Tag: کچرے

  • لاہور : کچرے میں دبنے والے دو لڑکوں کی لاشیں برآمد

    لاہور : کچرے میں دبنے والے دو لڑکوں کی لاشیں برآمد

    لاہور: کوڑے میں دبنے والے دونوں کمسن لڑکوں کی لاشیں نکال لی گئیں، کچرے سے بوتلیں چننے والے دونوں بچے 7 گھنٹے مسلسل تلاش کے بعد مردہ حالت میں ملے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے ڈیفنس روڈ کی حدود ہدایتہ پھاٹک کے علاقے میں دو بچوں کے کوڑے کے ملبے میں دبنے کے معاملے میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ دونوں بچوں کو 7گھنٹے بعد مردہ حالت میں ملبے سے نکال لیا گیا۔

    ریسکیو حکام کے مطابق جمعہ کی شام 5 بجے دو بچوں کی کوڑے کے ملبے میں دبنے کی اطلاع موصول ہوئی تھی تاہم ریسکیو کی امدادی ٹیموں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے موقع پر پہنچ کر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔

    ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ 7 گھنٹے کی مسلسل جدوجہد کے بعد دونوں بچوں کو مردہ حالت میں تلاش کرکے نکال لیا گیا، بچوں کی لاشوں کو قریبی اسپتال کے مردہ خانے منتقل کردیا گیا ہے۔

    پولیس کے مطابق دونوں بچے کوڑے سے خالی بوتلیں تلاش کر رہے تھے کہ اوپر سے کوڑے کا ملبہ ان پر گر گیا تھا، ملبے سے نکالے گئے دونوں بچوں کی شناخت افضل عمر 16 سال اور عبداللہ عمر 15 سال سے ہوئی ہے۔

  • کچرے کے ڈھیر سے نومولود بچے کی لاش برآمد

    کچرے کے ڈھیر سے نومولود بچے کی لاش برآمد

    آندھرا پردیش: بھارت میں ایک انسانیت سوز واقعہ منظرِ عام پر آیا ہے جس نے ہر درد مند دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت کی ریاست حیدرآباد کے آندھرا پردیش میں مندر کے قریب کوڑے دان میں ایک نوزائیدہ بچہ کی لاش برآمد ہوئی ہے۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ مقامی افراد نے کوڑے دان میں ایک نومولود لڑکے کی لاش کو دیکھا جس کے بعد فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی گئی۔

    یہ بھی پڑھیں: کراچی میں اسپتالوں سے نومولود بچے چرا کر بیچنے والے میاں بیوی گرفتار

    پولیس حکام فوراً موقعِ پر پہنچ کر بچے کی لاش کو کنگ جارج اسپتال منتقل کیا تاہم جسے مردہ قراد دیا گیا، عینی شاہدین اور مقامی عوام نے اس دردناک واقعہ پر شدید افسوس اور برہمی کا اظہار کیا۔

    مقامی لوگوں کو کہنا ہے کہ کون سی ماں اتنی بے رحم ہو سکتی ہے کہ اپنی گود کے پھول کو یوں کوڑے میں پھینک دے؟ یہ واقعہ سماجی بے حسی کی بدترین مثال ہے۔

    پولیس نے اس غیر انسانی حرکت پر مقدمہ درج کر لیا ہے اور واقعہ کی ہر زاویے سے تفتیش شروع کر دی ہے، قریبی سی سی ٹی وی کیمروں کا معائنہ کیا جا رہا ہے اور اطراف کے اسپتالوں میں بھی تحقیقات جاری ہیں تاکہ نومولود کی ماں یا اسے چھوڑنے والے افراد کا سراغ لگایا جا سکے۔

  • شہر کو کچرے سے پاک کرنا ہے اپنا کچرا خود اٹھانا ہے

    شہر کو کچرے سے پاک کرنا ہے اپنا کچرا خود اٹھانا ہے

    ٹوکیو : شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 ءتک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے جہاں لوگ اپنا کچرا خود اٹھاکر ری سائیکلنگ فیکڑی تک لے جاتے ہیں۔

    ویسے تو میونسپل حکام شہریوں کو کچرا باہر گلی یا سڑک پر نہ پھینکنے اور اس کے لیے مخصوص کوڑا دان میں پھینکے کی ہدایت کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے ایک شہر میں شہریوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھا کر اسے قابل استعمال بنانے کی فیکٹری (ری سائیکلنگ) تک لے کر جانا پڑتا ہے بلکہ اس سے پہلے کچرے اور کوڑا کرکٹ کو چھان کر 45 مختلف کٹیگریز میں تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے۔

    جاپان کے شہر کامی کاتسو کے رہائشیوں کے لیے کچرے کو ٹھکانے لگانا اتنا آسان نہیں جتنا دنیا کے دوسرے حصوں میں ہے کہ آپ نے گھر سے کچرا اٹھا کر باہر میونسپل کمیٹی کی جانب سے رکھے گئے کچرا دان میں پھینک دیا۔

    میڈیا کا کہنا تھا کہ کامی کاتسو میں نہ کچرا اٹھانے کے لیے کچرا دان رکھے گئے ہیں اور نہ میونسپل اتھارٹی کچرا اٹھاتی ہے۔ شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 ءتک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

    شہر کے باسیوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھانا پڑتا ہے بلکہ کچرے کو قابل استعمال بنانے کی فیکٹری تک لے جانے سے پہلے ہر قسم کا کوڑا کرکٹ الگ کرنا پڑتا ہے،جس کی 45 کیٹگریز بنائی گئی ہیں جس میں تکیے سے لے کر ٹوتھ برش تک شامل ہیں۔

    مقامی فرد کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’جی ہاں، کچرے کو الگ کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن ایک سال پہلے جب میں یہاں منتقل ہوا تب سے میں ماحولیات کے حوالے سے حساس ہو گیا ہوں۔

    میونسپل حکام کا کہنا ہے کہ اگلے سال تک شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو مکمل طور پر ری سائیکل کیا جائے گا اور کوئی بھی چیز کچرا جلانے کی مشین کو نہیں بھیجی جائے گی۔

    حکام کا کہناتھا کہ یہ پورا عمل بہت ہی محنت طلب ہے کیونکہ نہ صرف کچرے کو چار درجن کٹیگریز میں الگ کرنا پڑتا ہے بلکہ پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلوں کو دھو کر خشک کرکے ری سائیکلنگ فیکٹری پہنچانا پڑتا ہے تاکہ ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی ہو۔

    جاپان کے بہت سے علاقوں میں کچرے کو الگ کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں چند ایک کٹگریز ہیں اور زیادہ کچرا انسنریٹر نامی مشین میں جلانے کے لیے جاتا ہے سنہ 2010 تک کامی کاتسو بھی جاپان کے دوسرے علاقوں سے کوئی مختلف نہیں تھا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق 2010 میں شہر کے دو میں سے ایک انسنریٹر کو بند کرنے کا حکم جاری ہوا کیونکہ یہ دھوئیں کے اخراج کے حوالے سے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔

    ایک انسنریٹر کے بند ہونے کے بعد شہر میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صرف ایک انسنریٹر رہ گیا جو شہر کے تمام کچرے کوجلانے کے لیے ناکافی تھا اور شہر کے میونسپل حکام کے پاس نیا خریدنے یا قریبی ٹاؤن کے انسنریٹر کو کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے دینے کے پیسے نہیں تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کامی کاتسو کچرے کو ری سائیکل کرنے کے ہدف کے قریب ہے اور 2017 میں 80 فیصد کچرے کو قابل استعمال بنایا گیا۔