Tag: کچی بستی

  • ٹرمپ کے دورہ بھارت سے قبل مودی سرکار کی ’شرمناک حرکت‘

    ٹرمپ کے دورہ بھارت سے قبل مودی سرکار کی ’شرمناک حرکت‘

    نئی دہلی: بھارتی قوم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد پر حواس باختہ ہوگئی، بھارت میں جابجا پھیلی جھونپڑ پٹیوں کو امریکی صدر کی نظروں سے چھپانے کے لیے دیواروں کے گرد محصور کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کی مقامی انتظامیہ نے ایک کچی بستی کے گرد دیوار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو صدر ٹرمپ کے راستے میں نظر آسکتی ہے۔

    امریکی صدر اپنے دورہ بھارت کے دوران گجرات میں عوامی اجتماع سے خطاب کریں گے اور اس اجتماع کا نام ’کیم چھو ٹرمپ‘ ہوگا، یہ اجتماع نریندر مودی کے دورہ امریکا کے دوران ہیوسٹن میں منعقد ہوئے اجتماع ’ہاؤی ڈی مودی‘ کی طرز پر کیا جارہا ہے۔

    اجتماع میں شرکت کے لیے امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم اس راستے سے گزریں گے تو یہ کچی بستی انہیں نظر آئے گی۔

    کچی بستی کوچھپانے کے لیے تعمیر کی جانے والی یہ دیوار 7 فٹ اونچی ہوگی اور نصف کلو میٹر تک تعمیر کی جائے گی۔ اس کچی بستی میں تقریباً ڈھائی ہزار افراد آباد ہیں۔

    یہاں رہنے والوں نے اس دیوار کی تعمیر پر سخت اعتراض کیا ہے، مقامی افراد کا کہنا ہے حکومت غربت چھپانا چاہتی ہے تو وہ پکے مکان کیوں نہیں تعمیر کروا دیتی۔

    کچی بستی کی رہائشی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ دیوار کی تعمیر شروع ہوچکی ہے، اس دیوار کے بننے سے ہماری بستی محصور ہوجائے گی، ہوا پانی بند ہوجائے گا۔ یہاں نہ سیوریج کا انتظام ہے اور نہ ہی بجلی اور پانی، اندھیرے میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ بارش میں یہاں گھٹنوں گھٹنوں پانی بھر جاتا ہے۔

    چونکہ یہ علاقہ ائیرپورٹ کے نزدیک ہے لہٰذا اکثر کسی خاص مہمان کی آمد پر یہاں پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن اب حکومت یہاں دیوار بنا کر اسے مکمل طور پر چھپانا چاہتی ہے۔

    ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ہماری غربت کو پردے اور دیوار سے ڈھانپنے کے بجائے سرکار ہمیں سہولیات مہیا کرئے تاکہ ہماری زندگی بہتر ہو۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کے ساتھ 24 اور 25 فروری کو بھارت کا دورہ کریں گے، 2 روزہ دورے کے دوران وہ دہلی اور گجرات جائیں گے۔

  • کچی بستی کے نوجوانوں کا آرکسٹرا

    کچی بستی کے نوجوانوں کا آرکسٹرا

    نیروبی: کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں واقع کورگوچو نامی کچی آبادی کینیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ یہاں دیڑھ سے 2 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہ کچی آبادی غربت، جرائم اور منشیات کا گڑھ ہے اور یہاں گھریلو تشدد کی سماجی برائی نہایت عام ہے۔

    یہی نہیں یہاں رہنے والے زیادہ تر افراد ایڈز یا اس کے خطرے کا شکار ہیں۔

    اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ امید دیوانے کا خواب لگتی ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے بچے معاشرے کا کوئی کارآمد حصہ ثابت ہوسکیں گے۔

    2

    تاہم السبتھ نوروج نامی ایک موسیقار کا خیال اس سے مختلف تھا۔ 80 نوجوان موسیقاروں کا آرکسٹرا ترتیب دینے والا یہ موسیقار اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ موسیقی کے ذریعہ لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔

    یہی سوچ کر اس نے اس جھونپڑ بستی کے بچوں کو موسیقی سکھانی شروع کردی جو تعلیم و تربیت سمیت ہر طرح کی بنیادی سہولت سے محروم تھے۔

    10

    9

    نوروج کا کہنا ہے، ’موسیقی آپ کو آپ کے آس پاس کی دنیا بھلا دیتی ہے۔ آپ اپنے دکھوں اور تکالیف کو بھول کر زندگی کی مثبت چیزوں کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں‘۔

    ان بچوں کو موسیقی کی تربیت دینے کے لیے ایک ٹوٹی پھوٹی ادھ تعمیر شدہ عمارت میں میوزک سینٹر قائم کیا گیا ہے جو ایک کچرے کے ڈھیر کے قریب واقع ہے۔

    4

    5

    6

    البتہ یہاں آںے والے بچے نہایت بلند حوصلہ ہیں اور اپنی زندگی بدلنے کے خواہاں ہیں۔

    ان بچوں کے زیر استعمال مختلف آلات موسیقی مختلف اداروں کی جانب سے عطیہ کردہ ہیں۔

    3

    7

    انہیں امید ہے یہ موسیقی انہیں دنیا کے ان حصوں میں لے جائے گی جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گئے اور وہ پر یقین ہیں کہ یہ موسیقی ان کی زندگی بدلنے میں معاون ثابت ہوگی۔

    12

    11

    8

    بچوں کے والدین بھی ان کی اس سرگرمی سے خوش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بچے اگر اپنا فارغ وقت موسیقی کو نہ دیں تو یقیناً یہ بستی کی گلیوں میں گھومتے ہوئے وقت گزاریں گے جہاں یہ جرائم اور منشیات کا آسان شکار بن سکتے ہیں۔

    آہستہ آہستہ وسیع ہوتا یہ آرکسٹرا کبھی کبھار قریبی چرچ میں بھی جاتا ہے جہاں یہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔