Tag: کہانی

  • ’کبھی میں کبھی تم‘ پاکستان سمیت بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی ٹرینڈ کرنے لگا

    ’کبھی میں کبھی تم‘ پاکستان سمیت بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی ٹرینڈ کرنے لگا

    بلاشبہ پاکستانی ڈرامے بھارت میں بے پناہ مقبولیت رکھتے ہیں، اس کے ساتھ ہی بنگلا دیش جیسے پڑوسی ممالک کے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’ کبھی میں کبھی تم‘نے تیزی سے کئی ممالک کے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے اور اس وقت یہ پاکستان کے بہترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔

    ڈرامے کی دلکش اور متاثر کرنے والی کہانی  کے ساتھ ہانیہ عامر اور فہد مصطفیٰ کے شاندار پرفارمنس کو  مداحوں کی جانب سے خوب پسند کیا جارہا ہے، ان کی آن اسکرین کیمسٹری نے نہ صرف پاکستان میں ناظرین کو مسحور کیا بلکہ ہندوستان، بنگلہ دیش، ترکی اور مشرق وسطیٰ میں بھی مقبولیت حاصل کی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Fahad Mustafa (@mustafafahad26)

    تاہم 17ویں ایپی سوڈ کے بعد ڈرامہ ’کبھی میں کبھی تم ‘ سوشل میڈیا پر پاکستان سمیت انڈیا اور بنگلا دیش میں ٹاپ ٹرینڈ پر آگیا، جبکہ پاکستان کے یوٹیوب پر بھی یہ ڈرامہ ٹرینڈ کررہا ہے۔

    ڈرامے میں فہد مصطفیٰ کے کردار اور ان کی اداکاری کو ناظرین کی جانب سے خوب پسند کیا جارہا ہے، یاد رہے کہ معروف اداکار اداکار و میزبان فہد مصطفیٰ نے اداکاری کی دنیا سے طویل عرصے دوری اختیار کرنے کے دس سال بعد اس ڈرامے سے اسکرین پر واپسی کی ہے، اداکار نے 2015 میں ڈراموں سے وقفی لینے کے بعد اپنی پوری توجہ فلم انڈسٹری پر مرکوز کرلی تھی۔

    گزشتہ ایک دہائی کے دوران فہد مصطفیٰ نے متعدد فلموں میں کام کیا اور درجنوں ڈراموں اور فلموں کو پروڈیوس بھی کیا لیکن اب وہ  ’کبھی میں کبھی تم‘ میں اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY Digital (@arydigital.tv)

    واضح رہے کہ ’کبھی میں کبھی تم‘ کی کہانی فرحت اشتیاق نے لکھی ہے، اس کی ہدایات بدر محمود دی ہیں جب کہ اسے فہد مصطفیٰ کے ہمراہ ڈاکٹر علی کاظمی نے پروڈیوس کیا ہے۔

    ڈرامے کی کاسٹ میں اداکارہ ہانیہ عامر، اداکار فہد مصطفی، عمادعرفانی، سینیئر اداکار جاوید شیخ، بشری انصاری، مایا خان، زینب مظہر اور دیگر شامل ہیں۔

    ڈرامے کی کہانی شرجینا اور مصطفی کے گرد گھومتی ہے، شرجینا شادی سے چند دن پہلے اپنی منگنی ٹوٹنے کے بعد اپنے سابقہ منگیتر کے چھوٹے بھائی مصطفی سے شادی کر لیتی ہے۔

     مصطفی ایک لا پروا شخص ہے، لیکن شرجینا کی محبت اور توجہ اسے آہستہ آہستہ ذمہ دار بنا دیتی ہے۔

    اب تک زیادہ تر ناظرین نے اظہار کیا کہ وہ اس ڈرامے کی سادہ اور حقیقت پسندانہ کہانی کی وجہ سے اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

  • ایک تھا بادشاہ!

    ایک تھا بادشاہ!

    ابا جان بھی بچّوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ آخر نہ رہ سکے، بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں؟

    ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا۔‘‘ سب نے شور ہی مچا دیا۔

    ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی:

    کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
    مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
    نہ آتا تھا کوئی بھی اس کے قریب

    بادشاہ اور غریب۔ سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں۔ ابا سنا رہے تھے:

    کئے ایک دن جمع اس نے فقیر
    کھلائی انہیں سونے چاندی کی کھیر
    فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
    امیروں وزیروں سے کہنے لگا
    کہ آؤ چلو آج کھیلیں شکار
    قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
    مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
    کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
    تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
    کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
    مگرمچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
    سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں

    ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہو کر ایک دوسرے کا مونہہ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا ۔ کہنے لگے ’’یہ تو عجیب بے معنی کہانی ہے، جس کا سر نہ پیر۔‘‘

    ابا جان بولے ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

    منجھلے بھائی نے کہا ’’سمجھ میں تو آتی ہے مگر پتہ نہیں چلتا۔‘‘ یہ سن کر سب ہنس پڑے ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے اور پتہ نہیں چلتا۔‘‘ آپا نے کہا ’’ابا جان بادشاہ غریب تھا۔ تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں کیسے رکھ لیا۔ مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا مطلب کیا ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھر سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڑے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگر مچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘

    ننھی بولی’’توبہ توبہ۔ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا جان نے کہا’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔ ہوا یہ کہ:

    سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
    وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
    مرے پاس دال اور آٹا نہیں
    تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
    یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
    کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
    وہیں ایک مکھی کا پر کٹ گیا
    جلاہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا

    یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا’’یہ کہانی تو کچھ اور جلول سی ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا تھا۔‘‘

    ننھی نے کہا ’’خاک مزا آتا ہے۔ تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہوں۔ ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا ہوگا۔ تو پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا نے کہا ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ:

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور

    ’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے—تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’بھئی مجھے کیا معلوم۔ کہانی بنانے والے نے یہی لکھا ہے۔‘‘

    ’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے؟‘‘

    ’’حفیظؔ صاحب نے۔‘‘

    ’’ابا اب میں سمجھا۔ اب میں سمجھا۔ آگے سنائیے ابا جان جی۔‘‘ ابا جان آگے بڑھے۔

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
    لگا ناچنے سانپ کی دم پہ مور
    کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
    بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
    کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
    لئے شیر سے بیر چہیا نے چھین

    چوہیا نے شیر سے بیر چھین لئے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری آزمانے کے لئے کہانی کہہ رہے ہیں۔ اماں جان بھی ہنستی ہوئی بولیں ’’اور تو خیر، یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی۔ سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہیے کہیے آگے کہیے۔ ابا جان نے کہا ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے۔ ہاں میں کیا کہہ رہا تھا۔

    لئے شیر سے بیر چہیا نے چھین
    یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
    اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
    وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
    ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے

    بھائی جان نے قہقہہ مارا ’’ہہ ہہ ہا ہا۔ لیجئے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا بھی آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی۔‘‘ منجھلے بولے ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘ ابا جان نے کہا’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔ کمند ہوا چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘

    آپا نے پوچھا۔’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں؟‘‘ مگر ننھی اب بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور بسورنے لگی ’’اوں اوں اوں۔ کہانی ختم کیجئے۔ واہ ساری کہانی خراب کر دی۔‘‘ ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی:

    غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
    چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
    مگر راہ میں چیونٹیاں آ گئیں
    چنے جس قدر تھے وہ سب کھا گئیں
    بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
    لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی
    اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

    (بچّوں کی اس دل چسپ کہانی کے مصنف حفیظ جالندھری ہیں)

  • ڈرامہ سیریل ’نورجہاں‘ کی کہانی میں کیا چیز دلچسپ ہے؟

    ڈرامہ سیریل ’نورجہاں‘ کی کہانی میں کیا چیز دلچسپ ہے؟

    اے آر وائی ڈیجیٹل کی نئی ڈرامہ سیریل ’نور جہاں‘ کی آج پہلی قسط آن ایئر کردی گئی، ڈرامے کی کہانی ویسے تو ساس اور بہو کے گرد گھومتی ہے، تاہم اس کے دیگر موضوعات ڈرامے کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔

    مذکورہ ڈرامے کی کاسٹ میں شامل فنکاروں نے گزشتہ روز اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں شرکت کی، ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض مصدق ملک نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی زنجابیل عاصم نے لکھی ہے۔

    مہمانوں میں اداکارہ کبریٰ خان، علی رحمان، حاجرہ یامین، زویا ناصر اور علی رضا موجود تھے اس موقع پر انہوں نے ڈرامے کی کہانی اور اس میں عوامی دلچسپی کی وجوہات کو بیان کیا کہ لوگ اس ڈرامے کو پسندیدگی کی نگاہ سے کیوں دیکھیں گے؟

    ناظرین کو بوریت کا احساس تک نہیں ہوگا : علی رحمان 

    ڈرامے کے ایک اہم کردار علی رحمان خان کا کہنا تھا کہ ’نورجہاں‘ دیکھنے والوں کو بوریت کا احساس نہیں ہوگا کیونکہ اس کی کہانی میں اس تیزی سے تبدیلیاں ہوں گی کہ ناظرین کو ٹوئسٹ کے بعد ٹوئسٹ دیکھنے کو ملے گا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ صرف ساس بہو کی کہانی نہیں ہے، گھر کے دیگر افراد اور بھی ہیں ان کے بھی کچھ علیحدہ ہی معاملات ہیں۔

    گھروں میں عورت راج کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟ کبریٰ خان 

    اس حوالے سے اداکارہ کبریٰ خان نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں عموماً گھروں میں عورت راج ہوتا ہے اور ڈرامے میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ عورت راج کیسے لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ڈرامے کے ہیرو علی رضا نے بتایا کہ اس ڈرامے میں صرف لڑکیوں کے نہیں لڑکوں کے بھی مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ زندگی میں ان کے ساتھ کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں اور وہ ان سے کیسے نبرد آذما ہوتے ہیں۔

    واضح رہے کہ ڈرامہ سیریل ’نور جہاں‘ کے دیگر فنکاروں میں سینئر اداکارہ صبا حمید، نور حسن و دیگر بھی شامل ہیں۔

  • 1971 کی کہانی، غازیوں کی زبانی

    1971 کی کہانی، غازیوں کی زبانی

    پاکستان کی تاریخ میں 1971کی پاک بھارت جنگ کی کہانی سیاہ حروف میں لکھی جاۓ گی۔

    جنگ میں بھارتی تربیتی یافتہ دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کیا اور پاک فوج پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔

     بے گناہ اور نہتے پاکستانیوں پر دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی کی جانب سے کیے گئے مظالم اور قتل عام کا الزام پاکستان آرمی پر لگایا گیا۔

    1971 کی جنگ میں حصہ لینے والے پاک فوج کے بریگیڈیر ریٹائرڈ مسعود الحسن نے 1971 کی جنگ کی آپ بیتی سناتے ہوۓ بتایا کہ میری پہلی پوسٹنگ مشرقی پاکستان میں ہوئی اس وقت حالات بہت کشیدہ تھے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج اور دہشتگرد مکتی باہنی کی جانب سے نہتے بہاریوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا جبکہ بھارت کی جانب سے پاک آرمی کو بدنام کرنے کے لیے پروپگنڈا کیا گیا کیونکہ بہاری پاک فوج اور پاکستان کے حق میں تھے،

     ریٹائرڈ بریگیڈیر نے بتایا کہ پاک فوج کی جانب سے مظلوم بہاریوں پر اگر کوئی تشدد ہوا ہوتا تو دکھایا جاتا مگر یہ محض بھارت کا ایک پروپگینڈا ہے تو یہ کہنا کہ پاک فوج نے بہاریوں پر ظلم کیا، صرف بھارت کا ایک جھوٹا ڈرامہ ہے جس کے شواہد آج تک بھارت کو بہاریوں پر ظلم و ستم آج تک نہیں ملے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق پاک فوج نے بہاریوں کا قتل عام کیا جبکہ پاک فوج کی تعداد بہت قلیل تھی، بریگیڈیر ریٹائرڈ مسعود الحسن کا مزید کہنا تھا کہ جنگ کے دوران پاک فوج کے دو بریگیڈ موجود تھے ایک کومیلا میں تھا اور ایک جیسور میں تھا جن کی تعداد بہت کم تھی جبکہ ایک بٹالین ڈھاکہ میں موجود تھی۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ جب مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو ہماری بٹالین بارڈر پر موجود تھی، قتل و غارت پاک فوج نے کیا بالکل غلط ہے، نہتے بہاریوں پر ظلم و ستم بھارتی فوج اور دہشتگرد مکتی باہنی نے کیا اور الزام پاک فوج پر لگایا۔

  • سعود شکیل کی ورلڈ کپ میں شمولیت کی کہانی

    سعود شکیل کی ورلڈ کپ میں شمولیت کی کہانی

    پاکستان کا نیا سپر اسٹار ایک ایسا کھلاڑی جو ورلڈ کپ کی سلیکشن کے قریب قریب بھی نہ تھا وہ سلیکٹ ہوا اور پاکستان کے پہلے میچ میں مین آف دی میچ بن گیا۔

    ورلڈ کپ کے آغاز میں اپنی ٹیم کو مشکلات سے نکلانے والے بیٹر سعود شکیل کی ورلڈ کپ میں شمولیت کی کہانی بھی ایک مسٹری تھی۔

     آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ سے تین ماہ پہلے سعود شکیل ورلڈ کپ کی گنتی میں بھی نہیں تھے پھر سری لنکا کے خلاف ڈبل سنچری بنائی اور پکچر ہی بدل دی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    سعود شکیل کو افغانستان سیریز میں سترویں کھلاڑی کے طور پر منتخب کیا گیا، انہوں نے ایک میچ کھیلے، نو رن بنائے جس کے بعد لگتا تھا کہانی ختم  لیکن پھر ڈیٹا اینالسٹ حسن چیمہ نے چیف سلیکٹر انضمام اور کپتان بابر کو قائل کیا جس کے بعد ورلڈ کپ میں  سعود ان ہوا اور فہیم اشرف باہر ہوگئے۔

    سعود شکیل نے ورلڈ کپ ڈیبیو میچ میں 68 رن بنا کر اپنا انتخاب درست ثابت کیا، سابق کپتان سرفراز احمد نے پچھلے سال ہی کہا تھا کہ سعود اگلا بڑا اسٹار ہوگا اور کپتان نے ٹھیک کہا تھا سعود بڑا اسٹار بننے جارہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اسی ورلڈ کپ میں اپنی بڑی پہچان بنا لے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    واضح رہے کہ جمعہ کو حیدرآباد دکن میں کھیلے گئے ورلڈکپ میچ میں پاکستان نے نیدرلینڈز کو 81 رنز سے شکست دے کر ایونٹ میں فاتحانہ آغاز کیا۔

    نیدر لینڈز کے خلاف قومی ٹیم کا ٹاپ آرڈر ناکام ہونے کے بعد محمد رضوان اور نوجوان سعود شکیل نے ٹیم کو سنبھالا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Green Shirts (@greenshirts17)

    ورلڈکپ کا پہلا میچ کھیلنے والے سعود شکیل نے بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 32 گیندوں پر شاندار ففٹی اسکور کی۔یہ پاکستان کی جانب سے ورلڈکپ میں دوسری تیز ترین نصف سنچری تھی۔

    سعود شکیل نے اہم موقع پر 52 گیندوں پر 68 رنز کی اننگز کھیلی، انہوں نے9 چوکے اور ایک چھکا لگایا، اس کے علاوہ رضوان نے بھی 68 رنز بنائے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    پاکستان کے 287 رنز کے ہدف کے تعاقب میں نیدرلینڈز کی ٹیم 41 اوورز میں 205 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ سعود شکیل کو بہترین بیٹنگ کرنے پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Pakistan Cricket (@therealpcb)

  • "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    ایک بادشاہ کو اس کے وزیروں اور مشیروں نے بتایا کہ حضور آپ کی سلطنت میں دو ایسے شخص بھی رہتے ہیں جن سے ان کے اڑوس پڑوس والے بے حد تنگ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں دربار میں طلب کرکے سرزنش کی جائے۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ مجھے ان کے متعلق تفصیل بتاؤ تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان کا قضیہ دربارِ شاہی میں لانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

    وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت ان دونوں میں سے ایک حاسد ہے اور ایک بخیل، بخیل کسی کو کچھ دینے کا روادار نہیں اور حاسد ہر کسی کے مال سے حسد رکھتا ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    اگلے روز جب دونوں بادشاہ کے حضور پیش ہوئے تو، بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں کے متعلق مشہور ہے کہ ایک حسد میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا حد درجے کا کنجوس ہے، کیا یہ سچ ہے؟

    وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے نہیں بادشاہ سلامت، یہ سب افواہیں ہیں، جو نجانے کیوں لوگ پھیلا رہے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر کہا، اچھا پھر میں تم دونوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، وہ انعام تم دونوں کی مرضی کا ہوگا، جو مانگو گے ملے گا، اور جو پہل کرتے ہوئے مانگ لے گا اسے تو ملے گا ہی مگر دوسرے کو وہی انعام دگنا کرکے دیا جائے گا۔

    اب دونوں کشمکش میں گرفتار ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرا ہی پہل کرے، کنجوس نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلے بول کر زیادہ انعام سے محروم رہوں، اور حاسد اسی سوچ میں تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میں مانگوں، اس کا دگنا انعام اس بخیل کو بھی ملے۔ وہ بھی بنا مانگے۔ اس کشمکش میں دنوں نے کافی وقت گزار دیا مگر بولنے میں پہل کسی نے بھی نہ کی۔

    اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ان دونوں پر ایک جلّاد مقرر کیا، اسے حکم دیا کہ تین تک گنتی گنو اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی بولنے میں پہل نہ کرے تو قید خانے میں ڈال دو،

    جلّاد نے جیسے ہی گننا شروع کیا تو حاسد فوراً بول اٹھا۔

    "بادشاہ سلامت، میری ایک آنکھ نکال دیجیے!”

    (قدیم عربی حکایت سے ماخوذ)

  • گانٹھ

    گانٹھ

    عَصبی ریشوں کے وسط میں کچھ اضافی گانٹھیں پڑ گئیں۔

    یا پھر پہلے سے پڑی گِرہیں ڈھیلی ہو گئی تھیں کہ اضمحلال اُس پر چڑھ دوڑا تھا۔ بدن ٹوٹنے اور دِل ڈوبنے کا مستقل احساس ایسا تھا کہ ٹلتا ہی نہ تھا۔

    کوئی بھی معالج جب خود ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے‘تو یہی مناسب خیال کرتا ہے کہ وہ سیکنڈ اوپینین لے لے۔ ڈاکٹر توصیف کو بھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، مگر وہ اسے ٹالتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ خود سے مسلسل الجھنے اور لڑنے بِھڑنے لگا اور اُن لمحوں کو کوسنے لگا تھا جب وہ اس ملک سے اپنے شعبے میں اسپیشیلائزیشن کے لیے گیا تھا۔

    اِنہی لمحات میں وہ لمحات بھی خلط ملط ہو گئے تھے، جب اُسے ایک انوسٹی گیشن سینٹر سے نکال کر ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا، اُس پر شبہ کیا گیا تھا، مگرکیوں؟؟ آخر کیوں؟؟؟….وہ جتنا سوچتا ‘اُتنا ہی اُلجھے جاتا۔
    ممکن ہے ایک ایشیائی ہونا اس کا سبب ہو۔ نہیں ‘شاید ایک پاکستانی ہونا۔ یا پھر ہو سکتا ہے مسلمان ہونا ہی شک کی بنیاد بن گیا ہو۔

    مگر؟….مگر؟ اور یہ ’مگر‘ ایسا تھا کہ اس کا سینہ جھنجھنانے لگا تھا۔ وہ اُٹھا اور آئینے میں اپنا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔ اُس کی صورت میں ایسے شک کے لیے کیا کوئی پرانی لکیر باقی رہ گئی تھی۔ پلک جھپکنے کے مختصر ترین وقفے میں طنز کا کوندا آئینے کی شفاف سطح سے پھسل کر معدوم ہو گیا۔

    اُس نے نگاہ سامنے جمائے رکھی۔ چہرے کی لکیروں ‘ابھاروں اور ڈھلوانوں پر تن جانے والے تناﺅ کا جالا پورے آئینے سے جھلک دینے لگا تھا۔ وہ گھبرا کر اُس تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا ‘جو اُس نے اِنٹر کا امتحان دے چُکنے کے بعد فراغت کے ایسے لمحات میں بنائی تھی جب مصوری کا جنوں اُس کے سَر میں سمایا ہوا تھا۔ یہ اُس کی اپنی تصویر تھی ‘جو ادھوری رِہ گئی تھی۔

    کچے پن کی چغلی کھانے والی اِس ادھوری تصویر میں کیا کشش ہو سکتی تھی کہ اسے ابھی تک سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ اُس نے غور سے دیکھا۔ شاید ‘بل کہ یقیناً کوئی خوبی بھی ایسی نہ تھی کہ اُس تصویر کو یوں سنبھال کر رکھا جاتا۔ اُسے یاد آیا ‘جب وہ یہ تصویر بنا رہا تھا تو اُس نے اَپنے باپ سے کہا تھا؛ کاش کبھی وہ دُنیا کی حسین ترین تصویر بنا پائے۔ اُس کے باپ نے اُس کی سمت محبت سے دیکھ کر کہا تھا:
    ”تم بنا رہے ہو نا‘ اِس لیے میرے نزدیک تو یہی دُنیا کی خوب صورت ترین تصویر ہے“

    وہ ہنس دیا تھا ‘تصویر دیکھ کر اور وہ جملہ سن کر۔

    یہ جو اپنے اپنائیت میں فیصلے کرتے ہیں ‘اُن کی منطق محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
    تصویر نامکمل رہ گئی کہ اُس کا دِل اُوب گیا تھا۔ تاہم اُس کے باپ کو اپنا کہا یاد رہا تھا۔ اس نے اِس ادھوری تصویر کو اس دیوار پر سجا دیا تھا۔ بہن نے اسے یوں رہنے دیا ہوگا کہ اُس کے مرحوم باپ نے یہاں اپنے ہاتھوں سے سجائی تھی۔

    یہ سوچ کر ذرا سا وہ مسکرایا اور وہاں سے ہٹنا چاہا کہ نظر آنکھوں پر ٹھہر گئی۔ واٹر کلر سے بنائی گئی اس تصویر میں اگرچہ دائیں آنکھ کے نیچے ہاتھ لرز جانے کے باعث براﺅن رنگ میں ڈوبا برش کچھ زیادہ ہی دَب کر بنانے والے کے اَناڑی ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ مگر مدہم آبی رنگوں میں تیرتی معصومیت نے آنکھوں میں عجب طلسم بھر دیا تھا۔ ایسا کہ نظر ہٹانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ تصویر ادھوری تھی۔ چہرے میں رنگ بھرتے بھرتے چھوڑ دیے گئے تھے۔ یہ اَدھورا پن اُس کے اندر اتر گیا۔ اُس کے اعصاب تن گئے اور وہ اُوندھے منھ بستر پر جا پڑا۔
    ”کیوں؟….آخر کیوں؟؟“

    ایک ہی تکرار سے اُس کا سینہ کناروں تک بھر گیا۔ اُس نے اَپنے جسم کو دو تین بار دائیں بائیں لڑھکا کر جھٹکے دیے۔ قدرے سانسوں کی آمدورفت میں سہولت محسوس ہوئی تو ایک بڑا سا ’ہونہہ‘ اُس کے ہونٹوں سے پھسل پڑا۔ یوں ‘جیسے اُس کے تیرتے ڈوبتے بدن کو کسی نے لمحہ بھر کے لیے تھام سا لیا ہو۔

    تھامنے والے ہاتھ گوگول کے تھے۔ گوگول کے نہیں ‘ اُس تصویر کے ‘جو گوگول کے ہاں پہلے مرحلے میں نامکمل رہ گئی تھی۔

    شیطانی آنکھوں والی اَدھوری تصویر۔ مگر یہ بھی وہ تصویر نہ تھی جس نے اُسے تھاما تھا کہ اس کا چہرہ تو معصومیت لیے ہوئے تھا۔ فرشتوں جیسا ملائم اور اُجلا۔

    یہ اِسی تصویر کا دوسرا مرحلہ تھا جب کہ وہ مکمل ہو گئی تھی۔
    تصور ایک جگہ ٹھہر گیا تو اُسے گوگول کے افسانے کا وہ پادری یاد آیا جس نے سب کا دھیان شیطانی تاثرات والی آنکھوں کی جانب موڑ دیا تھا۔ اُسے اُبکائی آنے لگی تو اُس نے اپنے دھیان سے اُس تصویر کو بھی کھرچ دیا ‘اور کالج کا وہ دور یاد کرنے لگا جب ترقی پسندی اُس کے خلیے خلیے سے خوش بُو بن کر ٹپکنے لگی تھی۔

    تب ایک نئی تصویر تھی جو بن رہی تھی۔
    ابھی یہ تصویر نامکمل تھی کہ اُس پر انسان دوستی اور روشن خیالی کے زاویوں سے کرنیں پڑنے لگیں۔ روشن خیالی کی للک میں سب کچھ روند کر آگے بڑھنے والوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جلد ہی مذہبی فرائض کی بجا آوری کو قیمتی وقت کے ناحق تلف کرنے کے مترادف سمجھنے لگا تھا۔ اُس کا خیال تھا؛ ان فرائض میں صرف ہونے والا وقت کسی بھی انسان کو تسکین پہنچا کر اَمر بنایا جایا سکتا تھا۔

    اس کے لیے مذہبی طرزِ احساس فقط رَجعت پسندی‘جہالت اور ذِہنی پس ماندگی کا شاخسانہ تھا۔ لہذا وہ مذہب اور اس کے متعلقات کو ایک لایعنی گورکھ دھندا یا پھر افیون قرار دیتا اور خود کو ہمیشہ اس سے دُور رکھا۔ اپنے شعبے سے کامل وابستگی نے اُسے عجب طرح کا دلی سکون عطا کیا تھا۔ اور وہ اس سے نہال تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ جس شہر میں نام ‘مَقام اور سکونِ قلب کا سرمایہ کما چکا تھا اور مسلسل کما رہا تھا اُسی کا مستقل باسی ہو گیا تھا۔ ایک پس ماندہ ملک کے بے وسیلہ ‘ غیر مہذب اور جاہل لوگوں کے بے ہنگم اور بے اصول معاشرے میں رہنے سے بدرجہا مناسب اُسے یہ لگا کہ وہ یہیں انسانیت کی خدمت میں جُتا رہے۔

    وہ اپنے آپ کو بھول بھال کر اِس خدمت میں مگن بھی رہا، مگر ایک روز یوں ہوا کہ وہ شہر دھماکوں سے گونج اُٹھا اور سب کچھ اُتھل پتھل ہو گیا۔

    جب وہ حادثے میں اعصابی جنگ ہارنے والوں کو زندگی کی طرف لا رہا تھا ‘اُسے سماجی خدمت جان کر‘کسی معاوضے اور صلے سے بے نیاز ہوکر‘ تو اُسے اس خلیج کی موجودگی کا احساس ہوگیا تھا جسے بہت سال پہلے پاٹنے کے لیے اس نے اپنے وجود سے وابستہ آخری نشانی ‘اپنے نام’ توصیف ‘کو بدل کر ’طاﺅژ‘ ہو جانا بہ خُوشی قبول کر لیا تھا۔

    اُنہی دِنوں ڈاکٹر طاﺅژ کی ملاقات کیتھرائن سے ہوئی تھی جو اپنے پہلے شوہر کے چھوڑ کر چلے جانے کے باعث شدید نفسیاتی دباﺅ سے گزر رہی تھی۔ اس نہایت روشن خیال اور سلجھی ہوئی خاتون نے ایک روز اُسے پروپوز کر دیا۔ وہ اپنے طور پر اس قدر مگن تھا کہ اس رشتے کو بھی اضافی سمجھتا رہا تھا۔ کچھ اچھی لڑکیاں اس کی زندگی میں آئی ضرور تھیں مگر اتنی دیر کے لیے ‘جتنی کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ضرورت ہو سکتی تھی۔ لہذا جب ضرورت پوری ہورہی تھی تو شادی کے پاکھنڈ کا کیا جواز ہو سکتا تھا۔

    مگر عجب یہ ہوا کہ کیتھرائن کی پروپوزل کو اس نے بلاجواز قبول کر لیا تھا۔
    کسی کو چاہنے لگنا اور کسی سے دور ہو جانا عجب طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ عین آغاز میں دلیلیں نہیں مانگتے‘ فیصلے مانگتے ہیں۔ فیصلہ ہو جائے تو سو طرح کی دلیلیں نہ جانے کہاں سے آ کر دَست بستہ سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔

    فیصلہ ہوا تو شادی بھی ہو گئی۔ پھر اُن کے ہاں اوپر تلے دو بیٹے ہوئے۔ دونوں ہو بہو اپنی مام جیسے تھے۔ راجر اور ڈیوڈ۔ دونوں کے نام کیتھی نے رَکھے۔ کیتھرائن کو وہ پہلے روز ہی سے کیتھی کہنے لگا تھا کہ اُس کی صورت ہالی ووڈ کی دِلوں میں بس جانے والی اداکارہ کیتھرائن ہیپبرن سے بہت ملتی تھی اور سب اُس خوب صورت فن کارہ کو کیتھی کہتے تھے۔

    وہ مکمل طور پر اُس سوسائٹی کا حصہ ہو کر مطمئن ہو گیا تھا۔ اس قدر مطمئن کہ حادثے کے بعد بھی ناموافق ردِعمل کے باوصف وہ اس فریضے کو اِنسانیت کی خدمت کا تقاضا سمجھ کر ادا کرتا رہا۔ حتّٰی کہ خفیہ والوں نے اُسے دھر لیا۔

    کئی روز تک اُس سے پوچھا پاچھی ہوتی رہی۔ پھر وقفے پڑنے لگے۔ طویل وقفے۔ اِتنے طویل کہ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اُسے فالتو کاٹھ کباڑ جان کر اس سیل میں پھینک دینے کے بعد وہ سب بھول گئے تھے۔ نہ صرف اُسے اس سیل میں پھینکنے والے بھول چکے تھے‘ کیتھی‘راجراور ڈیوڈ کو بھی وہ یاد نہ رہا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سب اچانک یوں آ گئے‘ جیسے بھولی ہوئی کوئی یاد آیا کرتی ہے۔

    پہلے اُسے یہ بتانے والے آئے کہ اگلے چار روز میں کسی بھی وقت اُسے اُس کے اپنے وطن کے لیے ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے لہجے کو قطعاً مہذب نہیں کیا تھا جیسا کہ امریکن اکثر کر لیا کرتے ہیں۔ اُس نے انگریزی کے اس مختصر مگر کھردرے جملے سے ’اَون کنٹری ‘کے الفاظ چن کر اُنہیں غرارہ کیے جانے سے ملتی جلتی آواز کے ساتھ دہرایا۔

    ایک تلخ سی لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی جس کے باعث اُس کے عصبی رِیشوں کی گانٹھوں کی تانت بڑھ گئی اور اسے پژمردگی رگیدنے لگی۔

    جب وہ پوری طرح نڈھال ہو چکا تو کیتھی‘راجراور ڈیوڈ آگئے۔ وہ آتے ہی اُسے ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اُسے یوں لگا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی تھی اور کَہہ نہیں پا رہی تھی۔ جب وہ کچھ کہے بغیر ایک فیصلہ کرکے چپ چاپ بیٹھ گئی تو سناٹا سارے میں گونجنے لگا۔ وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوا۔ بچے کبھی اُس کے قریب نہیں رہے تھے۔ اُس کا خیال تھا ‘ایسا اس کی مصروفیات کے سبب تھا۔ تاہم اب جووہ منھ موڑے کھڑے تھے تو یوں کہ صدیوں کا فاصلہ پوری شدّت سے محسوس ہونے لگا تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ خود نہ آئے تھے ‘اُنہیں لایا گیا تھا۔ اُنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اندر سے باہر چھلکتی اُکتاہٹ نہیں چھپائی تھی۔ اُنہیں دیکھتے ہی اُس نے افسوس کے ساتھ سوچا تھا؛ کاش کیتھی انہیں نہ لاتی۔

    اور جب ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تو وہ اسی دُکھ کی شدّت کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا؛ کاش کیتھی کبھی نہ آتی۔ نہ دیکھنے کی خواہش کے ساتھ وہ جب آخری بار اُسے دیکھ رہی تھی تو وہ کیتھی کے یوں چلے آنے کا مدعا سمجھ چکا تھا۔

    اُن کا فیملی لائر کچھ پیپرز اگلے روز شام تک بنا لایا۔ وہ چاہتا تھا کہ ڈِی پورٹ ہونے سے پہلے پہلے وہ اُن پر دَست خط کر دے۔ اُس نے ساری بات توجہ سے سنی۔ شاید وہ دست خط کر ہی دیتا کہ اس پر ذہنی دَباﺅ کا شدید دورہ پڑا۔ اس قدر شدید کہ وہ لائر پر برس پڑا۔ جب وہ چلا گیا تو اُسے خیال آیا کہ سارے پیپرز چاک کر کے اُس کے منھ پر دے مارتا تو اُس کے اَندر کا اُبلتا غصہ کچھ مدھم پڑ سکتا تھا۔ اس نے اگلی ملاقات پر ایسا ہی کرنے کے لیے سارے پیپرز سنبھال کر رَکھ لیے۔ لیکن اس کے بعد اسے ملنے کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ اسے ایئرپورٹ لے جایا گیا۔ جہاز میں سوار ہوتے ہوئے اس پر کھلا کہ ایک سو پچیس دوسرے پاکستانی بھی ڈی پورٹ کیے جارہے تھے۔

    دُنیا بھر کے میڈیا والے سب کی تصویریں اور ٹیلی رپورٹس بنارہے تھے۔ وہ سب مجرم ثابت نہیں ہوئے تھے، مگر اُنہیں امریکہ سے نکالا جا رہا تھا۔ یوں‘ کہ جیسے وہی مجرم تھے۔ ساری رپورٹس براہ راست چلائی گئیں۔ اخبارات کی زینت بنیں۔ ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز انہیں کئی روز تک وقفے وقفے سے چلاتے رہے کہ یہ ساری کارروائی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر مہم جوئی کا حصہ تھی۔

    وہ یہ سارا تماشا نہ دیکھ سکا کہ اُسے ائیر پورٹ ہی سے سر کار نے حفاظت میں لے لیا تھا۔ ایک بار پھر بے ہودہ سوالات کا ناقابل برداشت سلسلہ شروع ہوا تو ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔ یہاں والے اُن سوالات میں زیادہ دِل چسپی رکھتے تھے جو دورانِ تفتیش وہاں پوچھے جاتے رہے تھے۔ اُس نے اُنہیں صاف صاف بتا دیا کہ انہیں علی شامی نامی ایک ایسے عربی النسل شخص میں دِل چسپی تھی جو اُس کے وہاں قیام کے آغاز کے عرصے میں جیمس بلڈنگ کے اُس فلیٹ میں رہتا تھا جس کا دروازہ عین اس کے فلیٹ کے سامنے تھا۔

    علی شامی بعد ازاں سکونت بدل گیا تھا۔ اُس کا طرزِ عمل اُسے کبھی گوارا نہ لگا تھا کہ اُس کے اندر عجب طرح کی تنگ نظری ہلکورے لیتی رہتی تھی۔ پھر یہ کہ وہ اکثر اس کے نام کے توصیف سے طاﺅژ ہو جانے پر شدید طنز کیا کرتا تھا۔ بقول اُس کے وہ ہوپ لیس کیس تھا۔ جب کہ اسے علی شامی کا یوں طنز کیے چلے جانا بہت کَھلتا تھا۔ لہذا ابھی وہ کہیں اور شفٹ نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں ممکنہ حد تک دُور ہو چکے تھے۔

    بعد میں رابطے کی ضرورت تھی نہ کوئی صورت نکلی۔ جب وہ اُسے تیز روشنیوں کے سامنے بٹھا کر مسلسل جگائے رکھنے پر بھی اِس سے زیادہ کچھ نہ اُگلوا پائے تو انہوں نے سوالات روک دیے تھے، مگر تذلیل کا سلسلہ ایسا تھا کہ رُکتا ہی نہیں تھا۔ تاہم اُدھر جو ختم ہوگیا تھا تو یہ اِدھر بھی آخر کار انجام کو پہنچا۔

    جب یہ تکلیف دِہ سلسلہ تمام ہوا اور اسے جانے کی اجازت مل گئی تو وہ خلوص نیت سے چاہنے لگا تھا کہ کاش یہ سلسلہ یونہی دراز ہوئے چلا جاتا۔ ذلیل ہوتے رہنے کی عجب خواہش اب معمول کی زندگی میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ یہاں معمول کی زندگی تھی بھی کہاں؟ اس کے یتیم بھانجوں کا کہنا تھا کہ جب ہر طرف بھوک بے روز گاری اور جہالت ننگا ناچ رہی ہو تو وہاں جیو اور جینے دو کی تمنا سے دہشت اُگ ہی آیا کرتی ہے۔

    اَپنی بیوہ اکلوتی بہن کے ہاں پڑے پڑے اُسے ایک ماہ ہو گیا تو اس نے اَپنی بنائی ہوئی نامکمل تصویر کی آبی آنکھوں میں تیرتی معصومیت دیکھی جن پر گوگول کے افسانے کی تصویر کی شیطانی آنکھیں حاوی ہو گئیں تھیں۔ اس قدر حاوی کہ فرشتوں جیسا معصوم چہرہ کہیں تحلیل ہو چکا تھا۔ اُس نے ان دونوں تصویروں کا خیال جھٹک دیا تو ایک تیسری تصویر خود بخود اُس کے تصور میں اُبھرنے لگی۔ آسکر وائلڈ کے ڈورئن گرے کی وہ تصویر جو اس نے ایسے کمرے میں رَکھ دی تھی جو مقفل تھا۔ عجب تصویر تھی کہ ڈورئن کی ساری خباثتوں کو کشید کر کے خود مکروہ ہو رہی تھی، مگر ڈورئن کو ویسے ہی جواں اور خوب صورت رکھے ہوئے تھی جیسا کہ مصور ہال ورڈ نے تصویر بناتے ہوئے اُسے دیکھا تھا۔ اس تصویر کو سوچتے ہی ساری گرہیں کُھل گئیں۔

    اُس روز پہلی بار اُس نے اپنے بھانجوں کو غور سے دیکھا تھا جو ابھی ابھی نماز پڑھ کر پلٹے تھے۔ پھر وہ دِیر تک اُنہیں آنکھیں چوپٹ کیے خالی دِیدوں سے دیکھتا رہا۔ حتّٰی کہ اُس کی نظریں دُور خلا میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولنے لگیں۔ اُس کی بہن نے اُس کے چہرے پر کم ہوتے تناﺅ کو غنیمت جانا اور اُس کے سر کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے وہ بات کہہ دینا چاہی جو پہلے روز ہی وہ کہہ دینا چاہتی تھی، مگر مناسب وقت تک اُسے ٹالنے پر مجبور ہوتی رہی تھی۔ اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے اور رُک رُک کر اُس نے پوچھا:
    ”توصیف بھائی ‘ایک بات کہوں؟“
    بہن کے ملائم لہجے نے اُس کے دِل میں گداز بھر دیا تھا۔ اُس نے بہن کو دیکھا ‘محبت کی عجب پھوار تھی کہ اُس کا چہرہ کِھلے گلاب کی طرح مہکنے لگا تھا۔ کہا:
    ”کہو’’……….اور اُس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔

    ”بھائی، اَب بھابی اور بچوں کو بھی یہاں بلا ہی لیں۔

    یہ سنتے ہی جیسے اُس کے اندر سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ وہ ایک بار پھر شدید دورے کی زَد پر تھا۔ اور اُسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اُس کی ساری نسیں پھٹ جائیں گی۔ وہ اپنے آپ میں نہ رہا اور ایک گنوار کی طرح چیخ کر کہا:
    ”اُن ذلیلوں کو یہاں بلوا لوں؟ جارح قوم کی ذلیل کتیا کے ذلیل پِلوں کو؟“ پھر نہ جانے وہ کیا کیا ہذیان بکتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ وہ نڈھال ہو کر اوندھا گر گیا۔

    آنے والے روز وہ کچھ بتائے بغیرکہیں نکل گیا۔ اُس کے ہاتھ میں وہی پیپرز تھے جو اُسے لائر کے منھ پر دے مارنا تھے۔ یہ پہلا روز تھا کہ وہ اپنی خواہش سے باہر نکلا تھا۔ جب وہ واپس پلٹا توبہت ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔ اُس کے پاس سوچنے اور کرنے کو کچھ نہ رہا تو آرٹسٹ ہال ورڈ کی بنائی ہوئی وہ تصویر دھیان میں آ گئی جو بہ ظاہر خوبصورت نظر آنے والے کی ساری خباثتیں چُوس کر خود مکروہ ہو گئی تھی۔ اس تصویر کا خیال آتے ہی اُسے اِردگرد کا سارا منظر حسین دِکھنے لگا ‘ مہکتا ہوا اور رنگ برساتا ہوا۔ اگلے روز وہ عین اُس وقت اُٹھا جس وقت اُس کے بھانجے اُٹھا کرتے تھے۔

    بہن اَپنے بھائی کے اندر اِس تبدیلی کو دیکھ کر خُوش ہو رہی تھی، مگر جب اُنہیں واپسی میں دیر ہونے لگی تو اُسے ہول آنے لگے۔ اِس ہولا جولی میں وہ مسجد کے بھی کئی پھیرے لگا آئی۔ وہ تینوں وہاں نہیں تھے۔ جب وہ پلٹے تو اُس کا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔ مگر وہ اس سے بے نیاز اپنے بدنوں سے بے طرح پھوٹ بہنے والے مرغوب مشقت کے پسینے کو پونچھے جاتے تھے اور آپس میں مسلسل چہلیں کر رہے تھے۔

    یوں ہی اٹکھیلیاں کرتے کرتے وہ تینوں جب اس نامکمل تصویر تک پہنچے جس کی آنکھوں میں آبی معصومیت تیرتی تھی تو ڈاکٹر توصیف یہ دیکھ کر دَنگ رہ گیا تھا کہ وہ تو ایک مکمل تصویر تھی۔ بالکل ویسی ہی جس کے ساتھ آسکر کے کردار ڈورئن نے اپنی روح کا سودا کر لیا تھا۔ معاشرے کی ساری خباثتیں چوس لینے کا وصف رکھنے والی مکمل تصویر۔

    یہی وہ لمحہ تھا کہ اُس کے عصبی ریشوں کی ساری فالتو گانٹھیں کُھل گئیں اور جہا ں جہاں ان گرہوں کو ہونا چاہیے تھا سلیقے سے سج گئیں۔ ساری کسل مندی فاصلے پر ڈھیر پڑی تھی۔ اور وہ بھانجوں کے بازﺅوں پر مچلتی مچھلیوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا جو تیرتی گانٹھوں جیسی لگ رہی تھیں۔


    محمد حمید شاہد کی یہ کہانی "نائن الیون” کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور رویوں کی عکاس ہے

  • مادری زبان

    مادری زبان

    دروازے کے اِدھر اُدھر نظر ڈالی گھنٹی کا کوئی سوئچ نہیں تھا۔ لہٰذا ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کوئی آواز نہیں۔ پھر دوبارہ اور زور سے….. اور زور سے…..؟

    ’’کون ہے‘‘…..؟ چیختی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز اوپر سے آئی تھی۔

    میں نے گردن اٹھائی لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔

    ذرا نیچے تشریف لائیے، سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے بھی تقریباً چلّاتے ہوئے جواب دیا، لیکن میرا چلّانا بیکار ہی گیا۔

    ’’ارے کون ہے؟‘‘ پھر آواز آئی۔

    ’’جی میں….. دروازہ کھولیے ذرا… سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے ذرا اور اونچی آواز میں کہا۔ نیچے تو آئیے ‘‘

    ’’کاہے کے لیے‘‘؟

    مردم شماری کے لیے۔ زور سے بولنے کے سبب میرے گلے میں دھنسکا لگ گیا تھا، پھر بھی میں نے اپنی آنکھیں کھڑکی پر جمائے رکھیں۔

    اوپر کھڑکی سے باہر ایک خاتون نے گردن نکال کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ تو میں پھر بولی ’’برائے مہربانی نیچے تشریف لائیں گی یا میں ہی اوپر آجاؤں؟‘‘

    بغیر کوئی جواب دیے اس خاتون کا چہرہ کھڑکی سے ہٹ چکا تھا۔ کئی منٹ گزر جانے کے بعد بھی نہ کوئی جواب ملا اور نہ ہی دروازہ کھلا۔

    اپنا چہرہ اوپر کیے کیے اب میری گردن تھک چکی تھی۔ میں نے ہمت کر کے پھر دروازے پر دستک دی۔ اچانک کھٹ پٹ کی تیز آواز سنائی دی تو مجھے یقین ہوا کوئی آرہا ہے۔

    دروازے کے پٹ ایک ساتھ جھٹکے سے کھل گئے۔ ایک بچی نمودار ہوئی تقریباً سات آٹھ برس کی۔ اپنے پیروں سے کئی گنا بڑے چپل اس کے پیروں سے پیچھے نکل رہے تھے۔

    کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟

    ’’بیٹا کسی بڑے کو بھیجیے نا۔ بہت ساری معلومات لکھنا ہے۔‘‘

    ’’کوئی ہے نہیں‘‘ اس نے دو ٹوک جواب دیا۔

    ’’لیکن وہ جو ابھی کھڑکی سے بول رہی تھیں ان کو بھیجیے نا۔

    ’’کون ہیں وہ؟‘‘

    ’’امی۔‘‘

    ’’تو پھر انہیں بھیجیے بیٹا۔‘‘

    ’’وہ کام کررہی ہیں۔‘‘

    ’’تو کسی اور کو۔ کسی بڑی بہن کو، بھائی کو، ابا کو، یا پھر امی سے پوچھیے میں اوپر آجاؤں؟‘‘ ضروری کام ہے یہ بیٹا۔‘‘

    ’’جائیے پوچھ کر آئیے بیٹا پلیز، دیر ہورہی ہے۔‘‘

    وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ایک اور لڑکی زینہ طے کرتی ہوئی نیچے آئی۔ تقریباً پندرہ سولہ برس کی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’بیٹا مردم شماری کرنا ہے۔‘‘

    ’’جی کیا کرنا ہے؟‘‘

    ’’مردم شماری… سینسس… گھر کے لوگوں کے نام لکھنا ہیں۔ جَن گڑنا ہے جَن گڑنا۔‘‘

    ’’اچھا تو کرئیے۔‘‘

    ’’یہیں۔‘‘ میں نے اپنا سامان کا پلندہ سنبھالتے ہوئے اپنی بے چارگی اور پریشانی کا احساس دلانا چاہا۔

    چھوٹی لڑکی نے شاید اوپر جاکر میرے کام کی اطلاع کردی تھی۔

    ’’باجی امی بلا رہی ہیں۔‘‘ یہ وہی لڑکی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا، زینے کی اوپری سیڑھی سے جھانک کر بہن کو بلا رہی تھی۔

    موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے بیگ کندھے پر لٹکایا گُھٹنے پر رجسٹر ٹکا کر فارم پھیلا دیا اور فوراً ضروری معلومات بھرنا شروع کردیں۔

    ’’اپنے والد کا نام بتائیے بیٹا۔‘‘

    ’’امام الدین۔‘‘

    ’’عمر کتنی ہوگی؟‘‘

    وہ سوچ میں پڑگئی۔’’امی نیچے آؤ۔۔۔۔‘‘ اس نے چلاّتے ہوئے آواز لگائی۔ کئی منٹ گزر گئے نیچے کوئی نہیں آیا۔

    ’’کتنے بہن بھائی ہو؟ ‘‘میں نے اس کے باپ کی عمر کا حساب لگانے کی غرض سے دریافت کیا۔

    ’’گیارہ…..‘‘

    ’’بڑا کون ہے؟ بھائی یا بہن؟‘‘

    ’’بھائی‘‘

    ’’شادی؟‘‘

    ’’ہوگئی۔‘‘

    ’’یہیں رہتے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کتنے سال ہوئے شادی کو؟‘‘

    ’’چار پانچ سال۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’بچے کتنے ہیں بھائی کے؟‘‘

    ’’دو۔۔۔۔‘‘

    میں نے حساب لگایا کہ اگر بیس برس کی عمر میں بیٹے کی شادی ہوئی تو اس وقت بیٹا پچیس برس کا ہوا تب باپ کی عمر تقریباً پینتالیس کی تو ضرور ہوگی۔

    ’’بیٹا پینتالیس برس لکھ دوں؟‘‘

    ’’جی لکھ دیجیے۔ اچھا ابھی رک جائیے۔ امی کو بلاتی ہوں۔

    ’’تعلیم والد کی؟‘‘

    ’’جی۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے آپ کے والد کتنا پڑھے لکھے ہیں۔ آٹھویں، دسویں، بارہویں یا پھر کچھ نہیں؟‘‘

    ’’پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ ’’تھوڑا بہت بس گھریلو‘‘

    ’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    ’’ویلڈنگ۔‘‘

    ’’ملازم ہیں یا مالک؟‘‘

    ’’کیا ان کا اپنا کام ہے؟‘‘

    ’’ہاں اپنا کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’کاہے سے جاتے ہیں؟ سائیکل، موٹر سائیکل، کار یا بس؟‘‘

    ’’اسکوٹر ہے‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔

    ’’کارخانہ کہاں ہے ان کا؟‘‘

    ’’گاندھی نگر۔‘‘

    یعنی تقریباً پچیس کلومیٹر میں نے اندازہ لگایا۔ ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی اور پھر گیارہ بچوں، بہو اور ان کے بچوں سمیت تیرہ افراد کا نام اور تفصیلات جس میں دادی بھی شامل ہے، درج کرتے کرتے تقریباً آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا اور میں دروازے پر کھڑے کھڑے کبھی ایک گھٹنے پر فارم رکھتی کبھی دوسرے پر۔ کمر درد سے دہری ہوئی جارہی تھی۔ تبھی ایک خاتون غصہ سے بپھرتی ہوئی زینہ کی اوپری سیڑھی سے چلّائی۔

    ’’اری او کمبخت اوپر آ۔ کیا کررہی ہے۔‘‘

    ’’امی آبھی آئی۔ نام لکھوا رہی ہوں۔

    ’’کاہے کا نام؟ کس کا نام؟ میں نے منع کیا تھا نا؟ تیرے باپ گھر میں نہیں ہیں، واپس بھیج دے۔ ہمیں کیا پتہ کیا لکھوانا ہے۔‘‘

    ’’جی میں کوئی بھی ایسی بات نہیں لکھ رہی ہوں جس سے آپ پریشان ہوں۔ بچی سمجھدار ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ اس نے سب کچھ لکھوا دیا ہے۔ بس دو چار کالم رہ گئے ہیں۔ وہ صرف آپ ہی لکھوا سکتی ہیں۔ ذرا نیچے آجائیے۔ میں نے اپنا کام روک کر ان صاحبہ کی طرف گردن اٹھا کر بڑی نرمی سے درخواست کی۔

    ’’زبان میں کیا لکھوایا ہے تُو نے؟‘‘ خاتون نے میری بات کا جواب دیے بغیر سیڑھیاں اترتے ہوئے بیٹی سے پوچھا۔

    ’’جی اردو لکھ دیا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ذرا مسکرا کر جواب دیا۔

    ’’کیوں اردو کیوں لکھا؟ عربی لکھو‘‘ وہ بگڑ گئی۔

    ’’عربی؟ لیکن کیوں؟‘‘

    ’’زبان کا مطلب مادری زبان۔ آپ کی مادری زبان اردو ہے اردو لکھوائیے۔‘‘

    ’’اردو کیوں ہوتی؟ عربی لکھو۔‘‘ خاتون کے تیور چڑھ گئے۔

    ’’لیکن آپ بول تو اردو رہی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں بول رہے ہیں۔ مرضی ہماری۔ لیکن تم عربی لکھو۔‘‘

    ’’آپ عرب سے آئی ہیں کیا؟‘‘

    ’’عرب سے کیوں آتے؟‘‘ وہ زینے کی سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’دیکھیے اس میں درست لکھنا ہے۔‘‘ میں نے پھر مادری زبان کا مطلب بہت محبت سے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’تو پھر عربی لکھو کہہ تو دیا۔ تم کیسی پڑھی لکھی ہو۔‘‘

    آپ عربی بول کر دکھائیے مجھے، میں واقعی عربی لکھ دوں گی۔

    ’’کیوں بولیں…یں…یں۔؟‘‘ اس نے بولیں پر زیادہ زور دیا۔ ’’تمہیں نہیں لکھنا تو پھر جاؤ۔‘‘ ہمارا وقت خراب مت کرو۔

    میں نے دیکھا چھوٹے بڑے چھے سات بچے اب تک میرے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ جن میں سے کئی گلی کے تھے یا پھر شاید اسی گھرانے کے۔ ان میں سے کسی ایک لڑکی نے الحمد کی سورت پڑھنا شروع کی تو وہ فوراً چہکی۔

    ’’بولی کہ نہیں بولی۔ اب تو بولی نہ عربی؟‘‘

    ’’اچھا جناب ٹھیک ہے آپ ناراض نہ ہوں میں عربی ہی لکھ دوں گی۔‘‘ میں نے اسی میں عافیت جانی۔

    لیکن اب بساط پلٹ چکی تھی۔ وہ بری طرح بگڑ گئی۔

    ’’ہمارے پاس فالتو وقت ہے کیا؟ تمہارے نوکر ہیں کیا؟ ہمیں کیا فائدہ؟‘‘

    اس میں آپ کا بہت فائدہ ہے۔ آپ میری بات کا یقین کیجیے۔ آپ ہندوستان میں رہتی ہیں تو اس کا اندراج بھی ضروری ہے۔ آپ سمجھدار خاتون ہیں۔‘‘ میں نے انہیں سمجھایا۔

    ’’چالیس برس سے رہتے ہیں۔ کون نکالے گا ہمیں۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ خدا نہ کرے۔ میں ایسا تھوڑے کہہ رہی ہوں۔ یہ تو ملک ہے آپ کا۔ میں نے پھر سمجھانا چاہا۔

    ’’بس دو چار خانے ہی رہ گئے ہیں ابھی ہوئے۔ یہ بتائیے آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟‘‘

    ’’پہلے اردو کی جگہ عربی لکھو۔‘‘

    ’’جی لکھ رہی ہوں۔ یہ دیکھیے۔‘‘

    ’’امی اردو ٹھیک ہے۔‘‘ بیٹی بولی۔

    ’’چپ کمینی— تجھے کیا پتہ۔‘‘

    بیٹی شرمندہ سی ہوکر خاموش ہوگئی۔

    آپ نے بتایا نہیں آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟ ذرا راشن کارڈ دکھا دیجیے اپنا اور آئی کارڈ بھی۔ پہچان پتر تصویر والا۔‘‘

    ’’کیوں؟ اس کا کیا کروگی؟

    چیک کرنا ہے۔ اگر ہے تو دکھا دیجیے نہیں ہے تو بھی بتا دیجیے۔‘‘

    ’’نہیں ہے تو کیا کرو گی؟‘‘

    ’’تو میں اس فارم میں لکھ دوں گی۔ پھر آپ کا دوسرا بن جائے گا۔‘‘

    تو لکھ دو نہیں ہے۔ پتہ نہیں کہاں رکھا ہے، ہم کہیں رکھ کر بھول گئے۔

    ’’راشن کارڈ تو دکھا دیجیے۔‘‘

    ’’ان کے باپ کے پاس ہے۔‘‘

    برائے مہربانی تلاش کرلیں۔ سرکاری کام ہے یہ۔ میں انتظار کرتی ہوں۔

    ’’ارے تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو۔ نہ جانے کیا کیا لکھ لیا اور کیا کیا لکھو گی؟ اب بس بھی کرو۔ بہت ہو گیا۔‘‘

    ’’آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔ یہ آپ کا ہی کام ہے۔ آپ میری مدد کیجیے۔ آپ ہی کا فائدہ ہے۔‘‘

    ’’کیا فائدہ ہے ہمارا؟ نوکری دلوا دو گی ہمارے بچوں کو؟ بولو… گھر دلوا دو گی؟ زمین دلوا دو گی؟ فائدہ فائدہ…..‘‘ اس نے تقریباً منہ چڑاتے ہوئے کہا۔

    دیکھیے میں نے اتنا وقت لگایا ہے۔ سترہ لوگوں کے فارم بھرے ہیں۔ ان کے تمام کالم پورے کیے ہیں۔ بس ذرا سی دیر اور لگے گی۔ برائے مہربانی یہ بتائیے آپ کے کل گیارہ ہی بچے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی…..‘‘ میں نے اس کی تیوری چڑھی دیکھ کر سوال ادھورا چھوڑ دیا۔’’

    اچھا یہ بتائیے سب بچے ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک صحت مند ہیں نا؟ دیکھیے اس میں ایک خانہ ایسا ہے جس میں پوچھا ہے خدا نہ کرے کوئی بچہ پاگل یا اپاہج وغیرہ تو نہیں ہے؟‘‘ یہ سرکار بھی نہ معلوم کیا کیا پوچھتی ہے۔ میں نے اس کے غصہ سے بچنے کی غرض سے سرکار کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔

    ’’پاگل ہوگی تم! اپاہج ہوگی تم! ہمارے آدمی گنتی ہو۔ تمہارا کھاتے ہیں کیا۔ ہائے ڈالو گی۔ اتنی دیر سے کیا سترہ سترہ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ رستہ لو اپنا… اے لو… ہمارے بچوں کو اپاہج پاگل کیا کیا بنا ڈالا— پڑھی لکھ ہو تم؟ بہت ہو گیا، بس جاؤ۔ ہمیں اب نہ کچھ بتانا نہ لکھوانا جو مرضی آئے کرلو‘‘

    ’’آپ غلط سمجھ رہی ہیں محترمہ۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘

    ’’سمجھ گئے ہم تمہارا مطلب۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’چل ری چل اوپر….. یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ منع کیا تھا میں نے۔۔۔۔‘‘ اس نے بیٹی کو پھٹکارا۔

    ’’سنیے تو— میری بات تو سنیے….. اس نے دھڑام سے میرے منہ پر دروازے کے دونوں پٹ بند کردیے۔ گھٹنے سے رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا۔ اور کاغذات اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ کچھ اُڑ کر نالی میں چلے گئے۔ مارے غصے کے میرا سر بھنّانے لگا۔ دل چاہا کہ سارے کاغذات پھاڑ کر….. لیکن میں ایسا کچھ نہیں کرسکی کیوں کہ معاملہ مادری زبان کا تھا!

    اس افسانے کی خالق نگار عظیم ہیں، مادری زبانوں کے عالمی دن پر یہ انتخاب آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

  • کراچی: فریزر سے ملی لاش، کہانی میں نیا موڑ آگیا

    کراچی: فریزر سے ملی لاش، کہانی میں نیا موڑ آگیا

    کراچی: شہر قائد کے علاقے گلشن اقبال میں فلیٹ سے 2 روز قبل خاتون کی لاش ملی تھی، پولیس نے خاتون کے بیٹے اور بیٹی کے فیلٹ میں فرج سے گوشت کے ٹکرے برآمد کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں فلیٹ سے ملنے والی خاتون کی لاش کے بعد اس کے بیٹے اور بیٹی کے فلیٹ میں فرج سے گوشت کے ٹکرے ملے ہیں، فرج میں گوشت کے ٹکڑے انسان کے ہیں یا جانور کے ہیں، چیک کرا رہے ہیں۔

    پولیس نے بتایا کہ گوشت کے ٹکڑوں کو ریسکیو کے ذریعے عباسی اسپتال بھجوا دیا گیا ہے، رپورٹ کے بعد ہی واضح ہوگا گوشت کےٹکڑے انسان کے ہیں یا جانور کے ہیں۔

    پولیس کے مطابق دونوں بہن بھائی نے 4 اکتوبر 2019 کو اکٹھے زہر پیا تھا، قیصر فوری مر گیا تھا، شگفتہ کو الٹی ہونے پر زہر کا اثر کم ہو گیا تھا، وہ بھی 29 جنوری کوفوت ہو گئی تھی۔

    اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کے لیے نمونے حاصل کر لیے گئے، گوشت کے حاصل کردہ نمونے ڈی این اے کے لیے بھیجے جائیں گے۔

    کراچی، گلشن اقبال سے خاتون کی لاش ملنے کا واقعہ، پولیس نے فلیٹ کا تالہ توڑ دیا

    یاد رہے کہ دو روز قبل کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے خاتون کی 12 سال پرانی لاش برآمد ہوئی تھی جس کے بعد پولیس نے فلیٹ کا تالہ توڑ دیا تھا۔

  • شہزادہ تاجُ الملوک اور گلِ بکاؤلی

    شہزادہ تاجُ الملوک اور گلِ بکاؤلی

    ایک بادشاہ زینُ الملوک کے پانچویں بیٹے کی پیدائش سے پہلے نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔

    بہرحال، بچے کا نام تاج الملوک رکھا جاتا ہے۔ ادھر طبیب بادشاہ کا اندھا پن کو دور کرنے کے لیے ایک پھول تجویز کرتے ہیں جسے گُلِ بکاؤلی کہتے تھے۔ وہ پھول پریوں کی شہزادی کے باغ میں مل سکتا تھا۔

    کہانی کے مطابق بعد میں یہی نوجوان شہزادہ تاج الملوک گل بکاؤلی حاصل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور اس کے لیے پریوں کی شہزادی جس کا نام بکاؤلی ہے، کے باغ میں داخل ہو جاتا ہے۔ شہزادہ وہاں سے یہ پھول چُرا لیتا ہے۔

    ادھر بکاؤلی اپنے پھول کی تلاش میں نکلتی ہے اور شہزادے تک پہنچ جاتی ہے جس نے دراصل اس کے باغ میں گھس کر چوری کی تھی، لیکن شہزادے پر پہلی ہی نظر ڈالتے ہی وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔

    کہانی آگے بڑھتی ہے جس میں بکاؤلی کی ماں اپنی بیٹی کو ایک آدم زاد کے ساتھ پاکر غضب ناک ہو جاتی ہے اور شہزادے کو زیرِ زمین قید کر دیتی ہے، لیکن اس کی ایک وفادار اس آدم زاد سے متعلق غلط فہمی دور کردیتی ہے اور آخر میں تاج الملوک اور بکاؤلی کی شادی ہو جاتی ہے۔

    یہ تحیر آمیز اور دل چسپ قصہ منثور نہیں بلکہ منظوم ہے۔ اس کلام کو ‘‘مثنوی’’ کہا جاتا ہے، یعنی ایک طویل نظم جس میں کوئی قصّہ یا کسی واقعے کو بیان کیا جاتا ہے۔

    یہ چند سطری خلاصہ دیا شنکر نسیمؔ کی مشہور مثنوی کا ہے۔

    ان کا تعلق کشمیری خاندان سے تھا۔ 1811 میں پیدا ہونے والے دیا شنکر کے استاد خواجہ حیدر علی آتش تھے۔ 1845 میں اس مشہور مثنوی کے خالق دنیا سے رخصت ہوگئے۔