Tag: کیپٹن صفدر

  • ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف آج احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف کل ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت قلمبند کیا گیا۔ نوازشریف سے 128 سوالات پوچھے جائیں گے، تاہم نواز شریف نے آج 55 سوالوں کے جوابات دیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل 9 بجے تک ملتوی کردی۔

    نوازشریف کا بیان قلمبند کیا گیا

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر معززجج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے جس پر سابق وزیراعظم نوازشریف نے جواب دیا کہ میری عمر68 سال ہے۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ میں وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔ انہوں نے جےآئی ٹی سے متعلق سوالوں کا جواب نوازشریف نے پڑھ کرسنایا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ جےآئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تشکیل دی گئی تھی، ان ریفرنسز میں جے آئی ٹی غیرمتعلقہ ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی کے قابل ممبران پراعتراض تھا، یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا، آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبربلال رسول سابق گورنرپنجاب میاں اظہر کے بھانجے ہیں جبکہ حماد اظہرکی عمران خان کے ساتھ 24ستمبر2017 کو بنی گالا میں تصاویرلی گئیں۔

    انہوں نے کہا کہ بلال رسول خود ن لیگ حکومت پرتنقیدی بیانات دے چکے ہیں اور ان کی اہلیہ بھی تحریک انصاف کی سرگرم کارکن ہیں۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبر عامر عزیز بھی جانبدار ہیں، سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ عامرعزیز، شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس5 کی تحقیقات میں شامل رہے جو شریف خاندان کے خلاف مشرف دور میں بنایا گیا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں تحریری بیان سے پڑھ کر بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بلال رسول کی اہلیہ سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی کی سرگرم رکن ہیں اور خاوند کے جےآئی ٹی رکن بننے تک وہ پی ٹی آئی کی سپورٹرتھیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ عامرعزیز نےمشرف دور میں حدیبیہ پیپرملز کی تحقیقات کی، وہ 2000ء میں شریف خاندان کے خلاف ریفرنس میں تفتیشی افسرتھے۔

    نوازشریف نے کہا کہ سال 2000 میں عامرعزیز بطورڈائریکٹر بینکنگ کام کررہے تھے اور انہیں پرویز مشرف نے ڈیپوٹیشن پرنیب میں تعینات کیا۔

    سابق وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اپنے خلاف پیش کیے گئے شواہد کی مکمل سمجھ آگئی۔

    انہوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی ، ایم آئی کے نمائندوں کا جے آئی ٹی میں شامل ہونا درست نہیں تھا۔

    نوازشریف نے کہا کہ 70سال کے سول ملٹری جھگڑے کا بھی جے آئی ٹی کی کارروائی پراثرہوا جبکہ بریگیڈیئر نعمان، کامران کی تعیناتی مناسب نہیں تھی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس تاحال سپریم کورٹ میں ہے، انہیں بھی جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ بریگیڈیئرنعمان سعید ڈان لیکس جے آئی ٹی میں بھی شامل تھے اور میری معلومات کے مطابق نعمان سعید بطورسورس کام کررہے تھے۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ جی آئی ٹی نے 10 والیم تیار کیے جو غیر متعلقہ تھے، جےآئی ٹی کی 10والیم پرمشتمل خودساختہ رپورٹ غیرمتعلقہ تھی۔

    انہوں نے کہا کہ خودساختہ رپورٹ سپریم کورٹ میں دائردرخواستیں نمٹانے کے لیے تھی، ان درخواستوں کو بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ جےآئی ٹی تفتیشی رپورٹ ہے، ناقابل قبول شہادت ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی کے جمع شواہد کے تحت ریفرنس دائرکرنے کا کہا، سپریم کورٹ نے نہیں کہا رپورٹ کوبطورشواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

    نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، یہ تفتیش یکطرفہ تھی۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختیارات سے متعلق نوٹی فکیشن جے آئی ٹی کی درخواست پرجاری ہوا، جےآئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تھی، اس ریفرنس کے لیے نہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ جائیداد کا حقیقی یا بینیفشرمالک نہیں رہا اورجائیداد خریدنے کے لیے کوئی فنڈ فراہم نہیں کیے۔

    نوازشریف نے لند فلیٹس کی منی ٹریل سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ یہ سوال حسن اور حسین سے متعلق ہیں اور دونوں عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

    انہوں نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ ایسے شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے میر الندن فلیٹس سے تعلق ظاہرہو۔

    عدالت میں گزشتہ سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ کچھ سوالات ایسے ہیں جن کی سمجھ نہیں آرہی، چاہتے ہیں ملزمان کا بیان بعد میں ریکارڈ کیا جائے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ملزمان کے بیانات اگلے ہفتے ریکارڈ کیے جائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفرنے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو سوال انہیں سمجھ آرہے ہیں ان کاجواب دے دیں، جوسمجھ نہیں آرہے اس کا جواب بعد میں دیں۔

    سردار مظفرکا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پربجلی نہیں تھی، پھربھی عدالت نےسوالنامہ بنایا، عدالت نے پنکھے اورلائٹیں بند کیں تا کہ کمپیوٹر چل جائے۔

    نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ پورا دن لگا کرسوالنامہ تیارہوا، اب یہ مزید وقت مانگ رہے ہیں، ہم توسوالنامہ بھی دینے کوتیار نہ تھے، عدالت نے ان کی سہولت کے لیے سوالنامہ تک انہیں دے دیا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ خواجہ صاحب عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں، ہم تعاون کر رہے ہیں لیکن خواجہ حارث تعاون نہیں کر رہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے وکیل نے ملزمان کو دیے گئے سوالنامے پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ سوالات درست کرنے ہیں، سمجھ نہیں آرہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے تھے کہ پیرکو آخری موقع ہے، ملزمان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرس میں ملزمان کے بیان کے لیے عدالتی سوالنامہ تیار کیا گیا ہے اور سوالنامے کی کاپی ملزمان کے وکلا کے حوالے کردی گئی ہے، ملزمان اس سوالنامے کی روشنی میں اپنا بیان ریکاڑد کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے کارروائی کو کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ملزمان کو استغاثہ کے گواہان سے جرح کے بعد حتمی فیصلہ دیے جانے سے قبل آخری مرتبہ اپنے دفاع کا اختیار دیا جاتا ہے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کےخلاف واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی

    شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف کل ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بیانات آج ریکارڈ نہیں کیے جاسکے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کچھ سوالات ایسے ہیں جن کی سمجھ نہیں آرہی، چاہتے ہیں ملزمان کا بیان بعد میں ریکارڈ کیا جائے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ملزمان کے بیانات اگلے ہفتے ریکارڈ کیے جائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفرنے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جو سوال انہیں سمجھ آرہے ہیں ان کاجواب دے دیں، جوسمجھ نہیں آرہے اس کا جواب بعد میں دیں۔

    سردار مظفر نے کہا کہ گزشتہ سماعت پربجلی نہیں تھی، پھربھی عدالت نےسوالنامہ بنایا، عدالت نے پنکھے اورلائٹیں بند کیں تا کہ کمپیوٹر چل جائے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پورا دن لگا کرسوالنامہ تیارہوا، اب یہ مزید وقت مانگ رہے ہیں، ہم توسوالنامہ بھی دینے کوتیار نہ تھے، عدالت نے ان کی سہولت کے لیے سوالنامہ تک انہیں دے دیا۔

    سردار مظفرنے کہا کہ خواجہ صاحب عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں، ہم تعاون کر رہے ہیں لیکن خواجہ حارث تعاون نہیں کر رہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے وکیل نے ملزمان کو دیے گئے سوالنامے پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کچھ سوالات درست کرنے ہیں، سمجھ نہیں آرہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ پیرکو آخری موقع ہے، ملزمان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرس میں ملزمان کے بیان کے لیے عدالتی سوالنامہ تیار کیا گیا ہے اور سوالنامے کی کاپی ملزمان کے وکلا کے حوالے کردی گئی ہے، ملزمان اس سوالنامے کی روشنی میں اپنا بیان ریکاڑد کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے کارروائی کو کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ملزمان کو استغاثہ کے گواہان سے جرح کے بعد حتمی فیصلہ دیے جانے سے قبل آخری مرتبہ اپنے دفاع کا اختیار دیا جاتا ہے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کےخلاف واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کا بیان کل ریکارڈ کیا جائے گا

    ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کا بیان کل ریکارڈ کیا جائے گا

    اسلام آباد: ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بیانات کل ریکارڈ کیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف کل ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کریں گے۔

    سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بیانات کل ریکارڈ کیے جائیں گے۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرس میں ملزمان کے بیان کے لیے عدالتی سوالنامہ تیار کرلیا گیا اور سوالنامے کی کاپی ملزمان کے وکلا کے حوالے کردی گئی ہے، ملزمان اس سوالنامے کی روشنی میں اپنا بیان ریکاڑد کرائیں گے۔

    دوسری جانب سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 21 مئی تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت پر خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کریں گے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کےخلاف واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف پبلک آفس رکھتے ہوئے لندن فلیٹس کے مالک تھے‘ عمران ڈوگر

    نوازشریف پبلک آفس رکھتے ہوئے لندن فلیٹس کے مالک تھے‘ عمران ڈوگر

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز موسم کی خرابی کے باعث پیش نہ ہوسکے جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔


    گواہ عمران ڈوگرکا بیان قلمبند

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرتفتیشی افسرگواہ عمران ڈوگر نے کہا کہ موسیٰ غنی اورطارق شفیع کو16اگست2017 کوسمن جاری کیے، 18اگست کونوازشریف، مریم اوردیگرکوسمن جاری کیے۔

    استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو بتایا کہ نوٹس میں لکھا عدم پیشی پرتصورکیا جائے گا کہ دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے، سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے سمن کے متن کا حوالہ دینے پراعتراض کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم یہ سمن عدالتی ریکارڈ پرلانے کا کہہ بھی نہیں رہے، وکیل صفائی کوضرورت ہے توسمن کی کاپی دیتے ہیں۔

    عمران ڈوگر نے کہا کہ طلبی کے باوجود ملزمان شامل تفتیش نہیں ہوئے، خواجہ حارث اورامجد پرویزکے خطوط 22 اگست کوملے جبکہ شواہد پر6 ستمبر2017 کوعبوری رپورٹ تیارکی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 14دسمبر2017 کولندن میں موجود راجہ اخترکا بیان قلمبند کیا، تحقیقات سے ثابت ہوا نوازشریف لندن فلیٹس کے مالک تھے، نوازشریف پبلک آفس رکھتے ہوئے لندن فلیٹس کے مالک تھے۔

    انہوں نے کہا کہ نیلسن اورنیسکول کے ذریعے بے نامی دار کے نام پر فلیٹس خریدے، ملزمان لندن جائیداد خریدے جانے کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، لندن فلیٹس1993سے نوازشریف، نامزد ملزمان کی تحویل میں ہیں۔

    عمران ڈوگر نے کہا کہ مریم نوازنے جن ٹرسٹ ڈیڈزکوجمع کرایا وہ جعلی ثابت ہوئیں، مریم، حسن اورحسین نوازبے نامی دارمیں شامل تھے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ تینوں جرم کے ارتکاب میں نواز شریف کے مدد گاررہے، کرپٹ پریکٹسزنیب آرڈیننس 1999 کے تحت جرم ہے۔

    گواہ نے عدالت کو بتایا کہ حتمی رپورٹ کے بعد ضمنی ریفرنس تیارکرنے کی منظوری دی گئی، نیب نے جےآئی ٹی کی شروع کردہ ایم ایل اے کی پیروی کی۔

    عمران ڈوگر نے کہا کہ بتایا گیا یوکے اتھارٹی سے ایم ایل اے کا جواب مل چکا ہے، 28 مارچ 2018 کوریکارڈ کی نقول میرے حوالے کی گئیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ ریکارڈ میں لینڈرجسٹری، یوٹیلٹی بلزاورٹیکس کی دستاویزات شامل تھیں، ریکارڈ درخواست کے ذریعے عدالت میں پیش کیا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف بطورپبلک آفس ہولڈرایون فیلڈ کے مالک پائے گئے، جائیداد نیلسن اورنیسکول کے ذریعے بےنامی دارکے نام پرلی گئی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بیان تفتیشی افسرکی رائے ہے جوقابل تسلیم نہیں ہوسکتا، استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ ملزمان نے نیلسن، نیسکول، کومبرسے متعلق دستاویزات جمع کرائیں۔

    عمران ڈوگر نے مزید کہا کہ چیئرمین نیب کا اختیار ہے کس کو تفتیشی افسر تعینات کرنا ہے، چیئرمین نیب سیکشن 18 سی کے تحت تفتیشی افسر کو تعینات کرتا ہے۔ چیئرمین نیب تفتیشی افسر کی تعیناتی کی اتھارٹی کسی اور کو بھی دے سکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ لندن فلیٹ ریفرنس میں یہ اختیار چیئرمین نیب نے ڈی جی نیب لاہور کو دیا۔ پیرا 2 میں صرف یہ ہدایت ہے ریفرنس تیار کر کے دائر کیا جائے۔ ہدایات صرف میرے لیے تھی نہ کہ کسی دوسری تفتیشی ٹیم کے لیے۔ عبوری ریفرنس پر اس وقت کے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کے دستخط ہیں۔ تفتیش شروع کرنے سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا۔

    گواہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے 6 ہفتے میں ریفرنس تیار کر کے دائر کرنے کی ہدایت کی۔ عدالتی حکم کے بعد ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کے لیے نئی تفتیش کی گئی۔

    گواہ پر جرح کے بعد ریفرنس پر سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔ خواجہ حارث کل بھی گواہ عمران ڈوگر پر جرح جاری رکھیں گے۔


     جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکتا‘عدالت

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پراحتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کے دوران فیصلہ دیا تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی مکمل رپورٹ کوعدالتی ریکارڈ پرنہیں لایا جا سکتا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز خراب موسم کے باعث پیش نہ ہوسکے جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکمرہ عدالت میں موجود تھے۔

    مریم نوازکے وکیل امجد پرویز نے آج مسلسل چوتھے روز جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر نوازشریف اور مریم نوازکی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف، مریم نوازموسم کی خرابی کے باعث نہیں آسکے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کے وکیل سے سوال کیا کہ امجد پرویزآپ لاہورسے کیسے پہنچے ہیں؟ جس پرانہوں نے جواب دیا کہ میں میں کل بائی روڈ اسلام آباد آگیا تھا۔

    بعدازاں عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی آج کے دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    مریم نواز کے وکیل نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ نیلسن کے رجسٹرڈ شیئرز کب اورکس کے نام پرجاری ہوئے؟ جس پرانہوں نے جواب دیا کہ دستاویزکے مطابق 4 جولائی 2006 کومنروا کے نام پرشیئرز جاری ہوئے۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ مریم نوازنے جےآئی ٹی کو بتایا یاد نہیں بیئررشیئرزان کے پاس رہے جبکہ حسین نوازنے بھی نہیں کہا بیئررشیئرزکبھی مریم کے قبضے میں رہے ہوں۔

    امجد پرویز نے سوال کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق سیٹلرحسین نوازہے جس پرجے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ مریم نوازکے بیان اورٹرسٹ ڈیڈ کے مندرجات میں تضاد ہے، ٹرسٹ ڈیڈ پردرج ہے وہ ان شیئرزکوہولڈ کریں گی۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں بینفشری کا لفظ حسین نوازکے لیے استعمال ہوا ہے، ہمارے نقطہ نظرسے یہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ دیگر2 ملزمان نے بھی نہیں کہا شیئرزکبھی مریم کے قبضے میں رہے، حسین نواز سے پوچھا گیا کیا 1994 سے 1996 تک کون بینیفشل مالک رہا؟۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے کہا وہ نہیں جانتا، مریم نواز کے وکیل نےسوال کیا کہ کیا نیلسن کی شیئرہولڈرمنروا لمیٹڈ کوشامل تفتیش کیا گیا؟ ۔

    واجد ضیاء نے جواب دیا کہ براہ راست شامل تفتیش نہیں کیا گیا، امجد پرویز نے سوال کیا کہ نیلسن کے شیئرمنروا کےنام پر رہے یا کسی اورکوٹرانسفر ہوئے؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ 9 جون2014 کونیلسن کے 2 شیئرٹرسٹی سروس کارپوریشن کومنتقل ہوئے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے گزشتہ سماعت کے دوران سوال کیا تھا کہ مریم نوازکا نیلسن نیسکول کی تشکیل میں کردارظاہرہو دستاویزات ہیں؟ جس پراستغاثہ کے گواہ نے جواب دیا تھا کہ بی وی آئی حکام کی تصدیق ریکارڈ پرہے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی اورموزیک فونسیکا کی خط وکتابت سے ظاہرہوتا ہے، 5 دسمبر 2005 کے خط سے بھی مریم نوازکا کردارظاہرہوتا ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا تھا کہ میمورنڈم آرٹیکل ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا، جس کے مطابق نیلسن انٹرپرائز کی تشکیل 14 اپریل 1994 کو ہوئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا جےآئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کے ساتھ شیئرکی گئی تھی‘ خواجہ حارث

    کیا جےآئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کے ساتھ شیئرکی گئی تھی‘ خواجہ حارث

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز،کیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں موجود تھے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل نویں سماعت پرجے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔

    خواجہ حارث کی واجد ضیاء پر جرح

    نوازشریف کے وکیل نے سماعت کے آغاز پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء سے سوال کیا کہ ٹریڈنگ لائسنس میں کمپنی نمبر کیا تھا؟ جس پرانہوں نے جواب دیا کہ ٹریڈنگ لائسنس پرکمپنی نمبر03209 درج ہے۔

    پراسیکیوٹرنیب نے کہا کہ خواجہ حارث 3 دن سے تسلیم شدہ حقائق پرجرح کر رہے ہیں، کیپٹل ایف زیڈ ای کی چیئرمین شپ، اقامہ، تسلیم کر چکے ہیں، صرف تنخواہ پرملزمان کا مؤقف ہے وصول نہیں کی۔

    سردار مظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بیان دے چکے ہیں 2006ء میں چیئرمین رہے، وکیل صفائی تسلیم شدہ دستاویزات پر جرح نہیں کرسکتے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ واجدضیاء نے کیپٹل ایف زیڈ ای پرعدالت میں بیان قلمبند کرایا، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کوثبوت کے طور پر پیش کیا، ہم نے اقامہ کو کبھی نہیں جھٹلایا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے کب کہا کہ اقامہ جعلی ہے چیئرمین نہیں رہے، احتساب عدالت کے معزز جج نے نوازشریف کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ جرح کریں لیکن مختصر کریں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کیوں لایا، یہ دستاویزات نکال دیں ہم جرح نہیں کرتے۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے بتایا کہ سورس دستاویزات پرمجازدستخط کنندہ کا ذکر ہے، سورس دستاویزات کی جبل علی اتھارٹی سے تصدیق نہیں کرائی۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ جےآئی ٹی نے جودستاویزات حاصل کیں وہ لے کرکب پہنچی؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی ٹیم 5 جولائی 2017 کودستاویزات لے کرواپس پہنچی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ معلوم ہے ویج پروٹیکشن کے تحت بینک سے تنخواہ ضروری ہے؟ جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ جہاں تک میرے علم میں ہے ادائیگی کا سرٹیفکیٹ دینا ضروری ہوتا ہے۔

    پراسیکیوٹرنیب نے کہا کہ جو دل میں چیزیں ہیں وہ تو نہ لکھوائیں، وکیل صفائی نے سوال کیا کہ ویج پروٹیکشن سسٹم کے تحت اووردی کاؤنٹرتنخواہ ادائیگی کی گنجائش نہیں؟ ۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ دوران تحقیقات علم میں نہیں آیا کہ اووردی کاؤنٹرتنخواہ ادائیگی کی گنجائش نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا جےآئی ٹی کی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کےساتھ شیئرکی گئی تھی جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ گواہوں کے بیان سے متعلقہ حصے کوئسٹ سولسٹرسے شیئرکیے گئے تھے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ کیا کوئسٹ سولسٹرکوبتایا گیا تھا شیئرکیے گئے حصے جے آئی ٹی کا حصہ ہیں۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    نوازشریف کےوکیل اورنیب پراسیکیوٹرکےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفراور نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے سماعت کے آغاز پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواجہ حارث غیرضروری سوالات پوچھ رہے ہیں، انہیں غیرضروری سوالات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت سے متعلق ملزم تسلیم کرچکا ہے، کیا آپ ملازمت کے دستاویز ماننے سے انکار کرتے ہیں، آپ کہیں کہ ملزم نے ملازمت نہیں کی۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک بات تک پہنچنے کے لیے سوالات کرنا پڑتے ہیں، سورس دستاویز پیش کی ہیں تو سوال کرنا میرا حق ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی

    شریف خاندان کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکی عدم موجودگی کے باعث 9 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت میں سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے نوازشریف کی طرف سے کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصولی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تنخواہ کا چارٹ تصدیق شدہ نہیں۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ جمع کرایاہے جس کے ساتھ یہ دستاویز منسلک ہیں جبکہ دستاویزات کی علیحدہ سے تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔

    واجدضیاء نےکیپٹل ایف زیڈ ای سےنواز شریف کی تنخواہ وصولی کی تصدیق کردی

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے آخری تنخواہ 11 اگست2013 کو وصول کی، وصول کی گئی تنخواہ جولائی کے مہینے کی تھی۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جبل علی فری زون اتھارٹی سے کیپیٹل ایف زیڈ ای ملازمت کا ریکارڈ لیا، حاصل ریکارڈ میں ادائیگیوں کے سرٹیفکیٹ کا اسکرین شاٹ موجود ہے۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ تنخوا ہ کی ادائیگیاں کاؤنٹرکے ذریعے کی گئی، یہ دستاویزات نواز شریف سے متعلق ہیں، تنخواہ وصولی کا توآپ سپریم کورٹ میں مان چکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف اورمریم نواز کی حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست پرفیصلہ محفوظ

    نوازشریف اورمریم نواز کی حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست پرفیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 27 مارچ تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر احتساب عدالت میں موجود تھے۔


    نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں


    سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز نے نیب ریفرنسز میں 7 دن حاضری سے استثنیٰ کی درخواست عدالت میں جمع کرادی، درخواست کے ساتھ بیگم کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ بھی لگائی گئی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ 26 مارچ سے ایک ہفتےکے لیے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے اوراس دوران نوازشریف کی جگہ ان کے نمائندے علی ایمل عدالت میں پیش ہوں گے جبکہ مریم نواز کی جگہ ان کے نمائندے جہانگیرجدون پیش ہوں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کررکھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ میں نہیں لکھا خاندان کولندن میں ہونا چاہیے، حسن اورحسین نواز پہلے ہی لندن میں موجود ہیں اور علاج کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔


    واجد ضیاء کا بیان


    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ 14اپریل 1989 کوایک معاہدہ ہوا، 12 ملین درہم کی رقم طارق شفیع نے قطری شہزادے کودی تھی، رقم معاہدےکے نقد دی گئی، رقم ایون فیلڈ پراپرٹیزسمیت العزیزیہ کے لیے بھی دی گئی۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ یو اے ای نے جوابی خط میں ہالی اسٹیل مل کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا، ان کے ریکارڈ کے مطابق 25 فیصدشیئرزکا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ کوئی ایسا ریکارڈ بھی نہیں ملا جو دبئی نوٹری پبلک سے تصدیق شدہ ہو، نوازشریف کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گواہ دستاویزات کو دیکھ کرپڑھ رہا ہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے گواہ واجد ضیاء کو ہدایت کی کہ وہ دیکھ نہ پڑھیں، جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ ظاہرہوتا ہے 14اپریل 1980 کا معاہدہ جعلی اورخود ساختہ ہے، جےآئی ٹی کے مطابق اس حوالے سےغلط بیانی کی گئی۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ ریکارڈ سے اخذ کیا گیا لندن فلیٹس سے قطری خاندان کا تعلق نہیں ہے جبکہ التوفیق سیٹلمنٹ میں قطری خاندان کا ذکر نہیں ملتا، سیٹلمنٹ کے مطابق 1999میں فلیٹس شریف فیملی کے تھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کے 2 افراد کی ملکیت تھے جس پر نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ جے آئی ٹی کی رائے ہے اس کے ثبوت نہیں ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیاء جے آئی ٹی رپورٹ کا سہارا لے رہے ہیں، واجد ضیاء نے کہا کہ والیم 5 کے صفحہ 19 پرعدالت کے سوالوں کے جواب دیے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ بیئررشیئرزحماد بن جاسم نے حسین نوازکومنتقل کیے، قطری شہزادے سے خط وکتابت ثبوت ہے ممکنہ کوششیں کیں، قطری شہزادے نے جواب میں پہلے تاخیری حربے آزمائے۔


    نگراں حکومت کے لیے اپوزیشن کومل بیٹھ کربات کرنی چاہیے‘ نوازشریف


    واجد ضیاء نے کہا کہ قطری شہزادے نے بعد میں پیش نہ ہونے کے جوازبنائے، قطری شہزادے نے کہا تھا پیش ہونے کا نہیں بولا جائے گا، جےآئی ٹی نے اس کے باوجود کافی شواہد اکٹھے کیے۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ یواےای حکومت، بی وی آئی کا جواب، ریڈلے رپورٹ موجود ہے، شواہد سے ثابت ہےکہ فلیٹس پرقطری شہزادے کے مؤقف کی حیثیت نہیں ہے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے نیب ریفرنسز میں 7 دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔


    ایون فیلڈ ریفرنس، نواز شریف کی متفرق درخواست پر تحریری فیصلہ جاری


    خیال رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی متفرق درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ واجد ضیاء ملزمان کے گناہ گار یا بے گناہ قرار دینے پر رائے نہیں دے سکتے، وہ بطور گواہ بیان ریکارڈ کرائیں۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ قانونی شہادت کے مطابق متعلقہ شعبے کے ماہرین کی آرا قبول ہوگی، وکیل صفائی کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔

    یاد رہے کہ 16 مارچ کو جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی جانب سے اصل قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ لفافے پرقطری خط اصل ہونے کی سپریم کورٹ کے رجسٹرارکی تصدیق تھی۔

    احتساب عدالت نے پاناما جے آئی ٹی سربراہ سے استفسار کیا تھا کہ یہ وہ خط نہیں ہے جس کی نقل کل عدالت میں پیش کی گئی تھی جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ اصل خط سربمہرلفافے میں تھا، میراخیال تھا یہ کل والے خط کا اصل ہے۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے واجد ضیاء کے پیش کیے گئے خط پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے کہا گیا تھا یہ کل والے خط کی اصل ہے اور اب کہا جا رہا ہے یہ کل والے خط کی اصل نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی مریم نواز کی درخواست جزوی طور پرمنظورکرلی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عدالت کا جےآئی ٹی رپورٹ کےتجزیاتی حصےکوریکارڈ کا حصہ نہ بنانےکا فیصلہ

    عدالت کا جےآئی ٹی رپورٹ کےتجزیاتی حصےکوریکارڈ کا حصہ نہ بنانےکا فیصلہ

    اسلام آباد: احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز میں مکمل جے آئی ٹی رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کے صرف دستاویزی ثبوتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس کی سماعت کررہے ہیں۔

    عدالت میں نا اہل وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے، طبعیت کی ناسازی کے باعث عدالت نے نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکرتے ہوئے انہیں حاضری لگا کر جانے کی اجازت دی۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو عدالت میں ہی رکنے کا حکم دیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء احتساب عدالت نہیں پہنچ سکے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ سپریم کورٹ سے ریکارڈ لے کرآئیں گے جس پر عدالت نے سماعت میں 10 بجے تک کا وقفہ کردیا۔

    احتساب عدالت میں وقفے کے بعد کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کےحکم پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی، تحقیقاتی ٹیم کوچند سوالات کے جواب تلاش کرنے، تحقیق کا حکم دیا گیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ گلف اسٹیل ، قطری خط اور ہل میٹل کی تحقیقات کا حکم دیا گیا، ملزمان کی رقوم جدہ، قطراوربرطانیہ کیسے منتقل ہوئی یہ سوال بھی تھا، نوازشریف کے بچوں کے پاس کمپنیزکے لیے سرمایہ کہاں سے آیا ؟۔

    پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ سوال تھا کہ نوازشریف اورزیر کفالت افراد کے آمدن سے زائد اثاثے کیسے بنے؟۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے واجد ضیاء کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے جس حکم نامے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ ریکارڈ پرنہیں جبکہ حکم نامے کی کاپیاں ملزمان کو بھی فراہم نہیں کی گئیں۔

    امجد پرویز نے جے آئی ٹی رپورٹ کوعدالتی کارروائی کا حصہ بنانے پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جو مواد اکٹھا کیا گیا اسے عدالتی کارروائی کاحصہ نہیں بنایا جاسکتا، جے آئی ٹی کے ہروالیم پر20 سے 25 صفحات کی سمری لکھی گئی ہے۔

    مریم نوازکے وکیل نے کہا کہ سمری کو بھی عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا، قانون کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ کو بطورثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پرریفرنس فائل کیا ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ واجد ضیاء بطور گواہ پیش ہوئے ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، واجد ضیاء نے دستاویزات اکٹھی کی ہیں وہ ہمارے تفتیشی افسر ہیں۔

    احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ دیا اور جج محمد بشیر نے رپورٹ کے صرف دستاویزی ثبوتوں کوریکارڈ کاحصہ بنایاجائے گا، جو خطوط لکھے گئے اور دستاویزات جمع کی گئیں وہ ریکارڈ ہوں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کےخلاف ضمنی ریفرنسزکی سماعت‘ گواہوں کے بیان قلمبند

    شریف خاندان کےخلاف ضمنی ریفرنسزکی سماعت‘ گواہوں کے بیان قلمبند

    اسلام آباد : نا اہل سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف ضمنی ریفرنسز کی سماعت میں 2 بجے تک وقفہ کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ضمنی ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں۔

    نا اہل سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔


    نوازشریف کی واجد ضیاء کا بیان ایک بار قلمبند کرنے کی درخواست


    احتساب عدالت میں نوازشریف کی تینوں ریفرنسز میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا ایک ساتھ بیان قلمبند کرنے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تینوں ریفرنسز میں گواہ کا بیان یکجا کرنے کا حکم دیا تھا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کا الگ الگ بیان ہونے سے دفاع کمزورہوجائے گا، گواہ بہت تیز ہے اپنا بیان بہتر کرلے گا، عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔


    گواہ سنیل اعجاز کا بیان قلمبند


    عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ سنیل اعجاز نے بتایا کہ 23 جنوری 2018 کو نیب تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا، تفتیشی افسرکوعبدالرحمان نامی شخص کے اکاؤنٹس کی تفصیلات دیں۔

    گواہ نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسرکو سسٹم جنریٹ دستاویزات فراہم کیں اورمیں نے تصدیق کی، ہل میٹل اکاؤنٹ سے جتنی رقوم آئیں ان کی تفصیلات تفتیشی افسرکو دیں، تفتیشی افسرکو25 جنوری2013 سے 24جنوری 2018 تک اکاونٹ تفصیلات دیں۔

    استغاثہ کے گواہ سنیل اعجاز نے کہا کہ تفصیلات دینے کے بعد تفتیشی افسر نے میرا بیان ریکارڈ کیا، میرے علاوہ بینک کے تین اور افراد نے نیب کو ریکارڈ فراہم کیا۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ باہرسے آنے والی رقوم کا مقصد بینک ریکارڈ میں موجود ہوتا ہے جس پر سنیل اعجاز نے جواب دیا کہ یہ درست ہے باہر سے آنے والی رقوم کا مقصد بینک ریکارڈ میں موجود ہوتا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا کہ کسی نےآپ سے تفصیلات مانگی تھیں جورقوم آئیں وہ کس مقصد کے لیے تھیں، گواہ نے جواب دیا کہ مجھ سے کسی نے پوچھا نہ میں نے کسی کو تفصیلات فراہم کیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ نے کسی سے شکایت کی رقوم کا مقصد ظاہرنہیں ہے جس پر استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ یہ کام برانچ لیول پرنہیں ہوتا ، نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ آپ سےجو پوچھا گیا ہے اس کا جواب دیں۔


    گواہ عبدالحنان کا بیان قلمبند


    فلیگ شپ ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ عبدالحنان نے عدالت کو بتایا کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ویزہ قونصلر اتاشی ہیں، ویزے پر دستخط اور دستاویزات کی تصدیق کرتا ہوں۔

    گواہ عبدالحنان نے کہا کہ 24 جنوری 2018 کونیب تفتیشی افسرکامران ہائی کمیشن آئے، ذکی الدین نے لفافے نیب افسر کامران کو دیے، کمپنیزڈائریکٹرز، فنانشل اسٹیٹمنٹ، لینڈ رجسٹری کی دستاویزات تھیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ تفتیشی افسرکو کہا کہ دستاویزات کونوٹرائیزکرا دیں، میں نے کہا دستاویزات قانون کے مطابق نہیں، تصدیق نہیں کرسکتا، میں نے بتایا فارن اینڈ کامن ویلتھ دفتردستاویزات کی تصدیق کرتا ہے۔

    گواہ عبدالحنان نے کہا کہ نیب ٹیم روانہ ہوئی تو5 بجے دستاویزات کی تصدیق کرنے واپس لے آئے، قانونی طریقہ کارمکمل ہونے کے بعد دستاویزات کی میں نے تصدیق کردی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 25 جنوری 2018 کو نیب تفتیشی افسر دوبارہ آئے، تفتیشی افسرکو ذکی الدین نے تین لفافے فراہم کیے، لفافوں میں لینڈ رجسٹری سےمتعلق دستاویزات تھیں، تفتیشی افسرکو فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس سے دستاویزات کی تصدیق کا کہا۔

    احتساب عدالت نے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ضمنی ریفرنسز میں آج مزید تین گواہوں کو طلب کررکھا ہے جن میں عبدالحنان، رضوان خان اور سنیل شامل ہیں۔

    دوسری جانب عدالت نے ایون فیلڈ پراپرٹیز کے ضمنی ریفنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو اصل ریکارڈ سمیت بیان قلمبند کرانے کے آج طلب کررکھا ہے، واجد ضیاء پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں اپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز فلیگ شپ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پرتینوں ریفرنسز میں مشترکہ جرح کی درخواست کی تھی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے خواجہ حارث کی درخواست پر مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ ایک ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے لیکن جرح الگ ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔