یاؤنڈے: افریقی ملک کیمرون میں ایک شخص کی جان محض ایسے بچی کہ وہ ایک سیکنڈ قبل اس مقام سے اٹھ کر چلا گیا جہاں اگلے لمحے مٹی کے تودے کی صورت میں موت کئی افراد کو ساتھ لے گئی۔
سگریٹ نوشی سخت مضر صحت ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن کیمرون کے دارالحکومت یاؤنڈے میں ایک جشن کی تقریب میں شریک شخص سگریٹ کی طلب میں اٹھ کر گیا تو اگلے لمحے اس مقام پر مٹی کا تودہ آ گرا۔
روئٹرز کے مطابق یاؤنڈے میں ایک جشن کی تقریب میں شریک افراد پر مٹی کا تودہ گرنے سے 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اور واقعے سے چند لمحے قبل مکولو ڈوس نامی ایک شخص سگریٹ پینے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔
یہ جشن فٹ بال کے ایک میدان میں ہو رہا تھا، جس کے باہر سرخ مٹی کا ایک ٹیلہ تھا، مکولو ڈوس نے بتایا کہ وہ دیگر مہمانوں سے الگ ہو کر سگریٹ پینے جا رہے تھے، جب انھوں نے اچانک مٹی کا تودہ گرنے کی آواز سنی۔
مکولو ڈوس کے مطابق جب انھوں نے مڑ کر وہاں دیکھا جہاں وہ چند لمحے قبل بیٹھا ہوئے تھے، تو وہاں نہ تو حاضرین نظر آئے نہ ہی کرسیاں، وہ سب مٹی تلے دب چکے تھے۔
بچ جانے والے ایک اور شخص فوٹوسو کلاڈ مائیکل نے بتایا ’’میرے سر پر ایک پتھر آ لگا، جب میں نے اوپر دیکھا تو مٹی نیچے کی جانب سرکتی ہوئی دکھائی دی، میں اپنی جگہ سے اچھلا، لیکن زمین پر گر گیا، میں دوبارہ اٹھا لیکن دوسری بار بھی گر گیا۔‘‘ مٹی تلے جزوی طور پر دب جانے والے مائیکل ان لوگوں میں شامل تھے جنھیں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکالا۔ تاہم اس سانحے میں مائیکل کی والدہ، بھائی اور بہترین دوست مر گئے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ کیمرون میں 2019 کے بعد یہ سب سے مہلک لینڈ سلائیڈنگ تھی۔
پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔
دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں اور ایسی ہی ایک کوشش پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیوں کی صورت میں سامنے آگئی۔
ان کشتیوں کو بنانے کا آغاز وسطی افریقہ میں واقع ملک کیمرون کے کچھ طلبا نے کیا جس کے بعد یہ براعظم افریقہ میں تیزی سے مقبول ہوتی گئیں۔
پانی کی پلاسٹک والی استعمال شدہ بوتلوں سے بنائی گئی یہ کشتیاں دیکھنے میں بہت منفرد معلوم ہوتی ہیں۔
چونکہ پلاسٹک وزن میں ہلکا ہوتا ہے لہٰذا وہ پانی میں ڈوبتا نہیں، لیکن پلاسٹک کی کشتی میں کسی کے بیٹھنے کی صورت میں وہ ڈوب بھی سکتی ہیں، لہٰذا یہاں طبیعات کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی کشتیاں بنائی گئی ہیں جو سائز میں بڑی ہیں چنانچہ وہ اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ کو توازن میں رکھتی ہیں۔
پلاسٹک کی بے دریغ استعمال ہوتی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کے لیے یہ ایک اچھوتا خیال ہے اور یقیناً دیگر ممالک کو بھی اس معاملے میں افریقہ کی تقلید کرنی چاہیئے۔
یاؤندے : افریقی ملک کیمرون کے شمالی علاقے میں دہشت گردوں کے حملے 6 افراد ہلاک جبکہ جوابی کارروائی میں 5 حملہ آور بھی مارے گئے۔
تفصیلات کے مطابق کیمرون کے شمالی علاقے مانگیو میں نائیجیریا کی دہشت گرد تنظیم بوکوحرام نے ضلعی سربراہ کے گھر پرحملہ کیا جس کے نتیجے میں ضلعی سربراہ سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے۔
سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا پیچھا کرتے ہوئے 5 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا اور 3 زخمی ہوگئے۔
نائجیریا میں دہشت گرد تنظیم بوکوحرام کی مسلح کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار افراد نشانہ بنے ہیں جبکہ اس کی کارروائیاں نائجیریا تک محدود نہیں رہی بلکہ پڑوسی ملک کیمرون بھی اس کی لپیٹ میں رہا ہے۔
عالمی تجزیاتی ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق دہشت گرد تنظیم نے 2014 سے تاحال کیمرون میں اپنی مسلح کارروائیوں میں 2 ہزار شہری اور فوجیوں کو ہلاک کردیا ہے۔
کیمرون پڑوسی ممالک چاڈ اور نائجیریا کے ساتھ مل کر نائجیریا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ فوجی کارروائیاں کررہا ہے۔
ہجرت ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو عشروں سے بسا ہوا اس کا گھر اور پچھلی زندگی چھوڑ کر ایک نئی زندگی شروع کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اگر آگے آنے والی زندگی بہتر ہو تو یقیناً پچھلی جگہ سے ہجرت کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر آگے صرف تکلیف ہو، بے سروسامانی ہو، مصائب ہوں، اور پریشانی ہو تو کوئی شخص، چاہے وہ کیسی ہی بدحال زندگی کیوں نہ گزار رہا ہو اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا۔
لیکن زندگی بہرحال ہر چیز سے بالاتر ہے۔ جب پرسکون گھر کے اطراف میں آگ کے شعلے گر رہے ہوں اور ہر وقت جان جانے کا دھڑکا لگا ہو تو مجبوراً ہجرت کرنی ہی پڑتی ہے۔
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باعث اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں مہاجرین کے کیمپوں میں حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس مناسب غذا ہے، نہ رہائش، اور نہ تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 60 ملین افراد اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں۔ یہ انسانی تمدن کی تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کیمپوں میں خواتین بھی ابتر حالت میں موجد ہیں۔
اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے مہاجرین ان پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوشاں ہے تاہم کروڑوں افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے وسائل بھی ناکافی ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین یو این وومین ان مہاجر کیمپوں میں موجود خواتین کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ چاہتا ہے کہ یہ خواتین ان کیمپوں میں رہتے ہوئے ہی محدود وسائل کے اندر معاشی طور پر خود مختار اور ہنر مند ہوجائیں تاکہ یہ اپنی اور اپنی خاندانوں کی زندگی میں کچھ بہتری لا سکیں۔
اسی طرح کا ایک پروگرام افریقی ملک کیمرون کے گاڈو مہاجر کیمپ میں شروع کیا گیا جہاں پڑوسی ملک، مرکزی جمہوریہ افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والی خاندان پناہ گزین ہیں۔
مرکزی جمہوریہ افریقہ اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے اور ملک کی 20 فیصد آبادی اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہے۔ یو این وومین نے ان کیمپوں میں موجود خواتین کی معاشی و سماجی بہتری کے لیے بحالی کے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے تحت اب تک 6250 خواتین مستفید ہوچکی ہیں۔ یہ خواتین غربت، صحت کے مسائل، صنفی امتیاز اور جنسی تشدد کا شکار تھیں۔
یو این وومین کی ایک رپورٹ میں ان میں سے کچھ خواتین کی کہانی بیان کی گئی جو اقوام متحدہ کی مدد کے بعد اب ایک بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔
حوا
مرکزی جمہوریہ افریقہ کی 23 سالہ حوا 8 ماہ کی حاملہ تھی جب خانہ جنگی میں اس کا شوہر، باپ اور بھائی مارے گئے اور ماں لاپتہ ہوگئی۔ حوا مشکل وقت کو جھیلنے کے لیے بالکل تنہا رہ گئی۔ وہ ایک مہاجر گروہ کے ساتھ سرحد پار کر کے کیمرون آگئی اور یہاں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔
یو این وومین سے تربیت لینے کے بعد اب حوا ان کیمپوں میں ہی خشک مچھلی اور خشک میوہ جات فروخت کرتی ہے۔ اس کا بیٹا ایک کپڑے کی مدد سے اس کی پشت پر بندھا ہوتا ہے جبکہ ایک پڑوسی لڑکا اس کے سامان کا ٹھیلا گھسیٹتا ہوا اس کے ساتھ چلتا ہے۔
اردو فدیماتو
اردو فدیماتو کیمپ میں رہنے والی 12 ہزار خواتین کی نمائندہ ہیں اور وہ یو این وومین کی کئی میٹنگز میں شریک ہو کر کیمپ کے مسائل بیان کرچکی ہیں۔ جنگ کے دوران اس کے 15 میں سے 8 بچے مارے گئے جبکہ شوہر لاپتہ ہوگیا تھا۔
وہ کہتی ہیں، ’ایک خاتون لیڈر کی حیثیت سے سب سے بڑا مسئلہ مجھے والدین کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو گھر پر ہی رکھتے ہیں اور انہیں صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں‘۔
ان کا کہنا ہے، ’یہاں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں‘۔
یایا دیا آدما
یایا دیا آدما خانہ جنگی کے دوران اپنے 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آگئیں۔ اب یہاں یو این وومین کے زیر نگرانی انہوں نے کپڑوں کی سلائی کا کام سیکھ کر اپنا کام شروع کردیا ہے۔ وہ ہر روز تقریباً 1 سے 2 ہزار افریقی فرانک کما لیتی ہیں۔
یایا مزید 3 خواتین کو بھی یہ ہنر سکھا رہی ہیں تاکہ وہ بھی ان کی طرح خود مختار ہوسکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔
اوسینا حمادو
اوسینا حمادو مہاجر کیمپ میں کھانے پینے کا ایک ڈھابہ چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’یو این وومین نے مجھے اس کی تربیت دی اور مالی معاونت فراہم کی۔ میں نے اس رقم سے سرمایہ کاری کی اور اب اپنے کاروبار کی بدولت میں اپنے گھر کی مالک ہوں‘۔
نینی داؤدا
نینی داؤدا بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جو کھانے پینے کا عارضی مرکز چلا رہی ہیں۔
اپنے شوہر کے جنگ میں مارے جانے کے بعد وہ 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آئیں اور اب اپنے کاروبار کی بدولت اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سلاماتو بھی ان کے اس کام میں ان کی معاون ہے۔
کیمرون کے مہاجر کیمپ کی رہائشی یہ خواتین گو کہ اپنے گھروں یاد کرتی ہیں مگر وہ اپنی موجودہ زندگی بدلنے کی خواہاں بھی ہیں اور اس کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ ضرور اپنے گھروں کو لوٹیں گی اور ایک نئی زندگی شروع کریں گی۔
رومانیا میں ہونے والے فٹبال میچ کے دوران کیمرون کے مڈفیلڈراچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔
کھیل کھیل میں کھلاڑی کی موت ہوگئی، ایک کھلاڑی کی زندگی کا اختتام بھی کھیل کے میدان میں ہی ہوا،رومانیا میں دو کلب کی ٹیموں کے درمیان میچ جاری تھا۔
رومانیا میں ہونے والے فٹبال میچ کے سترویں منٹ میں اچانک چھبیس سالہ کیمرون کے مڈفیلڈر پیٹرک ایکنگ گرگئے، کھلاڑی پریشان ہوئے اور مڈفیلڈرکی طرف بھاگے، اس وقت مڈ فیلڈر اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے، ریفری بھی کھلاڑی کے گرنے پر پریشان ہوئے اور میدان کی طرف بھاگے۔
مڈفیلڈر کو بچانے ایمبولنس آئی مگرتب تک بہت دیر ہوچکی تھی، ساتھی کھلاڑی مڈ فیلڈر کے اچانک اس طرح جانے سے ہکا بکا رہ گئے اور پھر جب ایمبولنس لے جانے لگی تو آنسووں کو نہ روک سکے۔
لندن : برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمڑون کا کہنا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان مخالف پالیسی پر دیئے گئے بیان پر معافئ نہیں مانگے گیں جس میں انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے تجویز کردہ پالیسی کو احمقانہ کہا تھا.
تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دسمبر میں بیان دیا گیا تھا کہ اگروہ امریکہ کے صدد نامزد ہوتے ہیں تو وہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کریں گے، اس پر برطانوی وزیراعظم کی جانب سے تبصرہ کیا گیا تھا.
برطانوی وزیراعظم سے جب سوال کیا گیا کہ وہ ٹرمپ کے حوالےسے دیئےگئےاپنے بیان پر معافی مانگیں گے،انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیان کو تبدیل نہیں کروں گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بیان دیا تھا وہ غلط تھا اور وہ اپنے بیان پر قائم ہیں.
ڈیوڈکیمرون نے تاہم ڈونلڈ ٹمپ کواس ہفتے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار نامزد ہونے اور اپنی پارٹی کے دو سیاسی حریفوں کو صدراتی ڈور سے باہر کرنے پر خراج عقیدت پیش کی ہے.
انہوں نے کہا کہ امریکی معاشرے میں امیدوار ایک طویل مرحلے سے گزرنے کے بعد منتخب ہوتا ہے اور جو امیدوار انتخابات میں اپنی پارٹی کی قیادت کرے وہ ہمارے لئے احترام کا مستحق ہے.