دوستی اور محبت دو ایسے رشتے ہیں جو رنگ و نسل، ذات پات اور جنس ہر شے کو بھلا کر ہر طرح کے افراد میں قائم ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں جانور انسانوں سے بھی آگے ہیں جو اپنے فطری دشمنوں کے علاوہ بقیہ جانوروں سے اس قسم کی دوستی قائم کرسکتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جائے۔
ایسی ہی ایک انوکھی دوستی نے لوگوں کو دنگ کر رکھا ہے جو ایک کچھوے اور بلی کی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ کی جانے والی یہ تصویر تیزی سے وائرل ہورہی ہے جس میں ایک کچھوا اور بلی ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
تصویر پوسٹ کرنے والے صارف کے مطابق یہ دونوں جانور اس کے پالتو ہیں اور ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اسی وجہ سے ان کے بیچ دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا ہے۔
ٹویٹر پر وائرل ہونے کے بعد کئی افراد نے دیگر تصاویر بھی شیئر کیں جن میں دو مختلف جانوروں کی انوکھی دوستی کو دکھایا گیا۔
my dog hates my bunny but my bunny loves my dog they have a strange relationship pic.twitter.com/6pUpgJRhcH
کھلونوں کی مشہور بین الاقوامی کمپنی لیگو ایک معذور کچھوے کو سہارا دینے کا سبب بن گئی۔
18 سال کا یہ کچھوا سڑک کنارے اس حالت میں پایا گیا کی اس کا سخت خول ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے یہ ٹھیک سے چل نہیں پارہا تھا۔
گو کہ کچھوؤں کا خول بہت سخت ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں اگر یہ کسی کشتی سے ٹکرا جائیں تو ان کا خول باآسانی ٹوٹ جاتا ہے۔
خول چونکہ کچھوے کے پورے جسم کو حفاظت فراہم کرتا ہے لہٰذا خول ٹوٹنے سے کچھوے کے جسم کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں اور شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
سڑک کنارے پائے جانے والے اس زخمی کچھوے کو ویٹرنری کلینک لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے دیکھا کہ کچھوے کا خول کسی شدید تصادم کی وجہ سے 7 مقامات سے ٹوٹا ہوا تھا۔
ڈاکٹرز نے ابتدائی امداد فراہم کرنے کے بعد کچھوے کے لیے ایک وہیل چیئر بنا دی جس کے لیے لیگو بلاکس کو کام میں لایا گیا۔
ہلکی پھلکی سی یہ وہیل چیئر کچھوے کو توازن اور سہارا فراہم کر رہی ہے اور اس کے باعث کچھوا پھر سے رینگنے کے قابل ہوگیا ہے۔
دنیا کے سب سے قوی الجثہ کچھوے نے سمندر سے نمودار ہو کر ہلچل مچا دی، لوگ اس کی جسامت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔
وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر نمودار ہونے والا یہ کچھوا لیدر بیک نامی قسم سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھوے کی یہ قسم عام کچھوؤں سے جسامت میں بڑی ہوتی ہے تاہم مذکورہ کچھوے کی جسامت حیرت انگیز تھی۔
یہ مادہ کچھوا انڈے دینے کے موسم میں ساحل پر انڈے دینے آئی تھی اور گڑھا کھود کر انڈے دینے کے بعد واپس جا رہی تھی۔
اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے ساحل پر رینگتی ہوئی یہ پانی کی طرف گئی اور کبھی نہ آنے کے لیے غائب ہوگئی۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔
مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔
اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔
اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔
وہیل کی ایک قسم اورکا سمندر میں اپنے بچے کو کچھوے کا شکار کرنا سکھا رہی ہے جس کی ویڈیو نے جنگلی حیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب راغب کرلیا۔
نیشنل جیوگرافک کی جانب سے جاری کی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اورکا اپنے شکار یعنی کچھوے کے پیچھے جارہی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ وہیل اپنے ننھے بچوں کو کچھوؤں کا شکار کرنا سکھا رہی ہے۔
یہ ویڈیو فرانس سے تعلق رکھنے والے میرین سائنس کے 2 طلبا نے بنائی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہیل تقریباً آدھے گھنٹے تک کچھوے کو گول گول گھماتی رہی اور بعد ازاں اسے ہڑپ کرلیا۔
اس طرح سے وہ اپنے بچوں کو زندگی بچانے کی تکنیک بھی سکھا رہی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کو مختلف عادات سکھانے کی تربیت چند ہی جانور دیتے ہیں اور وہیل ان میں سے ایک ہے۔
اورکا بہت کم کچھوؤں کا شکار کرتی ہے تاہم اس کے جبڑے کچھوؤں کی پشت کا مضبوط خول توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
شمالی امریکی ملک میکسیکو کے ساحل پر نہایت نایاب نسل کے 300 کچھوے مردہ حالت میں پائے گئے۔ کچھوے مچھلیاں پکڑنے والے جال میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔
یہ کچھوے جنوبی ریاست اوزاکا کے ساحل پر پائے گئے جہاں سب سے پہلے ایک مچھیرے نے ان کو دیکھا۔
یہ کچھوے اولیو ریڈلے نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ نسل معدومی کے دہانے پر موجود ہے۔ مئی سے ستمبر کے دوران بحر اوقیانوس سے بے شمار کچھوے انڈے دینے کے لیے میکسیکو کے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔
میکسیکو کی وفاقی ماحولیاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کی موت کا سبب بنے والے جال سے مقامی مچھیروں نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے کہ یہ ان میں سے کسی نے نہیں پھینکا۔
ایجنسی کے مطابق یہ کسی بحری جہاز سے پھینکا گیا جال تھا۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے کچھوے کی 7 میں سے 6 اقسام میکسیکو میں پائی جاتی ہیں۔ ان کچھوؤں کی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی ہے اور انہیں نقصان پہنچانے پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
ماحولیاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی بھی تحقیقات کریں گے۔
سائنس دانوں نے کچھوے کے انڈوں میں درجہ حرارت کے مطابق جنس کی تشکیل کرنے والا جین دریافت کرلیا۔
کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔
معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔
تاہم اب ماہرین نے اس جین کو دریافت کرلیا ہے جو اس تمام عمل کا ذمہ دار ہے۔ چین اور امریکا کے ماہرین پر مشتمل اس تحقیقی ٹیم نے اس جین کو ’کے ڈی ایم 6 بی‘ کا نام دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ جین اسی وقت فعال ہوتا ہے جب موسم گرم ہوتا ہے جس کے بعد انڈے سے نکلنے والا کچھوا مادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کا موسم تیزی سے گرم ہو رہا ہے، کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے کے موسم کے دوران بھی درجہ حرارت معمول سے زیادہ دیکھا جارہا ہے جس سے مادہ کچھوؤں کی پیدائش میں بھی اضافہ ہورہا ہے، یہ عمل کچھوؤں کی نسل کے توازن بگڑنے اور ان کے معدوم ہوجانے کا باعث بن سکتا ہے۔
گرم موسم کی وجہ سے صرف ریت پر ہی نہیں بلکہ پانی کے اندر پیدا ہونے والے کچھوے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کے قریب پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد مادہ تھے۔
تحقیق میں دیکھا گیا کہ مذکورہ حصے میں سمندر کا پانی پہلے کی نسبت گرم تھا اور یہی مادہ کچھوؤں کی پیدائش کا سبب بنا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کی پیدائش میں اگر جنس کا یہی توازن برقرار رہا تو بہت جلد ہم ان کچھوؤں کو معدوم ہوتا دیکھیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ مصنوعی طریقوں سے ریت کے ان حصوں کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ان انڈوں سے بچے نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر چھاؤں فراہم کرنا، یا ریت کے اس حصے میں مصنوعی بارش برسانا۔
یاد رہے کہ اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا جاندار کچھوا آہستہ آستہ معدومی کی طرفبڑھ رہا ہے۔
گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی نسل کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کیا آپ جانتے ہیں رنگ برنگی تتلیاں کچھوؤں کے آنسو پیتی ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔
جانوروں اور انسانوں کے خون میں سوڈیم موجود ہوتا ہے جو خون اور جسم کے پانی کی مقدار میں توازن رکھتا ہے۔ گوشت خور جاندار گوشت سے سوڈیم حاصل کرلیتے ہیں۔
تاہم وہ جاندار جو گوشت نہیں کھاتے انہیں سوڈیم کے حصول کے لیے دیگر ذرائع تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ تتلیاں بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
نمک کی آمیزش والا سوڈیم جانوروں اور انسانوں کے آنسوؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایسے میں کچھوے اپنی سستی کی وجہ سے تتلیوں کے لیے نہایت مددگار ثابت ہوتے ہیں اور تتلیاں باآسانی ان پر بیٹھ کر ان کے آنسو پی جاتی ہیں۔
تتلی کے پر بے حد نازک ہوتے ہیں چنانچہ آنسو پینے کا عمل کچھوؤں کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں دیتا اور یوں تتلی باآسانی اپنی اہم غذائی ضرورت کو پورا کرلیتی ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
سڈنی: آسٹریلیا میں واقع دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے، کا گرم پانی مادہ کچھوؤں کی پیدائش کا سبب بن رہا ہے جس سے کچھوؤں کی نسل کے توازن بگڑنے اور ان کے معدوم ہوجانے کا خدشہ ہے۔
حال ہی میں نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ان مونگے کی چٹانوں کے قریب ساحل پر شمالی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد جبکہ جنوبی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 69 فیصد مادہ ہیں۔
خیال رہے کہ کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔
اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔
یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔
ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جنس کا یہی توازن برقرار رہا تو بہت جلد ہم ان کچھوؤں کو معدوم ہوتا دیکھیں گے۔
ماہرین کے کہنا ہے کہ وہ مصنوعی طریقوں سے ریت کے ان حصوں کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ان انڈوں سے بچے نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر چھاؤں فراہم کرنا، یا ریت کے اس حصے میں مصنوعی بارش برسانا۔
یاد رہے کہ اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا جاندار کچھوا آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی نسل کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔
معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر
وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔
اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔
کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟
کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔
کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔
سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔
کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔
دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔
مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔
اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔
اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔
اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔
لیکن خطرہ کیا ہے؟
تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔
مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔
وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔
کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔
جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔
مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے
اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔
ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔
پلاسٹک خطرہ جان
صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔
کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔
گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ کا رہائشی ایک جوڑا تعطیلات پر جانے سے قبل اپنے پالتو کچھوے کے خول میں ڈرل کر کے اسے تار سے باندھ کر چلا گیا۔
مذکورہ جوڑے کے جانے کے کئی دن بعد ان کے پڑوس میں رہائشی ایک اور جوڑے نے اس کچھوے کو اس حالت میں پایا کہ وہ سایہ دار جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ اس کے قریب پانی بھی نہیں تھا۔
یہ ادھیڑ عمر جوڑا اس کچھوے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور انہوں نے فائر بریگیڈ کو طلب کیا۔ 48 سالہ خاتون کا کہنا تھا، ’مانا کہ کچھوے کے خول میں سوراخ کرنا اسے تکلیف نہیں دیتا، تاہم اسے اس طرح بے یار و مدد گار چھوڑ جانا نہایت ہی غلط حرکت ہے‘۔
ذرائع کے مطابق کچھوے کو قید کر جانے والے جوڑے پر تعطیلات سے واپس آنے کے بعد جانوروں پر ظلم کا مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔