کراچی: صوبہ سندھ میں سیلاب متاثرین کے یہاں مزید 10 بچوں کی پیدائش ہوئی ہے، تاحال ساڑھے 9 ہزار حاملہ خواتین فلڈ ریلیف کیمپس میں موجود ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبہ سندھ میں سیلاب متاثرین کے ہاں 10 بچوں کی پیدائش ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کے فلڈ ریلیف کیمپس میں تاحال 3 ہزار 837 بچوں کی پیدائش ہو چکی ہے، کیمپوں میں مزید 9 ہزار 457 حاملہ خواتین موجود ہیں۔
وزارت صحت کے مطابق 2 ہزار 22 خواتین حمل کے پہلے فیز میں ہیں، 3 ہزار 965 خواتین حمل کے دوسرے، 2 ہزار 517 خواتین حمل کے تیسرے فیز میں اور 953 خواتین حمل کے آخری فیز میں ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فلڈ کیمپس میں 8 ہزار 784 حاملہ خواتین کو ڈائٹری سپلیمنٹ فراہم کیا گیا ہے جبکہ 7 ہزار 974 حاملہ خواتین کو ڈپتھیریا اور ٹیٹنس سمیت دیگر وبائی امراض سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جا چکی ہیں۔
علاوہ ازیں 7 ہزار 842 حاملہ خواتین کے طبی معائنے ہوچکے ہیں۔
31 سالہ زبیدہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ایک گاؤں حیات خاصخیلی کی رہائشی تھیں، مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد جب ان کے گاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو ان کا خاندان سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی جان بچا کر وہاں سے نکل آیا۔
اب ان کا خاندان دیگر سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ جھڈو (ضلع میرپور خاص) میں سڑک پر قائم ایک خیمہ بستی میں مقیم ہے۔ جب زبیدہ سے بیت الخلا کی دستیابی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ بھڑک اٹھتی ہیں، ’واش روم؟ وہ یہاں کہاں ہے، گاؤں میں تو ہم نے دو پیسے کما کر کچا پکا چند اینٹوں کا واش روم کم از کم بنا تو لیا تھا، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘۔
زبیدہ ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں سے نکل کر اب ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں اور ایک وقت کھانے کے علاوہ انہیں کوئی سہولت موجود نہیں۔
جھڈو کے قریب سڑک پر، اور اس سمیت پورے سندھ میں قائم خیمہ بستیوں میں بیت الخلا کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں جس سے تمام ہی افراد پریشان ہیں، تاہم خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔
باقاعدہ بیت الخلا موجود نہ ہونے، اور آس پاس غیر مردوں کی موجودگی میں رفع حاجت کے لیے جانا سیلاب سے متاثر ہونے والی ان خواتین کے لیے آزمائش بن چکا ہے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ان خواتین نے رفع حاجت سے بچنے کے لیے پانی پینا اور کھانا کھانا بے حد کم کردیا ہے جس سے پہلے سے ہی کم خوراکی کا شکار یہ خواتین مزید ناتوانی کا شکار ہورہی ہیں، یاد رہے کہ ان میں درجنوں خواتین حاملہ بھی ہیں۔
سکھر کی صحافی سحرش کھوکھر بتاتی ہیں کہ اکثر کیمپوں میں موجود خواتین چار، پانچ کا گروپ بنا کر ذرا سناٹے میں جاتی ہیں، اور چادروں یا رلی کی آڑ سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہورہی ہیں۔
سڑک کنارے آباد ہوجانے والی خیمہ بستیوں میں لاکھوں سیلاب زدگان موجود ہیں
سحرش کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 15، 20 روز سے سکھر اور ملحقہ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپس کی کوریج کے لیے جارہی ہیں، نہ انہیں کہیں مناسب بیت الخلا کا انتظام دکھائی دیا، نہ ہی میڈیکل کیمپس میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں جو خواتین کی بیماریوں کا علاج کرسکے۔
جھڈو کی خیمہ بستی میں بھی زیادہ تر افراد نے اپنے خیموں کے قریب رلیوں کے ذریعے ایک مخصوص حصہ مختص کر کے عارضی بیت الخلا بنایا ہوا ہے۔
زبیدہ اور دیگر خواتین نے بتایا کہ انہیں بیت الخلا کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں اور وہ آس پاس گڑھوں میں جمع بارش کا پانی جو اب گندا ہوچکا ہے، اس مقصد کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والے فلاحی کارکنان کا کہنا ہے کہ بیت الخلا کی عدم دستیابی سے خواتین عدم تحفظ اور بے پردگی کا شکار ہوگئی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ دن کی روشنی میں نہ جائیں اور وہ اندھیرا ہوجانے کا انتظار کرتی ہیں، تاہم کئی علاقوں میں ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے خواتین مزید خوفزدہ ہوگئی ہیں۔
سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر ساجدہ ابڑو بتاتی ہیں، کہ رفع حاجت کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے سب سے آسان طریقہ تو ان لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت کا نظر آرہا ہے۔
اب چونکہ وہاں لوگوں نے رہائش بھی اختیار کر رکھی ہے، تو کھلے میں رفع حاجت وہاں پر بیماریوں کا باعث بن رہی ہے، کھڑے پانی کی وجہ سے ویسے ہی وہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر مختلف وبائی امراض اور جلدی انفیکشنز کا باعث بن رہے ہیں جس کا شکار ان کیمپوں میں موجود ہر تیسرا شخص دکھائی دے رہا ہے۔
ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ رفع حاجت روکنے اور اس کے لیے گندا پانی استعمال کرنے، اور چونکہ یہ لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں اپنی جانیں بچا کر نکلے ہیں تو خواتین کے پاس مناسب ملبوسات بھی نہیں، تو خواتین میں پیشاب کی نالی میں انفیکشنز کی شکایت عام دیکھی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رفع حاجت روکنے کی وجہ سے، یا گندے پانی کے استعمال سے ہونے والا انفیکشن بڑھ کر گردوں تک کو متاثر کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ جھجھک کی وجہ سے خواتین یہ مسئلہ لیڈی ڈاکٹرز تک کو نہیں بتا پاتیں، جس کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہوتا اور مرض بڑھتا رہتا ہے۔ بعض علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں، چنانچہ یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ خواتین مرد ڈاکٹرز سے اپنا علاج کروائیں گی۔
اس بات کی تصدیق صحافی سحرش کھوکھر نے بھی کی کہ متعدد علاقوں میں کیمپس کے قریب لیڈی ڈاکٹر تو کیا سرے سے میڈیکل کیمپ ہی موجود نہیں، اکثر میڈیکل کیمپ شہر کے مرکز میں لگائے گئے ہیں اور سیلاب متاثرین کو وہاں آنے کے لیے کہا گیا ہے، اب ان سیلاب متاثرین کا پاس وہاں تک جانے کا کرایہ ہی نہیں تو وہ جا کر کیسے اپنا علاج کروائیں گے۔
سیلاب سے سندھ کے 23 اضلاع تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں
دوسری جانب محکمہ صحت کے ضلعی رین ایمرجنسی فوکل پرسن ڈاکٹر زاہد اقبال نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ضلعے میں 5 مخصوص مقامات پر فکسڈ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں، جبکہ کئی موبائل کیمپس بھی ہیں جو مختلف مقامات پر موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہر فکسڈ میڈیکل کیمپ میں 2 مرد اور 2 خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں۔
ڈاکٹر زاہد کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سیلاب زدگان میں ڈائریا کا مرض بے تحاشہ پھیل رہا ہے، صفائی کے فقدان سے جلدی بیماریاں اور مچھروں کی بہتات کے باعث ملیریا بھی زوروں پر ہے جبکہ حاملہ اور دیگر خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل میں تمام امراض کا علاج کرنے اور سیلاب زدگان کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خواتین کی ماہواری ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی دکھائی دی جس میں پہلے تو کہا گیا کہ سیلاب سے بے گھر ہوجانے والی خواتین کو ماہواری کے لیے بھی سامان درکار ہے، لہٰذا اس بات کی ترغیب دی گئی کہ سیلاب متاثرین کو بھجوائے جانے والے امدادی سامان میں سینیٹری پیڈز بھی شامل کیے جائیں۔ تاہم اس پر تنقید کرتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سینیٹری پیڈز کو شہری خواتین کی عیاشی قرار دیا اور کہا کہ دیہی خواتین اس کا استعمال تک نہیں جانتیں۔
جھڈو میں سڑک کنارے قائم خیمہ بستی میں خواتین سے جب اس حوالے سے دریافت کیا گیا، تو زیادہ تر خواتین نے سینیٹری پیڈز سے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے ماہواری کے دنوں کو اپنی آزمائش میں اضافہ قرار دیا۔
26 سالہ ہاجرہ نے کہا، ’یہاں چاروں طرف لوگ موجود ہیں، واش روم کے لیے جانا ویسے ہی بہت مشکل ہے، اوپر سے ان دنوں میں مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ عام حالات میں وہ ماہواری کے لیے سوتی کپڑا استعمال کرتی تھیں، عموماً تمام خواتین ہی ان کپڑوں کو دوبارہ دھو کر استعمال میں لاتی ہیں، لیکن اب کیمپ میں سامان کی بھی کمی ہے، پھر دھونے کے لیے گڑھوں میں موجود بارش کا گندا پانی ہی دستیاب ہے، ’کیا کریں، کہاں جائیں، بس مشکل ہی مشکل ہے‘، ہاجرہ نے بے بسی سے کہا۔
کیمپ میں موجود 15 سالہ یاسمین البتہ سینیٹری پیڈز سے واقف تھی۔ یاسمین نے ٹی وی پر ان کے اشتہارات دیکھ رکھے تھے، اور ایک بار انہیں استعمال بھی کرچکی تھی۔ یاسمین نے بتایا کہ سینیٹری پیڈز استعمال کرنے کے بعد اس نے انہیں دھو کر تلف کیا تھا۔ ’کیونکہ دھوئے بغیر پھینکنا گناہ ہے‘، اس نے بتایا۔
سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل سماجی کارکن فریال احمد کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے نہ صرف خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کیے ہیں بلکہ انہیں استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر ساجدہ ابڑو کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ تولیدی اعضا میں مختلف انفیکشنز اور بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اس کا اثر بعض اوقات آگے چل کر حمل کے دوران بھی ہوسکتا ہے جس سے دوران حمل یا بچے کی پیدائش میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعض صورتحال میں ماہواری کے دوران ہونے والے مسائل بانجھ پن تک کا سبب بن سکتے ہیں۔
15 سالہ یاسمین کا کہنا ہے، ’ہم ماہواری کے لیے بار بار نئے کپڑوں کا استعمال نہیں کرسکتے اسی لیے استعمال شدہ کپڑے دھو کر دوبارہ استعمال کرتے ہیں، جو امیر ہیں ان کی جیب انہیں ایک دفعہ کی استعمال شدہ اشیا پھینک دینے کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم غریب ہیں، مجبوری میں استعمال شدہ سامان دوبارہ استعمال کرتے ہیں‘۔
ناروے میں ایک قطبی ریچھ نے سیاحوں کے ایک کیمپ پر حملہ کر کے ایک خاتون سیاح کو زخمی کر دیا، ریچھ کو بعد ازاں ہلاک کر دیا گیا۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ناروے میں قطب شمالی کے دور دراز سوالبارڈ جزائر کے مقامی گورنر کا کہنا ہے کہ 8 اگست پیر کے روز ایک قطبی ریچھ نے سیاحوں کے ایک کیمپ میں گھس کر حملہ کر دیا، جس میں ایک فرانسیسی سیاح زخمی ہوگئیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ واقعے میں خاتون کو لگنے والے زخم جان لیوا نہیں تھے، تاہم بعد میں حملہ کرنے والے ریچھ کو مار دیا گیا۔
متاثرہ خاتون 25 افراد کے اس سیاحتی گروپ کا حصہ تھیں، جس نے سوالبارڈ جزیرہ نما کے وسطی حصے میں واقع سویسلیٹا میں اپنا سیاحتی کیمپ لگا رکھا تھا، حملے کی اطلاع ملتے ہی حکام ہیلی کاپٹر کے ذریعے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
خاتون کو بعد ازاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سوالبارڈ جزیرہ نما کی سب سے بڑی بستی لانگیئربیئن کے اسپتال لے جایا گیا۔ پہلے حملے کے بعد ریچھ پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد وہ خوفزدہ ہو کر وہاں سے چلا گیا۔
بعد ازاں ریچھ زخمی حالت میں پھر سے نمودار ہوا جس پر قابو پانے کے بعد، اس کا اچھی طرح سے طبی معائنہ کیا گیا اور پھر دوا کی مدد سے اسے ابدی نیند سلا دیا گیا۔
خیال رہے کہ ناروے کے قطب شمالی علاقوں میں تقریباً 20 سے 25 ہزار قطبی ریچھ پائے جاتے ہیں۔ قطبی ریچھ جارحانہ جانور ہو سکتے ہیں اور وہ لوگوں پر حملہ کرنے اور مارنے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
جب خوراک کی قلت ہوتی ہے تو قطبی ریچھوں کو انسانوں کا شکار کرتے ہوئے بھی اکثر دیکھا گیا ہے۔
لاہور: پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایمر جنگ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے 3ماہ کا کیمپ لگانے کا فیصلہ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق پی سی بی کی جانب سے پاکستان کرکٹ کے مستقبل سے متعلق حکمت عملی تیار کرلی گئی، اب ایمرجنگ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھانے کے لیے کیمپ لگے گا جہاں سے جونیئر کھلاڑی مستقبل میں قومی ٹیم کا حصہ ہوسکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انڈر19 اور قائد اعظم ٹرافی میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی اس کیمپ میں مدعو ہوں گے، قومی ایمر جنگ، جونیئر ٹیم کے کوچ اعجاز احمد کیمپ کی نگرانی کریں گے۔
کیمپ کی تجویز قومی ایمر جنگ ٹیم کے ہیڈ کوچ اعجاز احمد نے دی، کیمپ انڈر 19 ورلڈکپ کے بعد لگایا جائے گا۔ آئندہ سال جونیئر، ایمرجنگ ٹیم کے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کے دورے متوقع ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ ماہ بنگلادیش کو اے سی سی ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں 77 رنز سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ سیمی فائنل میں پاکستان نے روایتی حریف بھارت کو آخری اوور میں 3 رنز سے شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔
بعد ازاں ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی ) ایمرجنگ ایشیا کپ کی فاتح پاکستان ٹیم کے کپتان سعود شکیل نے کہا تھا کہ یہ ٹائٹل جیتنا کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔
بغداد : عراق کے صلاح الدین کیمپ پر جنگی طیاروں کی بمباری کا نشانہ بننے والوں میں الحشد کے حزب اللہ اور ایرانی عسکری مشیر اور معاونین شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق عراق کی مشرقی صلاح الدین گورنری میں نامعلوم طیاروں نے الحشد الشعبی ملیشیاکے ایک کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں ایرانی پاسداران انقلاب اور لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے 22 جنگجو جاں بحق اورمتعدد زخمی ہوگئے۔
عراق میں عرب قبائل کونسل کے سربراہ الشیخ ثائر البیاتی نے عرب ٹی وی کوبتایا کہ نامعلوم جنگی جہازوں نے الحشد ملیشیا کے ایک کیمپ کو بمباری سے نشانہ بنایا۔
البیاتی نے بتایا کہ بمباری کا نشانہ بننے والے کیمپ میں حال ہی میں ایران سے لائے گئے بیلسٹک میزائل ذخیرہ کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بیلسٹک میزائل خوراک کا سامان لانے والے ٹرکوں پرلائے گئے تھے،عراقی سیکیورٹی فورسزنے بھی الحشد ملیشیا کے کیمپ میں ایرانی ساختہ بیلسٹک میزائلوں کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نامعلوم طیارے کی بمباری میں جاں بحق ہونے والے حزب اللہ کے جنگجو اور ایرانی پاسداران انقلاب کے اہلکار بھی شامل ہیں،صلاح الدین کیمپ میں ہلاک ہونے والوں میں الحشد کےایرانی عسکری مشیر اور معاونین شامل ہیں۔ حملے کے بعد عالمی اتحادی فوج کیمپ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ الحشد ملیشیا کے مذکورہ کیمپ میں 460 افراد کو قید کیا گیا تھا، ان کے بارے میں کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہیں، فضائی حملے کے بعد کیمپ کے اندر بھی زور دار دھماکے سنے گئے ۔
سری نگر : مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی کیمپ پر دھماکے میں چار بھارتی فوجی ہلاک اور دو فوجی اہلکار زخمی ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق ظالم بھارتی فورسز کے زیرِ تسلط مقبوضہ کشمیر کے علاقے کپواڑہ میں قائم بھارتی فورسز کے کیمپ پر بم حملہ، دھماکے کے نتیجے میں قابض فوج کے دو بھارتی زخمی ہوگئے۔
واقعے کی اطلاع ملنے پر بھارتی فوج کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی، فورسز دھماکے کی نوعیت کے بارے میں تحقیقات کررہی ہے۔
مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے فوجیوں کو طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال منتقل کردیا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ دھماکا اس وقت ہوا جب قابض بھارتی فوج کے اہلکار کیمپ کے گرد خار دار تاریں لگا رہے تھے۔
خیال رہے کہ یکم اپریل کو قابض بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت جاری رکھتے ہوئے پلواما میں نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران 4 کشمیری نوجوانوں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔
بہاولنگر: صوبہ پنجاب کی تحصیل ہارون آباد میں پیپلز پارٹی کے کیمپ پر فائرنگ کے نتیجے میں شوکت بسرا زخمی اور ان سیکریٹری جاں بحق ہوگیا۔
تفصیلات کےمطابق پنجاب کےشہر بہاولنگرکی تحصیل بہاونگر میں پیپلزپارٹی کے کیمپ پر فائرنگ میں رہنما پیپلزپارٹی زخمی جبکہ ان کےسیکریٹری امتیاز جان کی بازی ہارگئے۔
پیپلزپارٹی کےرہنماشوکت بسرا نے مختلف لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرانے پرایم این اے اور ایم پی اے کے خلاف گزشتہ روز دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔
شوکت بسرا نے اپنے اعلان کے مطابق آج دھرنا دیاتومخالفین نے دھرنے کےلیے لگائے گئے کیمپ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں شوکت بسرا زخمی ہو گئے جبکہ ان کا سیکرٹری امتیاز جاں بحق ہوگیا۔
پیپلزپارٹی کے رہنماشوکت بسرا کو فوری طور پراسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد فراہم کر دی گئی ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہرہے۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی مذمت
پیپلزپارٹی کےشریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کےرہنما شوکت بسرا پرفائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہےاور مطالبہ کیاہےکہ فائرنگ کرنے والوں کو گرفتارکیاجائے۔
پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے شوکت بسراپر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئےاسے کھلی دہشت گردی کہاہے۔
بلاول بھٹوزرداری نےکہاکہ شوکت بسرا عوام اور جمہوریت کے سپاہی ہیں،انہوں نےکہاکہ بزدلانہ حملوں سے پی پی رہنماؤں کو ڈرایا نہیں جا سکتا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زردای نے کہاہےکہ شوکت بسرا پر فائرنگ کرنے والے دہشت گردوں کو فوری گرفتارکرکےسزادی جائے۔
دوسری جانب صوبائی وزیرٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ نےکہاہےکہ پنجاب حکومت شوکت بسراپرفائرنگ کرنے والے حملہ آوروں کوفوری گرفتار کرے۔
واضح رہےکہ پیپلزپارٹی پنجاب کے سیکریٹری چوہدری منظور نے بھی شوکت بسرا پرفائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی کے رہنما شوکت بسراجھوٹی ایف آئی آرزکےخلاف ریلی کی قیادت کررہےتھے۔
کراچی: شہر میں سیاسی صورتحال کشیدہ ہوگئی، سیاسی گہما گہمی گرما گرمی میں تبدیل ہوگئی، تفصیلات کے مطابق عزیز آباد میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے کارکنان کے درمیان ایک بار پھر آمنا سامنا ہوگیا،مشتعل کارکنان نے پی ٹی آئی کا کیمپ اکھاڑ دیا۔
دونوں جماعتوں کے کارکنان کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی، اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کے مشتعل کارکنان نے مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے جھنڈے کو نذر آتش کیا۔
پولیس کی بھاری نفری بھی جائے وقوعہ پر موجود ہے، اس موقع پر پولیس نے دو کارکنان کو گرفتار کرلیا، اس دوران اچانک مشتعل افراد نے پی ٹی آئی کے کیمپ میں داخل ہوکر کرسیاں پھینک دیں اور کیمپ کو کو اکھاڑ دیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ یہ سراسر ذیادتی ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنان صرف پی ٹی آئی کو ہی اپنی غندہ گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس موقع پر متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما بھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کریم آباد پہنچ گئے،انہوں نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور پی ٹی آئی کے تباہ شدہ کیمپ کو دوبارہ بحال کرانے کی کوشش کی۔
واضح رہے کہ کچھ دنوں قبل جناح گراونڈ میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد گورنر ہاؤس میں دونوں پارٹیوں نے ایک ضابطہ اخلاق پر باہمی رضامندی دکھائی تھی۔ آج کارکنوں کی آپسی زبانی تلخ کلامی اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تھی۔
عمران اسماعیل نے الزام لگایا ہےکہ کیمپ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اکھاڑا۔ پولیس نے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا۔
کراچی: اورنگی ٹاؤن میں ایم کیوا یم کے رکنیت سازی کیمپ پر دستی بم حملے کامقدمہ درج کرلیاگیا۔حملے میں ایک شخص جاں بحق اور تین ایم پی ایز سمیت پچاس کارکن زخمی ہوئے تھے۔
تفصیلات کے مطابق اورنگی ٹاؤن میں ایم کیو ایم کی رکنیت سازی کیمپ پر دستی بم حملے کامقدمہ تھانہ اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم افراد کیخلاف درج کرلیاگیا۔ایم کیوایم کے کارکن کی مدعیت میں درج مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں ہیں۔
جمعہ کے روز رکنیت سازی کیمپ پرحملے میں تین ایم پی ایز سمیت پچاس کارکن زخمی ہوئےتھے جن میں سے ایک کارکن اسپتال میں دوران علاج چل بسا۔حملے کی ذمہ داری دو کالعدم تنظیموں نے قبول کی تھی ۔
ایم کیوایم لندن رابطہ کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم جماعت الاحرار اورجنداللہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ہنگو:ہنگو کے علاقے محمد خواجہ کے توغ سرائی آئی ڈٰی پیز کیمپ میں دھماکے سے سات افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں، تفصیلات کے مطابق ہنگو کے علاقے توغ سرائی آئی ڈٰی پیز کیمپ میں زوردار دھماکہ سے سات افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے جبکہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا ،سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، ذرائع کے مطابق بارودی مواد ایک موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا،جبکہ پولیس نے اس کی اب تک تصدیق نہیں کی ہے، ہلاک شدگان میں دو بچے بھی شامل ہیں۔