Tag: کیپٹن صفدر

  • حکومت نوازشریف کے مقدمے سے متعلق عدالت کے فیصلے پرعملدرآمد کرے گی‘ علی ظفر

    حکومت نوازشریف کے مقدمے سے متعلق عدالت کے فیصلے پرعملدرآمد کرے گی‘ علی ظفر

    اسلام آباد : نگراں وزیراطلاعات سید علی ظفر کا کہنا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کو برطانوی حکومت کے تعاون سے پاکستان واپس لایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراطلاعات ونشریات سید علی ظفر نے نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سابق وزیراعظم نوازشریف کے مقدمے سے متعلق احتساب عدالت کے فیصلے پرعمل درآمد کرے گی۔

    نگراں وزیراطلاعات کے مطابق مقدمے میں قانونی طریقہ کار پرپیرسے عمل درآمد کیا جائے گا اور حکومت مجرمان کی جائیدار ضبط کرنے سے متعلق عدالتی حکم نامے پر بھی عمل درآمد کرے گی۔

    سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کو احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہے۔

    نگراں وزیراطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف اور مریم نواز کو برطانوی حکومت کے تعاون سے پاکستان واپس لایا جائے گا تاہم برطانیہ کے ساتھ پاکستان کا مجرموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔

    سید علی ظفر کا نیب سے متعلق کہنا تھا کہ نیب ایک آئینی ادارہ ہے اور ہم اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکی گرفتاری کے لیے نیب کارروائی کررہی ہے۔

    نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو قید کی سزا اورجرمانہ

    یاد رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو 11 اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایک سال قید کی سائی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مانسہرہ : کیپٹن صفدر کے گارڈز اور لیگی کارکنان کی اے آر وائی کے اینکر سے بد تمیزی

    مانسہرہ : کیپٹن صفدر کے گارڈز اور لیگی کارکنان کی اے آر وائی کے اینکر سے بد تمیزی

    ایبٹ آباد: مانسہرہ میں اے آر وائی نیوز کے اینکر اور کیمرہ مین پر نواز لیگ کے کارکنان نے بد سلوکی کی ہے، ہاتھا پائی کرتے ہوئے ٹیم کو انتخابی تیاریوں کی کوریج سے روکا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایبٹ آباد کے علاقے مانسہرہ میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام "اعتراض ہے” کی ٹیم نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر کے جلسے کی کوریج کیلئے پہنچی تو وہاں کیپٹن صفدر کے نجی گارڈز نے اینکر عادل عباسی اور پروگرام ٹیم سے ناروا سلوک کیا۔

    اس موقع پر وہاں موجود ن لیگی کارکنان بھی پہنچ گئے اور اینکر عادل عباسی کو ٹیم سمیت مغلظات بکتے ہوئے وہاں سے جانے کیلئے کہا۔

    بعد ازاں اینکر نے کیپٹن صفدر سے براہ راست بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ابا نے اے آر وائی نیوز سے بات سے منع کیا ہے اور یہ ہماری پارٹی کی پالیسی بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ سے بات نہیں کرسکتا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • نواز شریف لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونرہیں نہ ان سے تعلق ہے‘ خواجہ حارث

    نواز شریف لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونرہیں نہ ان سے تعلق ہے‘ خواجہ حارث

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جاری ہے جہاں چوتھے روز بھی سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز استثنیٰ کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہوں گے جبکہ کیپٹن صفدر عدالت میں موجود ہیں۔

    خواجہ حارث نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونرہیں نہ ان سے تعلق ہے، استغاثہ کو لندن فلیٹس کی ملکیت بھی ثابت کرنا تھی۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ واجد ضیاء کا بیان2 حصوں میں تقسیم ہونا ہے، بیان حلفی کے مطابق 1974میں میاں شریف نے گلف اسٹیل بنائی جبکہ طارق شفیع نے کہا 1973میں وہ انیس سال کے تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ طارق شفیع نے کہا میاں شریف انہیں بھی دبئی لے گئے، ریکارڈ پرآنے والی ہردستاویز کا جائزہ لیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا کسی ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے، ٹرانزیکشنز حسین نواز، میاں شریف کے درمیان ہوئی ہیں، فوٹو کاپی کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ طارق شفیع نے کہا 1978 میں میاں شریف نے مل کے 751 شیئرزبیچے، 1998 میں 25 فیصد باقی شیئرز بھی فروخت کر دیے گئے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ان دستاویزات پر استغاثہ انحصار کررہی ہے جس پر استغاثہ انحصار کر رہی ہےاس میں نوازشریف کا ذکر نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے دوسرے بیان خلفی میں بھی نواز شریف کا ذکر نہیں جبکہ 1978 کے معاہدے کا ایک صفحہ غائب ہے، عدالت نے نیب کو تفریق شدہ صفحہ جمع کرانے کا حکم جاری کر دیا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل نے نوازشریف کےکیپٹل ایف زیڈای سے تنخواہ وصولی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈای سے تنخواہ 2008 کا معاملہ ہے، تنخواہ وصول بھی کی تواس سے ایون فیلڈ کا کیا تعلق ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی جے آئی ٹی نے کوئسٹ سالیسٹرکو کیوں ہائر کیا؟۔

    معزز جج محمد بشیر نے کہا کہ کل امجد پرویز دلائل شروع کردیں جس پرمریم نواز کے وکیل نے کہا کہ وہ کل این ایل سی کیس میں پیش ہوں گے، اس کیس میں بھی چیف جسٹس کی ہدایات ہیں۔

    جےآئی ٹی سربراہ کا کام صرف تفتیش کرکےمواد اکٹھا کرنا تھا‘ خواجہ حارث

    خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت میں سماعت کے دوران خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی ایک تفتیشی ایجنسی تھی، تفتیش کے لیے قانون وضع ہوتا ہے کیا قابل قبول شہادت ہے کیا نہیں ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ معمول کا کیس ہوتا تومعاملہ تفتیش کے لیے نیب کے سپرد کیا جانا تھا، نیب تفتیش کرتا اورپھر ریفرنس دائر ہوتا۔

    خواجہ حارث نے کہا تھا کہ عدالت نے کہا جے آئی ٹی کے پاس تفتیش کے اختیارات ہوں گے، جے آئی ٹی کونیب اورایف آئی اے کے اختیارات بھی دیے۔ عدالتی حکم کے مطابق جے آئی ٹی مکمل تفتیشی ایجنسی ہی تھی۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ استغاثہ161 کے بیان کواپنے فائدے کے للیے استعمال نہیں کرسکتا جبکہ ملزم چاہے تو 161 کے بیان کواپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا کہ جےآئی ٹی سربراہ کا کام صرف تفتیش کرکے مواد اکٹھا کرنا تھا، کوئی نتیجہ اخذ کرنا جے آئی ٹی کا اختیارنہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی کے مواد کی روشنی میں ریفرنس دائرکرنے کا کہا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جےآئی ٹی سربراہ کا کام صرف تفتیش کرکےمواد اکٹھا کرنا تھا‘ خواجہ حارث

    جےآئی ٹی سربراہ کا کام صرف تفتیش کرکےمواد اکٹھا کرنا تھا‘ خواجہ حارث

    اسلام آباد : شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے تیسرے روز بھی حتمی دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی ایون فیلڈ ریفرنس میں حتمی دلائل دیے۔

    خواجہ حارث نے عدالت میں سماعت کے آغازپرکہا کہ جے آئی ٹی ایک تفتیشی ایجنسی تھی، تفتیش کے لیے قانون وضع ہوتا ہے کیا قابل قبول شہادت ہے کیا نہیں ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معمول کا کیس ہوتا تومعاملہ تفتیش کے لیے نیب کے سپرد کیا جانا تھا، نیب تفتیش کرتا اورپھر ریفرنس دائر ہوتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے کہا جے آئی ٹی کے پاس تفتیش کے اختیارات ہوں گے، جے آئی ٹی کونیب اورایف آئی اے کے اختیارات بھی دیے۔ عدالتی حکم کے مطابق جے آئی ٹی مکمل تفتیشی ایجنسی ہی تھی۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ161 کے بیان کواپنے فائدے کے للیے استعمال نہیں کرسکتا جبکہ ملزم چاہے تو 161 کے بیان کواپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جےآئی ٹی سربراہ کا کام صرف تفتیش کرکے مواد اکٹھا کرنا تھا، کوئی نتیجہ اخذ کرنا جے آئی ٹی کا اختیارنہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی کے مواد کی روشنی میں ریفرنس دائرکرنے کا کہا۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جن گواہان کا ذکرکیا انہیں یہاں پیش نہیں کیا گیا، قانون شہادت کے مطابق گواہان کا یہاں پیش ہونا ضروری تھا۔

    خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت شواہد کے بعد سچ اورجھوٹ کا تعین کرتی ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ میں 1حصہ رائے جبکہ دوسرا161 کے بیان اور تیسرا مواد پر مشتمل ہے، رائے والے حصے پرعدالت کی معاونت کردی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اب161کے بیانات کے حوالے سےعدالت کی معاونت کروں گا، 161کے بیان کوبطورثبوت استعمال نہیں کیا جاسکتا، حسن، حسین کے جےآئی ٹی میں بیانات اعتراف کے زمرےمیں نہیں لیے جاسکتے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ کسی شریک ملزم کا161 کا بیان ملزم کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا، صرف اعترافی بیان کوہی ملزم کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ کل بھی خواجہ حارث حتمی دلائل جاری رکھیں گے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روزاحتساب عدالت میں سماعت کے دوران خواجہ حارث نے حتمی دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ لندن فلیٹس کبھی نوازشریف کی ملکیت میں نہیں رہے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میرے موکل کی توملکیت ہی ثابت نہیں ہے، ملکیت ثابت ہوتی تو آمدن اور اثاثوں میں تضاد کی بات ہوتی۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری پراسیکیوشن پرعائد ہوتی ہے اور بعد میں بارِ ثبوت ملزمان پرڈالا جاتا ہے لیکن یہاں استغاثہ نے پہلے ہی بارِ ثبوت ملزمان پرڈال دیا ہے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے نوازشریف کی آمدن کے معلوم ذرائع سے متعلق دریافت نہیں کیا اور نہ ہی دوران تفتیش نوازشریف کے ذرائع آمدن کا پتا چلایا گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت نےنوازشریف کووکیل مقررکرنےکےلیے19جون تک کی مہلت دے دی

    احتساب عدالت نےنوازشریف کووکیل مقررکرنےکےلیے19جون تک کی مہلت دے دی

    اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو اپنے خلاف نیب ریفرنسز کی پیروی کی غرض سے وکیل مقرر کرنے کے لیے 19 جون تک کی مہلت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف آج اپنے وکیل کے بغیر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کی بیٹی مریم نواز بھی احتساب عدالت میں موجود تھیں۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرمعزز جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نوازشریف سے استفسار کیا کہ آپ کو دوسرا وکیل رکھنا ہے یا خواجہ حارث کو ہی کہا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک خواجہ حارث کی کیس سے دستبرداری کی درخواست منظور نہیں کی گئی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ یہ اتنا آسان فیصلہ نہیں ہے، ایک وکیل نے کیس پر9 ماہ محنت کی ہے اسے چھوڑکرنیا وکیل تلاش کروں، ہم تو9 ماہ سے آ رہے ہیں،100 کے قریب پیشیاں بھگت چکے۔

    نوازشریف نے کہا کہ خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں کہہ دیا تھا کہ وہ ہفتہ، اتوار کو کام نہیں کریں گے، ہم تو روز لاہور سے آتے ہیں اور سحری کرکے عدالت کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں کہا کہ اس مرحلے پرنیا وکیل کرنا ممکن نہیں ہے۔

    امجد پرویز نے کہا کہ ہفتے اور اتوار کو یا عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد سماعت نہیں ہونی چاہیے، ہم پیر سے جمعہ تک اس عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔

    مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ اس وجہ سے سپریم کورٹ سے میرا ایک کیس عدم پیروی پرخارج ہوگیا جبکہ شرجیل میمن کیس میں ایک ملزم کا وکیل ہوں اور عدالت میں پیش نہ ہونے پرمجھ پر10 ہزار روپے کا جرمانہ بھی ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آج لندن فلیٹس میں حتمی دلائل ہونا تھے، امجد پرویزدلائل دینے کے لیے تیارتھے جبکہ حتمی دلائل سے ایک دن پہلے وکالت نامہ واپس لیا گیا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ عدالتی ہدایت آپ کے لیے ہے استغاثہ یا وکلا صفائی کے لیے نہیں، جب آپ ہفتے کی سماعت کا کہتے ہیں تب یہ آپ کوکہتے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کارروائی عدالت نے چلانی ہے جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایت صرف عدالت کے لیے ہے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ مرضی کا وکیل کرنا ان کا حق ہے، آج امجد پرویزدلائل دے سکتے ہیں جس پرامجد پرویز نے کہا کہ ہم نے اورمیاں صاحب نےعدالتی حکم ابھی نہیں پڑھا۔

    مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ خواجہ صاحب نے بتایا میں ان حالات میں انصاف نہیں کرسکتا جبکہ نوازشریف نے کہا کہ خواجہ صاحب نےعدالت میں کہا تھا ہفتہ اتوارسماعت ممکن نہیں ہے۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ خواجہ صاحب نے کہا تھا مجھے دستبردار ہونا پڑے گا اس پرسپریم کورٹ نے کچھ نہیں کہا۔ احتساب عدالت نے نوازشریف کو کہا کہ آپ بیٹھ جائیں سپریم کورٹ کا حکم نامہ دیکھ لیتے ہیں۔

    احتساب عدالت نے ایون فیلڈریفرنس پرسماعت 14 جون تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر سابق وزیراعظم نوازشریف اورمریم نوازکوحاضری سے استثنیٰ دے دیا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کے وکیل امجد پرویز 14جون کو ایون فیلڈریفرنس میں حتمی دلائل دیں گے۔

    احتساب عدالت نے مسلم لیگ ن کے قائد کو 19 جون تک نواز شریف کو نیا وکیل لانے کے لیے وقت دے دیا، عدالت نے کہا کہ خواجہ حارث کومنائیں یا نئے وکیل کے ساتھ 19جون کو آئیں۔

    ایون فیلڈ ریفرنس: نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل مکمل

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ کیلبری فونٹ2007 سے پہلےکمرشل استعمال کے لیے نہیں تھا، ریڈلے رپورٹ کے مطابق دستاویزات میں جعلسازی پائی گئی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا تھا کہ نوازشریف نے قوم سے خطاب کیا تھا جس میں کہا تھا کرپشن کے پیسے سے جائیداد بنانے والا اپنے نام پرنہیں رکھتا، ان کے قوم سے خطاب کو بطورثبوت پیش کیا گیا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ ہماراکیس بھی یہی ہے نوازشریف نے بچوں کے نام جائیداد بنائی، پبلک آفس ہولڈرکرپشن سے جائیداد بناتا ہے تواپنے نام پرنہیں رکھتا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے لندن فلیٹس کے اصل مالک ہونے کے شواہد پیش کیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کے قائد اور ان کی بیٹی مریم نوازکی جانب سے گزشتہ روز حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن جانا ہے اس لیے 11 سے 15 جون تک حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔

    نوازشریف اور مریم نواز کی جانب سے درخواست کے ساتھ کلثوم نوازکی نئی میڈیکل رپورٹ بھی منسلک کی گئی تھی۔

    احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب کے حتمی دلائل جاری

    ایون فیلڈ ریفرنس: ڈپٹی پراسیکیوٹرنیب کے حتمی دلائل جاری

    اسلام آباد: شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد روانہ ہوگئے۔

    عدالت میں سماعت کے دوران نیب ریفرنس میں نامزد مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے آج کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفرعباسی نے آج دوسرے روز ایون فیلڈ ریفرنس میں حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف، مریم نواز ، حسن اورحسین نوازذرائع آمدن ثابت نہیں کرسکے جبکہ مریم نواز نے اصل حقائق چھپائے۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے بطور گواہ ٹرسٹ ڈیڈ پردستخط کیے جبکہ ملزمان نے تفتیشی ایجنسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ فلیٹس1993 سے ان کی ملکیت ہیں یہ وہاں رہ رہے ہیں، مریم نوازبینیفشل آنرہیں، گراؤنڈ رینٹ مالک دیتا ہے اوریہ گراؤنڈ رینٹ دیتے رہے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ یہ باتیں ان کو1993 سے ملکیت سے جوڑتی ہیں جبکہ نوازشریف بھی جانتے ہیں 90 کی دہائی کے آغازسے وہاں ہیں، قطری شہزادے کاخط غلط ثابت ہوگیا۔

    انہوں نے کہا کہ حسین نوازفلیٹس کے گراؤنڈرینٹ اوربلزادا کرتے تھے، حسین نوازنے کہا 1994 میں لندن منتقل ہوئے اور فلیٹ میں رہنا شروع کیا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ گلف اسٹیل مل کے اصل مالک میاں محمد نوازشریف تھے جبکہ 2006 میں بیریئر شیئرز سروسزکمپنی کے حوالے کیے گئے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ یہ ثبوت ہے بیریئرشیئرز پہلے بھی ملزمان کی تحویل میں تھے، نیلسن ، نیسکول کی ملکیت اورشیئرزتحویل میں ہونے کا ثبوت ہے، بیریئرشیئرزبراہ راست قطری کی طرف سے تحویل میں نہیں گئے۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمان نے تسلیم کیا 1993 سے گراؤنڈ رینٹ ادا کررہے تھے، گراؤنڈ رینٹ اوربطورکرایہ داررینٹ کی ادائیگی میں فرق ہے۔

    نوازشریف کی نیب ریفرنسزمیں حتمی دلائل ایک ہی بارسننے کی درخواست خارج

    خیال رہے کہ گزشتہ روزعدالت میں سماعت کے آغاز پر نوازشریف کے معاون وکیل سعد ہاشمی نے نیب ریفرنسز میں حتمی دلائل ایک ہی بار سنے جانے سے متعلق متفرق درخواست دائر کی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس سمیت دیگر 2 ریفرنسز میں واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کے بیانات مکمل ہونے تک حتمی دلائل موخر کیے جائیں اور تمام ریفرنسز میں ایک ساتھ حتمی دلائل سنے جائیں۔

    سابق وزیراعظم نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ تمام ریفرنسز میں جے آئی ٹی رپورٹ کے یکساں والیم پیش کیے گئے، نیب کی یہ بات درست نہیں کہ تمام ریفرنسز کے حقائق مختلف ہیں۔

    سعد ہاشمی کا کہنا تھا کہ واجد ضیاء سمیت بعض گواہان بھی مشترک ہیں جبکہ نیب کی جانب سے ہرریفرنس میں گلف اسٹیل ملز اور قطری خط لایا گیا ہے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی نیب ریفرنسزمیں حتمی دلائل ایک ہی بارسننے کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرآپ چاہے تو اس کارروائی کو چیلنج کرسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کی نیب ریفرنسزمیں حتمی دلائل ایک ہی بارسننےکی درخواست خارج، سماعت کل صبح تک ملتوی

    نوازشریف کی نیب ریفرنسزمیں حتمی دلائل ایک ہی بارسننےکی درخواست خارج، سماعت کل صبح تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی نیب ریفرنسز میں حتمی دلائل ایک ہی بارسننے سے متعلق متفرق درخواست خارج کردی اور سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کررہے ہیں، بدھ کے روز بھی سماعت دوبارہ شروع ہونے پر نیب پراسیکیوٹر کے دلائل جاری رہیں گے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی نیب ریفرنسزمیں حتمی دلائل ایک ہی بارسننے کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ چاہے تو اس کارروائی کو چیلنج کرسکتے ہیں۔

    معزز جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ درخواست مسترد کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا جائے گا، آپ فیصلے کےخلاف ہائی کورٹ جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس دوران العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیاء کو طلب کر لیتے ہیں جس پرنوازشریف کےمعاون وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ مجھے5 منٹ دیں میں خواجہ حارث سے ہدایات لے لوں۔

    احتساب عدالت نے نوازشریف کے معاون وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل آج عدالت میں سماعت کے آغاز پر نوازشریف کے معاون وکیل سعد ہاشمی نے نیب ریفرنسز میں حتمی دلائل ایک ہی بار سنے جانے سے متعلق متفرق درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ایون فیلڈ ریفرنس سمیت دیگر 2 ریفرنسز میں واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کے بیانات مکمل ہونے تک حتمی دلائل موخر کیے جائیں اور تمام ریفرنسز میں ایک ساتھ حتمی دلائل سنے جائیں۔

    سابق وزیراعظم نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ تمام ریفرنسز میں جے آئی ٹی رپورٹ کے یکساں والیم پیش کیے گئے، نیب کی یہ بات درست نہیں کہ تمام ریفرنسز کے حقائق مختلف ہیں۔

    سعد ہاشمی نے کہا کہ واجد ضیاء سمیت بعض گواہان بھی مشترک ہیں جبکہ نیب کی جانب سے ہرریفرنس میں گلف اسٹیل ملز اور قطری خط لایا گیا ہے۔

    گلف اسٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت میں فریق نہیں رہا‘ کیپٹن صفدر

    یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر کیپٹن صفدر سے دریافت کیا گیا تھا کہ واجد ضیاء کے کیپٹل ایف زیڈ ای سے متعلق سرٹیفکیٹ پر کیا کہیں گے جس پر انہوں نے کہا تھا کہ سرٹیفکیٹ مجھ سے متعلق نہیں، جافزا کے فارم 9 کی کاپی بھی مجھ سے متعلق نہیں، جبکہ واجد ضیاء کے پیش اسکرین شاٹس بھی مجھ سے متعلق نہیں۔

    وکیل امجد پرویزکا کہنا تھا کہ کیپٹن صفدر کا بہت سی چیزوں سے تعلق ہی نہیں، بہت سی چیزیں ان کی شادی سے قبل کی ہیں۔

    کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ گلف اسٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت میں فریق نہیں رہا، شامل نہ ہونے کی وجہ سے ان معاملات کا ذاتی طور پر علم نہیں۔ طارق شفیع کا 12 ملین درہم دینے کا سوال بھی مجھ سے متعلق نہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن صفدر اپنا بیان ریکارڈ کرارہے ہیں

    ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن صفدر اپنا بیان ریکارڈ کرارہے ہیں

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران اپنا بیان قلمبند کروا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے بتایا کہ ان کی عمر55 سال ہے اور وہ گزشتہ دس سال سے ایم این اے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹرنے کیپٹن صفدرکا بیان ان کے وکیل کی جانب سے لکھوانے پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب کےجواب توایک ہی سانچے جیسے ہیں۔

    سردار مظفر نے کہا کہ سوال ملزم سے کیا جائے اورجواب وکیل دے،تینوں ملزمان کےجوابات ایک جیسے ہیں،عدالت کا وقت بچایا جائے۔

    کیپٹن صفدر کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جب سوال ایک جیسے ہوں گے توجواب بھی ایک جیسے ہی آئیں گے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم کسی گواہ سے ملیں تو انہیں اعتراض ہوتا ہے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ یہ ملزم کا بیان لکھ بھی لائیں توکوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ گواہ کوملنا بہت بڑا گناہ ہے، ملزمان کے ایک جیسے بیان پرہمیں فائدہ ہے۔

    امجد پرویز نے کہا کہ یہ بحث کی باتیں ہیں، آج میرے موکل کا بیان مکمل نہیں ہوگا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اتنا فیئرٹرائل کبھی نہیں ہوا۔

    امجد پرویز نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ کیا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ لگتا ہے کیپٹن(ر) صفدرصاحب، آپ سوال پڑھ کرہی نہیں آئے۔

    کیپٹن صفدر نے جواب دیا کہ سوال ہی نہیں پوری تراویح بھی پڑھی ہیں، اب تک 55 سوالات پڑھ چکا ہوں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سوال کیپٹن (ر) صفدرسے ہے جواب ان کے وکیل امجد پرویزدے رہے ہیں، کیپٹن صفدر نے کہا کہ جےآئی ٹی میں 5 گھنٹے کی ریکارڈنگ کی گئی۔

    سابق وزیراعظم کے داماد نے کہا کہ جےآئی ٹی میں باقاعدہ آڈیو ریکارڈنگ کا ریکارڈ موجود ہے، جےآئی ٹی میں اتنا سخت ماحول تھا جیسے جنگی قیدی بیٹھے ہوں۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ انویسٹی گیشن کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ہم اس پرابھی بات نہیں کررہے۔ امجد پرویز نے کیپٹن صفدر کو ہدایت کی کہ وہ براہ راست نیب پراسیکیوٹر سے بات نہ کریں۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ گلف اسٹیل سے میرا تعلق نہیں رہا جس پر معزز جج نے سوال کہ آپ کوگلف اسٹیل کا معلوم ہی نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ میری شادی سے پہلے کی بات ہے۔

    سابق وزیراعظم کے داماد نے عدالت کو بتایا کہ جب حسین نوازجے آئی ٹی میں پیش ہوا میں اس وقت عمرے پرتھا۔

    انہوں نے کہا کہ 1980کا معاہدہ نہ میں نے فائل کیا نہ ہی میرا کوئی تعلق ہے، حدیبیہ پیپرسے میرا کوئی تعلق نہیں اور جس متفرق درخواست میں یہ معاملہ تھا اس میں فریق نہیں ہوں۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ کوئین بنچ لندن کا فیصلہ میرے متعلق نہیں، ایون فیلڈ سے میرا تعلق نہیں ہے جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ کچھ توتعلق ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے نیب سے طلبی کا نوٹس نہیں ملا، ان کے وکیل نے کہا کہ نوٹس جاری کیا گیا لیکن تعمیل نہیں کرائی گئی، نوٹس جاری ہوتا ہےاورٹی وی پرچلتا ہے۔

    احتساب عدالت کےجج محمد بشیر نے کہا کہ بیان آج مکمل کرلیں جس پرکیپٹن صفدر کے وکیل نے جواب دیا کہ کل صبح 10بجے تک بیان مکمل کردیں گے۔

    کیپٹن صفدر نے بتایا کہ طارق شفیع اورموسیٰ غنی نہ اس کیس میں ملزم ہیں نہ ہی گواہ، عمرے پرجانا چاہتے ہیں مگریہاں عدالتی کارروائی کی سمجھ نہیں آرہی۔

    امجد پرویز نے کہا کہ میری پوری فیملی عمرے پرجانا چاہ رہی ہے، ایک نوٹس میرے متعلق ہو، دوسرا وکیل کیسےعدالتی ریکارڈ پرلاسکتا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے داماد نے کہا کہ عدالت میں بیان کے لیے ساری رات تیاری کی، اسسٹنٹ سے سی آرپی سی سے متعلق بنیادی باتوں کا مطالعہ کیا۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ جےآئی ٹی میں کہا پاناما 58 ٹوبی ہے، مقصدنوازشریف کونکالنا ہے، جے آئی ٹی کوکہا مرضی کا جواب دے کروعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا۔

    عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ نوازشریف کی قومی اسمبلی کی تقریرپرکیا کہیں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ تقرریوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

    معزز جج نے سوال کیا کہ کیا آپ قومی اسمبلی میں نہیں تھے جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ لازمی نہیں میرے موکل اسمبلی گئے ہوں۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ مجھےکسی تقریرکا لفظ با لفظ یاد نہیں، مشکل سے اپنی تقاریرکے مسودے ٹھیک کرلیتا ہوں، باقی تقاریرمیں دلچسپی نہیں ہوتی۔

    میں معصوم اور بے گناہ ہوں، مریم نواز کا بیان

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرسابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے تمام 128 سوالات کے جوابات دیے تھے۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی لندن فلیٹس کی مالک نہیں رہی اور نہ وہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل آنر ہیں اور ان کمپنیوں سے کبھی کوئی مالی فائدہ لیا نہ کوئی نفع۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میں معصوم اور بے گناہ ہوں، مریم نواز کا بیان

    میں معصوم اور بے گناہ ہوں، مریم نواز کا بیان

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت میں  128 سوالات کےجوابات ریکارڈ کرا دیے اور کہا کہ میں معصوم اور بے گناہ ہوں, میراقصور یہ نہیں میں نے کوئی کرپشن یا چوری کی، میرا واحد قصور نوازشریف کی بیٹی ہونا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرادیئے۔

    مریم نواز نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ واجد ضیاء کا 3 جولائی2017 کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ نہیں بن سکتا، خط مبینہ طورپرڈائریکٹر فنانشل ایجنسی نے جےآئی ٹی کوبھیجا۔

    انہوں نے کہا کہ خط براہ راست جے آئی ٹی کوبھیجا گیا جو قانون کے مطابق نہیں ہے، خط میں درج دستاویزات پیش نہیں کی گئیں، جس طرح خط پیش کیا گیا اس کی ساکھ پرسنجیدہ شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ خط لکھنے والے کوپیش کیے بغیرمجھے میری جرح کے حق سے محروم کیا گیا، جرح سے محروم اس لیے کیا گیا تا کہ خط کے متن کی تصدیق نہ کرسکوں۔

    مریم نواز نے کہا کہ خط پرانحصارشفاف ٹرائل کے خلاف ہوگا، خط کے متن کے ساتھ دستاویزات منسلک نہیں کی گئیں، خط کے متن سے ہمیشہ انکار کیا ہے، میں کبھی لندن فلیٹس یا ان کمپنیوں کی بینیفشل مالک نہیں رہی، کمپنیوں سے کبھی کوئی مالی فائدہ لیا نہ کوئی اور نفع لیا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ نجی فرم کے خط میں کوئی حقیقت نہیں ہے، موزیک فونسیکا کا 22 جون 2012 کا خط پرائمری دستاویز نہیں، دستاویز مروجہ قوانین کے مطابق تصدیق شدہ بھی نہیں ہے، خط لکھنے والے کوعدالت میں پیش نہ کرکے جرح کے حق سے محروم کیا گیا۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شفاف تفتیش بھی شفاف ٹرائل کا حصہ ہے جس پرنیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں دفاع کے گواہ کے طورپربلا لیں۔ امجد پرویز نے کہا کہ دیکھنا پڑے گا غیر ملکی گواہ کو بلایا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ استغاثہ کی طرف سے پیش دستاویزات قابل قبول شہادت نہیں ہے، فرد جرم کے مطابق یہ مکمل طور پر غیر متعلقہ دستاویزات ہیں، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزمجھ سے متعلق نہیں، دستاویزات مذموم مقاصد کے تحت پیش کی گئیں۔

    احتساب عدالت نے مریم نوازسے گلف اسٹیل کے 25 فیصدشیئرز، التوفیق کیس سمجھوتہ، 12 ملین سیٹلمنٹ پرسوال کیا جس انہوں نے جواب دیا کہ میں اس معاملے میں کبھی شامل نہیں رہی، 1980کے معاہدے سے بھی میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اہالی اسٹیل مل کی مشینری کی سعودیہ منتقلی کا سوال مجھ سے متعلق نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ لیٹرآف کریڈٹ کے مطابق مشینری شارجہ سے سعودی عرب منتقل ہوئی، جے آئی ٹی نے دبئی حکام کوجان بوجھ کرمعاملے پرگمراہ کیا، 12ملین طارق شفیع کی جانب سے الثانی کودینے میں شامل نہیں رہی، جب کی بات ہو رہی ہے میری عمر6 سال تھی، یو اے ای سے موصول ایم ایل اے قابل اعتباردستاویزنہیں جبکہ گلف اسٹیل کے واجبات سے متعلق ذاتی طور پرعلم نہیں ہے۔

    عدالت نے مریم نوازسے 5 نومبر2016 اور 22 دسمبر کے قطری خطوط کومن گھڑت کہنے پرسوال کیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ واجد ضیاء نے بطور تفتیشی افسر رائے دی جو قابل قبول شہادت نہیں ہے، واجد ضیاء نے اپنی رائے کے حق میں دستاویز بھی پیش نہیں کی، انہوں نے جو رائے دی اور نتیجہ اخذ کیا وہ قابل قبول شہادت نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ ورک شیٹ کی تیاری سے میرا کوئی لینا دینا نہیں اور تردید کرتی ہوں جعلی دستاویزات میں نے یا کسی اورنے جمع کرائیں، واجد ضیاء نے الزام تعصب اوربدنیتی کی وجہ سے لگایا، واجد ضیاء ہمارے خلاف متعصب ہیں، کوئی ثبوت نہیں قطری شہزادہ میری ہدایت پرشامل تفتیش نہ ہوا، ثابت ہو چکا جے آئی ٹی نے جان کرحماد بن جاسم کا بیان ریکارڈ نہ کیا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ واجدضیاء نے کہا جےآئی ٹی نے سوالنامہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے تسلیم کیا جیرمی فری مین کو سوال نامہ بھیجا گیا، ثابت ہو چکا کہ واجد ضیاء قابل اعتبار گواہ نہیں ہیں، وہ مجھے ملوث کرنے کے لیےجھوٹ بول سکتے ہیں، درست ہے میں نے ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل نوٹرائز اور مصدقہ کاپی جمع کرائی جبکہ تفتیشی افسرنہ بتاسکے، رپورٹ میں صفحہ 240 سے 290 تک کس نے شامل کیے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ درست نہیں دستاویز مجھے نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل مالک کہتی ہیں، بی وی آئی حکام کو دفتر خارجہ کے ذریعے ایم ایل اے نہیں بھیجا گیا، بی وی آئی حکام کا جواب بھی دفتر خارجہ کے ذریعے موصول نہیں ہوا، بی وی آئی حکام سے خط و کتابت مشکوک ہے، میری موزیک فونیسکا سے کبھی کوئی خط وکتابت نہیں ہوئی اور نہ ایون فیلڈ پراپرٹیز چلانے والی کسی کمپنی کی بینیفشل اونر ہوں۔

    وکیل نے کہاکہ بی وی آئی میں سولیسٹرکو انگیج کیا گیامگر معلومات کو خفیہ رکھا گیا، 1990 میں آپکی اتنی آمدن نہیں تھی کہ آپ یہ جائیداد بناتیں، جس پر مریم نواز نے کہا کہ میں جے آئی ٹی کی دستاویزات کو اون ہی نہیں کرتی، چارٹ پر واجدضیا اور جے آئی ٹی ارکان کے دستخط نہیں، میں کبھی بھی لندن فلیٹس کی مالک نہیں رہی، لندن فلیٹس 90کی دہائی کے آغاز میں نہیں خریدے گئے۔

    سماعت کے دوران وکیل نے سوال کیا کہ کہتےہیں حسین نوازکی بھی اتنی آمدن نہیں تھی،کیا کہتی ہیں، جس کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ یہ چارٹ مجھ سےمتعلق نہیں، حسین نواز نےفلیٹس 90کی دہائی کے آغاز میں نہیں خریدے، جےآئی ٹی،تفتیشی افسرنےمنروامینجمنٹ کوشامل تفتیش نہ کیا ، مقصد میرے حق میں آنیوالے حقائق کو چھپانا تھا، استغاثہ بری طرح کیس ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔

    ایون فیلڈریفرنس پر سماعت میں مریم نواز سے سوال کیا گیا کہ آپ کے خلاف یہ مقدمہ کیوں بنایا گیا ؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں جانتی ہوں مجھے مقدمے میں کیوں الجھایا گیا، کیوں واٹس ایپ والی جےآئی ٹی کے سامنے بلا جواز  پیش ہونا پڑا،جانتی ہوں مجھے70سے زائد پیشیاں کیوں بھگتنا پڑیں، پیشیاں جاری ہیں،کینسر زدہ ماں سے ملنے نہیں دیا گیا۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ مجھےبدعنوانی کی وجہ سے کیس میں ملوث نہیں کیا گیا، پہلی بار نوازشریف آمر کو قانون کے کٹہرے میں لائے، میرا قصور  یہ نہیں میں نے کوئی کرپشن یا چوری کی، میرا واحد قصور نوازشریف کی بیٹی ہونا ہے، ہمارا ایمان ہے سب سے بڑی عدالت اللہ کی ہے، مجھے الجھانے کی بڑی وجہ میرے والد کے اعصاب پر دباؤ ڈالنا ہے۔

    نواز شریف کی بیٹی کا بیان میں کہنا تھا کہ  منصوبہ سازجانتے ہیں باپ بیٹی کارشتہ کتنا نازک ہوتاہے، نواز شریف نے لالچ اور دھمکیوں کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کیے، نواز شریف نے پوری جرات سےمشرف کے ظلم سہے،   منصوبہ بنا نوازشریف کی بیٹی پر مقدمے بناؤ،اس کوجے آئی ٹی میں لاؤ،  نواز شریف کی بیٹی کو عدالتوں میں گھسیٹو  پھر نواز شریف جھکے گا۔

    مریم نواز نے اپنی صفائی میں کوئی گواہ پیش نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی ناکامی کے بعد صفائی میں گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

    عدالت نے مریم نوازسےآخری سوال کیا کہ اپنی صفائی میں مزیدکچھ کہنا چاہتی ہیں، تو مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں معصوم اور بے گناہ ہوں ، پاکستان میں کسی خاتون نے اتنی پیشیاں نہیں بھگتنا پڑیں، میرا قصور ہے اپنے باپ کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہوں۔

    مریم نواز نے مزید کہا کہ منصوبہ ساز جانتے ہیں بیٹی کوکٹہرے میں دیکھے گا تو اعصاب جواب دیں جائیں گے، ایسا سوچنے والے نوازشریف کو نہیں جانتے، میرا  باپ 70سال کی بیماریوں کےخلاف علم جہاد لیکر نکلا ہے، نواز شریف عوام کی حاکمیت کا جھنڈا لے کر نکلاہے۔

    نواز شریف کی بیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ نوازشریف ووٹ کوعزت دو کا پرچم لے کر نکلا ہے،  نوازشریف کرسی اقتدار کے لیے نہیں نکلا، نوازشریف بڑے انقلاب و تبدیلی کے لیے نکلا ہے،  ووٹ پر یقین رکھنے والا ہر شخص نواز شریف کے ساتھ ہے،  اس جہاد میں نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہوں۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ اس پاکستان کی بیٹی ہوں جسے دنیا میں تماشہ بنادیا گیا، سب انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا،بیٹیاں سانجھی نہ رہیں، آج دستور ہے بیٹی کو  باپ کی بڑی کمزوری بنا کر استعمال کرو، منصوبہ بنانے والو! نواز شریف کی کمزوری نہیں طاقت ہوں، میں نوازشریف اور پاکستان کی بیٹی ہوں۔

    بعد ازاں احتساب عدالت میں سماعت کل تک ملتوی کردی، کل کیپٹن (ر)صفدراپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔

    رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ فرانزک سائنس کےمعیارپرپورا نہیں اترتی‘ مریم نواز

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرسابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ حقائق کے منافی ہے جس پرانحصار نہیں کیا جا سکتا۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی اور سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے سوالات میں ٹرسٹ کا سوال نہیں تھا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے اپنے طورپرہی اس معاملے میں کارروائی آگے بڑھائی جس نے بدنیتی کی بنیاد پرنام نہاد آٹی ٹی ماہر سے رائے مانگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کا قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق اظہارلاعلمی

    نوازشریف کا قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق اظہارلاعلمی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جاری ہے جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف آج بھی اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں آج بھی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔

    نوازشریف کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ اخترراجہ ، واجد ضیاء کے کزن ہیں اور ان کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدار تھا۔

    نوازشریف نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق ہوئی، انہوں نے نے کومبر گروپ اورنیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔

    انہوں نے کہا کہ جیرمی فری مین کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی جبکہ اخترراجہ، جےآئی ٹی اور تفتیشی افسرنے کاپی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ اخترراجہ کومعلوم ہونا چاہیے کاپی پرفرانزک معائنے کا تصورنہیں، اخترراجہ نے دستاویز خودساختہ فرانزک ماہرکوای میل سے بھجوائیں۔

    نوازشریف نے کہا کہ حقیقت ہے کہ فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پرمعائنے پرہچکچاہٹ ظاہرکی۔

    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹرمیں تلخ کلامی

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور پراسیکیوٹرنیب سردار مظفرکے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ملزم کا نہیں وکیل کا بیان قلم بند ہو رہا ہے، لکھا ہوا ہی پڑھنا ہے توعدالت کویو ایس بی میں جوابات دے دیں۔

    سردار مظفرنے کہا کہ 342 کے بیان کا یہ مقصد نہیں ہوتا، عدالت سوال کرے نوازشریف جواب دیں جس پرمعزز جج محمد بشیر نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کو تسلیم کرتے ہیں؟۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں اس بیان کو تسلیم کرتا ہوں، میں نے وکیل کے ساتھ مل کریہ بیان تیار کیا ہے، اگر اعتراض کرنا تھا تو پہلے دن کرتے۔

    نوازشریف نے کہا کہ اگر زیادہ دیر کچھ پڑھوں تومیرے گلے میں مسئلہ ہوتا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث جواب پڑھ کرسنا سکتے ہیں، ہونا یہ چاہیے کہ عدالت سوال پوچھے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ نوازشریف کو وکیل کی معاونت چاہیے ہوتوبتا دیں، یہ کوئی طریقہ نہیں یہ کل سے پیرا بہ پیرا لکھے جواب دے رہے ہیں۔

    معزز جج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں؟ جس پرنیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔

    نیب پراسیکیوٹرسردارمظفرکے اعتراض کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف نے خود بیان پڑھنا شروع کردیا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ قطر سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا اور سپریم کورٹ میں جمع ورک شیٹ کی تیاری میں شامل نہیں تھا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 22 دسمبر 2016 کا قطری شہزادے کا خط اورورک شیٹ تسلیم شدہ ہے جبکہ کیس سے متعلق قطری شہزادے سے کسی خط وکتابت میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہا کہ قطری شہزادے نے کبھی کارروائی میں شامل ہونے سے انکارنہیں کیا، انہوں نے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے خطوط کی تصدیق کی۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ قطری شہزادے کی آمادگی کے باوجود بیان لینے کی کوشش نہیں ہوئی، انہوں نے بتایا کہ حدیبیہ پیپرزمل اورالتوفیق کے درمیان کسی سیٹلمنٹ کاحصہ نہیں رہا۔

    نواز شریف کے بیان سے پہلے خواجہ حارث نوازشریف کا بیان پڑھ کرلکھواتے رہے جبکہ بیان لکھوانے کےدوران نواز شریف قائد اعظم کی تصویردیکھتے رہے۔

    خواجہ حارث کے بیان لکھوانے پرڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے اعتراض کیا جس پرنوازشریف نے معززجج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں لکھواؤں یاخواجہ صاحب ہی لکھوائیں ؟۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں جس کے بعد نواز شریف نے بیان خود لکھوانا شروع کردیا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجہ نے رابرٹ ریڈلے کی نیب ٹیم سے ملاقات طے کرائی، ملاقات خاص طور پرکیلبری فونٹ سے متعلق تھی۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ اختر راجہ کے 2 ٹرسٹ ڈیڈ ای میل سے بھیجنے کے مذموم مقاصد تھے جبکہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ ای میل اورٹرسٹ ڈیڈ کی فوٹو کاپیوں پرتیار ہوئی۔

    نوازشریف نے کہا کہ ہمیشہ کہا دبئی اسٹیل مل کے قیام کے وقت کے سرمائے کا مجھےعلم نہیں، گلف اسٹیل سے متعلق معاہدوں کودیکھا ہے لیکن گلف اسٹیل سے متعلق معاہدوں میں کبھی حصہ نہیں رہا۔

    سابق وزیراعظم نے بتایا کہ رجسٹرآف ٹائٹل کی کاپیزسے استغاثہ کا میرے خلاف کیس نہیں بنتا جبکہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کی رجسٹری سے متعلق کاپیاں میں نے داخل نہیں کی۔

    انہوں نے کہا کہ کومبرسے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ سے میرا کوئی تعلق نہیں اور نیلسن، نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری اورجاری کرنے میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی ایکسپرٹ رائے قابل قبول شہادت نہیں ہے جبکہ اس گواہ کواستغاثہ کوپیش کرناچاہیے تھا تاکہ جرح ہو پاتی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کا خط مجھ سے متعلق نہیں، خط میں کسی بھی معاملے اور ٹرانزیکشن میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی کا خط قابل قبول شہادت نہیں، ایف آئی اے، بی وی آئی کے خط کوتصدیق کرا کرپیش کیا گیا جبکہ اس فوٹوکاپی کوعدالتی ریکارڈ کاحصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی کےنیلسن، نیسکول کوخطوط مجھ سے متعلق نہیں جبکہ سامبا بینک کا منروا کولکھا گیاخط بھی مجھ سےمتعلق نہیں ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ شیزی نقوی کے خط کا متن میرے مؤقف کی تصدیق کرتا ہے، خط کے مطابق حدیبیہ پیپر ملزکے قرض کے حصول سے میرا تعلق نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شیزی نقوی کا خط تصدیق ہے حدیبیہ ملزکی سیٹلمنٹ کا حصہ نہیں رہا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ٹرانزیکشن ہوئی خاندان اورقطری شہزادے بہترجانتے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ میں کبھی ان معاملات میں ملوث نہیں رہا جبکہ نیلسن اورنیسکول کے کسی معاملے سے بھی میرا کوئی تعلق نہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا بیان مکمل ہونے کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نامزد ملزمان سے الگ الگ سوالات کے جواب طلب کررکھے ہیں۔

    ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف نے 128 سوالات میں سے 55 سوالوں کے جوابات دیے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ جائیداد کا حقیقی یا بینیفشرمالک نہیں رہا اورجائیداد خریدنے کے لیے کوئی فنڈ فراہم نہیں کیے۔

    لندن فلیٹس کی منی ٹریل سے متعلق سوال کے جواب میں نوازشریف کا کہنا تھا کہ یہ سوال حسن اور حسین سے متعلق ہیں اور دونوں عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے میرا لندن فلیٹس سے تعلق ظاہرہو۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔