Tag: کھارا پانی

  • ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    پانی سے ہی زندگی ہے اور تازہ پانی بقا، صحت، خوراک کی پیداوار، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی توازن کے لیے ناگزیر ہے۔

    زراعت عالمی میٹھے پانی کا تقریباً 70 فی صد استعمال کرتی ہے، آب پاشی فصل کی نشوونما کو سہارا دیتی ہے اور خوراک کی پیداوار کو یقینی بناتی ہے۔ پانی کی کمی سے غذائی تحفظ کو خطرہ ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر قحط، اور سماجی و اقتصادی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔

    پانی کی کمی صحت کے شدید مسائل یا اموات کا باعث بن سکتی ہے جب کہ صاف میٹھے پانی تک رسائی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکتی ہے جیسا کہ ہیضہ، پیچش، جو کہ اموات کی بڑی وجوہ میں شامل ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں صفائی کی ناکافی سہولیات ہیں۔

    اسی طرح پانی کا استعمال صنعتوں میں کولنگ، اور توانائی کی پیداوار کے لیے بھی ہوتا ہے (مثلاً، ہائیڈرو الیکٹرک پاور، تھرمل پلانٹس)۔ پانی کی قلت سپلائی چینز اور انرجی گرڈز میں خلل ڈال سکتی ہے اور زرعی و صنعتی پیداوار، افرادی قوت کی صحت کو محدود کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    میٹھے پانی کی کمی


    حالاں کہ پانی پر بڑے پیمانے پر جنگیں نہیں ہوئی ہیں، تاہم یہ اکثر وسیع تر تنازعات میں ایک اہم عنصر، اسٹریٹجک ہدف، یا آلہ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تازہ پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے، اور ریسرچ اسٹڈیز اور رپورٹس میٹھے پانی کی دست یابی میں کمی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث میٹھے پانی کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں طلب میں اصافہ اور سپلائی میں کمی کی وجہ سے حکومتوں، صنعتوں اور سول سوسائٹیوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    کھارا پانی


    دوسری طرف کھارا پانی یعنی کہ سمندروں کی اچھی صحت کا براہ راست تعلق انسانی بقا، معاشی استحکام اور ماحولیاتی توازن سے ہے۔ سمندر ہمیں آکسیجن فراہم کرتا ہے، غذا دیتا ہے، گرمی کو جذب کر کے ماحول میں توازن بناتا ہے، اور بخارات کی صورت میں بارشیں برساتا ہے۔ عالمی تجارت کا 90 فی صد سمندری راستوں سے ہوتا ہے، جو معیشتوں کو جوڑتا ہے اور وسائل کی تقسیم کو فعال کرتا ہے۔

    بچپن سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہماری زمین کا 3 فی صد حصہ پانی اور صرف ایک فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔ امریکی سرکاری ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق زمین کا 71 فی صد حصہ پانی اور 29 فی صد خشکی پر مشتمل ہے، لیکن ہماری یہ معلومات عام طور سے یہیں تک محدود ہوتی ہے۔


    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات


    امریکی سائنسی ایجنسی ’’یو ایس جیولوجیکل سروے‘‘ (USGS) کے مطابق زمین کے 71 فی صد پانی میں سے 97 فی صد کھارے پانی یعنی کہ سمندری پانی اور صرف 3 فی صد میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی 68 فی صد سے زیادہ برف اور گلیشیئرز میں بند ہے، جب کہ مزید 30 فی صد میٹھا پانی زیر زمین ہے۔

    سطح کے تازہ پانی کے ذرائع جیسا کہ دریا اور جھیلیں صرف 22,300 کیوبک میل (93,100 مکعب کلومیٹر) پر مشتمل ہیں، جو کہ کُل پانی کے ایک فی صد کا تقریباً 1/150 واں حصہ ہے۔ اس طرح تمام میٹھے پانی کا صرف 1.2 فی صد سے تھوڑا زیادہ سطح کا حصہ ہمیں میسر ہے، جو ہماری زندگی کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بھی سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔

    سمندروں کی نقشہ سازی اور نئی انواع


    کھارے پانی کی بات کریں تو امریکی حکومتی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ بغیر نقشے کے، غیر مشاہدہ شدہ اور غیر دریافت شدہ ہے اور یہ کہ 91 فی صد سمندری انواع کی درجہ بندی ابھی ہونا باقی ہے۔

    بیلجیم کے ادارے ورلڈ رجسٹر آف میرین اسپیسیز (WoRMS) کے مطابق اب تک تقریباً 2 لاکھ 42,500 سمندری انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس رجسٹر میں ان ناموں کا یہ اندراج دنیا بھر سے سائنس دانوں نے کیا ہے اور ہر سال تقریباً 2000 نئی سمندری انواع کا اندارج اس رجسٹر میں ہوتا رہتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کرنے کے باوجود آخر اب تک سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ غیر دریافت شدہ کیوں ہے؟

    غیر دریافت شدہ سمندر


    اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر بحریات ڈاکٹر جین کارل فیلڈمین سمندروں کے تحفظ کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ’اوشیانا‘ کو بتاتے ہیں: ’’سمندر کی گہرائیوں میں پانی کا شدید دباؤ اور سرد درجہ حرارت تلاش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

    فیلڈ مین نے اوشیانا کو مزید بتایا کہ سمندر کی تہہ تک جانے کے مقابلے میں خلا میں جانا بہت آسان ہے۔ سمندر کی سطح پر انسانی جسم پر ہوا کا دباؤ تقریباً 15 پاؤنڈ فی مربع انچ ہے اور خلا میں زمین کے ماحول کے اوپر دباؤ کم ہو کر صفر ہو جاتا ہے، جب کہ غوطہ خوری کرنے یا پانی کے اندر موجود گاڑی میں سواری کر کے گہرائیوں میں جانے پر دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

    انھوں نے اب تک سمندر کی سب سے گہری دریافت شدہ جگہ ماریانا گھاٹی (Mariana Trench) کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ماریانا گھاٹی کے نیچے غوطہ لگانے پر، جو تقریباً 7 میل (11.265 کلو میڑ) گہری ہے، سطح کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دباؤ انسانی جسم پر 50 جمبو جیٹ رکھے جانے کے وزن کے برابر ہے۔

    سمندر کی گہرائیوں میں شدید دباؤ، سرد درجہ حرارت اور مکمل اندھیرا، ان چیلنجوں سے ماہرین بحریات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کتنی جلدی نمٹ کر سمندروں کو دریافت کر پاتے ہیں یہ تو صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔

  • کھارے پانی سے خراب ہونے والے بالوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

    کھارے پانی سے خراب ہونے والے بالوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

    پانی کی قلت کی وجہ سے ملک کی بڑی آبادی کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے، لیکن یہ کھارا پانی چیزوں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔

    اس کی وجہ سے گھریلو اشیا زنگ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اگر اس پانی کو نہانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہو تو یہ جلد اور بالوں کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ہے۔

    کھارے پانی میں نمکیات کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور یہ پانی ایسے ٹھوس نمکیات سے بھرپور ہوتا ہے جو گھل نہیں سکتے، اسی وجہ سے کھارے پانی سے نہانے سے جسم پر خارش اور خشکی پیدا ہوتی ہے اور بال بھی روکھے اور بے جان ہو کر جھڑنے لگتے ہیں۔

    یہ پانی اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ اس سے مل کر اچھے سے اچھا شیمپو بھی اپنا اثر کھو دیتا ہے۔

    اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ کھارے پانی سے نہانے کے بعد صاف میٹھا پانی بالوں اور جسم پر بہا لیا جائے۔

    علاوہ ازیں ایک بڑا ٹکڑا پھٹکری لیں اور پانی سے بھری ہوئی بالٹی میں کچھ دیر اچھی طرح پھیریں، پھٹکری نمکیات کو پانی سے کاٹ دیتی ہے جس کے بعد وہ بالٹی کی نچلی سطح پر بیٹھ جاتے ہیں اور اوپر والا پانی صاف ہوجاتا ہے۔

    کھارے پانی سے خراب ہوئے بالوں کو ہفتے میں 2 بار بادام یا کھوپرے کے تیل سے مساج کریں اور انڈے اور دہی کا ماسک بھی لگائیں۔

  • سعودی عرب کو پانی کتنا مہنگا پڑرہا ہے؟

    سعودی عرب کو پانی کتنا مہنگا پڑرہا ہے؟

    تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کو پانی کی قلت نے بے حال کردیا ہے ، اندازہ ہے کہ آئندہ تیس سالوں میں میٹھے پانی کے ذرائع بالکل ختم ہوجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطاب مشرق ِو سطیٰ میں پانی کی قلت بڑھتی ہی جارہی ہے اور سعودی عرب اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والےممالک میں شامل ہے جو کہ اپنے میٹھے پانی کے ذخائر میں سے 900 فیصد سے زائد خرچ کرچکا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں موجود زیرِ زمین پانی آئندہ ۱۱ سالوں میں بالکل ختم ہوجائے گا، یاد رہے کہ اس صحرائی ملک میں کوئی دریا نہیں بہتا اور نہ ہی یہاں کوئی جھیل ہے، اس کے باوجو د سعودی عرب میں پانی کی کھپت فی فرد 265 لیٹر روزانہ ہے جو کہ یورپی یونین کے ممالک سے دگنی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کی قلت کے ساتھ پانی کا ضیاع بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کی ضرور ت ہے۔

    سعودی عرب فی الحال اپنے بجٹ کا دو فیصد پانی کی سبسڈی پر خرچ کررہا ہے جو کہ ایک خطیر رقم ہے۔سنہ 2015 میں سعودی عرب نے فیکٹریوں میں پانی کے استعمال پر ٹیکس فی کیوسک چار ریال سے بڑھا کر نو ریال کر دیا تھا۔ حکومت گھرو‌ں میں استعمال کے لیے پانی پر بھاری سبسڈی دیتی ہے اس لیے پانی مہنگا نہیں ملتا۔

    سنہ 2011 میں ہی سعودی عرب میں اس وقت پانی اور بجلی کے وزیر نے کہا تھا کہ سعودی عرب میں پانی کی طلب ہر برس سات فیصد کی حد سے بڑھ رہی ہے اور اگلی ایک دہائی میں اس کے لیے 133 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی۔

    سعودی عرب میں کھارا پانی کنورژن پلانٹ (ایس ڈبلیو سی سی) ہر دن 30.36 لاکھ کیوسک میٹر سمندر کے پانی سے نمک الگ کر کے پینے کے قابل بناتا ہے۔

    یہ سنہ 2009 کے اعداد و شمار ہیں جو اب بڑھے ہی ہوں گے۔ اس کا روز کا خرچ 80.6 لاکھ ریال آتا ہے۔ اس وقت ایک کیوسک میٹر پانی نمک الگ کرنے کا خرچ 2.57 ریال آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کا خرچ 1.12 ریال فی کیوسک میٹر بن جاتا ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں سعودی عرب اپنے زیر زمین پانی کے ذخیروں کو بڑھانے پر کام کرے وہیں اپنے شہریوں کو بھی اس بات سے آگاہی دے کہ ان کے پاس تیل تو وافر مقدار میں موجود ہے لیکن پینے کا پانی نہیں ہے اور تیل سے سہولیاتِ زندگی تو خریدی جاسکتی ہیں لیکن زندگی کی بقا کا دارو مدار صرف اور صرف پانی پر ہے۔