Tag: کچھوا

  • امریکا میں عجیب الخلقت کچھوے کی پیدائش

    امریکا میں عجیب الخلقت کچھوے کی پیدائش

    میساچوسٹس: امریکا میں ایسے عجیب الخلقت کچھوے کی پیدائش ہوئی ہے، جس کے دو سر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست میساچوسٹس میں دو ہفتے قبل دو سروں والا کچھوا پیدا ہوا ہے، یہ کچھوا ایک وقت میں ایک ہی سر پانی سے باہر نکالتا ہے، جب کہ دوسرا سر پانی ہی میں ہوتا ہے، ماہرین اس کچھوے پر تحقیقات کر رہے ہیں۔

    برڈزی کیپ وائلڈ لائف سینٹر میں موجود یہ کچھوا اپنی نوعیت کی کمیاب نسل سے تعلق رکھتا ہے، جنگلی حیات کے مرکز میں اس کچھوے کو خوراک میں سرخ کیڑے اور خاص قسم کی خوراک والی گولیاں (فوڈ پیلٹس) دی جا رہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے دونوں سر الگ الگ کام کرتے ہیں، کیوں کہ یہ کچھوا ہوا کے لیے ایک وقت میں ایک ہی سر پانی سے اوپر نکالتا ہے۔

    صرف یہی نہیں، کچھوے کے خول کے اندر معدے کے دو نظام ہیں، جو اس کے جسم کے دونوں حصوں کو خوراک پہنچاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ایک نہیں بلکہ دو جڑواں کچھوے ہیں، یہ ایک نایاب صورت حال ہے، جو جنین کی نشوونما کے دوران جینیاتی یا ماحولیاتی دونوں عوامل کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔

    انسانوں میں جڑواں بچوں کی طرح ، یہ کچھوے بھی اپنے جسم کے کچھ حصوں میں ایک دوسرے کے شریک ہیں لیکن کچھ حصے ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے سے الگ اور آزاد ہیں۔

    ان جڑواں بے بی ٹرٹلز کے 2 سر اور 6 ٹانگیں ہیں (کچھوے کی 4 ٹانگیں ہوتی ہیں)، ایکس رے اور ٹیسٹوں سے پتا چلتا ہے کہ ان میں 2 ریڑھ کی ہڈیاں ہیں، جو جسم میں نیچے جا کر آپس میں مل جاتی ہیں، اور معدے کے راستوں کو الگ کرتی ہیں۔

    اچھی طرح سے جانچ کے بعد کیپ وائلڈ لائف سینٹر کی ویٹرنری ٹیم نے دونوں کچھووں کو بہت چوکس اور متحرک پایا، ٹیم اس کچھوے کا سی ٹی اسکین کر کے مزید معلومات حاصل کرے گی۔

    اس کچھوے کا تعلق میساچوسٹس میں سمندر کے قریب واقع گاؤں ویسٹ بارن سٹیبل سے ہے، محققین کا کہنا ہے کہ وہ مقام کچھوے کے لیے خطرناک تھا اسی لیے اس کو وہاں سے منتقل کیا گیا۔

    سینٹر میں موجود جانوروں کی ڈاکٹر پریا پٹیل اور دیگر عملہ اس کچھوے کا معائنہ کر رہا ہے، انھوں نے اس کے دو نام رکھے ہیں، ایک میری کیٹ اور دوسرا نام ایشلی اولسن ہے، جو کہ دو مشہور جڑواں فیشن ڈیزائنر اور سابقہ اداکار بہنوں کے نام ہیں۔

  • گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، زمین پر موجود تمام جانداروں کو متاثر کر رہا ہے، بعض جاندار اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں کہ ان کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، کچھوا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    ماحولیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت مادہ کچھوؤں کی پیدائش میں اضافے کا سبب بن رہا ہے جس سے ان کی نسل میں جنسی عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھوے کی نسل معدوم ہوسکتی ہے۔

    کچھوے کی بقا کی جنگ

    دنیا بھر میں کچھوے کی 7 نمایاں اقسام موجود ہیں جن میں سے 5 پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں، پاکستان حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے نہایت زرخیز سمجھا جاتا ہے اور 5 اقسام کے کچھوؤں کی موجودگی اس کی بہترین مثال ہے۔

    تاہم پاکستان میں کچھوے کی نسل کو مختلف خطرات لاحق رہے جس کے باعث ان کی آبادی میں کمی دیکھی گئی، اس وقت پاکستان میں کئی ادارے کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کوششوں سے کچھوے کی نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

    یہ جاننا آپ کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 70 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھوے کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں جو نہ صرف افزائش نسل کے لیے مادہ کچھوے کو پیش آتی ہیں بلکہ ننھے کچھوے جب سمندر تک پہنچتے ہیں تب بھی انہیں بے حد خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے، بعد ازاں وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔ وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    دوسری صورت میں مادہ جب انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے تو ساحلوں پر پھینکے کچرے کے باعث وہاں موجود کتے گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    جو انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    اگر پاکستانی ساحلوں کی بات کی جائے تو ساحلوں پر تفریح کے لیے آئے افراد ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوے کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سمندر تک پہنچ جانے والے کچھوؤں کی زندگی بھی آسان نہیں ہوتی، ماہی گیروں اور ماحولیاتی اداروں کی جانب سے کئی ایسے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں کم یا درمیانی عمر کے کچھوے سمندر میں شارک کا شکار بن گئے۔

    یہ تمام عوامل وہ ہیں جن کی وجہ سے کچھوے کے سروائیول کی شرح بے حد کم ہوجاتی ہے۔

    موسم سے جنس کا تعین

    سنہ 2018 میں امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین نے کچھ جانوروں کے ایک جین KDM6B میں اس سرگرمی پر تحقیق کی جس کی وجہ سے بعض جانوروں کی جنس کا تعلق موسم سے ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گرم موسم میں اس جین میں ہونے والی سرگرمی یہ طے کرتی ہے کہ انڈے سے نکلنے والے جانور کی جنس مادہ ہوگی۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ موسم سے جنس کے تعین کا عمل کچھوے کے علاوہ بھی کچھ ریپٹائلز میں ہوتا ہے جیسے کہ مگر مچھ اور چھپکلی کی ایک قسم بیئرڈڈ ڈریگن۔

    سنہ 2018 میں ہی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے اسی حوالے سے ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں انکشاف ہوا کہ گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کے شمالی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد جبکہ جنوبی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 69 فیصد مادہ ہیں۔

    اس بارے میں تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کہتے ہیں کہ درجہ حرارت نارمل ہوگا تو انڈے سے نکلنے والے نر یا مادہ کا امکان یکساں ہوگا، درجہ حرات کم ہوگا تو نر کی پیدائش ہوگی جبکہ گرم موسم سے مادہ کی پیدائش میں اضافہ ہوگا۔

    معظم خان کے مطابق اب تک اس حوالے سے جامع تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا کچھوے کی جنس میں عدم توازن پیدا ہوچکا ہے یا اس کی شرح کیا ہے تاہم کچھوے کی افزائش کے اس قدرتی پہلو کے باعث یہ طے ہے کہ بہت جلد یہ بگاڑ سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ نر کچھوؤں کی تعداد کم ہوجائے اور مادہ کی زیادہ، جس سے افزائش کا عمل بھی متاثر ہوگا، کچھووؤں کی آبادی کم ہوتی جائے گی یوں ان کی نسل معدومی کی طرف بڑھتی جائے گی۔

    ایکو سسٹم پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

    سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حمید خان کہتے ہیں کہ کچھوؤں کو آبی خاکروب کہا جاتا ہے، کچھوے سمندر اور آبی ذخائر کو صاف رکھنے میں مدد دیتے ہیں جس سے آبی حیات پھلتی پھولتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق کچھوے کی نسل میں اس عدم توازن کے اثرات 10 سے 15 سال بعد سامنے آنا شروع ہوسکتے ہیں، کچھوؤں کی آبادی میں کمی یا ان کی معدومی سمندروں کی آلودگی میں اضافہ کرسکتی ہے جس سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانداروں اور پودوں کو نقصان ہوگا، اور یہ انسانوں کے فوڈ چین کو بھی متاثر کرے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ سمندری گھاس کچھوؤں کی خوراک ہے، کچھوؤں کے کھانے کی وجہ سے یہ گھاس متوازن مقدار میں سمندر میں موجود ہوتی ہے، اگر اس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے سمندر کا ایکو سسٹم بھی متاثر ہوگا۔

    کیا اس صورتحال کو روکا جا سکتا ہے؟

    سنہ 2018 میں نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن کی تحقیق میں جب گریٹ بیریئر ریف میں مادہ کچھوؤں کی آبادی 99 فیصد ہونے کا انکشاف ہوا، اس وقت ماہرین نے تجویز کیا تھا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ریت پر سایہ دار جگہیں فراہم کرنا یا مصنوعی بارشیں برسانا بہتر رہیں گی جس سے ریت کا درجہ حرارت کم ہو۔

    تاہم کیا پاکستان کے ساحلوں پر بھی ایسا ممکن ہے؟

    اس بارے میں معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی 800 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے اور اس پوری پٹی پر ایسے اقدامات کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے، تاہم چھوٹے پیمانے پر کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ریت میں موجود پلاسٹک کے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) ریت کا درجہ حرارت بڑھا دیتے ہیں، چنانچہ ساحلوں سے پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔

    معظم خان کے مطابق کچھوؤں کی نسل کو لاحق دیگر خطرات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ماحول کے لیے بے حد اہم اس جاندار کا تحفظ کیا جاسکے۔

  • جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے

    جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے

    مہاراشٹر: بھارت میں جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی عجیب و غریب چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے، مجبوراً لڑکی والوں نے پولیس کے پاس شکایت درج کرا دی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد میں دو خاندانوں کے درمیان ایک طے شدہ شادی کا معاملہ اس بات پر خراب ہو گیا، کہ لڑکے والوں کی جانب سے اچانک عجیب و غریب چیزوں کی فرمائش ہونے لگی۔

    لڑکے کے والدین نے مطالبہ کیا کہ لڑکی والے جہیز کے طور پر 21 ناخنوں والا کچھوا اور مخصوص نسل کا سیاہ کتا بھی دیں۔

    خیال رہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کا رشتہ اچھے خاندان میں طے ہو، اسی بات کے پیش نظر اورنگ آباد کے ایک کاروباری نے اپنی بیٹی کا رشتہ ناسک کے ایک ریٹائرڈ فوجی کے بیٹے سے طے کیا، اور 2 لاکھ روپے جہیز کی رقم اور ایک بُلیٹ موٹر سائیکل پر باہمی رضامندی ہوگئی۔

    تاہم لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے والوں کی مانگ بڑھتی گئی، جس میں رقم کے علاوہ عجیب وغریب مطالبات شامل تھے، لڑکی کے والد کے دعوے کے مطابق لڑکے والوں نے جہیز میں 21 ناخنوں والا کچھوا اور مخصوص نسل کا کالا کتا بھی مانگ لیا۔

    عجیب و غریب مطالبات سے پریشان ہو کر لڑکی والے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے، اور انھوں نے عثمان پورہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرا دی، جس پر پولیس یہ تفتیش کر رہی ہے کہ ملزمان نے عجیب وغریب مطالبہ کیوں کیا؟ کہیں جادو ٹونا اس کی وجہ تو نہیں، یا پھر رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی والوں کی طرف سے بے بنیاد الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

  • کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کسی بھی انسان کی زندگی میں تیز رفتاری، اور عقلمندی دو ایسے عوامل ہیں جو اس کی بقا کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ جب زندگی اور موت کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اس سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

    ایسا ہی کچھ احوال جانوروں کا بھی ہے جو اپنی محدود صلاحیت و عقل میں اپنی بقا کی راہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جانور انسانوں کی طرح اشرف المخلوقات نہیں لہٰذا قدرت نے انہیں فطری طور پر ایسے اعضا و صلاحیتیں دی ہوئی ہیں جو انہیں مشکل حالات سے بچا سکتی ہیں۔

    ایسا ہی ایک منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک شیر نے اپنے سے کمزور کچھوے کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کی۔ اپنی سست رفتاری کے لیے مشہور کچھوا بھاگ کر یا چھپ کر اپنی جان کیا بچاتا، ایسے میں خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ اس کے کام آگیا۔

    کچھوے نے اپنی ڈھال یعنی سخت خول میں پناہ لے لی۔ شیر نے بہت کوشش کی کہ خول کے اندر سے کچھوے کا منہ پکڑ کر باہر نکالے لیکن سخت خول اس کی راہ کی رکاوٹ بنا رہا۔

    تھک ہار کر شیر نے کچھوے کو، جو اس کے لیے اب ایک پتھر جیسا تھا، پھینکا اور دوسرے شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ کچھوے نے کچھ دیر بعد خول سے اپنا منہ اور بازو نکالا اور پھر سے اپنی منزل کی جانب رینگنے لگا۔

  • 90 سالہ کچھوے سے ملیں

    90 سالہ کچھوے سے ملیں

    اپنی سست روی کے لیے مشہور کچھوا اپنی طویل العمری کی وجہ سے بھی مشہور ہے، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک طویل عمر پانے والے کچھوے سے ملوا رہے ہیں جس کی عمر 90 سال ہے۔

    امریکی ریاست ٹیکساس کے سان مارکوس دریا میں فلمبند کیا گیا یہ کچھوا پہلی نظر میں کوئی عجیب الخلقت سا جانور معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ اس کے جسم پر اگ آنے والی کائی ہے۔

    اسی کائی کی بنیاد پر لگائے گئے ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کچھوے کی عمر لگ بھگ 90 سال ہے۔ کچھوے کو ایک طالبہ نے فلمبند کیا جو اپنے یونیورسٹی اسائنمنٹ کے سلسلے میں وہاں موجود تھی۔

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    کچھوا دنیا کے تمام براعظموں پر پایا جاتا ہے سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    دراصل کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

  • ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    کیا آپ جانتے ہیں مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے تاہم ان انڈوں میں سے نکلنے والا صرف ایک بچہ ہی زندہ رہ پاتا ہے اور طویل عمر پاتا ہے؟

    ان ننھے بچوں کو انڈوں سے نکلنے کے بعد اپنی بقا کی جدوجہد خود ہی کرنی ہوتی ہے جس میں اکثر یہ اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    مادہ کچھوا ساحل پر ایک گڑھے میں انڈے دینے کے بعد اس گڑھے کو ڈھانپ کر چلی جاتی ہے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آتی، وقت پورا کرنے کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں، اب ان بچوں کو سمندر تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہ ان کے لیے خطرناک چیلنج ہوتا ہے۔

    سمندر تک پہنچنے کے راستے میں ساحل پر موجود مختلف جانور اور پرندے ان بچوں کی تاک میں ہوتے ہیں۔ ساحل پر پھرتے آوارہ کتے اور کوے باآسانی ان ننھے بچوں کو پکڑ لیتے ہیں اور انہیں کھا جاتے ہیں۔

    اسی طرح ساحل پر موجود کیکڑے بھی گو کہ جسامت میں ننھے کچھوؤں سے چھوٹے ہی ہوتے ہیں تاہم یہ نومولود بچوں کے مقابلے میں طاقتور ہوتے ہیں اور آرام سے انہیں کھینچ کر اپنے بل میں لے جاسکتے ہیں۔

    ننھے کچھوے ان کیکڑوں سے جان چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کھینچا تانی میں کبھی وہ ناکام ہوجاتے ہیں اور کبھی کامیاب۔

    ایسے موقع پر اگر ساحل پر کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    سمندر تک پہنچنے کے بعد بھی کم گہرے پانی میں کوئی چیل غوطہ لگا کر انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر لے جاتی ہے۔ اپنے انڈے سے نکلنے کے بعد جب یہ کچھوے سمندر تک پہنچتے ہیں تو ان کی تعداد بہ مشکل ایک یا دو ہوتی ہے۔

    ننھے کچھوؤں کی اس ساری جدوجہد کو آپ بی بی سی کی اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق خطرات کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں

  • کچھوؤں کا عالمی دن

    کچھوؤں کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں کچھوے کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے کچھوے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اس کی اوسط عمر بھی بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    کچھوا دنیا کے تمام براعظموں پر پایا جاتا ہے سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

  • راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    اپنے گھر جاتے ہوئے راستہ بھول جانا نہایت پریشان کن ہوسکتا ہے، خصوصاً اگر کوئی راستہ بھول کر صحرا میں نکل پڑے تو نہایت خوفناک صورتحال ہوسکتی ہے جہاں نہ کھانے کو کچھ ملے گا اور نہ پانی۔

    ایسا ہی کچھ ایک کچھوے کے ساتھ بھی ہوا جو اپنے گھر کا راستہ بھول کر صحرا میں آگیا۔

    صحرا میں 80 ڈگر سینٹی گریڈ درجہ حرارت نے اس کچھوے کو پیاس سے نڈھال کردیا، لیکن اس کچھوے کی خوش قسمتی کہ یہ بارشوں کا موسم تھا۔ بادل آئے اور تھوڑی ہی دیر میں صحرا میں جل تھل ایک ہوگیا۔

    برازیل کے اس صحرا میں بارش کے بعد پانی کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جو خلا سے بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ ذخائر اس کچھوے کے لیے زندگی کی امید ثابت ہوئے۔

    کچھوے نے اس جوہڑ میں چھلانگ لگائی اور ٹھنڈے پانی کا لطف اٹھانے لگا۔

  • چین میں نایاب نسل کے آخری مادہ کچھوے کی پراسرار موت

    چین میں نایاب نسل کے آخری مادہ کچھوے کی پراسرار موت

    بیجنگ: چین اور ویتنام میں پایا جانے والا یانگتسی نسل کا کچھوا 90 سال کی عمر میں چڑیا گھر میں ہلاک ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق چینی صوبے جیانگسو کے شہر سوڑوو کے چڑیا گھر کے عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ نایاب نسل کا مادہ کچھوا دو دن قبل مردہ حالت میں پایا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق مادہ کچھوے کی ہلاکت سائنسدانوں کی جانب سے اس کی نسل کی مصنوعی افزائش کے تجربے کے ایک دن بعد ہوئی۔

    رپورٹ میں چینی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سائنسدانوں نے مرنے والے مادہ کچھوے کے ذریعے ان کے تخم کی مصنوعی افزائش کی پہلے بھی کوششیں کیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے مادہ کچھوے کی بیضہ دانی سے حاصل کیے گئے نمونوں کو اسی نسل کے نر کچھوے کے نمونوں سے ملاکر مصنوعی افزائش نسل کے تجربات بھی کیے۔

    کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    یانگتسی نسل کے کچھوے کی نسل معدوم ہونے کے قریب ہے اور دنیا میں اس قسم کے صرف 4 کچھوے ہی موجود تھے، جن میں سے ایک مادہ مر گئی ہے۔

    چینی اور غیر ملکی ماہرین کچھوے کی موت کی وجہ بننے والے عوامل جاننے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ اس نسل کے نرم خول والے بڑے کچھوے صرف چین میں ہی پائے جاتے ہیں اور ان کا مسکن یانگسی دریا اور تاہوجھیل ہے۔

  • زمین پر موجود معمر ترین جانور سے ملیں

    زمین پر موجود معمر ترین جانور سے ملیں

    ہماری زمین پر پائے جانے والے کئی جانور اپنی طویل العمری کے لیے مشہور ہیں، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک جاندار سے ملانے جارہے ہیں جسے زمین کا معمر ترین جانور قرار دیا جاتا ہے۔

    ساؤتھ انٹلانٹک میں موجود یہ جانور ایک کچھوا ہے جس کا نام جوناتھن اور عمر 187 سال ہے۔ یہ کچھوا سنہ 1832 میں پیدا ہوا۔

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    اس سے قبل تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے جزیرے ٹونگا میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔ اب جوناتھن اس ریکارڈ کو توڑنے والا ہے، تاہم اس وقت بھی وہ زمین کا سب سے معمر جانور ہے۔

    سینٹ ہیلینا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں موجود یہ کچھوا وہاں خاصا مشہور ہے، لوگ اس سے ملنے آتے ہیں اور اس کے لیے تازہ سبزیاں لاتے ہیں۔ اس کی تصویر قصبے کی مقامی کرنسی میں 5 پینس کے سکے پر بھی موجود ہے۔

    کچھ عرصے قبل جوناتھن بیمار ہوگیا تھا اور اس کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی جس کے بعد اس کا علاج کیا گیا اور خصوصی سپلیمنٹس دیے گئے۔ اس کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ اب جوناتھن بالکل صحت مند اور فٹ ہے اور پرسکون زندگی گزار رہا ہے۔