Tag: کہانیاں

  • میٹھے جوتے

    میٹھے جوتے

    ننھّے بھائی بالکل ننھّے نہیں بلکہ سب سے زیادہ قد آور اور سوائے آپا کے سب سے بڑے ہیں۔ ننھے بھائی آئے دن نت نئے طریقوں سے ہم لوگوں کو الّو بنایا کرتے تھے۔

    ایک کہنے لگے، ’’چمڑا کھاؤگی؟‘‘

    ہم نے کہا، ’’نہیں تھو! ہم تو چمڑا نہیں کھاتے۔‘‘

    ’’مت کھاؤ!‘‘ یہ کہہ کر چمڑے کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ لیا اور مزے مزے سے کھانے لگے۔ اب تو ہم بڑے چکرائے۔ ڈرتے ڈرتے ذرا سا چمڑا لے کر ہم نے زبان لگائی۔ ارے واہ، کیا مزے دار چمڑا تھا، کھٹا میٹھا۔ ہم نے پوچھا، ’’کہاں سے لائے ننھّے بھائی؟‘‘

    انہوں نے بتایا، ’’ہمارا جوتا پرانا ہو گیا تھا، وہی کاٹ ڈالا۔‘‘

    جھٹ ہم نے اپنا جوتا چکھنے کی کوشش کی۔ آخ تھو، توبہ مارے سڑاند کے ناک اڑ گئی۔

    ’’ارے بے وقوف! یہ کیا کر رہی ہو؟ تمہارے جوتے کا چمڑا اچھا نہیں ہے اور یہ ہے بڑا گندا۔ آپا کی جو نئی گرگابی ہے نا (ایک قسم کی جوتی جو فیتوں کے بغیر پنجوں تک ہوتی ہے)، اسے کاٹو تو اندر سے میٹھا میٹھا چمڑا نکلے گا۔‘‘ ننھے بھائی نے ہمیں رائے دی۔

    اور بس اس دن سے ہم نے گرگابی کو گلاب جامن سمجھ کر تاڑنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا۔

    عید کا دن تھا۔ آپا اپنی حسین اور مہ جبین گرگابی پہنے، پائنچے پھڑکاتی، سویاں بانٹ رہی تھیں۔ آپا ظہر کی نماز پڑھنے جونہی کھڑی ہوئیں، ننھے میاں نے ہمیں اشارہ کیا۔

    ’’اب موقع ہے، آپا نیت توڑ نہیں سکیں گی۔‘‘

    ’’مگر کاٹیں کاہے سے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

    ’’آپا کی صندوقچی سے سلمہ ستارہ کاٹنے کی قینچی نکال لاؤ۔‘‘

    ہم نے جونہی گرگابی کا بھورا ملائم چمڑا کاٹ کر اپنے منہ میں رکھا، ہمارے سر پر جھٹ چپلیں پڑیں۔ پہلے تو آپا نے ہماری اچھی طرح کندی(مار پیٹ) کی، پھر پوچھا ’’یہ کیا کر رہی ہے؟‘‘

    ’’کھا رہے ہیں۔‘‘ ہم نے نہایت مسکین صورت بنا کر بتایا۔

    یہ کہنا تھا سارا گھر ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ہماری تکا بوٹی ہو رہی تھی کہ ابا میاں آ گئے۔ مجسٹریٹ تھے، فوراً مقدمہ مع مجرمہ اور مقتول گرگابی کے روتی پیٹتی آپا نے پیش کیا۔ ابا میاں حیران رہ گئے۔ ادھر ننھے بھائی مارے ہنسی کے قلابازیاں کھا رہے تھے۔ ابا میاں نہایت غمگین آواز میں بولے، ’’سچ بتاؤ، جوتا کھا رہی تھی؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ہم نے روتے ہوئے اقبالِ جرم کیا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میٹھا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’جوتا میٹھا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ہم پھر رینکے۔

    ’’یہ کیا بک رہی ہے بیگم؟‘‘ انہوں نے فکر مند ہو کر اماں کی طرف دیکھا۔

    اماں منہ بسور کر کہنے لگیں۔ ’’یا خدا! ایک تو لڑکی ذات، دوسرے جوتے کھانے کا چسکا پڑگیا تو کون قبولے گا۔‘‘

    ہم نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی چمڑا سچ میں بہت میٹھا ہوتا ہے۔ ننھے بھائی نے ہمیں ایک دن کھلایا تھا، مگر کون سنتا تھا۔

    ’’جھوٹی ہے۔‘‘ ننھے بھائی صاف مکر گئے۔ بہت دنوں تک یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ خود ہماری عقل گم تھی کہ ننھے بھائی کے جوتے کا چمڑا کیسا تھا جو اتنا لذیذ تھا۔

    اور پھر ایک دن خالہ بی دوسرے شہر سے آئیں۔ بقچیہ کھول کر انہوں نے پتوں میں لپٹا چمڑا نکالا اور سب کو بانٹا۔ سب نے مزے مزے سے کھایا۔ ہم کبھی انہیں دیکھتے، کبھی چمڑے کے ٹکڑے کو۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ جسے ہم چمڑا سمجھتے تھے، وہ آم کا گودا تھا۔ کسی ظالم نے آم کے گودے کو سکھا کر اور لال چمڑے کی شکل کی یہ ناہنجار مٹھائی بنا کر ہمیں جوتے کھلوائے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر اور افسانہ نگار عصمت چغتائی کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی)

  • آخری جماعت (فرانسیسی ادب سے انتخاب)

    آخری جماعت (فرانسیسی ادب سے انتخاب)

    الفونزے ڈاؤڈٹ (Alphonse Daudet) نے افسانے اور ناول بھی لکھے، شاعری بھی کی۔ فرانس کا یہ ادیب اور شاعر 1897ء میں‌ چل بسا تھا۔

    ڈاؤڈٹ کی ایک کہانی کا اردو ترجمہ ہم یہاں بعنوان آخری جماعت نقل کررہے ہیں۔ اسے منور آکاش نے اس قالب میں ڈھالا ہے۔ کہانی پڑھیے۔

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختۂ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

  • میتھیو کی قبر (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    میتھیو کی قبر (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے، ایک سوداگر پڑوسی ملک سے واپس اپنے گھر لوٹ رہا تھا۔ وہ کئی مہینوں بعد اپنے گھر جا رہا تھا اور اسی لیے وہ بہت خوش بھی تھا۔

    سوداگر جس چھکڑے پر سفر کر رہا تھا، وہ تجارتی سامان سے لدا ہوا تھا۔ لیکن سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی تھی اور گھوڑے چھکڑے کو بڑی مشکل سے کھینچ پا رہے تھے۔ وہ جس جگہ تھا، وہاں ایک اور راستہ جنگل میں سے بھی گزرتا تھا۔ سوداگر کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اس لیے اس نے جنگل والے راستے کا اںتخاب کیا۔

    اندھیری رات تھی۔ نہ چاند، نہ ستارے۔ سوداگر کی بدقسمتی تھی کہ جنگل میں ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ بارش ہونے لگی۔ ایک تو اندھیرا دوسرے کیچڑ بھی ہوگئی۔ گھوڑے بڑی مشکل سے ایک جگہ سے چھکڑا کھینچ کر نکالتے تو وہ تھوڑی دور جا کر دوسری جگہ پھنس جاتا۔ بجلی کڑک رہی تھی، بادل گرج رہے تھے کہ اچانک چھکڑا ایک گڑھے میں پھنس گیا۔ پہیے آدھے سے زیادہ پانی میں ڈوب گئے تھے اور باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی تھی۔ سامان قیمتی تھا۔ سوداگر اُسے چھوڑنا بھی نہ چاہتا تھا۔ اس نے یہ کیا کہ گھوڑوں کو کھولا، جو سامان ان پر لادا جا سکتا تھا، لاد دیا، جو خود اٹھا سکتا تھا وہ اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا اور آگے چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ اپنے آپ سے کہنے لگا: ”میں بھی تھکا ہوا ہوں، گھوڑے بھی تھک چکے ہیں۔ آخر ہم اس کالی رات میں کہاں تک چلیں گے۔ اور کوئی جنگلی جانور ہمیں کھا گیا تو کسی کو پتا بھی نہ چلے گا۔ اگر کوئی جن بھوت، شیطان یا انسان مجھے اس خوف ناک جنگل سے باہر نکال دے تو میں اپنا آدها سامان اسے دے دوں گا۔“

    جوں ہی یہ بات اُس کے منھ سے نکلی، بادل زور سے گرجا، بجلی زور سے کڑکی اور پھر بادل کے پیچھے سے چاند نکل آیا ۔ چاند کی روشنی میں سوداگر نے دیکھا کہ راستے کے ایک طرف ایک چھوٹی سی عجیب و غریب مخلوق کھٹری ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے قدر کا انسان تھا، جس کے سر پہ لمبوتری ٹوپی تھی۔ پاؤں میں ایسے جوتے تھے جن میں سے اُس کے نوکیلے پاؤں باہر نکلے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ اس کا چہرہ خوف ناک تھا۔ آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور ہاتھ ایسے تھے جیسے شیر کے پنجے ہوں۔

    اب تو سوداگر بہت گھبرایا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ ضرور کوئی جن یا بھوت ہے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہووت۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ چھلاوا آگے آیا اور گرجتی ہوئی آواز میں بولا: ”تمہاری خواہش کے مطابق میں تمہیں جنگل سے نکال کر گھر کے راستے پر ڈال سکتا ہوں۔ لیکن ایک شرط ہے ۔“

    ”کیسی شرط ۔۔۔۔“ سوداگر گھبرا کر بولا۔

    چھلاوا بولا: ”تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ اگر تم گھر پہنچ کر وہاں کوئی ایسی چیز دیکھو جو اس سے پہلے تمہارے گھر میں نہیں تھی اور جس کا تمہیں اس وقت پتا نہیں ہے، تو وہ میری ہو جائے گی اور میں جب چاہوں اسے تم سے لے لوں گا۔“

    سوداگر نے بہت غور کیا، خوب خوب سوچا لیکن اُس کے ذہن میں ایسی کوئی چیز نہ آئی جو اس کی غیر حاضری میں گھر میں آ سکتی ہو۔

    وہ بولا: ”ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔“

    یہ بات سنتے ہی چھلاوے نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا جس پر شرطیں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر اُس نے سوداگر کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں اپنا ناخن مارا۔ خون نکلا تو اس نے اُس میں پَر ڈبویا اور سوداگر کو کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا۔

    اس کام سے فارغ ہو کر چھلاوے نے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز جنگل میں گونجتے ہی ہر طرف اسی کی شکل کے چھلاوے نظر آنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے سوداگر کا تمام سامان، چھکڑا، گھوڑے جنگل کے پار صاف ستھرے راستے پر پہنچا دیے۔ اس کے بعد وہ سب غائب ہو گئے۔ ان کے غائب ہوتے ہی جنگل میں جگہ جگہ آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور پھر ایسی آوازیں آئیں جیسے بہت سے لوگ قہقہے لگا رہے ہوں۔

    سوداگر نے اس علاقے سے نکلنے میں ہی خیریت سمجھی اور چھکڑے کو تیز تیز ہانکتا ہُوا بہت دور نکل گیا۔ یہاں اس نے ایک کھلے میدان میں ڈیرا ڈال دیا تاکہ آرام کر سکے۔ صبح اٹھا تو موسم صاف تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ وہ گھر کی طرف چل دیا۔

    چند دن کے سفر کے بعد، جس میں اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا، سوداگر اپنے شہر کراکو کے باہر پہنچ گیا۔ جب وہ گھر کے پاس پہنچا تو اس کی بیوی بھاگی ہوئی آئی اور اپنے شوہر کو بچے کی پیدائش کی مبارک دی جو اس کی غیر حاضری میں پیدا ہوا تھا۔ سوداگر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور بچے کو سینے سے لگا لیا۔

    اب جو اُس نے بیوی کو سفر کے حالات سنائے اور اُس معاہدے کا خیال آیا جو وہ جنگل میں چھلاوے سے کر آیا تھا تو اس پر بجلی گر پڑی اور اس نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ انجانے میں اپنے معصوم بچے کا سودا کر بیٹھا ہے۔ جب اُس کی بیوی نے یہ سنا کہ اس بچے کو چھلاوا لے جائے گا تو اسے اتنا غم ہوا کہ اس نے اپنے بال نوچ ڈالے۔ وقت گزرتا گیا۔ اس دوران میں اور تو کچھ نہ ہو البتہ جب کبھی وہ بچے کو گھمانے پھرانے کے لیے باہر جانے کا ارادہ کرتے تو ایک دم بادل گھر آتے، بارش ہونے لگتی، بجلی کڑکنے لگتی اور وہ گھبرا کر بچّے کو واپس گھر لے آتے۔

    بچہ بہت خوب صورت اور صحت مند تھا۔ اس کے ساتھ ہی ذہین بھی تھا اور درس گاہ کے امتحان میں ہمیشہ اوّل آتا تھا۔ اسے دیکھ کر کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ اس پر کسی چھلاوے کا سایہ ہے۔ ماں باپ نے اس کا نام نکولس رکھا تھا۔

    جب نکولس جوان ہوا تو اُسے احساس ہوا کہ ماں باپ ہر وقت چُپ چُپ سے رہتے ہیں۔ ہنسنا تو بڑی بات ہے، کبھی مسکراتے بھی نہیں۔ آخر اس نے ایک دن اپنے باپ سے پوچھا: ”ابّا جان، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آپ کو اور امّی کو کبھی ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا۔ کیا بات ہے؟ آپ ہنستے کیوں نہیں ؟ آخر آپ کو کیا غم ہے ؟“

    باپ اپنے بیٹے کو کچھ بتانا نہ چاہتا تھا۔ اس نے ہوں ہاں کر کے اُسے ٹالنا چاہا تو وہ بولا:
    ” جب کبھی میں جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ کبھی آگے سے گزرتا ہے کبھی پیچھے سے۔ کبھی درختوں سے آواز آتی ہے، نکولس، تمہارا پڑھنا لکھنا سب بیکار ہے تمہیں تو آخر کار وہی کچھ کرنا ہے جو میں تمہیں سکھاؤں گا۔“

    یہ سُن کر اس کا باپ رونے لگا۔ جب ذرا طبیعت سنبھلی تو بولا ”بیٹے میں وہ بدنصیب ہوں جس نے تمہاری زندگی کے راستوں میں کانٹے بو دیے ہیں۔ تم ابھی بچّے ہی تھے کہ میں نے انجانے میں تمہارا سودا ایک چھلاوے سے کر لیا تھا۔“ یہ کہہ کر اس نے اُس رات والا تمام قصّہ اُسے کہہ سنایا۔ اس کے بعد پھر رونے لگا۔

    بیٹے سے باپ کا رونا دیکھا نہ گیا۔ وہ بولا: ”ابّا جان آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ میں نے جنگلوں میں گھوم پھر کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ میں اس چھلاوے سے وہ کاغذ جس پر آپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے، چھین کر لے آؤں گا۔ آپ اور امی اپنا دل خراب نہ کریں۔ خوش رہیں۔“
    نکولس نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنے کے لیے اپنے والدین کو خدا حافظ کہہ کے گاؤں سے چلا گیا۔ ابھی زیاره دور نہیں گیا تھا کہ اُسے ایک ایسا بوڑھا ملا جس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے اور چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔

    نکولس نے سلام کیا تو بوڑھے نے پُوچھا: ”اچھّے بیٹے، کہاں جا رہے ہو؟“

    نکولس بولا: ”میں اُس چھلاوے کی تلاش میں نکلا ہوں جس نے میرے باپ کو دھوکا دے کر اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اُس سے ایک کاغذ پر دستخط کروا لیے تھے۔“

    ”تو ایسا کرو۔۔۔“ بوڑها بولا۔ ” اسی راستے پر چلتے جاؤ۔ جب سُورج چھپ جائے تو سب سے پہلی جو جان دار چیز نظر آئے، اُسی کے پیچھے پیچھے چل دینا۔ تمہارے من کی مراد پوری ہو گی۔“

    نکولس اسی راستے پر چلتا گیا۔ جب شام ہوئی اور سورج ڈوبنے لگا تو بڑا پریشان ہوا کہ اب کِدھر کو جائے؟ ابھی تھوڑا سا اُجالا باقی تھا کہ ایک بھورے رنگ کی چھوٹی سی چوہیا اچانک کہیں سے نکلی اور نکولس کے آگے آگے بھاگنے لگی۔ نکولس کو بوڑھے کی بات یاد آ گئی۔ وہ چوہیا کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب بالکل اندھیرا ہو گیا تو نکولس نے سوچا کہ اب آرام کرنا چاہیے۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر چوہیا بھی رُک گئی ہے۔ رات کو پہلو بدلتے ہوئے نکولس کی آنکھ کھلتی تو اسے دو موتی سے چمکتے نظر آتے۔ یہ چوہیا کی آنکھیں تھیں جو لگاتار نکولس کو گھور رہی تھیں۔

    اب ہوتا یہ کہ اگلی صبح کو نکولس اس چوہیا کے پیچھے چلتا اور وہ آگے اور اسی طرح وہ ہر شام کو کسی جگہ رک جاتے تھے۔ نکولس روٹی کھاتا تو اس کے ذرے زمین پر گر جاتے۔ وہ چوہیا کھا لیتی۔ وہ کبھی کبھی آنکھوں سے اوچھل بھی ہو جاتی ۔ لیکن جب بھی نکولس راستہ بھول جاتا اور سوچنے لگتا کہ اب کِس طرف جانا ہے تو چوہیا فوراً بھاگتی ہوئی آ جاتی۔
    اب راستہ اونچا ہوگیا تھا۔ اس کے دونوں طرف اونچی نیچی پہاڑیاں، ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ سبزے کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ بڑی خوف ناک جگہ تھی۔ چرند، پرند، اِنسان کوئی بھی جاندار نظر نہ آتا تھا۔ نیچے لوگوں نے اسے بتایا تھا کہ اُوپر پہنچو تو میتھیو کے غار سے بچ کے رہنا۔ اس کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا تھا کہ میتھیو ایک بدمعاش ہے اور اس پہاڑی پر رہتا ہے اور لوگوں کو جان سے مار ڈالتا ہے۔ چوہیا نکولس کو راستہ دکھا رہی تھی اور نکولس تھک ہار کر آرام کرنے کی سوچ رہا تھا کہ دُور ایک ٹمٹاتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ وہ اُسی سمت چل دیا۔ یہ راستہ چٹانوں کے اندر ایک غار تک جاتا تھا۔ غار کے باہر دروازہ تھا۔

    نکولس نے دروازے پر دستک دی۔ کافی دیر بعد ایک بڑھیا باہر نکلی، جس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔ نکولس نے جھانک کر اندر دیکھا تو اسے لکڑیاں جلتی ہوئی نظر آئیں۔

    نکولس نے بڑھیا کو سلام کیا تو وہ بولی: ”لڑکے یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ، ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں۔ میرا ظالم بیٹا میتھیو واپس آنے والا ہے۔ وہ اپنے کوڑے سے تمہاری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ تم ابھی نوجوان ہو اور اچھے گھرانے کے نظر آتے ہو۔ جاؤ، جلدی کرو۔ یہاں سے بھاگ جاؤ۔“

    ”اچھی امّاں“ نکولس بولا: ”میں اتنا تھکا ہوا ہوں کہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا۔ آپ مجھے یہاں رات گزارنے کی اجازت دے دیں۔ آگے جو میری قسمت۔“

    بڑھیا نے نکولس کو لکڑیوں کے ڈھیر کے نیچے چھپا دیا۔ آدھی رات کے قریب میتھیو واپس آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں سیب کے درخت کا کوڑا تھا۔ غار کے اندر داخل ہوتے ہی اُس نے ناک اُوپر کر کے کچھ سونگھا اور پھر گرج کر بولا: ” بڑھیا! مجھے انسانی جسم کی بُو آ رہی ہے۔ بتا، کہاں چھپا رکھا ہے تُو نے اُس کو؟“

    بڑھیا نے بہت کوشش کی لیکن میتھیو کو ٹال نہ سکی اور جب میتھیو نے خود ہی تلاش کرنا شروع کر دیا تو بڑھیا نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کو سب کچھ بتا دے۔ اس نے میتھیو کو بتایا کہ کِس طرح ایک نوجوان لڑکا آیا تھا اور اس نے اُسے پناہ دی ہے۔ یہ سنتے ہی نکولس لکڑیوں کے نیچے سے نکل آیا۔ میتھیو نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا اور گرج کر بولا: ”کون ہو تم ؟ کیا لینے آئے ہو یہاں؟“

    نکولس نے ساری بات کہہ سنائی تو میتھیو نے کہا: ” میں زندگی میں پہلی بار رحم کھا رہا ہوں، اور تمہیں ایک شرط پر زندہ چھوڑتا ہوں۔ جس راستے پر تم جا رہے ہو یہ تمہیں سیدھا اُسی چھلاوے کے علاقے میں لے جائے گا جس کی تلاش میں نکلے ہو۔ میں نے بھی اپنی نوجوانی میں اُس سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ تمہارے والد نے یہ معاہدہ انجانے میں کیا تھا، لیکن میں نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ اب جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، میری پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ خدا جانے وہ کس دن مجھے لینے آجائے۔ تمہیں اس شرط پر زندہ چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ تو واپسی میں ادھر سے ہو کر جانا اور مجھے بتانا کہ میرے متعلق چھاوے کے کیا ارادے ہیں۔“

    نکولس نے میتھیو کی شرط مان لی۔ پھر وہ آرام سے سو گیا۔ صبح اٹھا تو بڑھیا نے اس کا تھیلا کھانے کی چیزوں سے بھر دیا اور وہ پھر سفر پر روانہ ہوگیا۔ چوہیا اسی طرح اُس کی راہ نمائی کر رہی تھی۔

    اب راستہ اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں کہیں اُوپر کو جاتیں اور کہیں ڈھلان کی صورت میں نیچے کو۔ ارد گرد کی پہاڑیوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ برف کے تودے پھسل پھسل کر گرتے تو نکولس بڑی مشکل سے جان بچاتا۔ وہ اِس سرد پہاڑی علاتے سے گزر گیا تو آگے گرم علاقہ شروع ہو گیا۔ یہاں اُس نے ابلتے پانی کا ایک سمندر دیکھا۔ مختلف ملکوں کے پرندے یہاں سردیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ یہاں اُس نے ایک آنکھ والے آدم خوروں کو بھی دیکھا جن کے پیر بیلچوں جیسے تھے۔

    نکولس یہ بات سمجھ چکا تھا کہ کوئی خاص طاقت اسے اِن سب مصیبتوں سے بچائے لیے جارہی ہے۔ یہاں ہوا میں جگہ جگہ آگ کے شعلے اُڑ رہے تھے اور بہت بری بُو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ ب وہ جنوں، پریوں اور چھلاوں کے علاقے میں آ گیا ہے۔ دلدلوں میں سے درختوں کے جلے ہوئے تنے اُچھل اُچھل کر باہر گر رہے تھے۔ جنگل سانپوں، بچھّوؤں سے بھرے پڑے تھے۔ سو سو سروں والے اژدھے دانت نکالے پھر رہے تھے۔ آخر کچھ آگے جا کر نکولس کو چھلاوے کا محل نظر گیا۔ یہاں زمین صاف اور ہموار تھی اور اس پر گھاس اُگلی ہوئی تھی۔

    نکولس محل میں داخل ہو گیا۔ وہ جس طرف بھی جاتا دروازے خود بخود کھل جاتے۔ چوہیا اب بھی اُسے راستہ دکھا رہی تھی۔ جب وہ آخری دروازے میں سے ہو کر بڑے کمرے میں داخل ہوا تو اسے میز پر وہ کاغذ پڑا نظر آیا جس پر اس کے باپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔
    اس نے جھپٹ کر کاغذ اٹھایا اور اِدھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کمرے میں لمبی لمبی میزوں پر عمده عمده لذیذ کھانے چُنے ہوئے تھے۔ لیکن بھوکا ہونے کے باوجود اُس نے اُن کی طرف دھيان نہ دیا۔ اُس نے کاغذ جیب میں ڈالا تو اُسے وه وعده ياد آ گیا جو اُس نے میتھیو سے کیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں جانا چاہیے جب تک میں چھلاوے سے میتھیو کے بارے میں نہ پوچھ لوں۔

    اس کا یہ سوچنا تھا کہ چوہیا کمرے میں ایک جگہ بار بار گھومنے لگی۔ نکولس نے اُس جگہ تہ خانہ دیکھا۔ نیچے سیڑھیاں جاتی تھیں۔ وہ نیچے اُتر گیا۔ یہاں گھپ اندھیرا تھا۔ پہلے پہل تو اُسے کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اچانک ابلتے ہوئے تیل کی بُو آئی، جیسے پکوڑے تلنے والی کڑاہی سے آتی ہے۔ وہ کمرے کے دائیں کونے کی طرف گیا تو اس سے آگے ایک اور کمرا تھا اور اس میں روشنی ہو رہی تھی۔ نکولس وہاں گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑی کڑاہی میرا تیل کھول رہا ہے اور پاس ہی دیوار پر لکھا ہے:

    ”میتھیو کی قبر۔“

    نکولس کو بہت دکھ ہوا اور وہ فوراً ہی محل سے باہر نکل آیا۔ اب چوہیا اس کے آگے آگے نہ تھی۔ بلکہ جوں ہی وہ محل سے نِکلا اس نے ایک اُلّو نے اس چوہیا کو پنجوں میں پکڑ رکھا تھا۔
    واپسی میں اُسے سب کچھ بدلا ہوا نظر آیا۔ نہ وہ آدم خور، نہ سانپ، نہ دلدلیں اور نہ وہ پہاڑیاں۔ وہ بغیر کسی دقّت کے میتھیو کے غار تک پہنچ گیا۔ یہاں اب وہ بڑھیا نہ تھی۔ میتھیو رات کو آیا اور نکولس نے اُسے بتایا کہ چھلاوا اُس کو تیل میں تل کر کھانے کا انتظام کر رہا ہے تو اُس نے گھبرا کر کہا ”اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟“

    نکولس بولا ”یہ جو تمہارا کوڑا ہے نا، یہ خونی کوڑا جس سے تُم نے نہ جانے کتنے لوگوں کو قتل کیا ہے، اِسے زمین میں بو دو۔ پھر اسے ایک چشمے کے پانی سے سینچو، لیکن چشمے سے پانی کِسی برتن میں نہیں، منھ میں بھر کر لانا ہے اور گھٹنوں کے بل چل کر آنا ہے۔ جب تک یہ کوڑا پھوٹ نہ نکلے اور اس میں شاخیں اور پتّے نکل نہ آئیں، اسے اسی طرح پانی دیتے رہنا۔ تمہاری مصیبت ٹل جائے گی۔“

    میتھیو کو یہ ہدایت دے کر نکولس اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی کیوں کہ ان کا بیٹا بڑی بہادری کا کام کر کے آیا تھا۔ جب نکولس کے بوڑھے والدین فوت ہوگئے تو اس نے ان کی چھوڑی ہوئی تمام دولت غریبوں میں بانٹ دی اور خود دنیا چھوڑ کر جنگل میں چلا گیا۔ جنگل سے اُسے بچپن سے پیار تھا۔

    ایک دن وہ ذرا دور نکل گیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پھولوں کی خوش بُو پھیلی ہوئی تھی۔ نکولس کے ساتھ ایک گڈریا لڑکا بھی تھا۔ اس نے سیب کے ایک درخت کے نیچے گرے ہوئے سیب اکھٹے کر لیے۔ لیکن جُوں ہی اس نے درخت کی شاخ پر سے سیب توڑنا چاہا تو ایک آواز آئی: ”یہ پھل مت توڑو۔ یہ درخت تم نے نہیں بویا تھا۔“ گڈریا یہ سن کر خوف زدہ ہو گیا اور اس نے یہ بات نکولس کو بتائی۔ نکولس کو اپنی جوانی کا واقعہ یاد آگیا، بھاگ کر سیب کے درخت کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ درخت کا تنا دراصل خود میتھیو تھا اور اس کے بازو، داڑھی کے بال اور سر کے بال ٹہنیوں اور پتّوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

    نکولس کو دیکھتے ہیں وہ چلّایا: ”تم نے مجھے سیب کے درخت کی لکڑی کا کوڑا زمین میں دبانے کو کہا تھا۔ میں نے ایسا ہی کیا، اسے پانی دیتا رہا اور ایک دن خود ہی درخت بن گیا۔“
    نکولس درخت کے تنے کے پاس بیٹھ گیا اور میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا ایک ایک کر کے اقرار کرنا شروع کر دیا۔

    جب وہ اپنے کسی گناہ کی معافی مانگتا، درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر گرتا اور لڑھک کر دور چلا جاتا۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا اقرار کرلیا اور کہا کہ وہ اپنے کیے پر سخت نادم ہے تو نکولس نے دیکھا کہ درخت کے تمام سیب گرچکے ہیں اور وہ درخت خاک ہوچکا ہے۔ خاک کے اس ڈھیر میں سے ایک سفید کبوتر نکل کر آسمان کی طرف پرواز کرگیا اور ایک آواز آئی: ”اب میں آزاد ہوں۔ اب چھلاوا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔“

    (کتاب پولینڈ کی کہانیاں سے انتخاب، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • تکلی کی کہانی (ہندوستانی لوک ادب سے انتخاب)

    تکلی کی کہانی (ہندوستانی لوک ادب سے انتخاب)

    سورگ میں ایک دیوی رہتی تھی۔ اس کا نام پھرکی تھا۔ وہ بُنائی کا کام اتنی ہوشیاری سے کرتی تھی کہ کچھ نہ پوچھیے۔ جس وقت ہاتھ میں تیلیاں لے کر بیٹھتی تھی بات کی بات میں بڑھیا سے بڑھیا سوئٹر، بنیان، مفلر وغیرہ بُن کر رکھ دیتی تھی۔ اس لئے دور دور تک اس کی تعریف ہو رہی تھی۔

    پھرکی کی شہرت ہوتے ہوتے رانی کے کانوں تک پہنچی۔ وہ اپنی تمام بچیوں کو بُنائی کا کام سکھانا چاہتی تھی اور بہت دن سے ایک ایسی ہی ہوشیار دیوی کی تلاش میں تھی۔ اس نے اپنی سہیلیوں سے کہا۔’’سنتی ہوں پھرکی بہت ہوشیاری سے بنائی کا کام کرتی ہے۔ کہو تو اسے بلا لوں۔ وہ یہیں رہے گی اور راج کماریوں کو بنائی سلائی سکھلایا کرے گی۔‘‘

    ایک سہیلی کچھ سوچ کر بولی۔’’اس بات کا کیا بھروسہ کہ سلائی بنائی کے کام میں اکیلی پھرکی ہی سب دیویوں سے زیادہ ہوشیار ہے۔ میری بات مانیے ایک جلسہ کر ڈالیے۔ جس میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سب دیویاں آئیں اور اپنا اپنا ہنر دکھائیں۔ جو سب سے بازی لے جائے وہی پہلا انعام پائے اور ہماری راج کماری کو بھی ہنر سکھائے۔‘‘

    رانی کو یہ صلاح بہت پسندآئی۔ اس نے فوراً جلسہ بلانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی دن سارے سورگ میں منادی کرا دی۔ ٹھیک وقت پر جلسے میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سیکڑوں دیویاں آپہنچیں اور لگیں اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھانے۔ آخر پھرکی بازی لے گئی۔ رانی نے سہیلیوں کی صلاح سے اسے ہی پہلا انعام دیا۔ پھر اس سے کہا۔’’بس اب تمہیں یہاں وہاں بھٹکنے کی ضرورت نہیں۔ آج سے تم میری سہیلی ہوئیں۔ مزے سے یہیں رہو اور راج کماری کو بنائی سلائی سکھایا کرو، سمجھیں؟ ‘‘

    اس طرح پھرکی کی قسمت جاگ اٹھی۔ وہ رانی پاس رہنے لگی۔ راج کماریاں ہر روز تیلیاں، سوت، کپڑا، قینچی، سوئی دھاگا وغیرہ لے کر اس کے پاس جا بیٹھتیں اور وہ انہیں بڑی محنت سے سلائی بنائی کا کام سکھایا کرتی۔ رانی اس کا کام دیکھتی تو بہت خوش ہوتی اور اسے ہمیشہ انعامات سے نوازا کرتی۔

    رفتہ رفتہ پھرکی مالا مال ہو گئی۔ وہ سوچنے لگی۔’’رانی کی مہربانی ہے ہی۔ مال کی بھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ سلائی بنائی کا کام بھی میں سب سے اچھا جانتی ہوں۔ اب سورگ میں ایسی کون سی دیوی ہے جو میرا مقابلہ کر سکے۔‘‘ بس اس کا غرور جاگ اٹھا اور پھرکی کا دماغ پھر گیا۔ وہ اب اور تو اور رانی کی سہیلیوں سے بھی سیدھے منہ بات نہ کرتی۔ پھرکی کا یہ سلوک رانی کی سہیلیوں کو بہت ناگوار گزرا۔ ایک دن انہوں نے رانی سے شکایت کی۔ ’’پھرکی کو تو آپ نے خوب سر چڑھایا ہے۔ اب تو وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتی۔ جب دیکھو غرور سے منہ پھلائے رہتی ہے۔ آپ ہی بتائیں۔ وہ اب ہمارے سورگ میں کس طرح رہ سکتی ہے۔‘‘

    یہ سنتے ہی رانی آگ بگولا ہو گئی۔ بولی۔ ’’ایسا! کہتی کیا ہو؟ پھرکی غرور کرنے لگی ہے۔ پھر تو وہ دیوی ہی نہیں رہی اور جو دیوی نہیں ہے وہ سورگ میں کب رہ سکتی ہے۔ میں ابھی اسے سزا دوں گی۔ ذرا اسے پکڑ تو لاؤ میرے سامنے۔‘‘

    فورا دو تین دیویاں دوڑی دوڑی گئیں اور پھرکی کو پکڑ لائیں۔ رانی نے اس پر غصے کی نگاہ ڈالی اور کہا۔ ’’کیوں ری پھرکی۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ تو غرور کرنے لگی ہے؟ جانتی ہے غرور کرنے والے کو کیا سزا ملتی ہے؟ غرور کرنے والا فورا سورگ سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور تو اور غرور کرنے پر تو میں بھی سورگ میں نہیں رہ سکتی۔ یہاں کا قانون یہی ہے۔‘‘

    پھرکی سہم کربولی، ’’اب تو غلطی ہو گئی۔ شریمتی جی! بس اس بار مجھے معاف کر دیجیے۔ پھر کبھی ایسی غلطی کروں تو آپ کی جوتی اور میرا سر۔‘‘ رانی نے کہا۔ ’’تیرے لیے قانون نہیں توڑا جا سکتا۔ تجھے ضرور سزا ملے گی اور سورگ چھوڑ کر زمین پر جانا ہی پڑے گا۔ ہاں میں اتنی مہربانی کر سکتی ہوں کہ تو جو شکل چاہے اسی شکل میں تجھے زمین پر بھیج دوں۔ بول تیری خواہش وہاں کس شکل میں جانے کی ہے؟‘‘ اسی وقت وہاں اچانک ایک فقیر آ پہنچا۔ وہ کپڑوں کی بجائے چغہ پہنے ہوئے تھا۔ اسے دیکھ کر سب دیویوں کو بہت تعجب ہوا۔ رانی نے اس سے پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں؟ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ صورت تو آپ نے بہت عجیب بنا رکھی ہے۔ ہم نے تو آج تک ایسی عجیب و غریب صورت دیکھی ہی نہیں۔‘‘

    فقیر نے جواب دیا۔’’میں ایک معمولی انسان ہوں۔ زمین کا رہنے والا ہوں۔‘‘

    رانی نے کہا۔’’اچھا آپ انسان ہیں۔ زمین کے رہنے والے ہیں۔ انسان غرور کے پتلے ہوتے ہیں۔ وہ کبھی سورگ میں نہیں آسکتے۔ بھلا آپ کس طرح یہاں آ پہنچے۔‘‘

    فقیر بولا۔’’میں نے غرور چھوڑ کر بہت دنوں تک تپ کیا ہے۔ اپنی ساری زندگی اپنے ہم وطنوں کی خدمت ہی میں بسر کی ہے۔ اسی لئے میں یہاں آ سکا ہوں۔‘‘

    رانی نے خوش ہو کر کہا۔’’پھر تو آپ بھلے آدمی ہیں۔ آپ سے مل کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلاتا مل کہیے۔‘‘

    فقیر بولا۔ ’’دیوی زمین پر رہنے والے انسان بہت دکھی ہیں۔ کپڑے پہننا بھی نہیں جانتے۔ وہ بے چارے اپنے جسم پر پتے لپیٹ لپیٹ کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ مہربانی کرکے کوئی ایسی چیز دیجیے جس کے ذریعے سے وہ سوت کات سکیں۔ روئی تو زمین پر بہت ہوتی ہے۔ جہاں لوگوں نے اس کا سوت نکال لیا وہاں کپڑے تیار ہوئے ہی سمجھیے۔‘‘

    رانی نے کہا ۔’’اچھا اچھا آپ تشریف تو رکھیے۔ بھگوان نے چاہا تو میں ابھی آپ کی خواہش پوری کیے دیتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے پھرکی سے پھر وہی سوال کیا۔’’ہاں پھر تو کس شکل میں زمین پر جانا چاہتی ہے؟‘‘

    پھرکی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر جوا ب دیا۔’’شریمتی جی! میں تو وہاں کسی بھی شکل میں نہیں جانا چاہتی۔ اگر آپ مجھے وہاں بھیجنا ہی چاہتی ہیں تو ایسی شکل میں بھیجیے جس سے میں سب انسانوں کی خدمت کر سکوں، ان کا دل بہلا سکوں اور ان سے عزت بھی پا سکوں۔‘‘

    رانی مسکرا کر بولی۔’’میں مانتی ہوں پھرکی تو سچ مچ بہت ہوشیار ہے۔ تُو نے ایک ساتھ تین ایسی بڑی بڑی باتیں مانگی ہیں جن سے تو زمین پر بھی ہمیشہ دیوی بن کر رہے گی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں تجھے ابھی ایسی شکل دیتی ہوں جس سے تیری خواہش پوری ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے گی۔‘‘ یہ کہہ کر رانی نے چلّو میں تھوڑا سا پانی لیا اور کچھ منتر پڑھ کر پھرکی پر چھڑک دیا۔ پھر کیا تھا۔ پھرکی فوراً تکلی بن کر کھٹ سے گر پڑی۔ رانی نے جھپٹ کر وہ تکلی اٹھالی اور فقیر کو دے دی۔ فقیر نے تکلی لیتے ہوئے پوچھا- ’’اس کا کیا ہوگا دیوی؟ یہ تو بہت چھوٹی چیز ہے۔‘‘

    رانی نے جواب دیا۔ ’’چیز چھوٹی تو ضرور ہے۔ لیکن اس سے لوگوں کا بہت بڑا کام نکلے گا۔ اس کے ذریعے سے ان کو سوت ملے گا جس سے کپڑے بُنے جائیں گے۔ بچوں کو یہ کھلونے کا کام دے گی اور فرصت کے وقت سیانوں کا دل بہلایا کرے گی۔ وہ چاہیں گے تو آپس میں کھیلتے کھیلتے یا گپ شپ کرتے ہوئے بھی اس کے ذریعے سوت نکالتے رہیں گے، ابھی لے جائیے۔‘‘

    کہتے ہیں اسی تکلی سے انسان نے کاتنا سیکھا اور تکلی کی ترقی کے ساتھ ہی تہذیب کی ترقی ہوئی۔

    (مدھیہ پردیش کی لوک کہانی کا اردو ترجمہ)

  • بچوں کے لیے ہزاروں کہانیاں لکھنے والے پولیس انسپکٹر

    بچوں کے لیے ہزاروں کہانیاں لکھنے والے پولیس انسپکٹر

    کراچی: بچوں کے معروف ادیب انسپکٹر احمد عدنان طارق پولیس میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اب تک ہزاروں کہانیاں اور درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔

    بچوں کے معروف ادیب ایس ایچ او احمد عدنان طارق شام رمضان کے مہمان بنے اور اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا۔

    فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے احمد عدنان نے تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی محکمہ پولیس جوائن کرلیا، ملازمت کے دوران انہوں نے ایم اے انگلش اور پھر وکالت کی ڈگری حاصل کی۔

    وہ گزشتہ کئی سال سے بچوں کے لیے کہانیاں لکھ رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی اب تک 35 سو کہانیاں مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں چھپ چکی ہیں۔

    ملک کے ایک معروف رسالے تعلیم و تربیت میں گزشتہ 130 ماہ سے ان کی کہانی شائع ہورہی ہے، اپنی کہانیوں پر مشتمل وہ اب تک 50 کتابیں لکھ چکے ہیں۔

    احمد عدنان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے کام پر 2 ایم فل تھیسز بھی لکھے جاچکے ہیں۔

    احمد عدنان کا کہنا تھا کہ سنہ 2010 میں ان کی ایک ٹانگ معذور ہوگئی تھی جس کے بعد لکھنے پڑھنے سے ان کا رشتہ ایک بار پھر قائم ہوا جو اب تک قائم ہے۔

  • قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    اس کا نام سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے یہ تصویر ابھرتی ہے۔

    گہری رنگت والا ایک طاقت وَر شخص، وحشی گھوڑے پر سوار، دو آہنی آنکھیں اور بھری بھری مونچھیں۔ اس کے ہونٹ مونچھوں میں چھپے رہتے تھے۔ کوسما ایک خطرناک آدمی تھا، قانون کا مجرم، ہمیشہ گھوڑے پر سوار، کندھوں پر رائفل اور کمر میں گز بھر لمبی تلوار۔

    اب میں کم و بیش سو سال کا ایک بوڑھا ہوں، سو سال میں بڑی دنیا دیکھی ہے میں نے، جگہ جگہ کی سیر کی ہے، طرح طرح کے لوگوں سے ملا ہوں، لیکن کوسما جیسا دلیر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

    وہ کوئی دیوہیکل شخص نہیں تھا درمیانہ قد، چوڑی اور پُرگوشت ہڈیاں، سورج کی تمازت نے اس کا رنگ جھلسا دیا تھا۔ گھر سے باہر رہنے والوں کے ساتھ عموماً یہی ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دبدبے اور ہیبت کا دوسرا نام کوسما تھا۔ کسی کا اس سے ایک بار آنکھیں ملا لینا ہی بہت تھا۔

    وہ زمانہ ہمارے وطن کے لیے بڑا پُرآشوب تھا۔ ترک اور یونانی، رومانیہ کی سرزمین تاراج کررہے تھے۔ عجب اداسی اور بے کیفی کا دور تھا۔ ہر رومانیین غیر محفوظ تھا اور خوف کی حالت میں زندگی گزار رہا تھا۔ کوسما نے انہی حالات کے باعث باغیانہ رویہ اختیار کیا تھا اور اس طرز حیات میں خوب کام یاب تھا۔ شاید وہ واحد رومانیین تھا جو ترکوں اور یونانیوں دونوں سے محفوظ تھا۔

    اس کا مسکن جنگل اور پہاڑ تھے آج یہاں تو کل وہاں، اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ ایک بار وہ گرفتار بھی ہوا اور اسے ہتھ کڑیاں پہنادی گئیں لیکن وہ بھی کوئی اور نہیں، کوسما تھا۔ اس نے صرف ایک جھٹکے سے خود کو آزاد کرلیا پھر فوراً گھوڑے پر سوار ہوکے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    شاید اس کے نوشتے میں تحریر تھا کہ بندوق کی گولی اس پر اثرانداز نہیں ہوگی، ہاں! کوئی چیز اسے زد پر لے سکتی تھی تو وہ چاندی کی گولی تھی۔

    وہ عہد بہادروں کا عہد تھا۔ کم زور صرف سر جھکا کر، صرف اطاعت کرکے زندہ رہ سکتا تھا۔ سنتے ہیں، مالدیویا کی سرحدوں کے اس پار، ولے شیا میں بھی ایک شخص رہتا تھا جس کی صفات کوسما سے ملتی جلتی تھیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں آپس میں بہت اچھے دوست تھے۔

    وہ رات کی تاریکی میں سرحد پر ایک دوسرے سے ملتے اور اپنا اپنا مالِ غنیمت ایک دوسرے سے تبدیل کرلیتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرحد پر متعین محافظوں نے اسے گرفتار کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن کوسما کا گھوڑا تو کوئی جن یا بھوت تھا، پلک جھپکتے ہی غائب ہوجاتا، محافظوں کی گولیاں بھی اس تک نہ پہنچ پاتیں، ویسے بھی سرحد کا علاقہ بکاﺅ کی پہاڑی سے بہت دور تھا، رات کی رات وہاں جاکر لوٹ آنا بہت دشوار بلکہ ناممکن تھا، لیکن کوسما کے لیے ایسا نہیں تھا، وہ تو اس دنیا کا انسان ہی نہیں تھا۔

    اس کی زندگی، جنگلوں، میدانوں اور پہاڑوں میں گزر رہی تھی۔ وہ کوئی عاشق، کوئی مجنوں نہیں، ایک فاتح شخص تھا، فاتح اور ظفر مند، اس نے کبھی شکست نہیں کھائی تھی۔ لوگ اس کی دہشت سے لرزتے تھے۔

    ول تورستی میں یونانی نسل کا ایک شخص رہتا تھا اس کا نام فرنکو لازیم فریڈ تھا۔

    ہماری سَرزمین پر ایک ویران محفل میں رومانیہ کی ایک نازنین رہتی تھی، وہ بے مثال حسن کی مالک تھی، اس کی بھنویں کمان کے مانند اور آنکھیں جُادو بھری تھیں۔ نوعمری میں اس کی مرضی کے خلاف علاقے کے ایک بڑے زمین دار سے اس کی شادی کردی گئی تھی۔ حسن اتفاق سے شادی کے بعد جلد ہی اس کا خاوند چل بسا۔ اب یہ جواں سال حسینہ اس کی تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ اس کا نام سلطانہ تھا۔

    نکولازیم فریڈ اس حسین و جمیل بیوہ کے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے لیکن سلطانہ کسی طور بھی اس کی نہ ہوسکی، حد ہے کہ اس نے جادو ٹونے بھی کرائے، مگر سب بے سود۔

    ایک صبح نکولا بے حد ملول اور دل گرفتہ تھا، رات بھر اسے سلطانہ کی یاد ستاتی رہی تھی، وہ حویلی سے نکل کے اصطبل کی جانب گیا، چبوترے پر بیٹھ گیا اور سلطانہ کے تصور میں کھو گیا۔ سوچتے سوچتے اسے کوئی خیال آیا اس نے چونک کے آواز لگائی۔ ”ویسائل!“۔۔۔

    تبھی ایک معمر اور جہاں دیدہ شخص ادب سے سامنے آکے کھڑا ہوگیا۔ ویسائل، نکولا کا رازدار تھا۔ نکولا نے اسے اپنی پریشانی بتائی اور کہا کہ کوئی راہ نکالے۔

    اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں آقا؟“ ویسائل نے کہا۔

    ضرور ضرور۔ نکولا بے تابی سے بولا۔

    بوڑھے ویسائل نے کہا کہ سلطانہ کو طاقت کے زور پر اس کے محل سے اٹھوا لیا جائے۔ نکولا نے تذبذب سے دریافت کیا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

    کیوں نہیں میرے آقا! دنیا میں کوئی بات ناممکن نہیں۔ اسی رات نکولا پانچ مسلح سپاہیوں کے ساتھ سلطانہ کے کوچے فراسینی کی جانب روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد وہ سلطانہ کی حویلی کے سامنے پہنچ گئے۔ تاریکی میں ڈوبی حویلی کوئلے کا پہاڑ نظر آرہی تھی۔

    نکولا اور اس کے ساتھی احاطے کی دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ وہ خاموشی کے ساتھ گھوڑوں سے اتر کے دیوار پر چڑھ گئے۔ دوسرے ہی لمحے حویلی میں جاگ پڑگئی اور ہوشیار خبردار کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔

    نکولا نے اس شور کی پروا نہیں کی، وہ بے خوفی سے اپنے ساتھیوں سمیت حویلی کے اندرونی دروازے تک پہنچ گیا۔ سپاہیوں نے دروازہ توڑ دیا۔ انسانی سائے راہ داری میں ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے۔ اچانک خواب گاہ کا دروازہ کھلا اور روشنی کا سیلاب سا باہر نکلا۔

    نکولا نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ دروازے پر کھڑی ہے۔ نکولا کے منہ سے بے اختیار نکلا دیکھا، آخر میں نے تمہیں پالیا، وہ سفید لباس میں وقار اور تمکنت سے کھڑی تھی، خوابیدہ آنکھیں اس کا حسن اور نکھار رہی تھیں، اس سحر انگیز منظر نے نکولا کو دم بہ خود کردیا۔

    نکولا کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ جھک کر اس کے مرمریں پاﺅں چوم لے، لیکن اس نے خود پر قابو رکھا۔ سلطانہ بولی ‘‘اچھا، یہ تم ہو۔ میں تو سمجھی تھی چور وغیرہ آگھسے ہیں۔ اس کی آواز سے گھنٹیاں بج اٹھیں، مگر اس کے لہجے میں تمسخر تھا۔ اپنا جملہ ختم کرکے اچانک اس نے ہاتھ اٹھایا، ننگی تلوار چمکی، تلوار کی غیر متوقع چمک سے نکولا گڑ بڑا گیا۔ سلطانہ نے کسی تاخیر کے بغیر اس کے سر پر تلوار کی الٹی جانب سے ایک زور دار ضرب لگائی، نکولا لڑکھڑا گیا، پھر اس سے پہلے کہ اس کے ساتھی مدد کو آگے بڑھتے سلطانہ کے ملازمین نے ان پر دھاوا بول دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نکولا اور اس کے ساتھیوں کو پسپا ہونا پڑا اور وہ جان بچاکر بد حواسی سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس سانحے نے نکولا کو گوشہ نشین کردیا۔ وہ ہر وقت حویلی کے ایک گوشے میں پڑا آہیں بھرتا رہتا۔

    اس کا واحد غم گسار ویسائل تھا۔ ایک روز نکولا نے روتے ہوئے ویسائل سے کہا کہ اب ہم سلطانہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ویسائل نے آہستہ سے کہا: میں سمجھ سکتا ہوں، آپ پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے نکولا کو اس معاملے میں کوسما سے مدد لینے پر اکسایا اور کہا کہ اگر کوسما اس مہم پر آمادہ ہوگیا تو سلطانہ آپ کے پہلو میں ہوگی اور آپ جانتے ہیں کہ کوسما دولت کے عوض کچھ بھی کرسکتا ہے۔

    نکولا نے کوسما سے ملاقات کی اور اسے اپنے سامنے کھڑا پایا تو دَم بہ خود رہ گیا، وہ تھا ہی اتنا با رعب۔ ایک تو اس کی شخصیت کا جاہ و جلال، دوسرے اس کی شہرت دونوں ہی باتیں لوگوں کو خوف زدہ کرنے میں مہمیز کا کام کرتی تھیں۔

    گفت گُو میں پہل کوسما ہی نے کی۔ خدا تم پر مہربان ہو۔

    خوش آمدید کوسما! میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ ویسائل نے جواب دیا۔

    ادھر نکولا کچھ سنبھل گیا تھا، اس نے بھی براہ راست سوال کیا۔

    پچاس ہزار۔۔۔ نکولا نے ویسائل کو حکم دیا کہ رقم کی تھیلی لاﺅ۔

    نہیں۔ کوسما نے بے اعتنائی سے کہا۔ ابھی مجھے رقم نہیں چاہیے۔ یہ ایک سودا ہے میں فراسینی سے لاکر سلطانہ کو تمہارے حوالے کروں گا اس کے بعد تم مجھے رقم ادا کرو گے۔ رات ہونے تک میں یہیں وقت گزاروں گا، یہ کہتا ہوا کوسما اپنے گھوڑے سے اتر کر باغ میں آکر گھاس پر لیٹ گیا۔

    کوسما فراسینی پہنچا تو پوری بستی سورہی تھی۔ اس نے حویلی کے بیرونی دروازے پر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    کون ہے؟ اندر سے کسی نے پوچھا۔۔۔ دروازہ کھولو۔ کوسما نے حکم دیا۔

    تم ہو کون؟ اندر سے پھر استفسار کیا گیا۔ کھولو! کوسما گرجا۔ مزید سرگوشیاں سی ہونے لگیں کب تک انتظار کرنا پڑے گا؟۔۔۔ کوسما برہم ہوگیا۔

    نام بتاﺅ ورنہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ اندر سے آواز آئی۔

    نام سننا چاہتے ہو؟ اچھا۔۔۔ سنو، کوسما داکورے۔

    اندر خاموشی چھاگئی۔ پھر دروازے کی جھریوں سے روشنی کی کرن باہر آئی اور غائب ہوگئی۔ دوسرے ہی لمحے دروازے کی زنجیر بجی اور دروازہ کھل گیا۔ کوسما اعتماد سے اندر پہنچا اور گھوڑے سے اتر کر اندرونی دروازے کی جانب بڑھا۔ ملازموں میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اسے روکے۔ اندرونی دروازہ کھلا تھا کوسما درانہ اندر چلا گیا۔ دروازہ کھلا ہونے سے اس نے اندازہ لگایا کہ عورت دلیر معلوم ہوتی ہے۔

    راہ داری میں کوسما کے بھاری جوتے گونج پیدا کررہے تھے۔ معاً اندر کسی کمرے میں ہلکا سا شور ہوا کوسما چوکنا ہوگیا، اسی وقت راہ داری اچانک روشن ہوگئی۔ کوسما نے دیکھا کہ خواب گاہ کے دروازے پر سلطانہ کھڑی ہے۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے۔ وہ شب خوابی کا باریک سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔

    کون ہو تم؟ اور یہاں کس مقصد سے آئے ہو؟ سلطانہ نے سختی سے پوچھا۔

    میں کوسما ہوں اور رئیس نکولا کے لیے تمہیں لینے آیا ہوں۔ کوسما نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

    اچھا۔ سلطانہ نے اپنی تلوار اٹھائی۔

    میں ابھی سبق سکھاتی ہوں، تمہیں بھی اور تمہارے رئیس نکولا کو بھی۔

    کوسما پیچھے ہٹنے کے بجائے اس کے اور قریب ہوگیا، پھر اس نے چشم زدن میں عورت کی کلائی گرفت میں لے لی۔ تلوار عورت کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ وہ زور زور سے پکاری گبریل! نکولائی! دوڈو! دوڑو۔

    محافظ تیزی سے کوسما کی طرف بڑھے۔ کوسما ایک ہاتھ سے سلطانہ کو پکڑے ہوئے تھا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی اور آنکھوں میں چیتے جیسی چمک، اس کی خوں خواری دیکھ کر محافظ ٹھٹک گئے۔

    کوسما کے رعب نے انھیں مفلوج کردیا۔ انھیں رکتے دیکھ کر عورت نے ایک دم کوسما سے ہاتھ چھڑایا اور دیوار کی طرف لپکی، وہاں ٹنگی ہوئی تلوار کھینچ کر وہ اپنے آدمیوں پر چیخی۔

    بزدلو! کھڑے کیا ہو اسے باندھ دو۔

    مادام! کوسما نے تحمل سے کہا۔ آپ کیوں الفاظ ضایع کررہی ہیں، آپ کے نمک خوار آپ کی طرح بہادر نہیں ہیں۔
    سرکار! ایک ملازم نے ہکلا کے کہا۔ اسے ہم کیسے باندھ سکتے ہیں، یہ کوسما ہے۔۔۔ کوسما، اس پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔

    نوکروں سے مایوس ہو کے سلطانہ خود کوسما پر جھپٹ پڑی۔ کوسما نے بھی برق رفتاری کا مظاہرہ کیا اور سلطانہ کو آناً فاناً بے بس کرکے کسی بوری کی طرح اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ ملازم تتر بتر ہوگئے۔

    کوسما نے آگے بڑھتے ہوئے سوچا، واہ کیا عورت ہے؟ نکولا کی پسند واقعی قابل داد ہے۔

    باہر آکر کوسما گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ سلطانہ کو اس نے آگے بٹھالیا۔ مالک کا اشارہ ملتے ہی گھوڑا تاریکی میں سرپٹ دوڑنے لگا۔

    کچھ راستہ طے ہوگیا تو سلطانہ نے چہرہ موڑا اور مدھم چاندنی میں کوسما کو غور سے دیکھا۔
    گھوڑے کی رفتار اور تیز ہوگئی۔ سلطانہ کے بال ہوا میں لہرارہے تھے۔ وہ رہ رہ کے اپنے لٹیرے، اپنے ڈاکو کو دیکھ رہی تھی۔

    کوسما کے ہاتھ لوہے کی طرح مضبوط تھے اور سیاہ چمک دار آنکھیں پتھر کی طرح سخت تھیں۔ گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔ منزل نزدیک آتی جارہی تھی، چاند بادلوں میں تیر رہا تھا کبھی چھپ جاتا، کبھی سامنے آجاتا، دونوں خاموش تھے۔ سلطانہ پوری طرح کوسما کی طرف متوجہ تھی، مگر کوسما ایسے بیٹھا تھا، جیسے اس کے وجود سے بے خبر ہو۔

    منزل پر پہنچ کے درختوں میں ہلکی روشنی اور کچھ انسانی سائے نظر آئے۔ سلطانہ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟
    کوسما نے بتایا، نکولا اور اس کے ساتھی، یہ ہمارا انتظار کررہے ہیں۔

    سلطانہ خاموش ہوگئی۔ وہ کوسما کے بازوﺅں کے حصار میں تھی، اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے۔ اس نے تیزی سے دایاں ہاتھ بڑھا کے گھوڑے کی لگام تھامی اور بائیں کلائی کوسما کے گردن میں حمائل کردی، گھوڑا جھٹکا کھاکر رفتار کم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ سلطانہ نے کوسما کو سینے پر سَر رکھ کے سرگوشی کی۔

    مجھے کسی اور کو مت دو!

    کوسما نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا اور لگام ڈھیلی کردی۔ گھوڑے نے رخ موڑا اور تاریکی میں حرکت کرتے ہوئے سائے پیچھے چھوڑ کے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    (میخائل سیندو ویناﺅ کی اس کہانی کو صبیحہ علی نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے)