Tag: کیو ٹی وی

  • پتھر یا نگینہ لگی انگوٹھی پہننا جائز ہے؟ کیا یہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟

    پتھر یا نگینہ لگی انگوٹھی پہننا جائز ہے؟ کیا یہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟

    اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے چینل کیو ٹی وی پر معلوماتی پروگرام میں ایک سائل کی جانب سے سوال پوچھا کیا گیا کہ انگلیوں میں پہننے والے پتھر اور نگینوں کی افادیت کے حوالے سے اسلام ہماری کیا رہنما ئی کرتا ہے؟ کیا یہ پتھر تقدیر بدلنے اور نفع دینے کی طاقت رکھتے ہیں؟

    مفتی صاحب نے سائل کا جواب دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے ہاتھ کی انگلی میں عقیق پہنا ہے اور زیادہ تر یمنی عقیق استعمال کیا ہے تاہم یہ صرف زیبائش کے لیے تھا اس لیے عقیق کو محض پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پہننا چاہیے نا کہ کسی نفع کے حصول کی نیت سے پہنا جائے۔

    مفتی صاحب نے کہا کہ عقیق ہو یا کوئی اور پتھر ہو وہ محض پتھر ہی ہیں جو نہ تو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا نقصان پہنچانے طاقت یا صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے پتھروں اور نگینوں کی نفع پہنچانے کی باتیں جیسے فلاں پتھر رزق میں فراوانی کا باعث ہوتا ہے اور فلاں سے تقدیر بدل جاتی ہے یا فلاں پتھر زیادہ فائدہ مند ہے بے بنیاد ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    یہ پڑھیں : کیا ہمارے گھروں کا پانی وضو کیلئے قابل استعمال ہے؟

    مفتی صاحب نے مذید کہا کہ اللہ اپنے آخری کلام میں انسانوں کو یہی پیغام دیتا ہے کہ سب کا کارساز اور کاتب تقدیر وہی ایک ذات ہے جو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور زمین سے غلہ اگاتا ہے اور جسے چاہتا ہے رزق کشادہ کر کے دیتا ہے اور جسے چاہے اولاد سے نوازے اور جسے چاہے محروم رکھے۔

    مفتی صاحب نے بتایا کہ اللہ اپنے کلام میں واضح فرماتے ہیں کہ ’’ انسان کو اتنا ہی ملتا ہے جتنی اس نے کوشش کی ہو تی ہے‘‘ یعنی اللہ چاہتے ہیں کہ انسان کامیابی کے لیے اپنے علم، ہنر اور ذور بازو پر بھروسہ کرے ناکہ بے جان پتھروں پر تکیہ کیے بیٹھا رہے اور جدوجہد سے عاری زندگی گذار دے۔

     یہ بھی پڑھیں : پلاسٹک سرجری کروانے کے حوالے سے شرعی احکامات

    مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ انگلی میں پہنی گئے کسی بھی پتھر کی تاثیر گرم و سرد ہوسکتی ہے جو اگر جسم کی کھال سے مس ہو تو دورانِ خون میں یہ اثرات گردش کر سکتے ہیں جس کے جسم پر اثرات بھی مرتب ہو سکت ہیں تاہم یہ بھی اس صورت میں ہوسکتا ہے جب پتھر اصلی ہو اور جلد سے مَس بھی ہو رہا  ہو۔

     ایک اور اہم مسئلہ پڑھیے : کیا بینک میں‌ نوکری کرنا جائز ہے؟ 


    نوٹ : ایسے دیگر مسائل سے آگہی حاصل کرنے کے لیے* فیس بک پر ہمارے صفحے اے آر وائی کیو ٹی وی کو لائیک کیجیے

    جب کہ اپنے سوالات براہ راست بھیجنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔


  • کیا بینک میں‌ نوکری کرنا جائز ہے؟

    کیا بینک میں‌ نوکری کرنا جائز ہے؟

    بینک کی نوکری کرنا حلال ہے یا حرام؟ یہ سوال کوئی پرانا نہیں تاہم ابھی تک جواب طلب ہے، اس معاملے میں خود علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے اسلامی چینل کیو ٹی وی کے ایک براہ راست پروگرام میں مفتی عاصم نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ بینک کی نوکری میں حلال و حرام کا اختلاط ہے جس کے باعث کلی طور پر اسے حرام یا حلال قرار دینا مناسب نہیں۔

    مفتی عاصم کیو ٹی وی کے فیس بک پیج پر براہ راست سیشن میں ایک سائل کے سوال کا جواب دے رہے تھے جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ بینک کی نوکری حلال ہے اور بینک میں نوکری کرنے والوں کے ساتھ کس قسم کے سماجی رابطے یا روابط رکھنا چاہئیں۔

    مفتی عاصم نے کہا کہ بینک میں کام کرنے والے تمام افراد ہی اس زمرے میں نہیں آسکتے کیوں کہ بینک میں جہاں پی ایس ایل اکاؤنٹس پر کام ہوتا جو کہ ممنوع ہے وہیں کرنٹ اکاؤنٹ پر بھی کام ہوتا ہے جو کہ عین اسلامی اکاؤنٹ ہے کیوں کہ اس میں سود کا لین دین اور منافع شامل نہیں ہوتا۔

    اس لیے وہ بینک ملازمین جو براہ راست سود اور قرض کے لین دین میں ملوث نہیں ہیں ان کی ملازمت اور کمائی درست ہے جب کہ جو ملازمین براہ راست قرضے دینے اور پھر ماہانہ یا سالانہ قسط پر بہ طور سود وصول کرنے پر مامور ہوتے ہیں ان کی کمائی درست نہیں اور ایسے لوگوں کے یہاں کھانا پینا بھی درست نہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے اسلامی چینل کیو ٹی وی لوگوں کے عام اور فقہی مسائل کو مفتیان دین کے ذریعے بیان کے لیے مختلف پروگرام منعقد کرتی ہے اس کے علاوہ سوشل میڈیا کی سماجی ویب سائٹ فیس بک کے کیو ٹی وی پیج پر براہ راست سوال و جواب کا سلسلہ بھی کیا جاتا ہے۔

    کیوٹی وی کے فیس بک صفحے پر آپ اپنے دینی و فقہی مسائل کا حل براہ راست مفتی صاحبان سے حاصل کرسکتے ہیں یہ لائیو سیشن فیس بک پیج پر ہر بدھ اور ہفتے کو آٹھ بجے ہوتا ہے اس میں شرکت کے لیے کیو ٹی وی فیس بک پیج کو لائیک کیجیئے. جب کہ اپنے سوالات بھیجنے کے لیے  کلک کریں۔

  • کیا خطبہ سنے بغیر نماز جمعہ ادا ہوجاتی ہے؟

    کیا خطبہ سنے بغیر نماز جمعہ ادا ہوجاتی ہے؟

    اگر نمازی جمعہ کے روز مسجد اتنی دیر سے پہنچا ہے کہ خطبہ جمعہ نہیں سن سکا تو ایسی صورت حال میں نمازِ جمعہ کے اجر و ثواب میں کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ وہ خطبہ سننے کے ثواب سے محروم رہ جائے گا۔

    یہ بات اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے چینل کیو ٹی وی (پاکستان کا سب سے پہلا مذہبی چینل) مذہبی معلومات کے حوالے سے سوال جواب کے پروگرام میں مفتی صاحب نے ایک سائل کے جواب میں بتائی۔

     

    لاہور سے محمد الیاس نے فون پر مفتی صاحب سے سوال پوچھا تھا کہ خطبہ جمعہ چھوٹ جانے سے کیا نماز جمعہ ادا ہو جاتی ہے یا اس سے نماز جمعہ کے اجر اور ثواب میں کمی واقع ہو سکتی ہے؟

    جس پر پروگرام میں موجود مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطبہ جمعہ ہونا ضروری ہے اور اس دوران موجود نمازیوں پر لازم ہوتا ہے کہ پورے آداب اور احترام کے ساتھ خطبہ سنیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص خطبہ جمعہ کے بعد مسجد میں پہنچتا ہے تو نماز جمعہ میں شریک ہو پاتا ہے تو ایسے شخص کی نماز ادا بھی ہو جاتی ہے اور انشاء اللہ مقبول بھی ہوگئی کیونکہ خطبہ جمعہ کی محرومی سے نماز جمعہ کی صحت پر حرف نہیں آتا۔

    نماز تو ہوجاتی ہے تاہم خطبے کا ثواب نہیں ملتا

    مفتی صاحب کا مزید کہنا تھا کہ بتائی گئی صورت حال میں نمازِ جمعہ تو ادا ہو جاتی ہے اور نمازی اس کے ثواب و برکات کا بھی مستحق رہتا ہے لیکن نمازی خطبہ جمعہ سننے کے ثواب و اجر سے محروم رہ جا تا ہے اس لیے پوری کوشش کرنی چاہیئے کہ خطبہ جمعہ کو سننے کے لیے وقت سے پہلے مسجد پہنچ جائیں۔


    Jummah Ka Khutba by aryqtv

    خطبہ جمعہ نہ صرف یہ کہ سنت ہے جس میں اللہ کی کبریائی اور مدح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کی جاتی ہے بلکہ دین کی معلومات کے حصول اور روز مرہ مسائل سے آگاہی کا بھی ذریعہ بنتا ہے اس لیے ہر مسلمان کی کوشش ہونا چاہیے کہ خطبہ جمعہ کو ہر صورت سنیں۔

  • کیا اسلام میں پسند کی شادی کی اجازت ہے؟

    کیا اسلام میں پسند کی شادی کی اجازت ہے؟

    اسلام دین کامل ہے جو ہر بشری تقاضوں، رشتوں اور ذمہ داریوں کو نہ صرف بیان کرتا ہے بلکہ اس کی حدود و قیود سے بھی آگاہ کرتا ہے تا کہ انسان اپنی بشری لرزش کے باعث توازن نہ کھو بیٹھے اور معاشرے میں فساد کی سی کیفیت پیدا نہ ہو جائے۔

    والدین اور اولاد کا رشتہ بقیہ تمام رشتوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور قریبی ہوتا ہے لیکن اتنا ہی حساس اور نازک بھی ہوتا ہے فرائض، ذمہ داری اور حقوق کے درمیان توازن نہ رہے تو خونی رشتے بھی تا دیر قائم نہیں رہ سکتے۔

    فی زمانہ نسلِ انسانی اپنے دور کے سب سے جدید، متحرک اور انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے جس کے باعث تہذیبوں کا ٹکراؤ بھی جاری ہے تو کہیں کہیں تہذیبوں کا ملاپ ہوتا بھی نظر آ رہا ہے جس کی ایک واضح مثال ہمارے بچوں اور بچیوں کا پسند کی شادی کرنے پر اصرار ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے اسلامی چینل کیو ٹی وی نے ان جدید مسائل کو نظر رکھتے ہوئے اپنے پروگرام میں عالم دین اور سائل کو براہ راست گفتگو کرنے کا موقع دیا جس میں سائل کی جانب سے پسند کی شادی کرنے کے حوالے سے شریعت کے احکام معلوم کیےگئے۔

    پروگرام میں سائل کا جواب دیتے ہوئے مفتی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ شادی تو ہوتی ہی پسند کی ہے جس میں والدین کے ساتھ ساتھ بچوں کی رضامندی کا شامل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے کیوں کہ جن دو افراد کو ساری عمر کے لیے سب سے قریبی رشتے میں باندھا جاتا ہے اس میں ان کی رائے ہی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو تی ہے۔

    مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ فی زمانہ پسندیدگی کے اظہار سے بات آگے نکل چکی ہے اور بچے شادی سے قبل نہ صرف یہ کہ طویل گفتگو کرتے ہیں بلکہ آپس میں خفیہ ملاقاتیں بھی کرتے ہیں یہ عمل کسی شر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    مفتی صاحب نے کہا کہ نہ تو اسلام اور نہ ہی ہماری تہذیب اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ لڑکا لڑکی شادی سے قبل آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ گھومے پھریں اور ملاقاتیں کریں البتہ اگر لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو اپنی پسندیدگی کا اظہار والدین سے کریں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ کسی بھی طرح والدین کی بدنامی کا باعث نہ بنیں، اسی طرح والدین بھی انا اور ضد پر بچوں کی پسند کو ترجیح دیں اور اگر رشتہ معقول ہو تو ہاں کر دینی چاہیئے۔

    قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

    فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ(سورۃ النسا آیت 3)

    ترجمہ: نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں۔

    یہاں اللہ تعالیٰ مرد کو اپنی پسند کی عورت سے نکاح کا اختیار دے رہا ہے مگر اس بات کا تعین بھی کرنا ضروری ہے کہ دین اسلام میں پسندیدہ عورت کون سی ہے؟

    نکاح چار چیزوں کو دیکھ کر ہوتا ہے

    جان کائنات رسول اکرمﷺ نے اس بارے میں فرمایا کہ نکاح چار چیزوں کو دیکھ کر ہوتا ہے، آل ، مال ، کمال اور جمال، میری وصیت ہے کہ تم کمال دیکھ کر شادی کرنا۔

    آل یہ ہے کہ عورت کسی شاہی خاندان، سید یا کسی اور اعلیٰ نسب سے تعلق رکھتی ہو۔

    مال یہ ہے کہ عورت امیر ہو، مال وجواہر رکھتی ہو۔

    جمال یہ ہے کہ وہ حسن رکھتی ہو جب کہ

    کمال یہ ہے کہ وہ کسی خوبی کی مالک ہو جس کی بنا پر مرد کہہ سکے کہ اس عورت کے ساتھ زندگی کا سفر اچھا گزرے گا اور رسول اکرمﷺ نے امت کو کمال دیکھ کر شادی کرنے کی تلقین کی۔

    یہ بھی پڑھیں: لوڈو کھیلنا حرام ہے یا حلال؟ جانیں‌ دین کی روشنی

  • ماہ صفر اور باطل نظریات قرآن و حدیث کی روشنی میں

    ماہ صفر اور باطل نظریات قرآن و حدیث کی روشنی میں

    ماہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“ اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے،صفر کو زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا رہا ہے اور زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات جیسے شادی بیاہ،سفر پہ جانا اور کاروبار کے آغاز نہیں کیا کرتے تھے وہ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے۔

    عرب کے تاریک صحراؤں میں اسلام کا روشن چاند منور ہوا تو بے آب و گیا ریگستان بھی رحمتوں کی بارش سے سیراب ہوگیا تاہم لوگوں میں موجود باطل نظریات غلط فہمی اور کہیں کم علمی کے باعث نسل در نسل چلے آئے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ماہ صفر میں خوشی کی کوئی تقریب منعقد کرنے سے کتراتے ہیں۔

    آیئے دیکھتے ہیں کہ قرآن اور احادیثِ رسول اس سلسلے میں ہماری کیا رہنما ئی فرماتے ہیں جانتے ہیں اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے چینل کیو ٹی وی کے علامہ لیاقت علی اظہری سے:

    ماہ صفر ۔۔۔۔ قرآن کیا رہنمائی کرتا ہے؟

    اللہ تبارک و تعالیٰ نوع انسانی کے لیے اپنے آخری پیغام قرآن کی سورہ توبہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی 12 ہے اور یہ تب سے ہے جب سے زمین و آسمان کی تخلیق کی گئی ہے۔

    اسی طرح اللہ کے آخری کلام میں جگہ جگہ دن اور رات کے آنے اور مہینوں کے سال میں تبدیل ہونے کو افضل اور غیر افضل سے قطع نظر سورج و چاند کی گردش سے موسوم کیا گیا۔

    إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِO الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO

    (آل عمران، 3 : 190، 191)

    بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں میں (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں) : ’’اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘o

    اسی طرح سورہ رحمن اور سورہ یسین میں زمین و آسمان کے خالق نے چاند اور سورج کی منازل اور اپنے اپنے مداروں میں محو حرکت رہنے کی آیات کے بعد نسل انسانی کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی جو اس بات کی غماز ہے کہ ماہ و سال اللہ نے ایک مخصوص نظام کے تحت بنائے جس میں نحوست کا شائبہ تک نہیں۔

    ماہ صفر ۔۔۔ احادیثِ رسول ہمیں کیا درس دیتی ہیں؟

    سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردید اور نفی فرما تے ہوئے علیٰ الاِعلان ارشاد فرمایا کہ: (اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ)، ماہِ صفر(میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔

    رسول آخری الزماں نے فرمایا کہ :

    عَنْ أبي ھُرَیْرَةَ رضي اللّٰہُ عنہ قال: قال النبيُّ ﷺ :”لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَةَ“․ (صحیح البخاري،کتابُ الطِّب،بابُ الھامة، رقم الحدیث: 5770، المکتبة السلفیة)

    مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں۔

    ماہ صفر ۔۔۔۔ صحابہ کرام اور اہل بیت کا طریقہ کیا تھا؟

    قرآن و احادیث کے انہی واضح احکامات کا نتیجہ تھا کہ اصحاب کرامؓ اور اہل بیتؓ نے زمانہ جاہلیت کے باطل خیالات کو رد کرتے ہوئے ماہ صفر میں خوشی کی تقریب منعقد کی اور اس مہینے کو کسی بھی دوسرے اسلامی مہینے سے کم تر نہ جانا جس کی سنہری مثال رسول اللہ کی لختِ جگر جنابِ فاطمہؓ کا عقد مبارک رسول اللہ کی نگرانی میں حضرت علیؓ کے ساتھ اسی ماہ منعقد ہوا۔

    اگر ماہ صفر نحوست کا مہینہ ہوتا تو کبھی آخری پیغمبرﷺ اپنی بیٹی کی شادی اس مہینے میں سر انجام نہیں دیتے اور اب رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لیے یہ نمونہ عمل بن گیا ہے۔

    علامہ لیاقت علی اظہری نے فرمایا کہ اسلام میں نحس وقت کا نظریہ نہیں ہے اور خود رسول اللہ فرما چکے ہیں کہ صفر میں کو ئی نحوست نہیں ہے. یہ تو توہم پرست لوگوں کی روایات اور باطل نظریات ہیں جسے اسلام نے نیست و نابود کیا تھا،امن، سلامتی،رحمت،برکت اور بخشش کا دِین دنیا میں آیا ہی نحوست کے خاتمے کے لیے تھا۔

    تاہم علامہ صاحب نے مسلمان کو باور کرایا کہ اسلام میں کسی دن کو دوسرے دن پر یا کسی مہینے کو دوسرے مہینے پر سبقت حاصل ہے جیسے جمعتہ المبارک سارے دِنوں کا سردار ہے جب کہ ماہ رمضان تمام مہینوں سے افضل مہینہ اور شب قدر تمام راتوں سے افضل رات ہے اور یہ سبقت اور فضیلت ان دنوں میں کی جانے والی عبادت کی وجہ ہے جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت خصوصی طور پر متوجہ ہوتی ہے لہذا مسلمان ان مواقعوں پر خصوصی عبادات کا اہتمام کریں۔

  • لوڈو کھیلنا حرام ہے یا حلال؟ جانیں‌ دین کی روشنی

    لوڈو کھیلنا حرام ہے یا حلال؟ جانیں‌ دین کی روشنی

    کراچی : لوڈو گھر گھر میں کھیلا جانے والا وہ کھیل ہے جسے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی کھیلنا پسند کرتے ہیں، اسلام میں ایسی کھیلوں کی کیا حقیقت ہے کیا لوڈو اور اس قسم کے دیگر کھیل کی اسلام میں ممانعت ہے یا اجازت اس حوالے سے جانتے ہیں۔

    اے آر وائی نیٹ ورک کے مذہبی چینل کیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں لڈو کھیلنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ لڈو پر جوا یا سٹے یا شرط کی رقم نہ لگی ہو تو کھیلا جا سکتا ہے تا ہم وقت کے ضیاع کا خیال رکھنا چاہیے۔

    اے آروائی کیو ٹی وی کے براہراست پروگرام میں گھروں میں کھیلے جانے والے عام کھیل لِڈو کے جائز یا ناجائز ہونے کے بار ے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے کہا کہ اسلام جسمانی اعضاء کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور جسم کو چابک اور چست رکھنے والے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

    خود رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تیراکی، تیر اندازی، گھوڑ سواری اور دوڑنے کے مقابلوں میں حصہ لیا اور ایسے تمام کھیلوں کو مفید قرار دیا۔

    مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ اسی طرح ایسے تمام کھیل جو ذہانت بڑھانے، یکسوئی برقرار رکھنے اور ذہنی مہارت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں ایسے کھیل کھیلے جا سکتے ہیں البتہ اس بات کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ اس قسم کے کسی بھی کھیل میں جوا یا سٹہ نہ لگایا گیا ہو کیوں کہ اسلام جوا اور سٹے کو حرام قرار دیتا ہے۔

    سوال کے جواب میں مفتی صاحب کا مزید کہنا تھا کہ کھیل چاہے جسمانی چابک دستی کے لیے کھیلا جائے یا ذہنی استعداد کو بڑھانے کے لیے کھیلا جائے،اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کھیل وقت کے ضیاع کا موجب نہ بننے اور ایک مقررہ اور فارغ اوقات میں کھیلا جائے تا کہ کھیل حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے۔

    واضح رہے کہ مفتی سہیل رضا امجدی کیو ٹی وی پر قرآن سنیں اور سنایے اور خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے پروگرام بھی کرتے ہیں۔

  • احساس ویلفیئرٹرسٹ کاغزہ مستحقین کیلئے امدادی پروگرام

    احساس ویلفیئرٹرسٹ کاغزہ مستحقین کیلئے امدادی پروگرام

    لاہور :اے آر وائی کیو ٹی وی لاہور اسٹوڈیوز نے خواجہ غریب نوازویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ اور احساس ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت غزہ کے مستحقین اور ضرورتمندوں کی امداد کیلئے پروگرام کیا گیا۔

    اے آر وائی کیو ٹی وی لاہور اسٹوڈیوز نے خواجہ غریب نوازویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ اور احساس ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے تحت غزہ کے مستحقین اور ضرورتمندوں کی امداد کیلئے پروگرام کیا گیا۔

    جس میں ملکی و غیر ملکی سطح پر امداد جمع کی گئی۔ امدادی پروگرام میں علماء و مشائخ نے حقوق العباد اور انسانی ہمدردی کے حوالے سے خطاب کیا جبکہ نعت خوانوں نے گلہائے عقیدت بھی پیش کیے۔