Tag: کیمیکل

  • ڈوپامین : خوشی کا وہ راز جو ہماری زندگی بدل دیتا ہے

    ڈوپامین : خوشی کا وہ راز جو ہماری زندگی بدل دیتا ہے

    ڈوپامین ہمارے دماغ میں موجود ایک ایسا ہارمون ہے جو ہمیں خوشی کا احساس دلاتا ہے، دوسرے الفاظ میں اسے خوشی کا ہارمون بھی کہا جاتا ہے۔

    آپ نے اپنے آس پاس کئی طرح کے لوگوں کا مشاہدہ کیا ہوگا کچھ لوگ آپ کو ہمیشہ خوش باش سے نظر آتے ہیں جبکہ بہت سارے لوگوں میں ہر وقت ایک طرح کی اداسی پائی جاتی ہے یا ایسا لگتا ہے کہ جیسے خوشی ان سے دور ہوچکی ہے جبکہ وہ اپنے حالات کا رونا روتے بھی نظر آتے ہیں۔

    خوشی کا ہارمون ڈوپامین

    ڈوپامین دماغ میں خارج ہونے والا ایک ایسا کیمیائی مرکب ہے جو انسان میں خوشی حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرتا ہے، ڈوپامین کے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یہ سماجی تعلقات کے حوالے سے بھی کردار ادا کرتا ہے۔

    کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کا دماغ جنک فوڈ، سوشل میڈیا اسکرولنگ، یا دیگر دل لبھانے والی چیزوں کا عادی ہوگیا ہے؟ یہ سب ڈوپامین کی وجہ سے ہے، یہ کیمیکل دماغ میں خوشی کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ہمیں بار بار ان ہی چیزوں کی جانب مائل کرتا ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پارکنسن کی بیماری اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ دماغ میں کیمیائی رطوبت ’ڈوپامین‘ کی کمی واقع ہو جاتی ہے اس کے علاوہ یہ کیمیکل جسمانی حرکات کی ترتیب اور نظم و ضبط میں اہم کردار کرتا ہے۔

    کسی شخص کا ڈوپامین کا نظام جتنا مستعد ہوگا اتنا ہی زیادہ ہشاش بشاش ایکٹو اور خود کو کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کا اہل سمجھے گا، لیکن ڈوپامین کی زیادہ مقدار پُرلطف لمحات کے حصول کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے۔

    ڈوپامین ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جسے آپ کا جسم خود بناتا ہے۔ یہ انسان کے اندر خوشی، حوصلہ افزائی اور اطمینان محسوس کرنے کا ذریعہ ہے۔

    مثال کے طور پر جب آپ اپنا کوئی مقصد حاصل کرلیتے ہیں تو آپ کے دماغ میں ڈوپامائن کا اضافہ خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے، یہ دماغ کے چار کیمیکلز میں سے ایک ہے جو آپ کے مثبت اور ‘اچھے محسوس’ جذبات کو چلاتا ہے۔

    ڈوپامین کے پیچھے بھاگنا آپ کی صحت، کیریئر اور زندگی کے اہداف کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جب لوگ فوری خوشی کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ اکثر سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔

    اس کے ساتھ وہ ویڈیو گیمز کے عادی بن جاتے ہیں یا کسی قسم کے نشے میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر اور زندگی میں بے معنی پن کا احساس جنم لیتا ہے۔

    اس کے علاوہ یہ لت ایک ایسا چکر چلاتی ہے جس میں دماغ کو سکون فراہم کرنے کے لیے ہر بار پہلے سے زیادہ شدت درکار ہوتی ہے۔

    زندگی کے اہداف میں رکاوٹ

    یاد رکھیں !! جب آپ ہر وقت فوری خوشی کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں تو دیگر اہداف پیچھے رہ جاتے ہیں، سستی اور کام کی تاخیر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں سے تعلقات بنانے کی خواہش اور صلاحیت کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں انسان میں اندرونی خلا پیدا ہوجاتا ہے۔

    ڈوپامین ڈیٹاکس کیا ہے؟

    ایسے لوگ جو سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد دیکھنے سے پرہیز کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جو ان کے دماغ میں ڈوپامین کے اخراج کی طلب پیدا کرتی رہتی ہیں جیسا کہ ویڈیو گیمز، فیس بُک کی ریلز ، موسیقی ، فلمیں یا ڈرامہ سیریلز وغیرہ۔

    یہ سب سرگرمیاں ایسی ہیں جن سے ہمارے دماغ میں ڈوپامین کی کچھ نا کچھ مقدار خارج ہوتی رہتی ہے۔ اسے آپ ڈوپامین لیکیج (لیک ہونا یا رِسنا) کہہ سکتے ہیں۔

    جب ہمارا دماغ مسلسل لذت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے انعام کے پیچھے بھاگ رہا ہے تو یہ طلب کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے، جب ہم اوپر بیان کی گئی سرگرمیوں سے اُکتا جاتے ہیں تو دماغ مزید لذت یا انعام کی فرمائش کرتا ہے۔اس کے نتیجے میں ہمیں ڈوپامین کی ایک بڑی ہِٹ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ہم وہ غیر اخلاقی مواد دیکھنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں۔

    یہ سب چیزیں دماغ کو اس قدر زیادہ تحریص دیتی ہیں کہ سادہ چیزیں جیسے پڑھائی، دوستوں سے بات کرنا، یا صرف سکون سے بیٹھنا بھی بور لگتا ہے۔ ڈیٹاکس سے آپ اپنے دماغ کو ری سیٹ کرتے ہیں تاکہ وہ حقیقی، مثبت سرگرمیوں سے خوشی محسوس کرنا سیکھے۔

    ڈوپامین ڈیٹاکس سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ :

    ڈوپامین ڈیٹاکس سے ذہنی خلفشار میں کمی اچھا موڈ، چڑچڑا پن کم اور زیادہ سکون میسر ہوتا ہے اور خود پر کنٹرول ہونے سے دماغ بھی قابو میں رہتا ہے۔

    ڈوپامین ڈیٹاکس کیسے حاصل کریں؟

    اپنی بری عادتوں کی شناخت کریں یہ سوچیں کہ آپ کس چیز میں پھنسے ہوئے ہیں؟ جنک فوڈ جیسے کہ چپس، کولڈ ڈرنک، چاکلیٹ؟ غیراخلاقی ویڈیوز، تصاویر، یا دل لبھانے والے شوز؟ یا پھر سوشل میڈیا میں انسٹاگرام ٹک ٹاک یا یو ٹیوب وغیرہ۔ اپنی بڑی 2 یا 3 بری عادتیں لکھ لیں اور خود سے ایماندار رہیں۔

    ڈیٹاکس کا ہدف طے کریں

    ایک دن یا ویک اینڈ چیلنج سے شروع کریں مشکل اوقات میں نہ کریں، یہ بات واضح کریں کہ آپ کن چیزوں سے پرہیز کریں گے مثلاً صرف صحت مند خوراک لیں گے، سوشل میڈیا بالکل چھوڑ دیں گے یا مختلف ایپس ڈیلیٹ کردیں گے۔

    بری عادتوں کی جگہ اچھی عادتیں ڈالیں

    آپ کا دماغ انعام پسند ہے، تو اسے صحت مند انعام دیں۔ جنک فوڈ کی جگہ تازہ اور موسمی پھل، خشک میوہ اوردہی کھائیں اور سادہ پانی پیئں، کوئی صاف ستھری فلم دیکھیں یا دلچسپ کتاب کا مطالعہ کریں۔

    سوشل میڈیا پر وقت گزاری کے بجائے چہل قدمی کریں، دوستوں کو فون کریں، نیا مشغلہ جیسے ڈرائنگ پینٹنگ یا کسی کھیلوں کی سرگرمیاں اپنائیں۔

    ماحول کو صاف رکھیں

    جنک فوڈز کو اپنے کچن اور کمرے سے نکال دیں، غیر اخلاقی ویب سائٹ بلاک کریں، سوشل میڈیا پرایسے نوٹیفکیشن بند کریں۔

    اس کام کا آغاز آہستہ کریں

    اس کام کیلیے پہلا دن مشکل ہو سکتا ہے، جب آپ کو سوشل میڈیا کی طلب ہو؟ 10 منٹ گہری سانسیں لیں یا کھینچاؤ کی ورزش کریں۔ اگر جنک فوڈ چاہیے تو سیب کھائیں، یاد رکھیں ہر چھوٹا قدم بڑا فرق لاتا ہے۔

    خود سے سوال کریں اور انعام دیں

    ڈیٹاکس کے آخر میں خود سے دریافت کریں کہ اب کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ یا بے چینی میں کوئی کمی آئی؟ کیا آپ پہلے سے زیادہ پر سکون اور پرعزم ہیں؟

    اس کامیابی پر خود کو انعام دیں، مثلاً نئی کتاب پڑھیں یا اچھی فلم دیکھیں مگر دوبارہ بری عادت بالکل نہ اپنائیں۔

    عادت کیسے بنائیں؟ (چند ٹپس)

    کسی دوست کو بتائیں اس سے آپ کو حوصلہ ملے گا۔ اپنی پروگریس کسی جرنل یا ایپ میں نوٹ کریں اسکرین ٹائم محدود کریں، 1-2 گھنٹے غیر ضروری اسکرین سے دور رہیں، ورزش کریں، چہل قدمی یا جاگنگ کریں، اچھی نیند لیں اس سے دماغی طاقت میں اضافہ ہوگا۔

    یہ عادتیں توڑنا کیوں مشکل ہے؟

    یہ چند چیزیں جیسے کہ جنک فوڈ، غیراخلاقی مواد یا سوشل میڈیا وغیرہ آپ کے دماغ کو حد سے زیادہ ڈوپامین دیتی ہیں۔

    جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے چینی میں اضافہ، حقیقت سے دوری ہوجاتی ہے۔ ڈیٹاکس اس چکر کو توڑتا ہے اور آپ کو حال کا لطف لینے کے قابل بناتا ہے۔

    حوصلہ افزائی

    یاد رکھیں!! اس پریشانی میں آپ اکیلے نہیں اور بہت سے نوجوان ان عادتوں سے لڑ رہے ہیں لیکن آپ میں تبدیلی کی طاقت ہے۔ ڈوپامین ڈیٹاکس پرفیکشن کا نام نہیں، بلکہ یہ کنٹرول واپس لینے کا بہترین طریقہ ہے۔ چھوٹا چھوٹے اقدامات لیں، صبر کریں اور دیکھیں کہ زندگی کیسے بدلتی ہے۔ کسی اچھی ایک عادت کو منتخب کریں اور اس ہفتے اس پر کام کریں۔ یاد رکھیں کہ آپ یہ کر سکتے ہیں۔

  • بال ڈائی کرنے والی خواتین اس ’خطرے‘ سے باخبر رہیں

    بال ڈائی کرنے والی خواتین اس ’خطرے‘ سے باخبر رہیں

    بڑھتی عمر کے ساتھ بالوں کا سفید ہونا قدرتی عمل ہے تاہم بہت کم لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بالوں کو اصلی رنگت میں ہی رہنے دیتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ انہیں رنگنا پسند کرتے ہیں۔

    بالوں کے معاملے میں خاص طور پر خواتین کچھ زیادہ ہی حساس ہوتی ہیں اور آئے دن بالوں کو نیا لُک دینے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔

    بالوں کی سفیدی چھپانے کے لیے 75سے 80 فیصد لوگ مخصوص رنگوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن بالوں کو رنگنے کیلئے استعمال کیے جانے والے کیمیکل کتنے خطرناک ہیں یا ان سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوتی ہے۔

    مختلف رنگوں کے بالوں کی خواہش ہونا کوئی نئی بات نہیں، زمانہ قدیم میں مہندی بالوں کو رنگنے کیلئے استعمال کی جاتی تھیلیکن اب دور جدید میں آئے دن نت نئے کیمیکل زدہ کلرز متعارف ہورہے ہیں۔

    حال ہی لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ خواتین جو سال میں 6 بار سے زائد اپنے بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگتی ہیں ان کو چھاتی یعنی بریسٹ کینسر کے امکان کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل بریسٹ کینسر کے ایک ماہر سرجن کے مطابق وہ خواتین جو اپنے بالوں کو بہت زیادہ رنگواتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر لاحق ہونے کا امکان 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    انہوں نے تجویز دی کہ خواتین بالوں کو رنگنے کے لیے مصنوعی رنگ یا کیمیکلز کے بجائے قدرتی اجزاء کا استعمال کریں جیسے مہندی یا چقندر وغیرہ۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت تو ہے تاہم یہ بات مصدقہ ہے کہ بالوں کو رنگنے والے کیمیائی اجزا بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق خواتین سال میں صرف 2 سے 6 بار بالوں کو رنگوائیں، اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ قدرتی اجزا سے بالوں کو رنگنا بالوں کی صحت کے لیے بھی مفید ہے اور یہ مضر اثرات بھی نہیں پہنچاتا۔

    محققین کے مطابق ان ہیئر ڈائی میں موجود کیمیکلز انسانی جسم میں ہارمونز کے افعال اور سطح میں خلل ڈالتے ہوئے کینسر کے امکانات کو بڑھاتے ہیں۔

  • نقلی دودھ کی پہچان کیسے کی جائے؟

    نقلی دودھ کی پہچان کیسے کی جائے؟

    دودھ ایک مکمل غذا ہے یہ اینٹی آکسیڈینٹ کی خصوصیات سے بھر پور ہوتا ہے، اس کے استعمال سے جسمانی اور ذہنی نشوونما میں بہتر مدد ملتی ہے۔

    لیکن آج کل دودھ پہلے زمانے کی طرح خالص نہیں ملتا بلکہ اس میں کئی طرح کی ملاوٹ کی جاتی ہے ان میں سنگھاڑے کا آٹا، کارن اسٹارچ، یوریا یا سرف اور پانی شامل ہیں۔

    خراب دودھ یعنی ملاوٹ شدہ دودھ پینا صحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ درحقیقت میں دودھ میں پانی کے علاوہ بہت سے کیمیکل بھی ملائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم جلد بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

    آپ گھر پر ہی اصلی اور نقلی دودھ کی آسانی سے شناخت کرسکتے ہیں، یہاں پر کچھ ایسے طریقے بتائے جارہے ہیں جن کی مدد سے آپ یہ کام گھر میں بھی کر سکتے ہیں اور صرف چند منٹ میں دودھ کے خالص یا ملاوٹ زدہ ہونے کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

    دودھ میں کتنا پانی ہے؟ :

    خالص دودھ کی بات ہی الگ ہے مگر اس کی مقدار بڑھانے کے لئے دودھ والے جی کھول کر پانی ملاتے ہیں جو غلط ہے حالانکہ دودھ میں پانی ملا کر پینے سے آپ کی صحت کو کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن اس میں ایسے غذائی اجزاء نہیں ہوتے جن کی آپ کے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔

    یہ جاننے کے لیے کہ دودھ میں پانی ملا ہے یا نہیں، دودھ کا ایک قطرہ جھکی ہوئی سطح (ڈھال) پر رکھیں اور اسے بہنے دیں۔ اگر دودھ سطح پر رہے اور آہستہ بہے تو اس میں پانی کم ہے اور اگر بہت تیزی سے بہتا ہے تو اس میں دودھ سے زیادہ پانی ہے۔

    fake milk

    نقلی دودھ کی پہچان :

    دودھ بیچنے والے کئی بار بہت زیادہ منافع کمانے کے لیے اس میں کیمیکل اور صابن جیسی چیزیں ملا کر مصنوعی دودھ یعنی جعلی دودھ بناتے ہیں۔

    دودھ مصنوعی اس کی پہچان اس کے ذائقے سے کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ اسے رگڑنے پر یہ صابن کی طرح محسوس ہوتا ہے اور گرم ہونے پر پیلا ہو جاتا ہے۔

    دودھ کو ہلکی آنچ پر ابالیں:

    آپ دودھ کو زیادہ دیر تک ہلکی آنچ پر ابال کر بھی اس کی اصلی پن کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس کے لیے دودھ کو ہلکی آنچ پر 2-3 گھنٹے تک ابالیں جب تک کہ یہ گاڑھا نہ ہو جائے۔ اگر دودھ کے ذرات گاڑھے اور سخت ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ میں ملاوٹ ہے جبکہ گھی اور نرم ذرات کا مطلب ہے کہ یہ اچھی کوالٹی کا دودھ ہے۔

    دودھ میں اسٹارچ ہے یا نہیں؟

    اگر آپ کے بیچنے والے نے دودھ میں اسٹارچ ملایا ہے تو آپ 5 ملی لیٹر دودھ میں دو کھانے کے چمچ نمک (آیوڈین) ملا کر اس میں ملاوٹ کی جانچ کر سکتے ہیں۔ اگر دودھ میں اسٹارچ ہو تو ایسا کرنے سے دودھ پر نیلے رنگ کا مکسچر آجائے گا اور اگر اس میں ملاوٹ نہ ہو تو سفید رنگ ہی رہے گا۔

      دودھ میں یوریا ہے یا نہیں :

    بلا شبہ دودھ میں یوریا کی ملاوٹ آپ اور آپ کے خاندان کی صحت کے لیے خطرناک ہے، یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر دودھ میں یوریا ملایا جائے تو اس کے ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اس لیے اس کی شناخت قدرے پیچیدہ ہے۔

    تاہم، اب آپ اسے آسانی سے پہچان سکتے ہیں، اس کے لیے آپ کو آدھا کھانے کا چمچہ دودھ اور سویا بین پاؤڈر ملا کر اچھی طرح ہلانا ہوگا۔

    پانچ منٹ کے بعد لٹمس پیپر کو اس مکسچر میں تیس سیکنڈ کے لیے ڈبو دیں اگر لٹمس پیپر کا رنگ نیلا ہو جائے تو سمجھ لیں کہ دودھ میں یوریا ملا دیا گیا ہے۔

  • گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے والی خواتین ہوشیار!

    گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے والی خواتین ہوشیار!

    گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے کے لیے اکثر خواتین کیمیکلز اور مشینوں کا استعمال کرتی ہیں، تاہم اب ایسی خواتین کے لیے شدید خطرہ سامنے آیا ہے۔

    امریکا میں رحم کا کمیاب اور شدید کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس میں بالوں کو سیدھا کرنے والےکیمیائی اجزا کا اہم کردار سامنے آیا ہے۔

    اس حوالے سے امریکی قومی انسٹی ٹیوٹ برائے ماحولیاتی صحت کے ماہرین نے مسلسل گیارہ برس تک 33 ہزار 947 خواتین کا جائزہ لیا اور اختتام پر کل 378 خواتین کو بچہ دانی کا سرطان لاحق ہوچکا تھا۔

    ان خواتین کو کل 12 ماہ میں رحم کا سرطان لاحق ہوا، معلوم ہوا کہ جن خواتین نے 12 ماہ میں بال سیدھا کرنے کے لیے چار مرتبہ سے زائد کیمیکل استعمال کیا تو ان میں سرطان کا خطرہ کل 155 فیصد تک بڑھ گیا۔

    جن خواتین نے ایسے کیمیکل سے اجتناب کیا ان میں بچہ دانی کا سرطان نہیں دیکھا گیا۔

    اس طرح 70 سالہ ایسی خواتین جنہوں نے بال سیدھا کرنے کے لیے (ہیئر اسٹریٹنر) استعمال نہیں کیا ان میں رحم کے سرطان کا خطرہ 1.64 فیصد اور بار بار کیمیکل لگانے والی خواتین میں اس کی شرح 4 فیصد نوٹ کی گئی۔

    تاہم حیرت انگیز طور پر بالوں پر لگانے والے رنگوں سے سرطان لاحق نہیں ہوتا جو سروے سے بھی معلوم ہوا ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ بال سیدھا کرنے والے کیمیائی اجزا میں ایسے اجزا ہیں جو اینڈو کرائن نظام کو متاثر کرتے ہیں اور مختلف اعضا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

    پھر ایسٹروجن اور پروجیسٹیرون جیسے ہارمون سے بھی رحم کے سرطان کے شواہد ملے ہیں، وجہ یہ ہے کہ بال سیدھا کرنے والے کیمیائی اجزا میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو عین انہی ہارمون کے طور پر کام کرتے ہیں کیونکہ انہیں تادیر بالوں کو سیدھا رکھنا ہوتا ہے۔

    ماہرین نے ایک خوفناک بات بھی دریافت کی کہ 18 مصنوعات میں ایسے اجزا ملے جو اینڈو کرائن نظام پر منفی اثر ڈالتے ہیں، جبکہ 84 فیصد اجزا پیکنگ پر لکھے ہی نہیں گئے تھے اور 11 مصنوعات میں وہ اجزا تھے جن پر یورپی یونین کاسمیٹکس ڈائریکٹوریٹ پابندی عائد کرچکی ہے۔

    اس سے قبل 2019 میں بال رنگنے والے کیمیکل اور بریسٹ کینسر کے درمیان تعلق بھی سامنے آچکا ہے۔

  • کیا سبز چائے کرونا وائرس سے بچاؤ میں معاون ہوسکتی ہے؟

    کیا سبز چائے کرونا وائرس سے بچاؤ میں معاون ہوسکتی ہے؟

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل موجود ہے جو کرونا وائرس کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ کیمیکل ایک قسم کے انگور اور سیاہ چاکلیٹ میں بھی پایا جاتا ہے۔

    امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں سبز چائے، ایک قسم کے انگور اور سیاہ چاکلیٹ کے اندر ایک خاص کیمیکل دریافت ہوا ہے جو کرونا وائرس کی ایک دوسری لیکن خطرناک قسم کو پھیلنے سے روکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس میں ایک طرح کا اننزائم موجود ہوتا ہے جسے ایم پی آر او کہا جاتا ہے، ایم پی آر او کی ہی وجہ سے وائرس تیزی سے اپنی تعداد بڑھاتا ہے۔ لیکن سبز چائے اور ایک طرح کے مشک انگور میں ایسا کیمیکل موجود ہے جو اس وائرس کو مزید بڑھنے یعنی ضرب ہونے سے روکتا ہے۔

    یہ انزائم نہ صرف انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں تو وائرس بھی اپنی تعداد بڑھانے کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔ شمالی کیرولینا میں کی جانے والی تحقیقی کے مطابق اس انزائم کو قابو کر لیا جائے تو وائرس کی بڑھتی ہوئی تعداد رک جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر کسی طرح یہ انزائم ختم کردیا جائے تو خود وائرس بھی فنا ہوجاتا ہے، لیبارٹری میں سبز چائے کا ایک کیمیکل جب وائرس پر ڈالا گیا تو وہ ایم پی آر او سے چپک گیا اور اسے کوئی بھی کام کرنے سے روک دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ کہ انگور اور سیاہ چاکلیٹ میں یہ کیمیکل موجود ہے لیکن سبز چائے کی خاصیت سب سے الگ ہے کیونکہ اس میں 5 کیمیکل پائے جاتے ہیں جو ایم پی آر او کو تباہ کرتے ہیں۔

    اس تحقیق کو فرنٹیئرز ان پلانٹ سائنس نامی جریدے میں شائع کیا گیا اور اس میں امریکی محکمہ زراعت کی معاونت بھی شامل ہے۔

  • تازہ سبزیوں کی زہریلی حقیقت آپ کو پریشان کردے گی

    تازہ سبزیوں کی زہریلی حقیقت آپ کو پریشان کردے گی

    آپ جب سبزی خریدنے جاتے ہوں گے تو آپ کی کوشش ہوتی ہوگی کہ سائز میں بڑی اور تازہ دکھنے والی سبزیاں خریدیں۔ لیکن ان تازہ دکھائی دینے والی سبزیوں کی حقیقت آپ کو پریشان اور خوفزدہ کرسکتی ہے۔

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب فصل میں سبزی لگنا شروع ہوتی ہے تو اس میں انجیکشن کے ذریعے آکسی ٹوسن نامی مادہ انجیکٹ کردیا جاتا ہے۔

    اس مادے سے سبزیوں کی بڑھوتری میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ حجم جو فصل کو ایک ہفتے تک دھوپ لگنے کے بعد سبزی کو حاصل ہوتا ہے، صرف ایک یا دو دن میں حاصل ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: غذائی اشیا میں کی جانے والی جعلسازیاں

    اسی طرح سبز رنگ کی سبزیوں جیسے بھنڈی کو صنعتوں میں استعمال کیے جانے والے سبز رنگ میں بھگویا جاتا ہے جس سے سبزیاں تازہ لگنے لگتی ہیں۔

    سبزیوں میں انجیکٹ کیا جانے والا مادہ آکسی ٹوسن نفسیاتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح صنعتی استعمال کا سبز رنگ جگر اور گردوں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    ان زہریلی سبزیوں سے کیسے بچا جائے؟

    صاف ستھری سبزیاں حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ کچن گارڈننگ ہے۔

    کچن گارڈننگ میں آپ اپنے گھر کی کسی بھی خالی جگہ، یا کسی چھوٹے موٹے گملے میں مختلف اقسام کی سبزیاں اگا سکتے ہیں جو نہ صرف آپ کے گھر کی فضا کو صاف کرنے کا سبب بنیں گی بلکہ کھانے کی مد میں ہونے والے آپ کے اخراجات میں بھی کمی لائے گی۔

    ماہرین کے مطابق اس عمل کو مزید بڑے پیمانے پر پھیلا کر شہری زراعت یعنی اربن فارمنگ شروع کی جائے جس میں شہروں کے بیچ میں زراعت کی جاسکتی ہے۔

    یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت، مستقبل کی اہم ضرورت

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    اس طریقہ کار سے آپ اپنے ہاتھ سے اگائی ہوئی صاف ستھری سبزیاں حاصل کرسکتے ہیں جو کسی بھی زہریلے مواد سے پاک ہوں گی۔

  • برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پرقاتلانہ حملہ

    برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پرقاتلانہ حملہ

    لندن: برطانیہ میں سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی پرقاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے فوج کا خصوصی دستہ طلب کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی شہر سالسبری میں 66 سالہ سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپل اور ان کی بیٹی یولیا اسکریپل کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

    سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپل اور ان کی 33 سالہ بیٹی یولیا کو حملے کے بعد اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی حالت تشویش ناک بتائی جائی ہے۔

    برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی کو اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل مواد سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

    دوسری جانب برطانوی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے 180 فوجیوں کو متاثرہ علاقے میں تعینات کیا گیا ہے جنہوں نے متاثرہ علاقے کو حصار میں لے کر وہاں فرانزک ٹیسٹ شروع کردیے ہیں تاکہ حملے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے۔

    برطانوی وزارت دفاع کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ فوجی اہلکاروں کی متاثرہ علاقے میں موجودگی سے شہریوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشلمیڈیا پرشیئر کریں۔