Tag: کیسینی

  • زحل کے چاند پرآندھی کا پہلی بارمشاہدہ کیا گیا

    زحل کے چاند پرآندھی کا پہلی بارمشاہدہ کیا گیا

    واشنگٹن: سیارہ زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استواپر گزشتہ روز گرد کے طوفان کامشاہدہ کیا گیا، یہ مشاہدہ ناسا کے خلائی جہاز ’کیسینی ‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا کے کیسینی نامی پروب سے گزشتہ روز موصول ہونے والی تصاویر کے مطابق زحل کے چاند ٹائٹن پر آندھی چل رہی تھی ، کسی سیارے کے چاند پر یہ آندھی کا پہلا مشاہدہ ہے۔

    یہ آندھی زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استوا کے علاقے میں دیکھی گئی ہے- سائنسداں جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر آتش فشاں پہاڑ موجود ہیں اور وہاں پر ہائیڈروکاربن سائیکل اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح پانی کا سائیکل زمین پر کام کرتا ہے- جس طرح زمین پر پانی کے سمندروں سے بھاپ اٹھتی ہے، بادل بنتے ہیں، بارش ہوتی ہے، بارش کا پانی ندی نالوں سے دریاؤں اور وہاں سے سمندروں میں جاتا ہے اسی طرح ٹائٹن پر میتھین گیس انتہائی سرد ماحول کی وجہ سے مائع حالت میں موجود ہے۔

    یونی ورسٹی آف پیرس کے آسٹرونامر سباسشین روڈریگیوز کا کہنا ہے کہ ٹائٹن ایک انتہائی متحرک چاند ہے اور اس پر آندھی کے مشاہدے کے بعد اب اس کی جیالوجی کا زمین اور مریض کی جیالوجی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

    میتھین کے سمندروں سے میتھین کے بخارات فضا میں داخل ہوتے ہیں اور بادلوں کو تشکیل دیتے ہیں ، یتھین کے بادل پہاڑوں پر جا کر مائع میتھین بارش کی صورت میں برساتے ہیں، یہ مائع میتھین ندی نالوں اور دریاؤں سے ہوتی واپس سمندر میں پہنچتی ہے۔

    یاد رہے کہ ٹائٹن کا محور بھی زمین کی طرح جھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹائٹن پر زمین کی طرح گرمی اور سردی کے موسم ہوتے ہیں۔بہار یا خزاں کے موسم میں سورج ٹائٹن کے خطِ استوا کے عین اوپر ہوتا ہے اور اس علاقے میں شدید جھکڑ پیدا ہوتے ہیں اور آندھیاں چلتی ہیں۔ہمیں ان جھکڑوں کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا لیکن ابھی تک گردوغبار سے بھرپور آندھی کا مشاہدہ نہیں ہو پایا تھا- اب کیسینی کی بدولت ٹائٹن پر آندھیوں کا مشاہدہ بھی ہو گیا ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر بہت سا نامیاتی مواد موجود ہے (میتھین خود ایک نامیاتی یعنی organicمالیکیول ہے) اس لیے اس آندھی میں بھی بہت سا نامیاتی مواد اڑتا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں پھیل جاتا ہے- میتھین کی بارشوں سے یہ نامیاتی مواد ٹائٹن کی سطح میں جذب ہو سکتا ہے اور پیچیدہ مالیکیولز میں تبدیل ہو سکتا ہے،گویا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ٹائٹن پر کسی نہ کسی شکل میں زندگی کا امکان بھی موجود ہے۔

  • پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی نژاد جرمن سائنس داں ڈاکٹر نُزیر اوران کےہمراہ سائنسدانوں کی ٹیم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سیارہ زحل کے چاند پرزندگی کے آثارموجود ہیں، یہ تحقیق ناسا اوریورپی اسپیس ایجنسی اور اطالوی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ مشن ’کیسینی‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا پرکی گئی ہے ۔

    سائنس کی دنیا کے موقر ترین جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی تحقیق پاکستانی سائنسداں ڈاکٹرنزیراورڈاکٹر فرینک پوسٹ بر کی سربراہی میں کی گئی ہے جس کے مطابق زحل کے برفیلے چاند’’انسیلیدس‘‘ پر زندگی کےلیے موافق حالات موجودہ ہیں۔

    نیچر نامی جریدے کا برقی عکس

    ناسا کے خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔

    یہ تحقیق یونی ورسٹی آف ہائیڈل برگ سے تعلق رکھنے والے نزیرخواجہ اورفرینک پوسٹ برگ کی سربراہی میں یورپین اسپیس ایجنسی میں کی گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے خلا میں تیرتے منجمد آمیزے کا جب تجزیہ کیا گیا تو اس میں نامیاتی مالیکیولز کے بڑے ٹکڑے پائے گئے جو کہ ارتقاء کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    ہائیڈرو وینٹس کا عمل

    اس حوالے سے ڈاکٹرپوسٹ برگ کا کہنا ہے کہ زحل کے چاند کےسمندروں میں جاری یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہماری زمین پر یہ عمل سمندروں کی تہہ میں جاری رہتا ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں کرہ ارض پر اولین حیات کا وجود ہوا تھا۔

    ڈاکٹر پوسٹ برگ کی اس تحقیق میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر نزیر خواجہ ان کے شریکِ کار تھے اور دونوں ماہرین کے زیرِ نگرانی دنیا بھرکے نامور سائنسدانوں نے یہ تحقیق مرتب کی ہے۔

    ڈاکٹرنُزیربطور پاکستانی


    ڈاکٹر نزیر خواجہ کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔

    ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    اسلام آباد میں ڈاکٹر نزیر خواجہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

    پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں

    بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔

    کیسینی جہاز کا سفر


    خیال رہے کہ کیسینی میں ایسے آلات موجود تھے کہ وہ خلا میں جس شے کا بھی معائنہ کرتا اس کا مکمل ڈیٹا یہاں امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کو موصول ہوجاتا تھا ۔ یہ جہاز چار ارب ڈالر کی لاگت سے خلا میں بھیجا گیا تھا جسے زحل تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ اس نے زحل سے کئی کار آمد تصاویر اور ڈیٹا یہاں سائنسدانوں کو فراہم کیا تھا ۔

    خلائی جہاز کیسینی

    سنہ 2017 میں اس کا رخ زحل کی سطح کی جانب موڑ کر اسے تباہ کردیا گیا تھا ۔سائنس دانوں کے مطابق کیسینی کا مشن پورا ہوچکا تھا، اس کا ایندھن اختتام پر تھا ، جس کے بعد وہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتا اس لیے اس جہاز کا تباہ ہونا بہتر تھا چنانچہ اسے زحل کے مدار میں داخل کردیا گیا۔

    ناسا کے مطابق اس مشن پر چار ارب ڈالر کی لاگت آئی اور تیرہ برس کاعرصہ لگا، اس کی رفتار ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اسی رفتار سے یہ زحل کی سطح سے ٹکرانے کے لیے روانہ ہوا۔متوقع وقت پر جہاز کے سگنل آنا بند ہوگئے جس سے سائنس دانوں کو یقین ہوگیا کہ جہاز زحل سیارہ سے ٹکرا کر تباہ ہوچکا ہے۔

  • خلا کی چند خوبصورت اور حیران کن تصاویر

    خلا کی چند خوبصورت اور حیران کن تصاویر

    خالق کائنات نے صرف ہماری زمین کو ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کو اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس پر جتنا غور کیا جائے اتنا ہی ہم پر حیرت و فکر کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔

    زمین کے نظارے تو خوبصورت ہیں ہی سہی، لیکن زمین کی حدود سے باہر خلا میں بھی ایسے ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی خلا کی کچھ تصاویر دکھانے جارہے ہیں جنہیں دیکھ کر شاید آپ خلا میں منتقل ہونے کا ارادہ کرلیں۔


    سیارہ مشتری پر سورج گرہن کا منظر


    مختلف رنگوں کی کہکشائیں


    سورج کی بیرونی تہہ میں ہونے والا قدرتی دھماکہ


    امریکا کی وسطی و جنوبی ریاستوں میں تباہی مچانے والا طوفان ماریا خلا سے کچھ یوں دکھائی دیتا ہے


    خلا میں مصروف عمل چند خلا باز


    ستاروں کے درمیان کہکشاں


    خلائی جہاز کیسینی کی تباہی سے پہلے سیارہ زحل کی آخری مکمل تصویر


    خلا سے زمین کی روشنیاں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زحل اور اس کے حلقوں کے درمیان عظیم خلا

    زحل اور اس کے حلقوں کے درمیان عظیم خلا

    خلائی جہاز کیسینی کا نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل اور اس کے گرد موجود دائروں یا حلقوں کے درمیان سفر جاری ہے اور اس دوران نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔

    کیسینی اپنے سفر کے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کے سفر کا آخری مرحلہ سیارہ زحل اور اس کے خوبصورت حلقوں کے درمیان 22 غوطے لگانا ہے۔

    اپنے پہلے غوطے کے دوران کیسینی سے موصول ہونے والے ڈیٹا سے سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ سیارہ زحل اور اس کے حلقوں کے درمیان موجود جگہ کسی بھی قسم کی گیس یا گرد، دھول، مٹی کے ذرات سے پاک ہے اور یہاں کی فضا مکمل طور پر خالی ہے۔

    سائنس دانوں نے اس خالی جگہ کو عظیم خلا کا نام دیا ہے۔

    یہ غوطہ سیارہ زحل اور اس کے سب سے قریبی حلقے کے درمیان تھا جو تقریباً 24 سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ناسا کے مطابق یہ وہ مقام ہے جہاں آج سے پہلے کوئی خلائی جہاز نہیں پہنچ سکا۔

    مشن سے منسلک سائنس دانوں کو امید تھی کہ یہ خالی جگہ گرد سے آلودہ ہوگی اور جب گرد کے یہ ذرات کیسینی سے ٹکرائیں گے تو نہ صرف بہت شور پیدا ہوگا بلکہ کیسینی کو خود کار نظام کے تحت اپنے اوپر ایک حفاظتی خول بھی چڑھانا پڑے گا تاکہ وہ ان ذرات کے باعث نقصان سے محفوظ رہ سکے۔

    تاہم جب کیسینی اس خلا میں داخل ہوا تو سائنسدانوں کو جھٹکا لگا کیونکہ انہیں بہت کم شور سنائی دیا جبکہ کیسینی کو ڈھال فراہم کرنے کے لیے اس کا خود کار نظام بھی حرکت میں نہیں آیا۔

    مشن کے سربراہ ایرل میز کا کہنا ہے، ’ہم گن سکتے ہیں کہ ہم نے کتنی بار ننھے ذرات کی کیسینی سے ٹکرانے کی آواز کو سنا۔ یہ ہماری توقع کے بالکل برخلاف تھا‘۔

    ان کے مطابق اس پہلے غوطے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر زمین پر موجود سائنس دانوں اور کیسینی کے خود کار نظام کو حکمت عملی طے کرنی تھی کہ کیسینی کے اگلے 21 غوطوں کے دوران کیا حالات پیش آسکتے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا ہوگا۔

    ساتھ ہی وہ یہ جاننے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں کہ زحل کے اس مقام پر گرد کی سطح اس قدر کم کیوں ہے۔

    کیسینی کا سفر

    یاد رہے کہ خلائی جہاز کیسینی گزشتہ 13 سالوں سے زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر اس کے بارے میں تحقیق اور تصاویر زمین کی طرف روانہ کر رہا تھا۔

    اس سارے سفر کے دوران کیسینی زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر رہا ہے اور اس نے زحل کی فضا یا اس کے حلقوں سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کی۔

    تاہم اب یہ اس کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس میں آئندہ 22 ہفتوں کے دوران یہ زحل کی فضا اور اس کے حلقوں کے گرد تقریباً 22 غوطے لگائے گا اور ہر غوطے میں اس سے قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔

    اس دوران یہ زحل کی واضح تصاویر بھی زمین کی طرف روانہ کرتا رہے گا۔

    اپنے آخری یعنی 22 ویں چکر میں یہ زحل کی فضا میں داخل ہوجائے گا اور انتہائی تیز رفتاری سے زحل کی فضاؤں کے ساتھ رگڑ کھا کر جل اٹھے گا اور اس کے ساتھ ہی کیسینی کا سفر اختتام پذیر ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زحل کے حلقوں کے درمیان خلائی جہاز کا غوطہ

    زحل کے حلقوں کے درمیان خلائی جہاز کا غوطہ

    خلائی جہاز کیسینی نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل اور اس کے گرد موجود دائرے یا مدار کے درمیان پہنچ گیا ہے۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ یہ زحل کا وہ مقام ہے جہاں آج سے پہلے کوئی خلائی جہاز نہیں پہنچ سکا ہے۔

    یہ کیسینی کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس کے بعد یہ زحل کے اندر گر کر تباہ ہوجائے گا۔

    اس موقع پر گوگل نے بھی اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اپنے ڈوڈل کو اس سفر کے منظر سے سجا دیا۔

    کیسینی کا سفر

    کیسینی خلائی جہاز کو سنہ 1997 میں زمین سے زحل کی جانب بھیجا گیا تھا اور یہ جولائی 2004 میں وہاں پہنچا تھا۔

    گزشتہ 13 سالوں سے یہ خلائی جہاز زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر اس کے بارے میں تحقیق اور تصاویر زمین کی طرف روانہ کر رہا تھا۔

    اس دوران اس نے زحل کے گرد قائم دائروں یا حلقوں اور اس کے چاندوں کی تصاویر بھی بھیجی ہیں۔

    اس سارے سفر کے دوران کیسینی زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر رہا ہے اور اس نے زحل کی فضا یا اس کے حلقوں سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کی۔

    اب یہ اس کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس میں یہ زحل کی فضا اور اس کے حلقوں کے گرد تقریباً 22 غوطے لگائے گا۔

    گزشتہ روز لگایا جانے والا غوطہ سیارہ زحل اور اس کے سب سے قریبی حلقے کے درمیان تھا جو تقریباً 24 سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔

    کیسینی کے سفر کی تصوراتی منظر کشی

    کیسینی کا یہ سفر ستمبر تک جاری رہے گا جس کے بعد اس میں ایندھن ختم ہوجائے گا اور یہ 15 ستمبر کو زحل کی فضا میں اپنا آخری غوطہ لگا کر فنا ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔