Tag: کیفی اعظمی

  • کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک

    کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک

    ممتاز ترقی پسند شاعر اور فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا میں رومانوی نظمیں کہیں، لیکن جلد ہی ان کی فکر اور نظریات نے انھیں انقلابی ترانوں اور شاعری کی طرف مائل کردیا۔ ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے اس دور میں کیفی اعظمی نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کی اور قوم پرستی کے ترانے لکھنے لگے۔ کیفی اعظمی ایک شاعر ہی نہیں اچھے نثر نگار بھی تھے اور ترقی پسند تحریک کا بڑا نام تھے۔

    10 مئی 2002ء میں بھارت میں اپنے گاؤں میں زندگی کا سفر تمام کرنے والے کیفی اعظمی مارکسزم سے متاثر تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی رکن بن کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انقلابی نظریات کے پرچار کے لیے استعمال کیا ان کی پُراثر اور سوز و گداز سے بھرپور نظمیں ہندوستان بھر میں مشہور ہوئیں۔

    کیفی اعظمی انیس، حالی شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر رہے اور پھر پیٹ کی خاطر فلموں کے لیے گیت لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان کے گیت بہت مقبول ہوئے اور بطور شاعر کیفی اعظمی کو غیر معمولی شہرت ملی۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے شعرا میں سے ہیں جنھوں نے نثر میں بھی خوب رنگ جمایا۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔ وہ ممتاز ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جو زندگی میں مسلسل جدوجہد اور اپنے افکار کی خاطر متحرک رہے۔ غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیقی عمل کو اہمیت دی۔ انھیں رومان پرور شاعر کے طور پر ہی نہیں انسان دوست خیالات رکھنے والا تخلیق کار مانا جاتا ہے۔ عملی طور بھی کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصّہ رہے اور کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن کے علاوہ وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1918ء کو دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے مدرسہ بھیجا گیا، لیکن وہاں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف احتجاج پر نام خارج کر دیا گیا۔ بعد میں‌ انھوں نے لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر کامل اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے اور تب انھیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور وہ کانپور چلے گئے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں وہ مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور یہیں انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ جب کیفی کمیونسٹ بن گئے تو سجّاد ظہیر کے ساتھ بمبئی چلے گئے جہاں پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ” میں لکھنے لگے۔ 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور ان سے شادی ہوگئی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوئیں اور کارکن گرفتار کیے گئے تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اختیار کی۔

    اس زمانے میں‌ مفلسی نے بھی ان پر مصائب توڑے۔ کیفی نے فلموں کی طرف توجہ کی تو قسمت نے یاوری کی اور فلموں کے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے جن کا خوب معاوضہ ملنے لگا۔ انھیں تین فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ کاغذ کے پھول، حقیقت، ہیر رانجھا اور گرم ہوا ان کی اہم فلمیں ہیں۔

    ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو
    ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

    بولی وڈ کی اعزاز یافتہ اور عالمی شہرت کی حامل اداکارہ شبانہ اعظمی اسی شاعرِ بے بدل کی بیٹی ہیں۔ وہ ایک باکمال اداکارہ ہی نہیں بلکہ اپنے والد کی طرح اپنے نظریات اور سیاسی و سماجی افکار و خدمات کی وجہ سے بھارت میں پہچانی جاتی ہیں۔ کیفی اعظمی اپنی بیٹی کو ‘‘منی’’ کہتے تھے۔ شبانہ اعظمی نے اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش سے متعلق ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ‘‘میری پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں ہر طرف اشتراکیت اور کارل مارکس کی باتیں ہوتی تھیں۔ والدین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی سے گھر ادیبوں، شعرا اور دانش وروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا جس نے میرے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں روایتی عورت کے مقابلے میں سماج کو الگ انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ادب اور پرفارمنگ آرٹ میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور پھر میں نے اپنے کیریئر کا آغاز بھی اداکاری سے کیا۔ ابو کے لیے میں ہمیشہ ‘‘منی’’ رہی۔ وہ اسی پیار بھرے نام سے مجھے پکارتے تھے۔ آج بھی مجھے ان کی یاد بہت ستاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ انھیں کاغذ قلم کے ساتھ ٹیبل پر جھکا ہوا پایا۔ مجھے کم عمری میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والد کا کام کیا ہے۔ کچھ شعور آیا تو جانا کہ وہ ایک شاعر ہیں اور فلمی صنعت میں ان کا بہت نام اور مقام ہے۔’’

  • کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک ایک سودائی کا تذکرہ

    کیفی اعظمی: رومان سے انقلاب تک ایک سودائی کا تذکرہ

    کیفی اعظمی نے جب تخلیقی سفر کا آغاز کیا تو ابتدا رومانوی نظموں سے ہوئی، لیکن جلد ہی ان کی فکر اور نظریات کا رُخ سیاست اور انقلاب کی طرف ہوگیا۔ وہ زمانہ ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا تھا جب کیفی اعظمی نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کی اور قوم پرست کی حیثیت سے آزادی کے ترانے لکھنے لگے۔ آج اردو کے اس ممتاز شاعر، ادیب اور ترقی پسند تحریک کی نام ور شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    مارکسزم سے متاثر ہونے والے کیفی اعظمی کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی رکن بنے تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انقلابی نظریات اور سیاسی واقعات کو بیان کرنے لیے اس طرح استعمال کیا کہ کئی پُراثر اور سوز و گداز سے بھرپور نظمیں سامنے آئیں۔ انھوں نے عوام کے جذبات اور ان کے دکھ سکھ کو اپنی شاعری میں سمویا اور ان کا کلام مقبول ہونے لگا۔

    کیفی اعظمی انیس، حالی شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر رہے اور پھر پیٹ کی خاطر فلموں کے لیے گیت لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان کے گیت بہت مقبول ہوئے اور بطور شاعر کیفی اعظمی کو غیر معمولی شہرت ملی۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے شعرا میں سے ہیں جنھوں نے نثر میں بھی خوب رنگ جمایا۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔ وہ ممتاز ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جو زندگی میں مسلسل جدوجہد اور اپنے افکار کی خاطر متحرک رہے۔ غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیقی عمل کو اہمیت دی۔ انھیں رومان پرور شاعر کے طور پر ہی نہیں انسان دوست خیالات رکھنے والا تخلیق کار مانا جاتا ہے۔ عملی طور بھی کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصّہ رہے اور کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن کے علاوہ وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1918ء کو دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے مدرسہ بھیجا گیا، لیکن وہاں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف احتجاج پر نام خارج کر دیا گیا۔ بعد میں‌ انھوں نے لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر کامل اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے اور تب انھیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور وہ کانپور چلے گئے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں وہ مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور یہیں انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ جب کیفی کمیونسٹ بن گئے تو سجّاد ظہیر کے ساتھ بمبئی چلے گئے جہاں پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ” میں لکھنے لگے۔ 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور ان سے شادی ہوگئی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوئیں اور کارکن گرفتار کیے گئے تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اختیار کی۔

    اس زمانے میں‌ مفلسی نے بھی ان پر مصائب توڑے۔ کیفی نے فلموں کی طرف توجہ کی تو قسمت نے یاوری کی اور فلموں کے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے جن کا خوب معاوضہ ملنے لگا۔ انھیں تین فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ کاغذ کے پھول، حقیقت، ہیر رانجھا اور گرم ہوا ان کی اہم فلمیں ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام انھوں نے بھارت میں اپنے گاؤں میں گزارے جہاں 10 مئی 2002 کو دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے۔

    ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو
    ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

    بولی وڈ کی اعزاز یافتہ اور عالمی شہرت کی حامل اداکارہ شبانہ اعظمی اسی شاعرِ بے بدل کی بیٹی ہیں۔ وہ ایک باکمال اداکارہ ہی نہیں بلکہ اپنے والد کی طرح اپنے نظریات اور سیاسی و سماجی افکار و خدمات کی وجہ سے بھارت میں پہچانی جاتی ہیں۔ کیفی اعظمی اپنی بیٹی کو ‘‘منی’’ کہتے تھے۔ شبانہ اعظمی نے اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش سے متعلق ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ‘‘میری پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں ہر طرف اشتراکیت اور کارل مارکس کی باتیں ہوتی تھیں۔ والدین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی سے گھر ادیبوں، شعرا اور دانش وروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا جس نے میرے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں روایتی عورت کے مقابلے میں سماج کو الگ انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ادب اور پرفارمنگ آرٹ میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور پھر میں نے اپنے کیریئر کا آغاز بھی اداکاری سے کیا۔ ابو کے لیے میں ہمیشہ ‘‘منی’’ رہی۔ وہ اسی پیار بھرے نام سے مجھے پکارتے تھے۔ آج بھی مجھے ان کی یاد بہت ستاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ انھیں کاغذ قلم کے ساتھ ٹیبل پر جھکا ہوا پایا۔ مجھے کم عمری میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والد کا کام کیا ہے۔ کچھ شعور آیا تو جانا کہ وہ ایک شاعر ہیں اور فلمی صنعت میں ان کا بہت نام اور مقام ہے۔’’

  • انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    کیفی اعظمی ہندوستان کے نام وَر اور مقبول قوم پرست شاعر تھے جو 10 مئی 2002ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ کیفی اعظمی نے اپنی انقلابی نظموں اور آزادی کی امنگ و ترنگ سے بھرے ترانوں سے ہندوستان کے عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور ترقی پسند مصنفّین میں اپنے نظریات اور تخلیقات کے سبب ممتاز ہوئے۔

    انھوں نے ملکی اور غیر ملکی سیاسی واقعات پر پُراثر نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری میں عوام کے سکھ دکھ اور ان کی زندگی نمایاں ہوتی ہے۔ طبقاتی تصادم اور سماجی استحصال ان کی شاعری کا موضوع رہا۔ وہ انیس، حالی، شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے قلم کاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔

    کیفی اعظمی 1918ء میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید اطہر حسین رضوی تھا۔ انھوں نے عربی اور فارسی کی اسناد حاصل کیں اور مطالعے سے اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ کیفی اعظمی نے کم عمری میں‌ شاعری شروع کردی تھی، ابتدائی دور میں انھوں نے رومانوی نظمیں لکھیں، لیکن بعد میں ان کی شاعری پر انقلابی فکر غالب ہوگئی۔

    مطالعے کے شوق نے انھیں مارکسزم، کمیونزم اور دیگر نظریات کی طرف متوجہ کیا اور اپنے وقت کے مشہور اور نام ور ترقی پسند مصنّفین کا ساتھ نصیب ہوا تو وہ کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی کارکن بن گئے۔ اب ان پر مزدوروں اور عوام کی حالت بدلنے اور سماج کی فرسودہ و کہنہ روایات کو ختم کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی جس کا اظہار قلم کے ذریعے کرنے لگے۔ کیفی اعظمی ممبئی منتقل ہوئے تو 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ وہ ترقی پسند مصنفّین کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔

    اس زمانے میں عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصّہ اور آزادی کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور ایسے میں‌ جن ترقی پسند قلم کاروں کو مقبولیت مل رہی تھی، ان میں کیفی اعظمی بھی شامل تھے۔ ترقی پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے فلمی گیت لکھے اور نام بنایا۔ اسی دوران مکالمے اور منظر نویسی کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ فلمی دنیا میں مصروف ہوگئے۔ کیفی اعظمی نے فلم نگری کے کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
    کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری میں ممتاز اور غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری اور خاص طور پر نظمیں فکر و فن کے معیار کے اعتبار سے اردو شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

  • کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    مشہور شاعر کیفی اعظمی کے سریلے گیتوں، غزلوں‌ اور لطیف جذبات سے آراستہ نظموں کے دیوانے آج ان کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔

    سید اطہر حسین رضوی ان کا اصل نام تھا۔ وجہِ شہرت شاعری اور قلمی نام کیفی اعظمی سے معروف ہیں۔

      1919 کو بھارت کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے کیفی اعظمی نے 11 برس کی عمر ہی میں شاعری شروع کر دی تھی۔ زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا تو سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔ اس دور میں‌ یہ شعر ان کی شناخت بنا۔

    مدت کے بعد اس نے جو الفت سے نظر کی
    جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

    غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیق کو اہمیت دی۔ جلد ہی اشتراکیت اور کارل مارکس سے شناسائی ہو گئی۔ وہ ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کی غزلیں اور نظمیں جہاں انھیں اردو زبان کے ایک رومان پرور شاعر کے طور پر متعارف کرواتی ہیں، وہیں ان کی شاعری میں انسان دوستی کا رنگ بھی ہے اور ان کے کلام سے ان کی انقلابی فکر کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

    وہ ظلم و جبر کے خلاف اپنی تخلیقات ہی کے ذریعے آواز نہیں اٹھاتے رہے بلکہ میدانِ عمل میں بھی پیش پیش رہے۔ کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصہ بنے، کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے طور پر سرگرم رہے اور صحافت بھی کی۔

    فلم کے لیے گیت نگاری کے علاوہ صحافت بھی کیفی اعظمی کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ جذبات کی فراوانی کے ساتھ خوب صورت الفاظ کا انتخاب اور منفرد لہجہ ہے جس میں انقلابی فکر اور باغیانہ ترنگ بھی شامل ہے۔ کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم  اتنا  جو مسکرا  رہے  ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپارہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا  دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ  اشک جو پیتے  جا رہے ہو
    ریکھاؤں  کا  کھیل  ہے  مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا  سہی دل میں پیار  ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار  ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

  • مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی کو کون ‘‘منی’’ کے نام سے پکارتا تھا؟

    مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی کو کون ‘‘منی’’ کے نام سے پکارتا تھا؟

    کیفی اعظمی کا نام رومان پرور  شاعر کے طور پر ہی نہیں لیا جاتا بلکہ ان کی تخلیقات سے ان کے انسان دوست اور انقلابی نظریات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کے دامن کو اپنی فکر اور مختلف اصنافِ سخن میں شعری اظہار سے مالا مال کیا۔ عالمی شہرت یافتہ اداکارہ شبانہ اعظمی انہی کی بیٹی ہیں۔

    شبانہ اعظمی کا نام آرٹ فلموں کے ذریعے خود کو  منوانے والوں میں ممتاز ہے۔ وہ ایک باکمال اداکارہ  ہی نہیں بلکہ اپنے سیاسی و سماجی نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔

    ان کے والد اور اردو زبان کے مشہور و معروف شاعر کیفی اعظمی انھیں ‘‘منی’’ کہتے تھے۔ دنیا بھر میں اپنے فن کی وجہ سے شہرت یافتہ یہ اداکارہ آج بھی گھر بھر کے لیے ‘‘منی’’ ہے۔ شبانہ اعظمی شبانہ اعظمی اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش کے حوالے سے بتاتی ہیں۔

    ‘‘میری پرورش جس ماحول میں  ہوئی وہاں ہر طرف اشتراکیت اور کارل مارکس کی باتیں ہوتی تھیں۔ والدین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی سے گھر ادیبوں، شعرا اور دانش وروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا جس نے میرے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ میں روایتی عورت کے مقابلے میں سماج کو الگ انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی۔ وقت کے ساتھ ادب اور پرفارمنگ آرٹ میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور پھر میں نے اپنے کیریر کا آغاز بھی اداکاری سے کیا۔ ابو کے لیے میں ہمیشہ ‘‘منی’’ رہی۔ وہ اسی پیار بھرے نام سے مجھے پکارتے تھے۔ آج بھی مجھے ان کی یاد بہت ستاتی ہے۔ میں نے ہمیشہ انھیں کاغذ قلم کے ساتھ ٹیبل پر جھکا ہوا پایا۔ مجھے کم عمری میں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والد کا کام کیا ہے۔ کچھ شعور آیا تو جانا کہ وہ ایک شاعر ہیں اور فلمی صنعت میں ان کا بہت نام اور مقام ہے۔’’

    شبانہ اعظمی کی چند مشہور  فلمیں شطرنج کے کھلاڑی،  سوامی، منڈی،  فقیرا، پرورش، امر اکبر انتھونی ہیں۔ شبانہ اعظمی نے ہندی سنیما اور آرٹ فلموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فلموں کے لیے بھی اداکاری کی اور کام یاب رہیں۔ متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے والی شبانہ اعظمی کی شادی معروف گیت نگار جاوید اختر سے ہوئی۔