Tag: کھلونے

  • 5 سالہ بچہ پچاس سال کی عمر تک عجیب شوق پالتا رہا

    5 سالہ بچہ پچاس سال کی عمر تک عجیب شوق پالتا رہا

    منیلا: فلپائن کے ایک پانچ سالہ بچے کو جب پہلی بار ایک ریسٹورنٹ میں تحفے میں کھلونا ملا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا، لیکن یہ خوشی اتنی تھی کہ اس کے بعد سے کھلونے جمع کرنا اس کا اولین شوق بن گیا۔

    تفصیلات کے مطابق فلپائن کے ایک شخص نے اپنے دل چسپ شوق کے سبب مختلف ریسٹورنٹس سے پینتالیس سال کے دوران 20 ہزار کھلونے جمع کر کے ایک ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔

    یہ فلپائنی ہیں ایک گرافک آرٹسٹ، جن کا نام پرسیول لُوگ ہے، اور یہ فاسٹ فوڈ سینٹرز سے کھانوں کے ساتھ بچوں کو تحفے میں ملنے والے کھلونے جمع کر کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنا نام درج کرا چکے ہیں۔

    کھلونے جمع کرنے کا عالمی ریکارڈ تو انھوں نے 2014 میں بنا لیا تھا، تاہم اب ان کھلونوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے 20 ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے، جب کہ پرسیول کی عمر بھی 50 سال سے زائد ہو گئی ہے، انھوں نے 5 سال کی عمر سے کھلونے جمع کرنا شروع کیا تھا۔

    جب انھیں پہلی بار کھانے کے ساتھ کھلونا ملا تو وہ بہت خوش ہوئے، پھر انھوں نے معروف برانڈز کے برگر اور فاسٹ فوڈ کھانے کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے عوض تحفے میں ملنے والے کھلونوں کو بھی جمع کرتے چلے گئے۔

    فلپائن کے شہری کا گھرتین منزلہ ہے، جس کے ایک کمرے کو انھوں نے کھلونوں سے بھر کر رکھا ہوا ہے، اور وہ اب بھی ان کھلونوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

    پرسیول نے ان کھلونوں کے حوالے سے بڑی دل چسپ بات بتائی، انھوں نے کہا کہ ان میں سے ہر کھلونا کہانی نویس کی طرح ایک کہانی بیان کرتا ہے، اور یہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جس وقت اسے خریدا گیا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ ان کھلونوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ واقعات بھی منسلک ہوتے ہیں۔

  • پلاسٹک کے کھلونے خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    پلاسٹک کے کھلونے خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    بچوں کے کھلونے زیادہ تر پلاسٹک سے بنائے جاتے ہیں جو خراب ہوجانے یا ٹوٹ جانے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ بیلجیئم کی ایک کمپنی نے ان کھلونوں کو ری سائیکل کر کے نئی زندگی دے دی۔

    ایکو برڈی نامی یہ کمپنی بچوں کے پرانے کھلونے جمع کرتی ہے۔ اس کمپنی کے ارکان مختلف اسکولوں میں جا کر بچوں کو پلاسٹک کے نقصانات بتاتے ہیں اور ان سے پرانے کھلونے دینے کا کہتے ہیں۔

    ان کھلونوں کو بعد ازاں ایک پلانٹ میں لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں توڑا جاتا ہے۔ مختلف رنگوں کے ٹکڑوں کو الگ کیا جاتا ہے اور ان سے بچوں ہی کے لیے نیا خوبصورت فرنیچر تخلیق کیا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہمارے بچوں کے زیر استعمال 80 فیصد کھلونے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیے جاتے ہیں۔

    زمین میں تلف نہ ہونے کے سبب یہ کھلونے سالوں تک یونہی کچرے کے ڈھیر پر پڑے رہتے ہیں اور شہروں کی گندگی اور آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایک جنگ زدہ علاقہ میں، جہاں آسمان سے ہر وقت موت برستی ہو، کھانے کے لیے اپنوں کی جدائی کا جان لیوا غم اور پینے کے لیے صرف خون دل میسر ہو، وہاں بچوں کو کھیلنے کے لیے، اگر وہ جنگ کے ہولناک اثرات میں دماغی طور پر اس قابل رہ جائیں، بھلا تباہ شدہ عمارتوں کی مٹی اور پتھر کے علاوہ اور کیا میسر ہوگا؟

    جنگ زدہ علاقوں میں جہاں اولین ترجیح اپنی جان بچانا، اور دوسری ترجیح اپنے اور اپنے بچے کھچے خاندان کے پیٹ بھرنے کے لیے کسی شے کی تلاش ہو وہاں کس کو خیال آئے گا کہ بچوں کی معصومیت ابھی کچھ باقی ہے اور انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے درکار ہیں۔

    یقیناً کسی کو بھی نہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    تب مشرق کے سورج کی طرح ابھرتا دور سے آتا ’کھلونا اسمگلر‘ ہی ان بچوں کی خوشی کا واحد ذریعہ بن جاتا ہے جو سرحد پار سے ان کے لیے کھلونے ’اسمگل‘ کر کے لاتا ہے۔

    toy-2

    بچوں میں ’ٹوائے انکل‘ کے نام سے مشہور یہ اسمگلر دراصل 44 سالہ رامی ادھم ہے جو فن لینڈ کا رہائشی ہے لیکن اس کی جڑیں یہیں جنگ زدہ علاقوں میں مٹی کا ڈھیر بنی عمارتوں کے نیچے کہیں موجود ہیں، تب ہی تو یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک طریقے سے سرحد عبور کر کے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے آتا ہے۔

    toy-6

    سنہ 1989 میں اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے فن لینڈ کا سفر اختیار کرنے والے 44 سالہ رامی کا بچپن حلب کی ان ہی گلیوں میں گزرا جو اب اپنے اور بیگانوں کی وحشیانہ بمباری کا شکار ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’جب بچے مجھے آتا دیکھتے ہیں تو دور ہی سے ’ٹوائے انکل‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ میری آمد کی خبر لمحوں میں یہاں سے وہاں تک پھیل جاتی ہے اور جب میں تباہ حال شہر کے مرکز میں پہنچتا ہوں تو سینکڑوں بچے چہروں پر اشتیاق سجائے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے سبز بیگ میں سے کھلونے نکال کر بچوں میں تقسیم کرتا ہے اس وقت ان بچوں کی خوشی ناقابل بیان ہوتی ہے۔

    toy-3

    رامی ان کھلونوں کے لیے فن لینڈ میں عطیات جمع کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے ان کے بچوں کے پرانے کھلونے دینے کی بھی اپیل کرتا ہے۔ پچھلے 2 سال سے چونکہ شام کی سرحد کو بند کیا جاچکا ہے لہٰذا وہ قانونی طریقہ سے شام تک نہیں جاسکتا اور مجبوراً اسے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

    لیکن یہ اسمگلنگ ایسی ہے جو غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی غیر انسانی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک زندہ سلامت ہے اور کامیابی سے اس اسمگلنگ کو  جاری رکھے ہوئے ہے۔ رامی کے مطابق فن لینڈ اور ترکی میں اس کے کچھ واقف کار ہیں جو اسے بحفاظت سرحد پار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ اسے ’جوائے اسمگلر‘ یعنی خوشی کے اسمگلر کا نام دیتے ہیں۔

    toy-4

    پچھلے 5 سال سے جاری شام کی خانہ جنگی کے دوران رامی 28 مرتبہ بڑے بڑے تھیلوں میں بچوں کے لیے خوشی بھر کر لاتا ہے۔ اس دوران اسے 6 سے  7 گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کئی بار اس کے شام میں قیام کے دوران جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں جن کے دوران اسے گولیوں سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا اور چھپنا بھی پڑتا ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’شام کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان پر ٹوٹنے والے اس عذاب میں ساری دنیا شامل ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکے ہیں‘۔

    رامی نے فن لینڈ میں ایک ’گو فنڈ می‘ نامی مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ شام میں اسکول قائم کرنے کے لیے عطیات جمع کر رہا ہے۔ وہ یہ اسکول جنگ و جدل سے دور ترکی کی سرحد کے قریب بنانا چاہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ دورے میں وہ ایک اسکول کا بنیادی ڈھانچہ قائم کرچکا ہے۔

    toy-5

    اس رقم سے وہ اب تک حلب کے 4 اسکولوں کی بھی امداد کر چکا ہے جو مختلف تباہ شدہ عمارتوں اور سڑکوں پر قائم ہیں۔

    شامی نژاد رامی خود بھی 6 بچوں کا باپ ہے اور اس کا عزم ہے کہ جب تک شامی بچوں کو اس کی ضرورت ہے وہ ان کے لیے یہاں آتا رہے گا۔ ’میں اپنے مشن سے کبھی نہیں رکوں گا، نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی 5 سالہ خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 15 ہزار کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ شام اور عراق میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جنگی علاقوں میں محصور ہیں اور تعلیم و صحت کے بنیادی حقوق سے محروم اور بچپن ہی سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔