Tag: کچھوے

  • شدید غذائی قلت، غزہ کے شہری کچھوے کھانے پر مجبور

    شدید غذائی قلت، غزہ کے شہری کچھوے کھانے پر مجبور

    اسرائیلی بربریت کا شکار غزہ میں غذائی قلت اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ وہاں لوگ کچھوے کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    ڈیڑھ سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کے باعث غزہ میں انسانی صورتحال انتہائی خوفناک ہوگئی ہے اور صہیونی ریاست کی جانب سے امدادی رسد پر پابندی کے باعث غذائی قلت اس قدر شدید ہوگئی ہے کہ مظلوم فلسطینی کچھوے کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    عرب نیوز کے مطابق جنگ زدہ غزہ کی پٹی میں لوگ نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کو بھی کچھوے کا گوشت کھلانے پر مجبور ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق کئی خاندان ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو کچھوے کا گوشت بھیڑ کا گوشت کہہ کر کھلا رہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک مجبور 61 سالہ ماجدہ نے بتایا کہ بچے کچھوے کھانے سے ڈر رہے تھے، لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ یہ بچھڑے کے گوشت کی طرح لذیذ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ بچوں نے اس کو نہیں کھایا۔

    جنگ کے باعث بے گھر ہونے والی ماجدہ نے بتایا کہ غزہ میں خوراک کا بحران ہے اور متبادل روایتی خوراک نہ ہونے کے باعث اس نے تیسری بار کچھوے کا گوشت پکایا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تمام راستے بند ہیں اور مارکیٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے سبزی کے دو چھوٹے تھیلے خریدے لیکن گوشت دستیاب نہیں تھا۔

    غزہ کے ماہی گیر عبدالحلیم قنان نے بتایا کہ انہوں نے کبھی کچھوے کھانے کا سوچا بھی نہ تھا، لیکن جب کھانے کو کچھ نہ ملے تو یا کیا جائے۔ کیونکہ نہ یہاں مرغی یا دیگر گوشت ہے اور نہ ہی سبزیاں مل رہی ہیں۔

    قنان کا کہنا تھا کہ کچھوؤں کو سمندر سے شکار کرنے کے بعد حلال طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے۔ اگر قحط نہ ہوتا تو وہ ہرگز یہ نہ کھاتے، لیکن پروٹین کی ضرورت اسی طرح پوری کر سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ ڈیڑھ سال سے جاری اس جنگ اور اسرائیل کی جانب سے امداد روکنے کے بعد اقوام متحدہ نے غزہ میں شدید انسانی بحران کا انتباہ جاری کیا ہے۔

    انسانی امداد فراہم کرنے والی 12 تنظیموں کے سربراہان نے بھی جمعرات کو خبردار کیا کہ قحط ایک خطرہ نہیں ہے بلکہ علاقے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    حماس نے بھی اسرائیل پر الزام عائد کر رہا ہے کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کے خلاف بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

    واضح رہےکہ صہیونی ریاست اسرائیل نے ڈیڑھ سال سے جاری جنگ میں وحشت اور بربریت کی انتہا کرتے ہوئے 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جب کہ اس سے کئی گنا زائد زخمی اور لاپتہ ہو چکے ہیں۔

    اسرائیل نے اس جنگ میں تمام انسانی حقوق اور عالمی جنگی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے رہائشی عمارتوں، اسکولوں، اسپتالوں، عبادت گاہوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بھی بم برسا کر انہیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔

  • دبئی: درجنوں نایاب کچھوے سمندر میں چھوڑ دیے گئے

    دبئی: درجنوں نایاب کچھوے سمندر میں چھوڑ دیے گئے

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں درجنوں کچھوؤں کو سمندر میں چھوڑا گیا۔ یہ کچھوے معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔

    اردو نیوز کے مطابق دبئی میں سی ٹرٹلز یعنی سمندری کچھوؤں کے عالمی دن کے موقع پر معدومیت کے خطرے سے دو چار 21 کچھوؤں کو خلیج عرب میں چھوڑ دیا گیا۔

    جمعے کو ورلڈ سی ٹرٹل ڈے کے موقع پر دی دبئی ٹرٹل ری ہیبلی ٹیشن پروجیکٹ (ڈی ٹی آر پی) نے خلیج عرب میں 15 ہاکس بل اور 6 سبز کچھوے چھوڑے۔

    کچھوؤں کی یہ دو نسلیں جو معدومیت کا شکار ہیں، انہیں پانی میں چھوڑنے سے سمندر کا قدرتی ماحول توازن پاتا ہے، اس پروجیکٹ کا اہم مقصد ہاکس بل کچھوے کی افزائش ہے، جو کہ تشویش ناک حد تک معدومیت کا شکار ہے۔

    جمیرا گروپ کی سی ای او کیٹرینا گیانوسکا نے کہا ہے کہ ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کا قیمتی سمندری مخلوق پر براہ راست اثر دیکھا ہے۔

    خلیج عرب میں کامیابی سے چھوڑے جانے والے کچھوؤں میں ایک مادہ سبز کھچوا، جس کا خول کشتی سے ٹکرانے کے باعث ٹوٹ گیا تھا اور زِپی نام کا نر ہاکس بل کھچوا شامل ہیں۔

    زِپی کو اکتوبر 2022 میں ڈی ٹی آر پی نے راس الخیمہ کے ساحل پر نہایت بری حالت میں ریسکیو کیا تھا، وہ پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ کھانے کے باعث آنتوں اور پھیپھڑوں کی تکلیف کا شکار تھا۔

    برج العرب کی ڈائریکٹر ایکیورم باربرا لینگ لینٹن اریزابالا لگا کا کہنا تھا کہ کچھوؤں کی اتنی کم تعداد پر اس بات کی یقین دہانی کروانا ضروری ہے کہ ان کی آبادی کو قائم رکھنے کے لیے سب اپنا کردار ادا کریں۔

  • کچھوؤں کی گزرگاہ خطرے کا شکار

    کچھوؤں کی گزرگاہ خطرے کا شکار

    ویسے تو اس وقت تمام دنیا میں جنگلی و آبی حیات مختلف خطرات کا شکار ہے لیکن سمندر میں ایک راستہ جسے شارکس اور کچھوؤں کی آبی گزرگاہ کہا جاتا ہے، ختم ہونے کے قریب ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گلاپا گوس جزائر اور کوکوس جزیروں کے آس پاس سمندر کے نیچے سے ایک راستہ گزررہا ہے جسے شارک اور کچھوؤں کی آبی شاہراہ کہا جاتا ہے، لیکن یہ شاہراہ اب خطرے کا شکار ہے۔

    سمندری جانوروں کی یہ ہائی وے 750 کلومیٹر طویل ہے جس پر لیدر بیک اور سبز کچھوے کے علاوہ انواع و اقسام کی شارک بھی آتی جاتی رہتی ہیں، یہاں موجود مرجانی چٹانوں اور پہاڑیوں کو یہ جاندار بطور سنگ میل استعمال کرتے ہیں۔ بعض جانور یہاں رک کر کھانا کھاتے ہیں اور آرام بھی کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق سمندر کے نایاب ترین جاندار اس راستے پر آتے اور جاتے ہیں، لیکن یہاں کا سمندر کھلا ہے اور ماہی گیر ادارے اپنے جہاز اور کشتیاں لا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ حساس رہگزر شدید متاثر ہوسکتی ہے۔

    یہاں پر تحقیق کرنے والے ماہر ایلیکسا اس علاقے کو مکمل طور پر محفوظ قرار دینا چاہتے ہیں جس کا رقبہ 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر ہوگا یعنی برطانیہ کے رقبے کے برابر ہوسکتا ہے۔

    سمندر کے فرش پر سمندری پہاڑیوں کے ابھار ہیں جو ایک زمانے میں لاوا اگلتے تھے اور اب مقناطیسی سگنل خارج کرتے ہیں۔ ان کی مدد سے بعض جانور مثلاً ہیمرہیڈ شارکس اور سمندری کچھوے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ علاقہ ان بے زبان جانورں کے لیے ایک سنگ میل فراہم کرتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ اس اہم آبی راہگزر کو بچانے کی ضرورت ہے۔

  • ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    کیا آپ جانتے ہیں مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے تاہم ان انڈوں میں سے نکلنے والا صرف ایک بچہ ہی زندہ رہ پاتا ہے اور طویل عمر پاتا ہے؟

    ان ننھے بچوں کو انڈوں سے نکلنے کے بعد اپنی بقا کی جدوجہد خود ہی کرنی ہوتی ہے جس میں اکثر یہ اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    مادہ کچھوا ساحل پر ایک گڑھے میں انڈے دینے کے بعد اس گڑھے کو ڈھانپ کر چلی جاتی ہے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آتی، وقت پورا کرنے کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں، اب ان بچوں کو سمندر تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہ ان کے لیے خطرناک چیلنج ہوتا ہے۔

    سمندر تک پہنچنے کے راستے میں ساحل پر موجود مختلف جانور اور پرندے ان بچوں کی تاک میں ہوتے ہیں۔ ساحل پر پھرتے آوارہ کتے اور کوے باآسانی ان ننھے بچوں کو پکڑ لیتے ہیں اور انہیں کھا جاتے ہیں۔

    اسی طرح ساحل پر موجود کیکڑے بھی گو کہ جسامت میں ننھے کچھوؤں سے چھوٹے ہی ہوتے ہیں تاہم یہ نومولود بچوں کے مقابلے میں طاقتور ہوتے ہیں اور آرام سے انہیں کھینچ کر اپنے بل میں لے جاسکتے ہیں۔

    ننھے کچھوے ان کیکڑوں سے جان چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کھینچا تانی میں کبھی وہ ناکام ہوجاتے ہیں اور کبھی کامیاب۔

    ایسے موقع پر اگر ساحل پر کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    سمندر تک پہنچنے کے بعد بھی کم گہرے پانی میں کوئی چیل غوطہ لگا کر انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر لے جاتی ہے۔ اپنے انڈے سے نکلنے کے بعد جب یہ کچھوے سمندر تک پہنچتے ہیں تو ان کی تعداد بہ مشکل ایک یا دو ہوتی ہے۔

    ننھے کچھوؤں کی اس ساری جدوجہد کو آپ بی بی سی کی اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق خطرات کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں

  • راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    اپنے گھر جاتے ہوئے راستہ بھول جانا نہایت پریشان کن ہوسکتا ہے، خصوصاً اگر کوئی راستہ بھول کر صحرا میں نکل پڑے تو نہایت خوفناک صورتحال ہوسکتی ہے جہاں نہ کھانے کو کچھ ملے گا اور نہ پانی۔

    ایسا ہی کچھ ایک کچھوے کے ساتھ بھی ہوا جو اپنے گھر کا راستہ بھول کر صحرا میں آگیا۔

    صحرا میں 80 ڈگر سینٹی گریڈ درجہ حرارت نے اس کچھوے کو پیاس سے نڈھال کردیا، لیکن اس کچھوے کی خوش قسمتی کہ یہ بارشوں کا موسم تھا۔ بادل آئے اور تھوڑی ہی دیر میں صحرا میں جل تھل ایک ہوگیا۔

    برازیل کے اس صحرا میں بارش کے بعد پانی کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جو خلا سے بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ ذخائر اس کچھوے کے لیے زندگی کی امید ثابت ہوئے۔

    کچھوے نے اس جوہڑ میں چھلانگ لگائی اور ٹھنڈے پانی کا لطف اٹھانے لگا۔

  • زمین پر موجود معمر ترین جانور سے ملیں

    زمین پر موجود معمر ترین جانور سے ملیں

    ہماری زمین پر پائے جانے والے کئی جانور اپنی طویل العمری کے لیے مشہور ہیں، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک جاندار سے ملانے جارہے ہیں جسے زمین کا معمر ترین جانور قرار دیا جاتا ہے۔

    ساؤتھ انٹلانٹک میں موجود یہ جانور ایک کچھوا ہے جس کا نام جوناتھن اور عمر 187 سال ہے۔ یہ کچھوا سنہ 1832 میں پیدا ہوا۔

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    اس سے قبل تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے جزیرے ٹونگا میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔ اب جوناتھن اس ریکارڈ کو توڑنے والا ہے، تاہم اس وقت بھی وہ زمین کا سب سے معمر جانور ہے۔

    سینٹ ہیلینا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں موجود یہ کچھوا وہاں خاصا مشہور ہے، لوگ اس سے ملنے آتے ہیں اور اس کے لیے تازہ سبزیاں لاتے ہیں۔ اس کی تصویر قصبے کی مقامی کرنسی میں 5 پینس کے سکے پر بھی موجود ہے۔

    کچھ عرصے قبل جوناتھن بیمار ہوگیا تھا اور اس کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی جس کے بعد اس کا علاج کیا گیا اور خصوصی سپلیمنٹس دیے گئے۔ اس کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ اب جوناتھن بالکل صحت مند اور فٹ ہے اور پرسکون زندگی گزار رہا ہے۔

  • معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر

    معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر

    کھلونوں کی مشہور بین الاقوامی کمپنی لیگو ایک معذور کچھوے کو سہارا دینے کا سبب بن گئی۔

    18 سال کا یہ کچھوا سڑک کنارے اس حالت میں پایا گیا کی اس کا سخت خول ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے یہ ٹھیک سے چل نہیں پارہا تھا۔

    گو کہ کچھوؤں کا خول بہت سخت ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں اگر یہ کسی کشتی سے ٹکرا جائیں تو ان کا خول باآسانی ٹوٹ جاتا ہے۔

    خول چونکہ کچھوے کے پورے جسم کو حفاظت فراہم کرتا ہے لہٰذا خول ٹوٹنے سے کچھوے کے جسم کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں اور شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    سڑک کنارے پائے جانے والے اس زخمی کچھوے کو ویٹرنری کلینک لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے دیکھا کہ کچھوے کا خول کسی شدید تصادم کی وجہ سے 7 مقامات سے ٹوٹا ہوا تھا۔

    ڈاکٹرز نے ابتدائی امداد فراہم کرنے کے بعد کچھوے کے لیے ایک وہیل چیئر بنا دی جس کے لیے لیگو بلاکس کو کام میں لایا گیا۔

    ہلکی پھلکی سی یہ وہیل چیئر کچھوے کو توازن اور سہارا فراہم کر رہی ہے اور اس کے باعث کچھوا پھر سے رینگنے کے قابل ہوگیا ہے۔

    کچھوے کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • دنیا کا سب سے قوی الجثہ کچھوا

    دنیا کا سب سے قوی الجثہ کچھوا

    دنیا کے سب سے قوی الجثہ کچھوے نے سمندر سے نمودار ہو کر ہلچل مچا دی، لوگ اس کی جسامت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر نمودار ہونے والا یہ کچھوا لیدر بیک نامی قسم سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھوے کی یہ قسم عام کچھوؤں سے جسامت میں بڑی ہوتی ہے تاہم مذکورہ کچھوے کی جسامت حیرت انگیز تھی۔

    یہ مادہ کچھوا انڈے دینے کے موسم میں ساحل پر انڈے دینے آئی تھی اور گڑھا کھود کر انڈے دینے کے بعد واپس جا رہی تھی۔

    اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے ساحل پر رینگتی ہوئی یہ پانی کی طرف گئی اور کبھی نہ آنے کے لیے غائب ہوگئی۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو بچانے سے قاصر

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

  • میکسیکو کے ساحل پر نایاب نسل کے 300 کچھوے مردہ حالت میں برآمد

    میکسیکو کے ساحل پر نایاب نسل کے 300 کچھوے مردہ حالت میں برآمد

    شمالی امریکی ملک میکسیکو کے ساحل پر نہایت نایاب نسل کے 300 کچھوے مردہ حالت میں پائے گئے۔ کچھوے مچھلیاں پکڑنے والے جال میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔

    یہ کچھوے جنوبی ریاست اوزاکا کے ساحل پر پائے گئے جہاں سب سے پہلے ایک مچھیرے نے ان کو دیکھا۔

    یہ کچھوے اولیو ریڈلے نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ نسل معدومی کے دہانے پر موجود ہے۔ مئی سے ستمبر کے دوران بحر اوقیانوس سے بے شمار کچھوے انڈے دینے کے لیے میکسیکو کے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔

    میکسیکو کی وفاقی ماحولیاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کی موت کا سبب بنے والے جال سے مقامی مچھیروں نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے کہ یہ ان میں سے کسی نے نہیں پھینکا۔

    ایجنسی کے مطابق یہ کسی بحری جہاز سے پھینکا گیا جال تھا۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے کچھوے کی 7 میں سے 6 اقسام میکسیکو میں پائی جاتی ہیں۔ ان کچھوؤں کی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی ہے اور انہیں نقصان پہنچانے پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں۔

    ماحولیاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی بھی تحقیقات کریں گے۔


    کچھوے کے بارے میں دلچسپ مضامین پڑھیں

  • کچھوے میں جنس کا تعین کرنے والا انوکھا جین دریافت

    کچھوے میں جنس کا تعین کرنے والا انوکھا جین دریافت

    سائنس دانوں نے کچھوے کے انڈوں میں درجہ حرارت کے مطابق جنس کی تشکیل کرنے والا جین دریافت کرلیا۔

    کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔

    معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔

    تاہم اب ماہرین نے اس جین کو دریافت کرلیا ہے جو اس تمام عمل کا ذمہ دار ہے۔ چین اور امریکا کے ماہرین پر مشتمل اس تحقیقی ٹیم نے اس جین کو ’کے ڈی ایم 6 بی‘ کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ جین اسی وقت فعال ہوتا ہے جب موسم گرم ہوتا ہے جس کے بعد انڈے سے نکلنے والا کچھوا مادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کا موسم تیزی سے گرم ہو رہا ہے، کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے کے موسم کے دوران بھی درجہ حرارت معمول سے زیادہ دیکھا جارہا ہے جس سے مادہ کچھوؤں کی پیدائش میں بھی اضافہ ہورہا ہے، یہ عمل کچھوؤں کی نسل کے توازن بگڑنے اور ان کے معدوم ہوجانے کا باعث بن سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    گرم موسم کی وجہ سے صرف ریت پر ہی نہیں بلکہ پانی کے اندر پیدا ہونے والے کچھوے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کے قریب پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد مادہ تھے۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ مذکورہ حصے میں سمندر کا پانی پہلے کی نسبت گرم تھا اور یہی مادہ کچھوؤں کی پیدائش کا سبب بنا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کی پیدائش میں اگر جنس کا یہی توازن برقرار رہا تو بہت جلد ہم ان کچھوؤں کو معدوم ہوتا دیکھیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ مصنوعی طریقوں سے ریت کے ان حصوں کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ان انڈوں سے بچے نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر چھاؤں فراہم کرنا، یا ریت کے اس حصے میں مصنوعی بارش برسانا۔

    یاد رہے کہ اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا جاندار کچھوا آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی نسل کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔