Tag: کینسر کی نئی دوا

  • کینسر کے لاعلاج مریضوں کے لیے نئی دوا آگئی

    کینسر کے لاعلاج مریضوں کے لیے نئی دوا آگئی

    لندن: برطانوی ماہرین نے کینسر کے لاعلاج مریضوں کے لیے نئی دوا کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینسر کے لاعلاج سمجھے جانے والے مریضوں کے لیے نیا انقلابی طریقہ علاج سامنے آیا ہے، برطانیہ کے ماہرین نے دریافت کیا کہ امیونو تھراپی کے ساتھ ایک نئی تجرباتی دوا guadecitabine کے امتزاج سے امیونو تھراپی کے خلاف کینسر کی مزاحمت کو ریورس کیا جا سکتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل فار امیونو تھراپی آف کینسر میں شائع مقالے کے مطابق اس طریقہ علاج سے اُن مریضوں میں کینسر کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے، جن کے اندر کینسر امیونو تھراپی کی مزاحمت کرتا ہے، علاج کے بعد کینسر کا مریض زندگی لمبی زندگی گزار سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ امیونوتھراپی کی مدد سے مدافعتی نظام کو کینسر کے خلیات ختم کرنے میں مدد ملتی ہے اور ان مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مدد ملتی ہے جن کے لیے دیگر آپشنز جیسے سرجری، ریڈیو تھراپی یا کیمو تھراپی ناکام ہو جاتے ہیں۔

    اب امیونو تھراپی دوا pembrolizumab اور نئی guadecitabine دوا کے امتزاج سے ماہرین کینسر کے ایک تہائی سے زیادہ مریضوں میں کینسر کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    محققین نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ دواؤں کا یہ امتزاج کینسر کی سنگین اقسام کے خلاف ایک نیا مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ ان دواؤں کے ٹرائل رائل مارسڈن اور لندن کالج یونیورسٹی کے اسپتالوں میں پھیپھڑوں، مثانے، معدے اور بریسٹ کینسر کے مریضوں پر کیے گئے۔ ٹرائل میں دواؤں کے امتزاج کو 34 مریضوں پر آزمایا گیا اور 3 سال تک اس سے ان کا علاج کیا گیا۔

    تاہم محققین کا اپنی اس تحقیق کے نتائج کے حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ اس علاج کے نتائج حوصلہ افزا تو ہیں مگر یہ بھی ثابت ہوا کہ تمام مریضوں پر یہ کام نہیں کرتا، مگر پھر بھی یہ ایک اہم پیشرفت ضرور ہے۔ خیال رہے کہ ریسرچ ٹرائلز کے دوران کچھ مریضوں کو ابتدائی طور پر فائدہ ہوا تھا مگر کچھ عرصے بعد ان کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ محققین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ثابت ہوا کہ یہ طریقہ کار مختلف اقسام کے کینسر کے علاج میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

  • سائنس دانوں کی بڑی کامیابی، کینسر کا نیا اور محفوظ علاج دریافت

    سائنس دانوں کی بڑی کامیابی، کینسر کا نیا اور محفوظ علاج دریافت

    ایڈنبرا: برطانوی سائنس دانوں نے کینسر کے خلیات کو محفوظ طریقے سے ختم کرنے کا کامیاب ٹیسٹ کر لیا، اس ٹیسٹ میں انھوں نے ’ٹروجن ہارس‘ کا نیا طریقہ استعمال کیا جس نے کیموتھراپی کے خاتمے کی امید پید اکر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی یونی ورسی ایڈنبرا کے سائنس دانوں نے سرطان کے مہلک خلیات کے خلاف جنگ کے لیے ٹرائے گھوڑے کا حربہ استعمال کیا ہے، جسے انھوں نے ٹروجن ہارس دوا کہا، اس دوا کے استعمال سے قریبی صحت مند خلیات اور ٹشوز کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    اس تجرباتی طبی مطالعے کے دوران سائنس دانوں نے ایک ’ٹروجن ہارس‘ دوا تیار کی ہے، جو قریبی صحت مند ٹشو کو نقصان پہنچائے بغیر کینسر کے خلیوں اور بیکٹیریا کو ہلاک کرتی ہے، اسے نئے علاج کی دریافت کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

    تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کے لیے کہ یہ تکنیک محفوظ اور ابتدائی مرحلے کے کینسر کے علاج کے لیے تیز رفتار ہے، مزید جانچ کی ضرورت ہے، وہ یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اس سے دوا کے خلاف مزاحم بیکٹیریا سے نمٹنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

    اس طریقہ کا رمیں ایڈنبرا یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے کینسر کو ہلاک کرنے والے چھوٹے مالیکیول SeNBD کو ایک کیمیائی غذائی مرکب کے ساتھ ملایا تاکہ مہلک خلیوں کو دھوکے سے اسے کھلایا جا سکے اور ان کی زہریلی فطرت بھی بیدار نہ ہو۔

    اس تجرباتی مطالعے میں نہ صرف زیبرا مچھلی بلکہ انسانی خلیات پر ٹیسٹ کیا گیا جو کامیاب رہا، تاہم محققین سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں مزید تجربات کی ضرورت ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ دوا کے ساتھ کیمیائی غذائی مرکب کو اس  لیے شامل کیا گیا ہے، کیوں کہ کینسر زدہ خلیے نہایت بھوکے ہوتے ہیں اور انھیں توانائی کے لیے بڑی مقدار میں غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ عام طور پر تن درست خلیوں سے زیادہ کھاتے ہیں۔

    ایڈنبرا یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے بتایا کہ کیمیکل غذائی مرکب کے ساتھ SeNBD ملانے سے یہ دوا نقصان دہ خلیات کے لیے، ان کی زہریلی فطرت کو ہوشیار کیے بغیر ایک زبردست شکاری کا روپ دھار لیتی ہے۔

    یہ دوا بنانے والے ایڈنبرا یونی ورسٹی کے محققین نے اس کا ٹروجن ہارس سے، اور اس کے اثرات کا موازنہ ’میٹابولک وارہیڈ‘ سے کیا ہے۔ یہ ننھے مالیکیول SeNBD روشنی سے متحرک ہونے والا فوٹوسنسٹائزر بھی ہے، یعنی یہ خلیات کو تب ہی مارتا ہے جب یہ مرئی روشنی سے حرکت میں آئیں۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ سرجنز یہ قطعی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کب دوا کو فعال کرنا چاہتے ہیں، اس سے تن درست ٹشوز تباہ ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، اور بال جھڑنے جیسے دوا کے مضر اثرات کو بھی روکا جا سکتا ہے، جو کہ دیگر اینٹی کینسر (دافع سرطان) ایجنٹس کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    اس تحقیقی مطالعے کے یہ نتائج جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے ہیں، اس تحقیق کے سربراہ محقق پروفیسر مارک وینڈرل نے بتایا کہ یہ تحقیق نئے علاج ڈھونڈنے کے سلسلے میں نہایت اہم پیش رفت سامنے لائی ہے، ایسا نیا علاج جسے آسانی سے روشنی کی شعاع ریزی کے ذریعے فعال کیا جا سکتا ہے، جو کہ عام طور پر بہت محفوظ ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ SeNBD اب تک بنائے گئے ننھے ترین فوٹو سینسٹائزرز میں سے ایک ہے، اور اس کے ’ٹروجن ہارس‘ کے طور پر استعمال نے اختراعی طب میں نئے مواقع کا ایک در کھول دیا ہے۔ ڈاکٹر سام بینسن نے بتایا کہ دوا دینے کے اس مکینزم کا مطلب یہ ہے کہ دوا خلیے کے سامنے یعنی مرکزی دروازے سے دی جائے، بجائے یہ کہ خلیے کے دفاع کے ذریعے وار کرنے کا راستہ ڈھونڈا جائے۔

    واضح رہے کہ یونانی داستانوں میں ٹرائے کے ایک عظیم الجثہ گھوڑے کا ذکر ملتا ہے، یونانی فوجیوں نے لکڑی کا ایک بہت بڑا گھوڑا تیار کیا تھا جو اندر سے خالی تھا، جس میں انھوں نے بڑی تعداد میں فوجی چھپائے تاکہ ٹرائے شہر میں داخل ہو سکیں، یونانی فوجیوں نے جنگ ختم کرنے کا ڈراما کیا اور کہا کہ یہ گھوڑا وہ ٹرائے کو تحفے میں دینا چاہتے ہیں، اس طرح انھوں نے شہر میں داخل ہو کر اسے تباہ و برباد کر دیا۔