Tag: کہاوتیں اور کہانیاں

  • "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    ایک بادشاہ کو اس کے وزیروں اور مشیروں نے بتایا کہ حضور آپ کی سلطنت میں دو ایسے شخص بھی رہتے ہیں جن سے ان کے اڑوس پڑوس والے بے حد تنگ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں دربار میں طلب کرکے سرزنش کی جائے۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ مجھے ان کے متعلق تفصیل بتاؤ تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان کا قضیہ دربارِ شاہی میں لانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

    وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت ان دونوں میں سے ایک حاسد ہے اور ایک بخیل، بخیل کسی کو کچھ دینے کا روادار نہیں اور حاسد ہر کسی کے مال سے حسد رکھتا ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    اگلے روز جب دونوں بادشاہ کے حضور پیش ہوئے تو، بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں کے متعلق مشہور ہے کہ ایک حسد میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا حد درجے کا کنجوس ہے، کیا یہ سچ ہے؟

    وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے نہیں بادشاہ سلامت، یہ سب افواہیں ہیں، جو نجانے کیوں لوگ پھیلا رہے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر کہا، اچھا پھر میں تم دونوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، وہ انعام تم دونوں کی مرضی کا ہوگا، جو مانگو گے ملے گا، اور جو پہل کرتے ہوئے مانگ لے گا اسے تو ملے گا ہی مگر دوسرے کو وہی انعام دگنا کرکے دیا جائے گا۔

    اب دونوں کشمکش میں گرفتار ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرا ہی پہل کرے، کنجوس نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلے بول کر زیادہ انعام سے محروم رہوں، اور حاسد اسی سوچ میں تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میں مانگوں، اس کا دگنا انعام اس بخیل کو بھی ملے۔ وہ بھی بنا مانگے۔ اس کشمکش میں دنوں نے کافی وقت گزار دیا مگر بولنے میں پہل کسی نے بھی نہ کی۔

    اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ان دونوں پر ایک جلّاد مقرر کیا، اسے حکم دیا کہ تین تک گنتی گنو اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی بولنے میں پہل نہ کرے تو قید خانے میں ڈال دو،

    جلّاد نے جیسے ہی گننا شروع کیا تو حاسد فوراً بول اٹھا۔

    "بادشاہ سلامت، میری ایک آنکھ نکال دیجیے!”

    (قدیم عربی حکایت سے ماخوذ)

  • دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی ایک مشہور کہاوت ہے اور ایسے موقع پر سنی جاتی ہے، جب کسی کا سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے یا کسی کو اس کے اچھے یا برے فعل کا بدلہ مل جائے۔

    اس کہاوت کے پس منظر میں جائیں تو ہمیں ایک قصہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے جو یہاں‌ آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    ایک گوالا تھا جو زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا۔ اس پر پیسے جمع کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی اور وہ لالچ میں اندھا ہو چکا تھا۔

    اس کے ذہن میں دولت کمانے کا سیدھا اور آسان طریقہ یہ آیا کہ وہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنا شروع کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ شہر میں رہ کر اس نے ناجائز طریقے سے بہت جلد مال بنا لیا۔ جب اس کے پاس اچھی خاصی رقم اکٹھی ہو گئی تو وہ اپنے گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگا۔

    گوالے نے ایک روز اپنی ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔ ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔

    گوالا بھی گرمی کی وجہ سے نڈھال تھا۔ اس کے راستے میں ایک دریا پڑا تو اس نے نہانے کا ارادہ کیا اور رپوں کی تھیلی ایک درخت کے نیچے رکھ کر دوسروں کی نظر میں آنے سے چھپانے کی غرض سے اس پر کپڑے ڈال دیے۔ اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس نے لنگوٹ کس لیا اور پانی میں کود پڑا۔

    گوالا جس علاقے میں نہانے کے لیے رکا تھا، وہاں بندر بہت پائے جاتے تھے۔ اتفاق سے ایک بندر اسی درخت پر بیٹھا ہوا تھا جس کے نیچے گوالے نے رقم کی تھیلی رکھ کر اس پر کپڑے ڈال دیے تھے۔ اس نے یہ سارا ماجرا دیکھ لیا تھا۔ بندر بہت شراتی تھا۔ اس نے گوالے کو دریا میں نہاتے دیکھا تو درخت سے اترا اور رپوں کی وہ تھیلی اٹھا کر درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔

    گوالا پانی سے نکلا تو اس کی نظر بندر پر پڑی جس کے پاس رقم والی تھیلی تھی۔ اس نے بندر کو ڈرانے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ تھیلی نیچے پھینک دے، لیکن بندر اس سے ذرا نہ گھبرایا۔ اس نے تھیلی کھولی اور رُپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا، کچھ زمین پر اور کچھ دریا میں گرنے لگے۔ گوالا رُپوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن یہ آسان نہ تھا۔

    اس دوران وہاں لوگ جمع ہو گئے اور تماشا لگ گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اس گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے۔ انھوں نے جب گوالے کو یوں روتا پیٹتا دیکھا تو کہنے لگے، ‘‘دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔’’
    یعنی اس نے جو پیسے دودھ میں پانی ملا کر ناجائز طریقے سے کمائے تھے وہ پانی ہی میں مل گئے۔