Tag: کچھوا

  • گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    کچھوا معدومی کے خطرے کا شکار جانور ہے جن کی نسل میں اضافے کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک میں کام کیا جارہا ہے۔

    کچھوے کے ننھے بچے نہایت کمزور جانور سمجھے جاتے ہیں جو حملہ آور کتے بلیوں اور انسانی شکاریوں کا آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں علاوہ ازیں مچھلی کے شکار کے کانٹے اور ساحلوں پر پھینکا جانے والا پلاسٹک بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تاہم موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج ان کے سامنے ایک اور خوفناک خطرے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔

    امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر آبی حیاتیات کرسٹین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرات دن کے اوقات میں ریت کو نہایت گرم کر دیتا ہے، اور یہ گرم ریت کچھوے کی مخصوص جگہوں پر اس کے انڈوں، یا ننھے بچوں کو جلا کر بھسم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    ان کے مطابق گرم درجہ حرارت کے باعث دن کے اوقات میں ریت اس قدر گرم ہوجاتی ہے کہ اس میں بنائے گئے کچھوے کے گھروں میں کسی زندگی کے پنپنے کا امکان نہیں ہوسکتا۔

    کچھوے ریت کو کھود کر گڑھے کی صورت گھر بناتے ہیں جہاں مادہ کچھوا انڈے دیتی ہے

    ریت کے ان گھروں میں دیے گئے انڈے یا انڈوں سے نکلنے والے ننھے بچے اس گرمی کو برادشت نہیں کرسکتے لہٰذا وہ مر جاتے ہیں۔

    فلوریڈا کی اٹلانٹک یونیورسٹی کی ماہر حیاتیات جینیٹ کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے دوران ہمیں اکثر کچھوؤں کے مردہ انڈے ملتے ہیں۔

    یہ وہ انڈے ہوتے ہیں جن کے اندر موجود جاندار گرمی سے جل کر مر چکا ہوتا ہے۔

    کچھوے کے بچے انڈے کے اندر جل کر مر چکے ہیں

    انہوں نے بتایا کہ کچھ کچھوے ایسی صورتحال میں بھی انڈے سے نکل کر دنیا میں آنے میں کامیاب رہتے ہیں، لیکن وہ گرمی سے اس قدر بے حال ہوتے ہیں کہ فوراً پانی کی طرف بھاگتے ہیں، مگر راستے میں ہی مرجاتے ہیں۔


    زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جاندار خطرے میں

    اس سے قبل اسی نوعیت کی ایک تحقیق وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا میں بھی کی جاچکی ہے۔

    جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین میں گھر بنا کر رہنے والے جانداروں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق شدید گرم موسم کے باعث اگلی صدی کے آغاز تک ایسے جانداروں کی ایک تہائی آبادی معدوم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    دوسری جانب کوسٹا ریکا میں ہی گرمی سے کچھوؤں کے مرنے کے واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔

    سنہ 2008 اور 2009 کے درمیان کوسٹا ریکا میں کچھوں کے انڈوں سے نکلنے کے موسم میں درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا جو نہایت غیر معمولی تھا۔

    اس گرمی نے کچھوؤں کی نئی آنے والی پوری نسل کا خاتمہ کر ڈالا اور ایک بھی ننھا کچھوا زندہ نہ بچ سکا۔


    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے غیر فطری طور پر کچھوؤں کو ان کی پناہ گاہوں سے منتقل کر کے نسبتاً سرد جگہوں پر منتقل کیا جائے۔

    تاہم ماہرین تذبذب کا شکار ہیں کہ آیا کچھوے اس صورتحال سے مطابقت کرسکیں گے یا نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کچھوؤں کی زندگی میں انسانی مداخلت کی بدترین مثال ہوگی تاہم اگر موسم کے گرم ہونے کی یہی شرح جاری رہی تو ان کی زندگیاں بچانے کے لیے یہ اقدام ناگزیر ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دو سر والے حیرت انگیز کچھوے کی پیدائش

    دو سر والے حیرت انگیز کچھوے کی پیدائش

    دنیا بھر میں 2 سر والے جانوروں کی پیدائش ایک عام بات ہے تاہم تھائی لینڈ میں ایک ننھے سے کچھوے نے سب کو حیران کردیا جس کے دو سر موجود تھے۔

    یہ انوکھا کچھوا تھائی لینڈ کے ایک کچھوا پالنے والے شخص کے پاس موجود ہے جو کچھوؤں کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں بے شمار نایاب کچھوے دیکھے لیکن 2 سر والا ننھا کچھوا جس کی عمر اب 3 ماہ ہے انہوں نے پہلی بار دیکھا ہے۔

    سبز رنگ کا یہ منفرد کچھوا علاقے کے تمام افراد کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

    اس کے مالک نے اس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا، ’لوگ کہتے ہیں کہ کچھوے سست ہوتے ہیں، مگر یہ کچھوا نہایت تیزی سے حرکت کر رہا ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوا بظاہر ایک سست مگر ہمارے ماحول کے لیے نہایت فائدہ مند جانور ہے۔ اس کی حیثیت پانی میں ویسی ہی ہے، جیسے خشکی میں گدھ کی ہے، جسے فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے۔

    گدھ دراصل جابجا پھینکے جانے والے مردہ اجسام (جانور، انسان) کو کھا جاتا ہے جس کے باعث ان اجسام سے تغفن پھیلنے یا خطرناک بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ نہیں رہتا۔

    یہی کام کچھوا پانی کے اندر کرتا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔

    سندھ وائلڈ لائف میں کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان کے مطابق کراچی میں کچھ عرصہ قبل عفریت کی طرح پھیلنے والا نیگلیریا وائرس دراصل ان کچھوؤں کی عدم موجودگی کے باعث ہی پھیل سکا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ

    ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک کچھوؤں کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پانی میں نیگلیریا وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تاہم کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد ان کی آبادی مستحکم ہوگئی۔

    کچھوے کی اسی خصویت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔

    کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔ آج ہم آپ کو اس کی زندگی کے متعلق ایسے ہی کچھ حقائق بتانے جارہے ہیں جو آپ کے لیے معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔

    زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    طویل العمر جاندار

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔

    پیٹ پر خول

    کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹرون کہلاتا ہے۔

    کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔

    تمام براعظموں پر پایا جانے والا جانور

    کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    گو کہ کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

    انڈے دینے کا عمل

    تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔

    انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

    مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔

    انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

    سمندری کچھوے چونکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔

    اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھوؤں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

    جائے پیدائش کی طرف واپسی

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔

    آپ کو ایک اور دلچسپ بات سے آگاہ کرتے چلیں۔ کراچی کے ساحل پر سندھ وائلڈ لائف اور ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف، جو کچھوؤں کے تحفظ کے لیے قابل تعریف اقدامات کر رہے ہیں، ننھے کچھوؤں کے سمندر میں جانے کے دوران علاقے کو روشنیوں سے نہلا دیتے ہیں۔

    یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رات کے وقت سمندر میں جانے والے ننھے کچھوے تیز روشنی میں اس علاقے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ بعد میں مادہ کچھوؤں کو انڈے دینے کے لیے اپنی جائے پیدائش کی طرف لوٹتے ہوئے بھٹکنے، یا بھولنے کا خطرہ نہ رہے۔

    افزائش نسل کی انوکھی خصوصیت

    مادہ کچھوا نر کچھوے سے ملاپ کے کافی عرصے بعد بھی انڈے دے سکتی ہے۔ یہ اسپرمز کو اپنے جسم کے مخصوص حصوں میں کئی سالوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور حالات موافق ہونے کے بعد انڈے دے سکتی ہے۔

    موسم جنس کی تعین کا ذمہ دار

    کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔

    اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔

    یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

    ننھے کچھوؤں پر پروٹین کا خول

    کیا آپ جانتے ہیں، ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں؟ قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔

    پیدائش کے وقت ننھے کچھوؤں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھوؤں کو غذا فراہم کرتا ہے۔

    جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھوؤں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    میٹھے پانی کے شوقین

    کچھوے اپنے پیئے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔

    دراصل سمندری کچھوؤں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔

    حساس ترین جانور

    کچھوؤں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھوؤں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔

    بقا کی جدوجہد میں مصروف

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

  • کچھوے کے معدے میں سینکڑوں سکے

    کچھوے کے معدے میں سینکڑوں سکے

    بنکاک: تھائی ڈاکٹرز نے ایک 25 سالہ کچھوے کے معدے سے سینکڑوں سکے نکال لیے۔ ان سکوں کی وجہ سے کچھوا تیرنے سے قاصر ہوچکا تھا۔

    یہ کچھوا بنکاک کے ایک کنزرویشن سینٹر میں واقع ایک سوئمنگ پول میں رہتا تھا جہاں آنے والے افراد نیگ شگونی کے لیے سکے پھینکا کرتے تھے۔ کچھوے نے دیگر اشیا کے ساتھ ان سکوں کو بھی نگل لیا تھا جن کی تعداد 915 بتائی جارہی ہے۔

    2

    ان سکوں کو نگلنے کے بعد کچھوے کے وزن میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ تیرنے سے قاصر ہوگیا۔

    سینٹر کے ملازمین نے جب کچھوے کو غیر معمولی طور پر سست دیکھا تو اسے باہر نکال کر اس کا ٹیسٹ کیا گیا جس کے بعد اس کے اندر سکوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

    5

    3

    ڈاکٹرز کو کچھوے کا آپریشن کر کے اس کے معدے سے سکے نکالنے میں 7 گھنٹے کا وقت لگا۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کچھوے کو صحت یاب ہونے میں ایک ماہ کا وقت لگے گا جبکہ اس کے بعد مزید 6 ماہ تک اسے زیر نگہداشت رکھا جائے گا۔

    6

    4

    7

    8

    10

    واضح رہے کہ کچھوؤں کے معدے میں مختلف اشیا پھنس جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کھلے سمندر اور خشکی میں رہنے والے بے شمار کچھوے وہاں پھینکی گئی پلاسٹک کی اشیا کو خوراک سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم کے اندر پھنس جاتی ہیں۔

    اس پلاسٹک کی وجہ سے کچھوے نہایت تکلیف دہ دن گزار کر اذیت ناک موت مرتے ہیں جس سے پہلے وہ کچھ کھانے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔

    ساحل سمندر پر پھینکا جانے والا کچرا نہ صرف وہاں کی آلودگی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ وہاں موجود جنگلی و آبی حیات کے لیے بھی خطرے کا باعث ہے۔

  • کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    سکھر: دریائے سندھ میں پانی اترنے کے وہاں موجود کچھو ے کنارے پر امڈ آئے۔ کنارے پر آئے اور جال میں پھنسے کچھوؤں سے بچے کھیلنے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں سکھر کے مقام پر پانی اترنے کے بعد کنارے پر کچھوے امڈ آئے۔ بے شمار کچھوے وہاں بچھائے گئے جالوں میں پھنس گئے۔

    کچھوؤں کے کنارے پر آنے سے وہاں موجود بچوں کو تفریح ہاتھ آگئی اور وہ کچھوؤں سے کھیلنے لگے۔ کچھ افراد کچھوؤں کو پکڑ کر گھر بھی لے گئے۔

    مزید پڑھیں: کراچی سے نایاب نسل کے 62 کچھوے برآمد

    محکمہ جنگلی حیات کی ٹیم تاحال کچھوؤں کو بچانے نہیں پہنچی اور کچھوے کنارے پر بے یار و مدد گار پڑے رہے۔

    دوسری جانب ڈپٹی ڈائریکٹر سکھر تاج شیخ کا کہنا ہے کہ پانی اترنے پر صرف انڈس ڈولفن کو ریسکیو کیا جاتا ہے جو پانی اترنے یا راستہ بھولنے کے باعث نہروں میں آنکلتی ہے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کی نسل میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور اس کی نسل کشی کی جہاں بے شمار وجوہات ہیں وہیں اس طرح دریا میں پانی کم ہونے سے بھی ہزاروں کچھوؤں کو زندگی کے خاتمے کا خطرہ لاحق ہے۔

    واضح رہے کہ کچھوؤں کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی اسمگلنگ سے لاحق ہے جس کے لیے ہر سال ہزاروں کچھوؤں کو پکڑا جاتا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر میں کچھوے کے گوشت کی بے حد مانگ ہے اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک سے کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا اور ویتنام وغیرہ کی طرف کی جاتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کا گوشت کھانے جبکہ اس کے انڈوں کے خول زیورات اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھوے کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: تفصیلی رپورٹ ۔ کچھوے کی غیر قانونی تجارت

    سندھ وائلڈ لائف کے اہلکار عدنان حمید کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

  • کچھوے نےچلتی گاڑی کا ونڈ اسکرین توڑ دیا

    کچھوے نےچلتی گاڑی کا ونڈ اسکرین توڑ دیا

    میامی: ہائی وے پر محوِ سفر خاتون کے ونڈ اسکرین پر اچانک کچھوا ٹکرانے سے کار کا ونڈ اسکرین ٹوٹنے سے خاتون معمولی زخمی ہوگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی خاتون ہائی وے پر محوِ سفر تھیں کہ اچانک سے کوئی غیر معمولی چیز فضاء میں اُڑتی ہوئی آئی اور کار کے ونڈ اسکرین سے ٹکرا گئی،جس سے ونڈ اسکرین ٹوٹ گئی اور وہ ’’غیر معمولی چیز‘‘ کار کے دیش بورڈ پر آن گری۔

    turtle-2

    خاتون اس اچانک کی افتاد پر گھبرا گئیں اور معاملے کو ’’غیر مرئی‘‘ طور پر لے کر فوری طور پر تصاویر کھینچ کر فیس بک پر اپ لوڈ کر دی،جسے فوری طور پر 9000 لوگوں نے شئیر کیا، اس موقع پر ان کے اہلِ خانہ اور اور دوستوں نے حیرانگی کا مظاہرہ کیا۔

    turtle3

    ہائی وے پولیس آفیسر نے فوری طور پر پہنچ کر واقعہ کی تفصیلات لیں،تو پتہ چلا کے کہ خاتون کی کار سے ٹکرانی والی چیز کوئی ’’خلائی مخلوق‘‘ چیز نہیں بلکہ ایک کچھوا تھا جسے ہائی وے پہ گذرنے والی ایک گاڑی سے باہر پھینکا گیا، اور کچھوا اُڑتا ہوا خاتون کی گاڑی کی ونڈ اسکرین سے ٹکرا گیا۔

    اس حادثے میں خاتون کو ونڈ اسکرین کے شیشے لگنے کی وجہ سے کچھ خراشیں آئیں ہیں،خاتون کو ابتدائی طبی امدا دے دی گئی جب کہ کچھوے کو واپس قریبی تالاب میں چھوڑ دیا گیا۔