Tag: کچرا

  • مجھے ایک ہفتے میں کراچی صاف چاہیے‘ چیف جسٹس

    مجھے ایک ہفتے میں کراچی صاف چاہیے‘ چیف جسٹس

    کراچی: سپریم کورٹ میں واٹرکمیشن کی عبوری رپورٹ پر سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے میئرکراچی وسیم اختر سے سوال کیا کہ گندگی ہٹانا اور صفائی کس کا کام ہے؟۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں واٹرکمیشن کی عبوری رپورٹ پرسماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے مکالمہ کیا کہ واٹرکمیشن کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، سندھ میں کیا ہو رہا ہے ہمارے سامنے بڑی بھیانک تصویرآ رہی ہے۔

    چیف سیکرٹری سندھ نے جواب دیا کہ کچھ فوری اورکچھ طویل مدتی پلاننگ ہے، سپریم کورٹ اورواٹرکمیشن کی کارروائی پربہتری آرہی ہے، کچھ ٹھیکیداروں کومنصوبے شروع ہونے سے پہلےرقم دی گئی۔

    چیف جسٹس نے میئرکراچی وسیم اختر سے سوال کیا کہ گندگی ہٹانا اورصفائی کس کاکام ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ سارے اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں، عدالت فیصلہ دےچکی لیکن سندھ حکومت عمل نہیں کررہی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہےوسیم اخترٹھیک کہہ رہے ہیں، چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ کچرا اٹھانے کا کام شروع کردیا، نظام کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا ہے۔

    میئرکراچی نے کہا کہ نالےبند ہیں کچرے کے ڈھیرہیں، کراچی میں کتوں کی بھرمارہے، شہر کا برا حال ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ کام توکے ایم سی کا ہے ، وسیم اخترنے جواب دیا کہ ملازمین کےایم سی کےاورٹھیکہ چینی کمپنی کو دے رہے ہیں۔

    چیف سیکرٹری نے کہا کہ کراچی میں ایسی سڑکیں ہیں جہاں 6 ماہ سے جھاڑو تک نہیں لگی، صورت حال کوتسلیم کرتےہیں مگراب بہتری آرہی ہے جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ توڈی ایم سیزکوفنڈزہی نہیں دے رہے۔

    جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ایک وقت تھا جب صبح صبح سڑکوں کی صفائی ہوتی تھی، چیف سیکرٹری نے کہا کہ کراچی کے 6 میں سے 4 اضلاع کوآؤٹ سورس کیا گیا ہے۔

    شہری نے عدالت میں کراچی کے علاقے باتھ آئی لیند کی تصاویر پیش کیں جن میں کچرا نظر آرہا ہے، ڈاکٹرنواز نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں ایک لاکھ سے زائد افراد چکن گونیا میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ مجھے ایک ہفتے میں کراچی صاف چاہیے، وسیم اخترنے کہا کہ یہ مسئلہ 10سال کاہے، ہرضلع میں کچرےکے پہاڑبن رہے ہیں، سندھ حکومت نے ٹیکسزکے ذرائع اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔

    میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت کو بتایا کہ یہاں سیاسی بات نہیں، سیاست سے بالاترہوکربات کررہا ہوں، ریونیوکے ذرائع بلدیاتی اورسوک اداروں کومنتقل کیے جائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ تنازع میں نہیں پڑیں گے سیاست سے بالاہوکرسب سوچیں، جس کی جو ذمہ داری ہے اسے ادا کرنا ہوگی، مشترکہ کاوشوں سے کراچی کوبہتربنایا جا سکتا ہے۔


    راؤ انوارسےمتعلق دو سے تین دن میں پیشرفت ہوجائےگی‘ آئی جی سندھ


    خیال رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی سندھ پولیس کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سے متعلق رپورٹ پیر تک جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    آبی آلودگی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں رہنے والی آبی حیات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ سمندر کی مچھلیوں کا آلودہ پانی میں افزائش پانا اور پھر اس مچھلی کا ہماری غذا میں شامل ہونا ہمیں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔

    علاوہ ازیں دریاؤں کے قابل استعمال میٹھے پانی کی آلودگی بھی انسانی صحت کو شدید خطرات کا شکار بنا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایسا پہیہ ایجاد کیا ہے جو دریاؤں اور سمندروں کی صفائی کر کے اس میں سے ٹنوں کچرا باہر نکال سکتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کے ساحلی شہر بالٹی مور میں آزمائشی تجربے کے موقع پر اس پہیہ نے سمندر سے 50 ہزار پاؤنڈ کچرا نکالا۔

    یہ تجربہ بالٹی مور کی بندرگاہ پر انجام دیا گیا جہاں جہازوں کی آمد و رفت اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بے تحاشہ کچرا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

    اس پہیہ پر شمسی توانائی کے پینلز نصب کیے گئے ہیں جو اسے فعال رکھتے ہیں۔ پہیہ استعمال کے لیے کسی بحری جہاز یا چھوٹی کشتی پر نصب کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ تیرتے ہوئے سمندر میں سے کچرا نکالتا جاتا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد سمندر کی آلودگی میں کمی کرنا اور بندرگاہ کو تیراکی کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پھول اور پودے اگانے والے جوتے

    پھول اور پودے اگانے والے جوتے

    آپ اپنے پرانے جوتوں کا کیا کرتے ہیں؟ جوتوں کے استعمال کی ایک عمر ہوتی ہے اور اس عمر کے بعد وہ خراب اور خستہ حال ہونے لگتے ہیں جس کے بعد انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں پھینکے جانے والے کپڑے اور جوتے ہمارے شہروں کے کچرے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر دنیا کے ہر شخص کے استعمال شدہ اور پھینکے ہوئے جوتوں کو جمع کیا جائے تو یہ کچرے کا ایک بہت بڑا پہاڑ بن جائے گا۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک کی بوتلوں سے بنائے گئے جوتے

    مختلف اشیا کو ماحول دوست طریقے سے تلف کرنے کے اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کمپنی نے ایسے جوتے تیار کیے ہیں جو استعمال کے بعد کھاد میں تبدیل ہوجائیں گے۔

    دراصل ان جوتوں کو ایسی اشیا سے تیار کیا گیا ہے جو زمین میں جانے کے بعد آہستہ آہستہ مٹی کا حصہ بننا شروع ہوجاتی ہیں۔

    ان جوتوں کے تلف ہوجانے کے بعد ان سے کھاد بھی بنائی جاسکتی ہے جس کے بعد یہ پھول اور پودے اگانا شروع کردیں گے۔

    یہ جوتے نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ دیکھنے اور پہننے میں بھی نہایت خوبصورت اور فیشن ایبل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    آپ اپنی روزمرہ زندگی میں کتنی چیزیں پھینک دیتے ہیں؟ یقیناً بہت ساری۔ لیکن نیویارک میں ایک خاتون اس قدر کم کچرا پھینکتی ہیں کہ ان کے 4 سال کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں سما سکتا ہے۔

    نیویارک کی رہائشی لورین سنگر زیرو ویسٹ طرز زندگی گزار رہی ہیں یعنی اپنے ماحول کی کم سے کم چیزوں کو ضائع کرنا۔

    jar-2

    وہ استعمال کی ہوئی چیزوں کو دوبارہ استعمال یعنی ری سائیکل کرتی ہیں۔

    jar-5

    یہی نہیں وہ اپنے گھر میں استعمال ہونے والی اکثر چیزیں مختلف چیزوں کے ذریعہ خود ہی تیار کرتی ہیں۔

    اس کی ایک مثال درخت کی ٹہنی سے بنایا ہوا ٹوتھ برش ہے جسے وہ کئی سالوں سے استعمال کر رہی ہیں۔

    jar-4

    واضح رہے کہ امریکا میں ہر شخص روزانہ اوسطاً 4.4 پاؤنڈ کچرا پھینکتا ہے۔

    لورین کہتی ہیں کہ انہیں اس طرح زندگی گزارتے ہوئے 4 سال ہوگئے لیکن انہیں ایک بار بھی اسے تبدیل کرنے کا خیال نہیں آیا۔

    jar-3

    وہ کہتی ہیں کہ کم سے کم چیزیں ضائع کرنا ماحول کے لیے ایک بہترین قدم ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان اور خصوصاً شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم سرگودھا کی 10 سالہ غیر معمولی بچی اپنے ملک کو صاف ستھرا بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ زیمل عمر نے صرف 6 سال کی عمر میں اپنے ارد گرد موجود گندگی اور کچرے کو دیکھ کر بے زاری اور کراہیت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔

    آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ یہ مسئلہ صرف اس کے علاقے یا شہر کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے، اور تب ہی اس نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کچرے کے ڈھیر کی صفائی کرنے کا عزم کیا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر کچرے کی نئی تہہ

    ننھی سی زیمل کو یہ معلومات بھی بہت جلد ہوگئیں کہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں پھینکا جانے والا کچرا ہی اصل مسئلے کی جڑ ہے کیونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا اور یہی بڑے پیمانے پر کچرا پھیلانے کا سبب بنتا ہیں۔

    وہ کہتی تھی، ’لوگ ان کا بہت بے دردی کے ساتھ استعمال کر کے انہیں پھینک دیتے ہیں اور انہیں دوبارہ استعمال کرنے کا نہیں سوچتے‘۔

    زیمل کے ننھے ذہن نے اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کا حل سوچنا شروع کیا اور تب ہی اس کے ذہن میں پرانے اخبارات کا خیال آیا۔

    آپ جانتے ہوں گے کہ کاغذ درختوں سے حاصل کی جانے والی گوند سے بنتے ہیں اور اخبارات کے لیے استعمال ہونے والے اخبارات ایک سے 2 بار استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔

    زیمل نے انہی اخبارات سے کچرے کے بیگز بنانے کا سوچا۔ ’زی بیگز‘ کے نام سے یہ کاغذی تھیلے بہت جلد لوگوں میں مقبول ہوگئے اور اس کی انتہائی کم قیمت کی وجہ سے لوگوں نے انہیں خریدنا بھی شروع کردیا۔

    اب جبکہ زیمل اپنی تعلیم کے فقط ابتدائی مراحل میں ہی ہے، وہ ابھی سے لوگوں میں تحفظ ماحول اور آلودگی سے بچنے کا شعور پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

    زیمل بتاتی ہے کہ اسکول کے ساتھ بیگز بنانے کا کام نہایت مشکل ہے چنانچہ یہ کام وہ صرف ویک اینڈ کو انجام دیتی ہے اور اس میں اس کے اہلخانہ اور کزنز بھی اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

    اس کم عمر ترین سماجی انٹر پرینیئور کو اب تک پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں 2 ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    زیمل اپنے کام اور آگاہی مہم کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہے اور اس کے لیے بے حد پرعزم ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ زیمل کاغذی تھیلوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو بھی غریب بچوں میں تقسیم کردیتی ہے۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    اسلام آباد: وطن عزیز کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایسی پھپھوندی دریافت ہوئی ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتی ہے۔

    وفاقی دارالحکومت کے ایک کچرے کے ڈھیر سے اتفاقاً دریافت ہونے والی اس پھپھوندی کا نام اسپرگلس ٹیوبی جینسس ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ زمین میں تلف نہ ہوسکنے والی پلاسٹک کو چند ہفتوں میں توڑ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ دریافت دراصل اس پھپھوندی کی نہیں، بلکہ اس کی پلاسٹک کھانے والی خاصیت کی ہے جو حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔

    مذکورہ پھپھوندی پلاسٹک کے مالیکیولز کو توڑ کر انہیں الگ کردیتی ہے جس کے بعد ان کی تلفی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ عموماً مٹی میں پائی جاتی ہے اور اکثر اوقات پلاسٹک کی اشیا کے اوپر ملتی ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اس پھپھوندی کو پانی میں اور زمین پر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں موجود پلاسٹک کی اشیا کو تلف کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل برطانوی ماہرین نے بھی ایسی سنڈی دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو پلاسٹک کو کھا سکتی تھی۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق سنہ 2014 میں 31 کروڑ ٹن سے بھی زائد پلاسٹک بنایا گیا۔

    پلاسٹک خصوصاً اس سے بنائی گئی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کچرا زمین پر نئی تہہ بچھانے کا سبب

    کچرا زمین پر نئی تہہ بچھانے کا سبب

    دنیا بھر میں کچرے کی وجہ سے آلودگی اور گندگی میں اضافہ اور کچرے کو تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یہ اس قدر خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے کہ ہماری زمین پر کچرے کی نئی تہہ بچھتی جارہی ہے۔

    ارتھ فیوچر نامی جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق ہم انسانوں کا پھینکا ہوا کچرا ایک نئی ارضیاتی تہہ تشکیل دے رہا ہے یعنی زمین پر ایک غیر فطری اور گندگی سے بھرپور تہہ بچھا رہا ہے۔

    یاد رہے کہ ارضیاتی تہہ اس وقت تشکیل پاتی ہے جب کسی زمانے میں کسی بڑی آفت یا معدومی کی صورت وہاں موجود تمام جاندار بشمول جانور اور نباتات ختم ہوجائیں، اور ان کے اجسام پر وقت کے ساتھ مٹی کی تہیں جمتی جائیں تو ہزاروں لاکھوں سال بعد وہ پورا دور زمین پر ایک نئی تہہ کی صورت میں اس کا حصہ بن جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    اس تہہ کی بعد ازاں کھدائی بھی کی جاتی ہے جس میں سے آثار قدیمہ اور مختلف جانداروں کی باقیات برآمد ہوتی ہیں جس سے اس دور کے مطالعے میں مدد ملتی ہے۔

    زیر نظر تصویر سے آپ کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح وقت کے مختلف دور اپنے خاتمے کے بعد ایک ارضیاتی تہہ کی صورت اختیار کر گئے۔ ان ادوار کو ہم مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے ہم انسان اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ سامان تیار کر رہے ہیں جو بالآخر پھینک دیا جاتا ہے اور یوں ہمارے دور کی ارضیاتی تہہ کچرے سے تشکیل پا رہی ہے۔

    ہم جو کچھ بھی خریدتے ہیں ان میں سے 99 فیصد سامان 6 ماہ کے اندر پھینک دیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 2.12 ارب ٹن سامان کچرے کی صورت پھینک دیا جاتا ہے۔

    گویا اب سے ہزاروں سال بعد کا انسان جب ہمارے دور کی باقیات دریافت کرنا چاہے گا تو اسے کچرے کی تہہ کھودنی پڑے گی تب جا کر وہ ہمارے موجودہ دور کے بارے میں جان سکے گا۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کچرا اٹھانے میں غفلت پر سندھ حکومت کو نوٹس جاری

    کچرا اٹھانے میں غفلت پر سندھ حکومت کو نوٹس جاری

    کراچی: سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے خلاف درخواست کی سماعت کی دوران سندھ ہائیکورٹ نے سندھ حکومت اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں دائر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ سندھ کے بڑے شہروں میں صفائی، کچرا اٹھانے کا نظام غیر مؤثر ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ صفائی کی صورتحال سے چکن گونیا جیسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ کچرا اٹھانے و دیگر ذمہ داریاں بلدیاتی اداروں کو منتتقل کی جائیں۔

    مزید پڑھیں: کراچی کی سڑکوں سے کچرا چینی اٹھائیں گے

    سماعت میں میئر کراچی وسیم اختر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے سندھ حکومت اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کر دیے۔ سندھ ہائیکورٹ نے فریقین کو یکم جون تک جواب داخل کروانے کا حکم دیا۔

    سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ پورے سندھ میں اچھے افسران کی کمی ہے۔

    میئر کراچی نے کہا کہ سندھ حکومت مزید پارکنگ کی اجازت روکے۔ بزنس کمیونٹی بھی پارکنگ کی جگہ پر ہی پارکنگ کرے تو ٹریفک کا نظام بہتر ہوگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ہم کچرے سے زمین پر نئی تہہ بچھا رہے ہیں؟

    ہم کچرے سے زمین پر نئی تہہ بچھا رہے ہیں؟

    دنیا بھر میں کچرے کی وجہ سے آلودگی اور گندگی میں اضافہ اور کچرے کو تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یہ اس قدر خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے کہ ہماری زمین پر کچرے کی نئی تہہ بچھتی جارہی ہے۔

    ارتھ فیوچر نامی جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق ہم انسانوں کا پھینکا ہوا کچرا ایک نئی ارضیاتی تہہ تشکیل دے رہا ہے یعنی زمین پر ایک غیر فطری اور گندگی سے بھرپور تہہ بچھا رہا ہے۔

    یاد رہے کہ ارضیاتی تہہ اس وقت تشکیل پاتی ہے جب کسی زمانے میں کسی بڑی آفت یا معدومی کی صورت وہاں موجود تمام جاندار بشمول جانور اور نباتات ختم ہوجائیں، اور ان کے اجسام پر وقت کے ساتھ مٹی کی تہیں جمتی جائیں تو ہزاروں لاکھوں سال بعد وہ پورا دور زمین پر ایک نئی تہہ کی صورت میں اس کا حصہ بن جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    اس تہہ کی بعد ازاں کھدائی بھی کی جاتی ہے جس میں سے آثار قدیمہ اور مختلف جانداروں کی باقیات برآمد ہوتی ہیں جس سے اس دور کے مطالعے میں مدد ملتی ہے۔

    زیر نظر تصویر سے آپ کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح وقت کے مختلف دور اپنے خاتمے کے بعد ایک ارضیاتی تہہ کی صورت اختیار کر گئے۔ ان ادوار کو ہم مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے ہم انسان اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ سامان تیار کر رہے ہیں جو بالآخر پھینک دیا جاتا ہے اور یوں ہمارے دور کی ارضیاتی تہہ کچرے سے تشکیل پا رہی ہے۔

    ہم جو کچھ بھی خریدتے ہیں ان میں سے 99 فیصد سامان 6 ماہ کے اندر پھینک دیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 2.12 ارب ٹن سامان کچرے کی صورت پھینک دیا جاتا ہے۔

    گویا اب سے ہزاروں سال بعد کا انسان جب ہمارے دور کی باقیات دریافت کرنا چاہے گا تو اسے کچرے کی تہہ کھودنی پڑے گی تب جا کر وہ ہمارے موجودہ دور کے بارے میں جان سکے گا۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں