Tag: کہکشاں

  • چمکدار خلائی تکون کی حیرت انگیز تصویر

    چمکدار خلائی تکون کی حیرت انگیز تصویر

    ماہرین فلکیات نے خلا میں ایک تکون کی تصویر جاری کی ہے جو دراصل دو کہکشاؤں کا تصادم ہے، تصادم کی وجہ سے وہاں بے شمار ستارے بن رہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق خلا میں موجود ناسا کی ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ایک خلائی تکون کی تصویر کھینچی ہے جس میں دو کہکشاؤں کا تصادم ہو رہا ہے، اس کے سبب بڑی تعداد میں ستارے پیدا ہوں گے۔

    ان دونوں کہکشاؤں کا مشترکہ نام Arp 143 ہے۔ جس کہکشاں میں چمک زیادہ ہے اس کا نام NGC 2445 ہے جبکہ کم چمک رکھنے والی کہکشاں NGC 2444 ہے۔

    NGC 2445 کی ساخت بدل کر تکون ہو گئی ہے جس میں چمکیلی روشنی موجود ہے کیوں کہ تصادم کے نتیجے میں وہاں موجود مٹیریل ہلا ہے اور تیزی سے ستارے بننے کا عمل جاری ہے۔

    امریکا کے ماہرینِ فلکیات جن کا تعلق نیویارک میں قائم فلیٹرون انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار کمپیوٹیشنل آسٹرو فزکس اور سیئٹل میں قائم یونیورسٹی آف واشنگٹن سے ہے، انہوں نے زمین کے نچلے مدار میں موجود 32 سال سے موجود ٹیلی اسکوپ کی جانب سے کھینچی جانے والی تصاویر کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ کہکشائیں ایک دوسرے کے اندر سے گزریں جس کی وجہ سے ستاروں کی تشکیل کے لیے منفرد آگ کا طوفان بپا ہوا، جہاں ہزاروں ستارے وجود میں آنے کےتیار ہیں۔

    NGC 2445 کہکشاں س تاروں کی پیدائش سے بھری پڑی ہے کیوں کہ اس میں وہ گیس بھرپور ہے جو ستارے بننے کا سبب بنتی ہے، لیکن اس کا NGC 2444 کی کششِ ثقل سے نکلنا باقی، جس رسہ کشی میں NGC 2444 جیتتی دکھائی دے رہی ہے۔

  • ہماری کہکشاں سے ایک پراسرار سگنل جاری، یہ سگنل کون دے رہا ہے؟

    ہماری کہکشاں سے ایک پراسرار سگنل جاری، یہ سگنل کون دے رہا ہے؟

    ماہرینِ فلکیات کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ ہماری کہکشاں کے ایک خاص لیکن نامعلوم مقام سے ہر 18 سے 20 گھنٹے بعد ایک سگنل موصول ہو رہا ہے جسے ماہرین نے بہت عجیب اور پراسرار قرار دیا ہے۔

    اسے سب سے پہلے آسٹریلیا میں واقع مرکیسن وائڈ فیلڈ ایرے نامی رصد گاہ میں نوٹ کیا گیا ہے، یہ دریافت کرٹن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی طالبعلم ٹائرن ڈوفرٹی نے دریافت کیا ہے، وہ ملکی وے کی تحقیق کر رہے تھے کہ انہوں نے 24 گھنٹے میں ایک مقام پر روشنی کے جھماکے محسوس کیے۔

    یہ سگنل ریڈیائی دوربین سے نوٹ کیے گئے اور ان میں ایک خاص وقفہ دیکھا گیا ہے، اس مقام سے ہر 18 گھنٹے بعد سگنل جاری ہورہے ہیں اور ان سگنلوں کا دورانیہ 30 سے 60 سیکنڈ نوٹ کیا گیا ہے۔

    اس کے بعد یونیورسٹی کی پروفیسر نتاشا ہرلے واکر نے اس پر غور کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ مقام 4 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے اور ہم نے کبھی بھی خلا کی وسعتوں میں ایسا واقعہ نہیں دیکھا ہے۔

    اسے سب سے پہلے جنوری 2018 میں دیکھا گیا اور اگلے ماہ یعنی فروری کے مہینے میں یہ خاموش رہا۔ اس کے بعد مارچ میں دوبارہ اس سے سگنل جاری ہوئے اور مسلسل 30 روز تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    بہت غور کے بعد ماہرین نے پہلا مفروضہ دیا ہے کہ شاید اس جرم فلکی کا مقناطیسی میدان بہت طاقتور ہے۔

    عموماً پلسار اور میگنیٹرز ایسے خواص رکھتے ہیں اور اس سے قبل بہت باقاعدگی سے سگنل کی بوچھاڑ کرتے ہوئے پائے گئے ہیں، واضح رہے کہ پلسار کو کائناتی لائٹ ہاؤس بھی کہا جاتا ہے جو باقاعدہ وقفے سے سگنل خارج کرتے ہیں۔

    اگرچہ اس کی ابتدائی رپورٹ جاری ہوچکی ہے لیکن فلکیات داں اب بھی اس پر تحقیق کررہے ہیں۔

  • سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    ملکی وے یعنی ہماری کہکشاں کے برابر موجود کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت ہوا ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین فلکیات نے ملکی وے کہکشاں کی پڑوس میں موجود بڑی کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت کیا ہے، اس بلیک ہول کا وزن متوسط درجے کا ہے اور یہ تیسری قسم کا نایاب بلیک ہول ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔

    یہ بلیک ہول اینڈرومیڈا کہکشاں میں B023-G078 نامی ستاروں کے جھرمٹ میں پایا گیا۔

    میسیئر 31 یا ایم 31 کے نام سے بھی جانی جانے والی اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری ملکی وے کہکشاں کے سب سے قریب اسپائرل کہکشاں ہے۔

    نئے دریافت ہونے والے بلیک ہول کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے، یہ کہکشاؤں کے درمیان میں پائے جانے والے بلیک ہولز (سپر میسِو بلیک ہولز) سے چھوٹا لیکن ستاروں کے پھٹنے پر بننے والے بلیک ہولز (اسٹیلر بلیک ہولز) سے بڑا ہے۔

    اس حوالے سے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ انٹرمیڈیٹ یعنی متوسط بلیک ہولز وہ سبب ہوتے ہیں جن سے سپر میسو بلیک ہولز بڑھتے ہیں۔

    آسٹروفزیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ نئی تحقیق ہوائی میں قائم جمنائی نارتھ ٹیلی اسکوپ میں نیئر انفرا ریڈ انٹیگرل فیلڈ اسپیکٹروگراف کے فراہم کردہ ڈیٹا پر مبنی تھی۔

    ماہرینِ فلکیات نے بلیک ہول کے وزن کی پیمائش اس کے گرد گھومنے والی گیس اور گرد کی حرکت سے کی۔

  • روشن آسمان، چمکتے ستارے، کہکشاؤں کی جھرمٹ اور ٹوٹتے تارے

    روشن آسمان، چمکتے ستارے، کہکشاؤں کی جھرمٹ اور ٹوٹتے تارے

    چین : آسمانوں پر سجی کہکشاؤں کی جھرمٹ نے دلکش نظارے کو اس وقت اور حسین بنادیا جب سیارہ جوزہ سے ٹوٹتے روشن تارے بارش کی طرح برستے نظر آنے لگے۔

    دنیا کے لیے محو حیرت مناظر ہر سال 4 دسمبر سے 17 دسمبر کو مختلف جگہوں پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن چین میں واقع پہاڑی علاقے سے یہ مناظر مزید دیدنی ہوجاتے ہیں جسے دیکھنے کے لیے سیاح دنیا کے طول و عرض سے یہاں کھینچے چلے آتے ہیں۔

    ان مناظر کا سب سے روشن پہلو تاروں کا ٹوٹنا ہے جو اتنی تیزی ہوتا ہے جیسے گمان ہونے لگتا ہے کہ زمیں کی جانب ستاروں کی بارش ہو رہی ہو اور ان دنوں میں صرف ایک گھنٹے میں 16 دفعہ یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔

    خیال رہے یہ جوزائیہ بارش ہر سال مستقل بنیادوں پر برپا ہوتی ہے جو کہ 3 ہزار 2 سو فیتنوں (Phaethon) کے ٹوٹنے کے باعث پیش آتا ہے

    کہا جاتا ہے کہ یہ سیارہ جوزے کے ناکارہ پتھریلی حصے ہوتے ہیں جو کمزور یا ناقص ہوجانے کے باعث ٹوٹ کر گرنے لگتے ہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے جسے فطرت ہر سال دہراتی ہے تاہم سورج کی روشنی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ٹوٹے ہوئے حصے کوئی چمکدار ستارے ہیں

    کہکشاؤں کی بارش سے متعلق ہر مذہب، قوم اور ملک میں الگ الگ نظریات رائج ہیں کچھ اسے خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں جس کا پورا سال انتظار کیا جاتا ہے اور عین ٹوٹتے تارے کے دوران خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے دلی مراد بر آتی ہے جب کہ پریمیوں کے لیے بھی یہ لمحات خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

    تاہم کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اسے خوش قسمت نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے دیوتا کی ناراضی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دیوتا کو منانے کے لیے خصوصی قربانیاں نذر کی جاتی ہیں اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں جب کہ اسلام میں چاند گرہن و سورج گرہن کی طرح اس موقع پر بھی نفل نمازوں کے اہتمام کی ہدایت ملتی ہے۔

     دلفریب نظاروں کی ویڈیو دیکھیں



    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • کہکشاں کے نظروں سے اوجھل ہونے کا خدشہ

    کہکشاں کے نظروں سے اوجھل ہونے کا خدشہ

    حال ہی میں جاری کیے جانے والے ایک عالمی نقشہ کے مطابق دنیا میں روشنیوں کا طوفان آسمان کی خوبصورت کہکشاں کے نظارے کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کردے گا۔

    کہکشاں یا ’ملکی وے‘ کا نظارہ دنیا کے بعض حصوں میں کبھی کبھی دکھائی دیتا ہے اور یہ نہایت حسین ںظارہ ہوتا ہے۔ یہ نظارہ خلا نوردوں کے شوق اور مصوروں، شاعروں اور موسیقاروں کے فن کو مہمیز کرتا ہے۔ لیکن حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہم اس شاندار نظارے سے محروم ہوجائیں گے۔

    mw-3

    تحقیق کے مطابق 60 فیصد یورپی، 80 فیصد شمالی امریکی جبکہ سنگاپور، کویت اور مالٹا کی تمام آبادی مصنوعی روشنیوں کی وجہ سے اس نظارے کو نہیں دیکھ سکتی۔

    تحقیق کے سربراہ کے مطابق یہ ہماری دنیا کے ایک ثقافتی خزانے کی محرومی ہوگی۔

    mw-5

    ایک اور محقق جان ملٹن کے مطابق ایک وسیع ’سڑک‘ کا نظارہ جس کی گرد سونے جیسی ہے اور جس کا فرش ستاروں کا ہے، محض مصنوعی روشنیوں کے باعث ہم سے چھن جائے گا۔

    ان کے مطابق مصنوعی روشنیوں کے باعث ہماری زمین کے گرد ایک دھند لپٹ چکی ہے جس کے باعث ہم کہکشاں اور چھوٹے ستاروں کو دیکھنے سے محروم ہوگئے ہیں۔

    mw-4
    ایک خلا نورد کو خلا سے زمین ایسی نظر آتی ہے

    محققین کے مطابق ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ رات کا آسمان ہمارے قدرتی ثقافتی ورثہ ہے اور یہ ہم سے چھن رہا ہے۔

    mw-2

    دنیا میں مصنوعی روشنیوں کا بڑھتا استعمال پہلے ہی باعث تشویش ہے۔ اس سے قبل بھی ایک تحقیق کی گئی تھی جس سے پتہ چلا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔