Tag: کہانی

  • کرامات

    کرامات

    لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔

    لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے، کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

    ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک آیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔

    شور سن کر لوگ اکھٹے ہوگئے۔ کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔

    دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔

    دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا!

    اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔

    مصنّف : سعادت حسن منٹو

  • پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    مصنف: عبداللطیف ابوشامل

    ان کے ابُو جنھیں وہ بہت پیار سے پاپا کہتے تھے کسی ہنگامے میں تو نہیں مرے تھے، رات کو اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر گھر آرہے تھے کہ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار انھیں کچلتی ہوئی ہوا ہوگئی اور وہ دم توڑ گئے۔
    جب وہ صبح سویرے اپنی موٹر سائیکل کو ککیں مار کر بے حال ہوکر زمین پر بیٹھ جاتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کب اس کھٹارے کا پیچھا چھوڑیں گے؟ تو وہ مسکرا کر کہتے تھے:
    ”بس اسٹارٹ ہونے میں ضد کرتی ہے ویسے تو فرسٹ کلاس ہے، بڑا سہارا ہے اس کا، ورنہ تو بسوں کے انتظار اور دھکوں سے ہی دم توڑ دیتا۔“
    آخر موٹر سائیکل ایک بھیانک آواز سے دم پکڑتی اور وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ گلے میں ڈالتے اور پھر رخصت ہوجاتے۔
    بہت محتاط تھے وہ۔ بہت عسرت سے جیتے تھے۔ بہت سلیقہ مند بیوی ہے ان کی۔ عید پر رات گئے گھر آتے تو میں پوچھتا:
    ”آج دیر ہوگئی۔“ ”ارے یار وہ چھوٹی والی ہے نا اس کی جیولری لے رہا تھا، وہ دو دن میں خراب ہوجاتی ہے، لیکن چھوٹی ضد کرتی ہے۔“
    بس اسی طرح کی زندگی تھی ان کی۔ اور پھر ایک دن وہ روٹھ گئے۔ مرنے سے ایک دن پہلے ہی تو انھوں نے مجھ سے کہا تھا:
    ”کچھ پیسے جمع ہوگئے ہیں، سوچ رہا ہوں اپنے ”گھوڑے“ کی فرمائش بھی پوری کر دوں، کچھ پیسے مانگ رہی ہے موٹرسائیکل۔“
    بندہ فرمائشیں پوری کرتے کرتے بے حال ہو جاتا ہے، لیکن خوش بھی کتنا ہوتا ہے! اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔
    تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوہ۔ تین دن تو ٹینٹ لگا رہا اور عزیزوں کا جمگھٹا…. اور پھر زندگی کو کون روک سکا ہے! سب آہستہ آہستہ رخصت، گھر خالی، تنہائی، خدشات اور نہ جانے کیا کیا خوف۔ بیٹے نے رب کا نام لیا اور پھر ایک دفتر میں معمولی سی نوکری کرلی۔ اٹھارہ سال کا نوجوان جس نے ابھی فرسٹ ایئر کا امتحان دیا تھا۔ اور کیا کرتا! ماں نے سلائی مشین سنبھالی اور پھر زندگی سے نبرد آزما تھے وہ سب۔ بڑی بیٹی نے جیسے تیسے میٹرک کیا اور ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے لگی۔ چھوٹی والی ٹیوشن پڑھاتی اور تیسری تو بہت چھوٹی تھی، ہنستی، کھیلتی بچی جو ہنسنا کھیلنا بھول گئی تھی۔
    بڑی بیٹی ایک دم بوڑھی ہوگئی تھی۔ ایک دن میں نے بڑی سے پوچھا:
    مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ پھر تو سیلاب تھا. ”کیا کیا بتاؤں، صبح جاتی ہوں تو عجیب عجیب آوازیں، بے ہودہ فقرے، بسوں کے دھکے، اور پھر فیکٹری میں تو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا، واپس آؤ تو کئی کاریں قریب آجاتی ہیں، جن میں بیٹھے لوگ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔“
    ”جینا سیکھو“ بس میں اتنا کہہ سکا تھا۔ چھوٹی والی اسکول میں پڑھاتی تھی جس سے رجسٹر پر درج تنخواہ پر دست خط کرا کر اس سے نصف بھی نہیں دی جاتی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد سب کے سب زندگی سے نبرد آزما۔ کیا کیا مرحلے آئے ان پر! جی جانتا ہوں میں لیکن کیا کریں گے آپ سن کر؟
    میرا بدنصیب شہر نہ جانے کتنے جنازے دیکھ چکا ہے اور کتنے دیکھے گا، اس کی سڑکیں خون سے رنگین ہیں اور اس کے در و دیوار پر سبزہ نہیں خون ہی خون ہے۔ قبرستان بس رہے ہیں، شہر اجڑ رہا ہے۔ اب تو کوئی حساب کتاب بھی نہیں رہا کہ کتنے انسان مارے گئے۔ اور شاید یہ کوئی جاننا بھی نہیں چاہتا۔
    تحقیق و جستجو اچھی بات ہے، ضرور کیجیے۔ چاند ستاروں پر تحقیق کیجیے۔ زمین پر انسانیت کا قتل عام کیجیے اور چاند اور مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیجیے۔
    مجھ میں تو تحقیق کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کوئی لکھا پڑھا آدمی ہوں۔ آپ میں تو ہے، تو کبھی اس پر بھی کوئی تحقیقی ادارہ بنا لیجیے۔ اس پر بھی اپنی محنت صرف کر لیجیے۔ ساری دنیا کو چھوڑیے، پہلے اپنی تو نبیڑ لیجیے۔ صرف اس پر تحقیق کر لیجیے کہ اس شہر ناپرساں و آزردگاں میں کتنے انسان بے گناہ مارے گئے اور اب ان کے اہل و عیال کس حال میں ہیں؟ وہ زندگی کا سامنا کیسے کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی کیفیت کیا ہے، وہ کن مشکلات کا شکار ہیں؟ لیکن یہ کام کرے کون….؟
    اچھا ہے معصوم یتیم بچے کسی ہوٹل یا گیراج میں ”چھوٹے“ کہلائیں گے۔ ہماری جھڑکیاں سنیں گے۔ بیوہ ہمارے گھر کی ماسی بن جائے گی یا گھر گھر جاکر کپڑے لے کر انھیں سیے گی۔ جوان بہنیں دفتر یا فیکٹری کی نذر ہوجائیں گی، بھوکی نگاہیں انھیں چھیدیں گی، اور بدکردار کہلائیں گی۔ ان کے کانوں میں آوازوں کے تیر پیوست ہوتے رہیں گے۔ بوڑھا باپ کسی سگنل پر بھیک مانگے گا اور ماں دوا نہ ملنے پر کھانس کھانس کر مر جائے گی اور، اور، اور….
    اچھا ہی ہے، ہمیں چند ٹکوں میں اپنے کام کرانے کے لیے افرادی قوت میسر آجائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اچھا یہ ہے کہ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ہمیں کھل کھیلنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے اور ہم ٹھاٹ سے جیے جائیں گے۔
    پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔ اے دانش ورو، اے منبر و محراب سجانے والو! تمہارے لیکچر، تمہارے پند و نصائح اور تمہاری ”حق گوئی“ کسی ایک کا پیٹ نہیں بھر سکتی، چاہے کتنی محنت سے اپنے مقالات لکھو، چاہے کتنی قرأت سے وعظ فرمالو۔ پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔
    وہ دیکھ رہا ہے، تو بس پھر کیا ہے، خالق و مالک تو وہی ہے، ہم کیا کہیں گے اس سے کہ جب مظلوم کا خون آلود جسم مٹی چاٹ رہا تھا تب ہم کیا کر رہے تھے!
    نہیں رہے گا کوئی بھی، میں بھی اور آپ بھی، بس نام رہے گا اللہ کا۔
    فقیروں سے خوشامد کی کوئی امید مت رکھنا
    امیرِ شہر تو تم ہو‘ خوشامد تم کو کرنا ہے

  • تین سوال

    تین سوال

    کسی بادشاہ کے دل میں‌ خیال آیا کہ اگر اسے تین باتیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی شکست اور ناکامی نہ ہو اور ہر کام حسب خواہش انجام پائے۔ اس کے ذہن میں‌ آنے والے تین سوال یہ تھے۔
    کسی کام کو شروع کرنے کا کون سا وقت موزوں ہے۔
    کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
    دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کیا ہے۔

    بادشاہ نے منادی کروا دی کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

    پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے پاس یہ تھا کہ کسی بھی کام کا صحیح وقت اپنے معمولات اور نظام الاوقات کو ترتیب دینے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے ہی معلوم ہوگا۔

    بعض‌ نے کہا کہ انسان کے لیے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے۔ بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ عالم اور فاضل لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔
    ایک گروہ کا موقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہییں جو قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

    اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے۔ کچھ کا خیال تھاکہ انتظامیہ سب سے اہم ہے بادشاہ کے لیے۔ کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جب کہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگ جو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔
    بادشاہ کا آخری سوال ‘‘کرنے کے لیے سب سے ضروری کیا چیز ہے؟’’ اس کا جواب تھا کہ سائنسی ترقی جب کہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی۔ بادشاہ نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا۔

    بادشاہ نے فیصلہ کیاکہ وہ ان جوابات کی تلاش میں درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لیے مشہور تھا۔ درویش کا بسیرا جنگل میں تھا اور سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا۔ بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔

    بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا۔ بادشاہ جب پہنچا تو درویش خوش دلی سے اس سے ملا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ کم زور اور ضعیف تھا۔ جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔

    بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں۔ بادشاہ نے اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے۔ درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا۔

    بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں، آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں۔ دو کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے۔ درویش زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔

    بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا۔ ایک گھنٹہ گزرا اور پھر ایک اور۔ سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا۔ بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں۔

    وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے۔ درویش نے کہا۔ آؤ دیکھتے ہیں کون ہے۔ بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ قریب پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔

    بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا۔ بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی۔ جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا۔ بادشاہ اس کے پینے کے لیے تازہ پانی لے آیا۔

    اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوش گوار ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔

    بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی سو گیا۔ وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سو رہا تھا۔ جب وہ بیدار ہوا تو وہ زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔ بادشاہ نے کہا کہ میں‌ تم کو جانتا نہیں اور کس وجہ سے تم معافی مانگ رہے ہو۔

    تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں۔ میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہو گے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کر دوں گا۔ جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تلاش میں‌ نکلا اور تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور زخمی حالت میں وہاں سے بھاگا۔ تم نے کوشش کی اور میں مرنے سے بچ گیا۔ میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی۔ جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا۔ مجھے معاف کر دو۔

    بادشاہ نے اسے معاف کر دیا اور درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو وہ کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے۔ درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں جوابات مل چکے ہیں۔ بادشاہ نے استفسار کیا کیسے؟
    درویش نے کہا کہ تم اگر مجھے کم زور جان کر میرے لیے کیاریاں نہیں کھودتے اور یہاں‌ نہ رکتے تو واپسی پر اس شخص کے ہاتھوں‌ قتل ہو جاتے۔ تمھارے لیے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں بنا رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے سب سے اہم آدمی وہی تھا تمھارے لیے اور تم نے جو اس کے لیے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔

    یاد رکھو، سب سے اہم وقت وہی لمحۂ موجود ہے جس میں ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں۔ سب سے اہم وہی ہے جو لمحے آپ کے ساتھ موجود ہو اور سب سے اہم کام کسی کے ساتھ بھلائی ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے۔
    (روسی ادب سے، لیو ٹالسٹائی کی مشہور کہانی کا ترجمہ)

  • میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    عبداللطیف ابو شامل
    باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ باپوُ پہلے ایک وکیل کے پاس مُنشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔

    کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔
    ایک دن میں نے پوچھا، باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ۔ ……!
    مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا۔ میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔
    کیا جو کھائے پیے اور جیے وہ انسان ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔

    دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔ دوسرے کا دکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سکھی رہیں۔ دکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے۔ سب نہال رہیں۔

    انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے، وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
    کیوں….؟ میں نے پوچھا۔
    اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔

    وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔
    کون سی بات باپُو؟
    وہی دانے اور چونچ والی۔
    ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے۔
    ”جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔“

    دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔

    اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو….؟
    یہ تجھے کیا ہوگیا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔

    انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، وہ سب کو دیتا ہے۔
    لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا۔……
    پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا؟
    رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
    ”ہاں ہاں وہی۔“
    باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ”سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔“
    دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اپنے لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
    اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا…؟
    نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے۔
    کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے۔
    تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ ”اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔“
    مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو مجھے بھی سمجھائیے۔

  • درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی ایک مختصر کہانی پڑھیے.

    پڑھے لکھے نوجوان کو کہیں جانا تھا۔ وہ بس کے اڈّے پر بسوں کے بورڈ پڑھتا پھر رہا تھا۔
    بے وقوف کہلانے کے ڈر سے اس نے کسی سے بس کے بارے میں پوچھا نہیں، صرف گھومتا رہا۔
    ایک بس سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور چوتھی۔
    ایک اَن پڑھ سا آدمی آیا، اس نے بس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا اور جھٹ سے بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی۔
    پڑھا لکھا نوجوان اب بھی بسوں کے بورڈ پڑھتا ہوا وہیں چکر لگا رہا تھا۔

    جھجک کے عنوان سے یہ کہانی آپ کو یقینا پسند آئی ہو گی. اس کہانی کا موضوع اور بُنت بتاتی ہے کہ مصنف اپنے گرد و پیش اور ماحول سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ گہرا ہے. دوسری طرف مختصر نویسی درشن متوا کی بلند تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔

    درشن متوا کا شمار پنجابی اور ہندی زبان کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے زرخیز ذہن اور قوتِ متخیلہ سے کام لے کر ان موضوعات کو برتا ہے جو ایک زمانے میں ان کے محلِ نظر تھے۔ درشن متوا نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل ناول اور دیگر کہانیاں لکھیں بلکہ مختصر نویسی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ پیشِ نظر کہانی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ فرد اور ایک ان پڑھ کے درمیان اعتماد کے فرق اور شعور کی حالتوں کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ایک عام رویے کی عکاس ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص قسم کے غرور یا کسی کے اپنے پڑھے لکھے ہونے کے بے جا یا غیر ضروری فخر کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے. مصنف نے بتایا ہے کہ یہی فخر ایک موقع پر آگے بڑھنے میں‌ یا کسی کام کو انجام دینے میں‌ کیسے رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور اکثر اس کے سبب ناکامی مقدر بنتی ہے۔ یہ لفظی منظر کشی بامقصد، دل چسپ اور نہایت پُراثر ہے۔

  • بچوں کو رات سونے سے قبل کہانی سنانے کے فوائد جانتے ہیں؟

    بچوں کو رات سونے سے قبل کہانی سنانے کے فوائد جانتے ہیں؟

    کیا آپ رات سونے سے قبل اپنے بچوں کو کہانیاں سناتے ہیں؟ ایک قدیم وقت سے چلی آنے والی یہ روایت اب بھی کہیں کہیں قائم ہے اور کچھ مائیں رات سونے سے قبل ضرور اپنے بچوں کو سبق آموز کہانیاں سناتی ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ کہانیاں سنانے سے بچے جلد نیند کی وادی میں اتر جاتے ہیں اور پرسکون نیند سوتے ہیں، تاہم اب ماہرین نے اس کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات سونے سے قبل سنائی جانے والی کہانیاں بچوں کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہیں۔

    جرنل آرکائیوز آف ڈیزیز ان چائلڈ ہڈ نامی میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کہانیاں بچے میں سوچنے کی صلاحیت کو مہمیز کرتی ہیں جبکہ ان کی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات میں کہانیاں سننے سے بچے مختلف تصورات قائم کرتے ہیں، یہ عادت آگے چل کر ان کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔

    علاوہ ازیں بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ ان کی زبان بھی بہتر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کہانیاں سننے کے برعکس جو بچے رات سونے سے قبل ٹی وی دیکھتے ہیں، یا اسمارٹ فون، کمپیوٹر یا ویڈیوز گیمز کھلتے ہیں انہیں سونے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

    سونے سے قبل مختلف ٹی وی پروگرامز دیکھنے والے بچے نیند میں ڈراؤنے خواب بھی دیکھتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رات سونے سے قبل بچے کے ساتھ وقت گزارنا بچوں اور والدین کے تعلق کو بھی مضبوط کرتا ہے۔

    اس وقت والدین تمام بیرونی سرگرمیوں اور دیگر افراد سے دور صرف اپنے بچے کے ساتھ ہوتے ہیں جو ان میں تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے، خصوصاً ورکنگ والدین کو اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    کیا آپ اپنے بچے کو رات سونے سے قبل کہانی سناتے ہیں؟

  • مختصر کہانیاں فراہم کرنے والی مشین

    مختصر کہانیاں فراہم کرنے والی مشین

    ہم میں سے بہت سے افراد بس اسٹاپ یا اسٹیشن پر ٹرین یا بس کا انتظار کرتے ہوئے کیا کرتے ہیں؟ انتظار کے کٹھن لمحات کاٹنے کے لیے ہمارا سب سے پہلا انتخاب موبائل فون ہوتا ہے جس میں ہم بے مقصد فیس بک اور ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں۔

    لیکن فرانس نے اپنے لوگوں کو اس انتظار کی زحمت سے بچانے کا ایک دلچسپ طریقہ نکال لیا۔ اس نے ان منتطر افراد کے لیے مختلف بس اور ٹرین اسٹیشنوں پر وینڈنگ مشینیں نصب کردیں جو کافی یا چائے نہیں بلکہ مختصر کہانیاں فراہم کرتی ہیں۔

    machine-2

    یہ وینڈنگ مشین بٹن دبانے پر بالکل مفت، آپ کو ایک کاغذ پر چھپی ایک مختصر سی کہانی فراہم کرے گی جسے پڑھ کر آپ اپنا وقت کاٹ سکتے ہیں۔

    اس وینڈنگ مشین میں یہ سہولت بھی ہوگی کہ آپ اپنے انتظار کی مدت کے مطابق 1، 3 یا 5 منٹ میں پڑھنے والی کہانی منتخب کر سکتے ہیں۔

    machine-5

    اس آئیڈیے کی خالق کرسٹوفی نامی پبلشر ہیں جو مختصر کہانیاں چھاپتی ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ وہ مطالعہ کے ختم ہوتے رجحان کو پھر سے زندہ کریں اور لوگوں میں اس کو دوبارہ سے مقبول بنائیں۔

    machine-3

    کرسٹوفی نے بتایا کہ اس آئیڈیے کی تکمیل کے بعد بے شمار لوگوں نے انہیں کہانیاں لکھ کر بھیجیں جو چاہتے ہیں کہ ان کی کہانی کو اس مشین سے نکلنے والے کاغذوں پر پرنٹ کیا جائے۔

    machine-4

    یہ مشینیں ابتدا میں صرف ایک ٹرین اسٹیشن پر نصب کی گئی، مگر اس کی مقبولیت کے بعد اب ملک بھر کے مختلف ٹرین اور بس اسٹیشنز پر ایسی مشینیں نصب کی جارہی ہیں۔

  • آب حیات کی داستان حقیقت بننے والی ہے؟

    آب حیات کی داستان حقیقت بننے والی ہے؟

    آپ نے آب حیات کے بارے میں تو بہت سنا ہوگا، اسے سن کر یقیناً آپ کے دل میں بھی خواہش جاگتی ہوگی کہ کاش آپ بھی اسے حاصل کرسکیں تاکہ آپ ہمیشہ جوان رہ سکیں۔ اس موضوع پر آپ نے بہت سی کہانیاں اور فلمیں بھی دیکھی ہوں گی۔ اگر آپ بھی آب حیات کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو جان جائیے کہ آپ کی خواہش صرف 2 سال بعد حقیقت میں بدلنے والی ہے۔

    کینیڈا کی مک ماسٹر یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے نتیجہ میں سائنسدان ایسی دوا بنانے میں تقریباً کامیاب ہوچکے ہیں جو ڈیمنشیا اور دیگر بڑھاپے کی بیماریوں کو ختم کر سکتی ہے۔

    یہ دوا 30 اقسام کے وٹامن اور معدنیات سے بنائی گئی ہے اور بہت جلد یہ فروخت کے لیے پیش کی جانے والی ہے۔ اسے ایک سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    سائنسدان پرامید ہیں کہ یہ دوا اعصاب کو تباہ کردینے والی بیماریوں جیسے الزائمر اور پارکنسن کے بڑھنے کی رفتار کو کم کر سکتی ہیں۔

    سائنسدانوں نے اس دوا کا تجربہ چوہوں پر کیا۔ چوہے کے دماغ پر ایک سال کی عمر میں ویسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے انسانی دماغ پر الزائمر کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس دوا کو کئی ماہ تک چوہے کی خوراک میں شامل کر کے انہیں استعمال کروایا گیا اور سائنسدانوں کے مطابق اس کے اثرات حیرن کن تھے۔

    کچھ عرصے مزید استعمال تک اس دوا نے خلیوں کی تباہی کے عمل کو مکمل طور پر ختم کردیا۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر جینیفر لیمن کے مطابق یہ دوا کئی بیماریوں کو ختم کر کے انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    اس دوا کا اگلا مرحلہ اسے انسانوں پر استعمال کروا کر دیکھنا ہے جس سے علم ہوگا کہ انسانوں پر اس کے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں یا نہیں جس کے بعد اسے مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا۔