوبصورت پارک بنائے جارہے ہیں جس سے دریا کی خوبصورتی میں اضافہ ہورہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ پارک استعمال شدہ پلاسٹک سے بنائے جارہے ہیں۔

    اس کے لیے سب سے پہلے دریا میں پھینکا جانے والا پلاسٹک اکٹھا کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    بعد ازاں اسے پگھلا کر 6 کونوں والے پلیٹ فارم تیار کیے جاتے ہیں جن پر کھاد ڈال کر سبزہ اور مختلف پودے اگائے جاتے ہیں۔

    یہ پلیٹ فارمز بہت بڑی تعداد میں دریا کے کناروں پر چھوڑ دیے جاتے ہیں جس کے بعد مذکورہ حصہ خوبصورت سا پارک معلوم ہونے لگتا ہے۔

    ان پر لگے پودے نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہوا کو صاف ستھرا کر رہے ہیں بلکہ یہ مختلف پرندوں کی غذائی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال جاری ہے جس کے باعث ہمارے شہر اور سمندر پلاسٹک کے کچرا دان میں بدلتے جارہے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہر سال کم از کم 80 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں پھینکا جاتا ہے اور اگر ہم نے اپنی یہی روش برقرا رکھی تو سنہ 2050 تک سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا بھر کی ساحلی زمین سمندر برد ہورہی ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی رہائشی آبادیوں کے قریب آرہا ہے اور یوں ساحل پر آباد شہروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    ساحلی زمین کے غائب ہونے کی وجہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت ہے جس سے برفانی پہاڑ یا گلیشیئرز پگھل کر سمندروں میں شامل ہورہے ہیں یوں سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    تاہم ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی شیشے کی بوتلیں ان ساحلوں کو بچا سکتی ہیں۔

    نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی اس سلسلے میں کام کر رہی ہے اور اسے حیرت انگیز نتائج موصول ہورہے ہیں۔

    یہ کمپنی ایک تیز مشین کے ذریعے شیشے کی بوتلوں کو توڑ کر نہایت باریک ذرات میں تبدیل کردیتی ہے۔

    اس کے بعد اس میں شیشہ کے ذرات اور سیلیکا ڈسٹ الگ کرلی جاتی ہے ساتھ ہی بوتلوں پر لگے پلاسٹک اور کاغذ کے لیبلوں کو بھی الگ کرلیا جاتا ہے۔

    الگ ہوجانے کے بعد اس سے نکلنے والی مٹی بالکل ساحلی ریت جیسی ہوتی ہے۔

    ساحل کیوں سمندر برد ہورہے ہیں؟

    اس وقت دنیا بھر کے ساحلوں کا 25 فیصد حصہ سمندر برد ہورہا ہے۔

    اس کی 2 وجوہات ہیں، ایک زمینی کٹاؤ اور دوسرا قدرتی آفات۔ اس کے ساتھ ساتھ ساحلی ریت کو کئی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جن میں تعمیرات سرفہرست ہیں۔

    ساحلی ریت کو سڑکیں بنانے، کان کنی کرنے، اور سیمنٹ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے مختلف ساحلوں سے ٹنوں ریت اکٹھی کی جاتی ہے۔

    بعض اوقات ایک ساحل کی ریت اٹھا کر دوسرے ساحل پر بھی ڈالی جاتی ہے تاکہ اس ساحل پر کم ہوجانے والی مٹی کا توازن برابر کیا جاسکے۔

    اس طریقے سے نیوزی لینڈ کے کئی ساحلوں کو دوبارہ سے بحال کیا گیا جو سمندر برد ہونے کے قریب تھے۔

    دوسری جانب سنہ 2017 میں ارما طوفان کے وقت امریکی ریاست فلوریڈا میں 12 ہزار ٹرکوں کے برابر ساحلی ریت نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور ہوا میں اڑگئی۔

    اسی طرح کیلیفورنیا کی 67 فیصد ساحلی زمین سنہ 2100 تک سمندر برد ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    اس صورت میں دوسرے ساحلوں سے ریت لا کر خطرے کا شکار ساحل پر ڈالی جاتی ہے تاکہ شہری آبادی کو نقصان سے بچایا جاسکے۔

    نیوزی لینڈ کی ساحلی زمین بھی سخت خطرے میں ہے اور یہ پہلی کمپنی ہے جو ایک قابل قبول حل کے ساتھ سامنے آئی ہے۔

    یہ کمپنی اب تک 5 لاکھ بوتلوں سے 147 ٹن ریت حاصل کرچکی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ 330 ملی لیٹر کی ایک عام بوتل سے 200 گرام ریت حاصل ہوتی ہے۔

    کمپنی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے پہلے وہ نیوزی لینڈ کے ساحلوں کے بچائیں گے اس کے بعد اسے پوری دنیا میں پھیلائیں گے۔

    یہ طریقہ کار نہ صرف ساحلوں کو بچا رہا ہے بلکہ شیشے کی بوتلوں کو کچرے میں پھینکنے کے رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کر رہا ہے جس سے شہروں کے کچرے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

  • ضائع شدہ خوراک کو کام میں لایا جاسکتا ہے

    ضائع شدہ خوراک کو کام میں لایا جاسکتا ہے

    آپ اپنے گھر میں استعمال کیے جانے والی غذائی اشیا کے چھلکے یقیناً پھینک دیتے ہوں گے۔

    یہی نہیں بچ جانے والی خوراک بھی کوڑا دان کی زینت بن جاتی ہے جو ایک طرف تو خوراک کے ضیاع کی طرف اشارہ کرتی ہے تو دوسری جانب کچرے میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

    اب سبزیوں اور پھلوں کے چھلکوں کو قابل استعمال بنانے کے لیے ایک بہترین شے ایجاد کرلی گئی ہے جو ان تمام اشیا کو کھاد میں تبدیل کردیتی ہے۔

    اور ہاں، اسے کسی قسم کی توانائی جیسے بجلی وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں۔

    desktop-2

    ڈیسک ٹاپ ایکو سسٹم کہلایا جانے والا یہ سسٹم دراصل پلاسٹک کے ایک ڈبے پر مشتمل ہے۔

    آپ اپنے گھر میں پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے اس میں ڈال دیں، کچھ دن بعد یہ کھاد میں تبدیل ہوجائیں گے جو باغبانی میں استعمال کی جاسکتی ہے۔

    پھینکی جانے والی غذائی اشیا کو کھاد میں تبدیل کرنے کے لیے نہایت قدرتی طریقہ استعمال کیا گیا ہے یعنی کیڑوں کی موجودگی۔

    وہی کیڑے جو زمین پر کسی شے کو تلف کر کے اسے زمین کا حصہ بنا دیتے ہیں، وہی ہمارے پھینکے گئے کچرے کو بھی کھاد میں تبدیل کر دیں گے۔

    desktop-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح سے گھریلو پیمانے پر کھاد تیار کر کے اسے گھر میں ہی مختلف سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے کسی ایک گھر کی غذائی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔

    علاوہ ازیں کھاد بنانے کے لیے ڈالا جانے والا کچرا آلودگی اور گندگی میں کمی کرے گا، بعد ازاں اس کھاد سے اگائے گئے پودے درجہ حرارت میں کمی، اور ماحول پر خوشگوار اثرات مرتب کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔