Tag: گاؤں

  • گاؤں میں ’’کالے سائے‘‘ کی دہشت، لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور

    گاؤں میں ’’کالے سائے‘‘ کی دہشت، لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور

    ایک ایسا گاؤں ہے جہاں کالے سائے کی دہشت نے لوگوں کو اتنا خوفزدہ کر دیا ہے کہ وہ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے ضلع پورنیہ میں ایک ایسا گاؤں ہے جہاں کے رہائشی مارے خوف کے وہاں سے نقل مکانی کر رہے ہیں اور یہ دہشت ایک کالے سائے نے پھیلائی ہوئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق لوگ عموماً جادو ٹونے اور بھوت پریت آسیب کی وجہ سے کالے سائے جیسے انہونے وجود سے خوفزدہ رہتے ہیں یہ کالا سایہ آسمان میں موجود سیاہی کی ایک سطح کی صورت میں ہے۔

    تین ہزار سے زائد آبادی والے گڑ ملکی نامی اس گاؤں میں کچھ عرصہ قبل سب کچھ ٹھیک تھا اور لوگ خوش باش زندگی گزار رہے تھے۔ تاہم پھر اچانک آسمان پر ایک سیاہ تہہ نے ڈیرا جمایا اور اب صورتحال یہ ہے کہ گاؤں کے رہائشی دو منٹ کھانا کھلا چھوڑ دیں تو سیاہ خاک کی سطح جم جاتی ہے۔ گھر کی بار بار صفائی اور کپڑے دھو کر دھوپ میں سکھانے پر دوبارہ سیاہ ہو جاتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق اس کالے سائے کی وجہ کوئی کالا علم، جادو ٹونا، بھوت یا آسیب نہیں بلکہ کچھ عرصہ قبل اس گاؤں میں قائم کی گئی رائس مل ہے۔

    واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس مل سے مسلسل دھواں نکلتا رہتا ہے جس نے گاؤں کی فضا کو اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ آسمان میں ہمیشہ کالے دھوئیں کی سطح جمی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹری سے نکلنے والے آلودہ پانی کی وجہ سے آس پاس کی زمین بھی بنجر ہو رہی ہے۔

    فیکٹری کے دھوئیں کے زد میں آنے سے لوگ پہلے ہی سانس کی بیماری کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں۔ اب پورنیہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر سبھاش کمار نے اس سے بھی آگے کی خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ فیکٹری سے نکلنے والے زہریلی مادے کی وجہ سے کینسر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

    گُڑ ملکی گاؤں میں رہنے والے سنجے کمار داس کا کہنا ہے کہ فیکٹری چلانے والے نے گاؤں میں اسکول کھولنے کے لیے زمین خریدا تھا، لیکن پہلے یہاں مکئی یونٹ بنایا اور اب اسے رائس مل میں تبدیل کر دیا گیا۔

    گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ فیکٹری سے نکلنے والی راکھ گھروں کے اندر بیڈ روم تک پہنچ گئی ہے۔ گاؤں والوں نے پورنیہ کے ضلع مجسٹریٹ کو فیکٹری کے خلاف اجتماعی شکایت کی ہے۔

    پورنیہ کے میونسپل کمشنر کمار منگلم نے بتایا کہ پہلے وہ اس سارے معاملے سے لاعلم تھے۔ اب اس کی تحقیقات کرائی جائے گی۔

  • اجنبی شخص دنیا سے جاتے جاتے گاؤں والوں کو ارب پتی بنا گیا!

    اجنبی شخص دنیا سے جاتے جاتے گاؤں والوں کو ارب پتی بنا گیا!

    دنیا میں سخی افراد کی کمی نہیں ہے ایک شخص دنیا سے جاتے جاتے بھی اچھا کام کر گیا اور اجنبی گاؤں کے لوگوں کو ارب پتی بنا گیا۔

    دنیا بھر میں لوگ مرتے وقت اپنی دولت اولاد اور عزیز واقارب کو دیتے ہیں یا پھر کسی چیئریٹی ادارے کو عطیہ کرتے ہیں لیکن ایک انوکھا واقعہ رونما ہوا ہے جس میں ایک شخص مرتے وقت انجان گاؤں کے اجنبی لوگوں کو تین ارب روپے دے گیا۔

    یہ منفرد اور دلچسپ واقعہ فرانس میں پیش آیا جہاں راجر تھیبر ویل نامی ایک امیر شخص 91 سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کر گیا۔ تاہم وہ وصیت کر گیا کہ دور دراز گاؤں کو اس کی دولت سے ایک کروڑ یورو (لگ بھگ تین ارب روپے) دے دیے جائیں۔

    اس کی وجہ بھی دلچسپ ہے کہ آنجہانی نے جس گاؤں کو تین ارب روپے عطیہ کیے اس گاؤں کا نام متوفی کے نام کے آخری لفظ سے مماثل تھا۔

    جس گاؤں کو تین ارب روپے دیے گئے، اس کا نام تھیبر ویل ہے جبکہ مرنے والے دولتمند شخص کا نام راجر تھیبر ویل تھا۔

    یہ مماثلت اس گاؤں کے 1773 آبادی کو ارب پتی بنا گئی اور وہ یہ غیر متوقع دولت پا کر حیران رہ گئے جو ان کے مقامی سالانہ بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔

    اس غیر متوقع امداد کو عوامی فلاح وبہبود کے لیے استعمال میں لانے کا ارادہ کیا ہے اور اس تحفے سے گاؤں کی انتظامیہ اسکول واسپتال کی مرمت کرانے کے علاوہ نئی سڑکیں اور باغات تعمیر کرائے گی۔

  • وہ گاؤں جہاں لوگ سبزی اور سودا سلف لینے بھی ہوائی جہاز میں جاتے ہیں!

    وہ گاؤں جہاں لوگ سبزی اور سودا سلف لینے بھی ہوائی جہاز میں جاتے ہیں!

    کسی علاقے میں ہر گھر میں گاڑی ہونا معمول ہے مگر دنیا میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں ہر گھر میں ایک نہیں کئی جہاز ہیں اور وہ سودا سلف لینے بھی جہاز میں جاتے ہیں۔

    انسان جیسے جیسے ترقی کرتا گیا سفری سہولیات بھی حاصل کرتا گیا۔ بیل گاڑی سے شروع ہونے والا سفر آج جیٹ طیاروں تک جا پہنچا ہے۔ قریبی علاقے میں سفر کے لیے لوگ کار، موٹر سائیکل وغیر کا استعمال کرتے ہیں لیکن دنیا میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے، جہاں ہر گھر کی پارکنگ میں جہاز کھڑا ہوتا ہے، وہاں ہر شخص پائلٹ اور گھر کا سودا سلف لینے تک جہاز میں جاتے ہیں۔

    Town where everyone has plane , everyone has personal plane in unique town, unique town Cameron airpark, Cameron airpark , fly-in community , everyone has a plane in this town , fly-in communities usa

    جی ہاں یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے اور یہ حیرت انگیز علاقہ امریکی ریاست کلیفورنیا میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔

    Town where everyone has plane , everyone has personal plane in unique town, unique town Cameron airpark, Cameron airpark , fly-in community , everyone has a plane in this town , fly-in communities usa

    اگر کوئی کیلیفورنیا میں کیمرون ایئر پارک نامی اس گاؤں میں جائے تو وہاں اسے بہت چوڑی سڑکیں حیران کر دیں گی، لیکن اصل حیرانی اس وقت ہو گی جب وہ ہر گھر کے باہر گیراج نما ہینگر بنے ہوئے دیکھیں گے اور انہیں یہاں ہوائی جہاز کھڑے نظر آئیں گے۔ یہ منظر دیکھ کر شاید اس کو خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا، لیکن حقیقت یہی ہے۔

    اس گاؤں کا ہر شخص پائلٹ ہے جو جہاز اڑانا بخوبی جانتا ہے۔ ہوائی جہاز وہاں کی معمول کی سواری ہے۔ انہیں سبزی یا گھر کا کوئی سودا سلف بھی لانا ہو تو وہ گھر سے باہر نکلتے ہیں اور جہاز اڑا کر نکل جاتے ہیں۔

    Town where everyone has plane , everyone has personal plane in unique town, unique town Cameron airpark, Cameron airpark , fly-in community , everyone has a plane in this town , fly-in communities usa

    اس گاؤں کو ایک قسم کی فلائی ان کمیونٹی کہا جاتا ہے۔

  • انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    لندن: انگلینڈ کے ایک گاؤں میں مقامی افراد کو عجیب و غریب آواز سنائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا سونا مشکل ہوگیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق انگلینڈ میں ویسٹ یارکشائر کے قریب ہیلی فیکس کے علاقے ہوم فیلڈ کے گاؤں میں ایک عجیب اور پراسرار آواز لوگوں کو سنائی دے رہی ہے۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی یہ آواز ہوتی تو دھیمی ہے لیکن مسلسل اس آواز سے بعض اوقات بڑی پریشانی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب تک اس کی وجہ یا یہ کہاں سے آتی ہے معلوم نہیں ہوسکا ہے، یہ آواز بہت تیز نہیں ہوتی لیکن اس سے ان کی نیند اور موڈ ضرور خراب ہوجاتا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ یہ آواز تمام مقامی لوگ تو نہیں سن سکے ہیں لیکن جنہوں نے اسے سننے کا دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اس سے ان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

    انگلش دیہات میں سنی جانے والی اس آواز سے متعلق شہ سرخیاں گزشتہ سالوں کے دوران اخبارات میں لگ چکی ہیں لیکن اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے۔

    مقامی حکام نے اس حوالے سے تحقیقات کیں اور اس مقصد کے لیے ایک آزاد کنسلٹنٹ کا تقرر بھی کیا لیکن یہ پراسراریت ختم نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

  • عمان: ریت میں گم ہوجانے والی وادی کے آثار ظاہر

    عمان: ریت میں گم ہوجانے والی وادی کے آثار ظاہر

    مسقط: عمان میں ریت میں دبی ایک وادی کے آثار دوبارہ ظاہرہ ہونے کے بعد اس کے احیا کی کوششیں کی جارہی ہیںِ، مقامی سیاح بڑی تعداد میں اس وادی کو دیکھنے پہنچ گئے ہیں۔

    مقامی میڈیا کے مطابق سلطنت عمان کا قریہ وادی المر 30 برس قبل ریت کے طوفان تلے دب گیا تھا، پرانے باشندوں اور قدیم آبادیوں کے شائقین ٹنوں ریت تلے دبے قریے کے احیا کی کوشش کر رہے ہیں۔

    وادی المر قریے میں موجود بعض مقامات کی دیواریں اور چھتیں نظر آرہی ہیں، باقی ماندہ حصہ ریت کے تلے آنکھوں سے اوجھل ہوچکا ہے۔

    وادی المر قریہ عمان کے جنوب مشرقی صوبے جعلان بنی بوعلی کی تحصیل میں واقع ہے، یہ دارالحکومت مسقط سے 400 کلو میٹر دور ہے، نظروں سے اوجھل قریوں تک رسائی بے حد مشکل ہے اور وہاں جانے کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے۔

    عمانی باشندے سالم العریمی نے بتایا کہ وہ اس جگہ کے رہائشی تھے، یہ 30 برس قبل ریت کے طوفان کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ ریت کی یلغار کا مسئلہ سلطنت عمان تک ہی محدود نہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں ریت کا طوفان بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہتا ہے۔

    وادی المر قریے کے باشندوں کے لیے ریت کے طوفان کے بعد اپنے قریے میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس کے کئی اسباب تھے، اس کا محل وقوع ملک کی آبادی سے الگ تھلگ ہے۔ یہاں پانی و بجلی کا نیٹ ورک نہیں۔ یہاں کے باشندے جانوروں کی افزائش پر گزارا کیا کرتے تھے۔ ان کے سامنے وہاں سے چلے جانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

    العریمی نے بتایا کہ قریے کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ کئی لوگ اپنے بال بچوں کو لے کر آس پاس کے قریوں میں منتقل ہوگئے تھے تاہم کئی ریت کے طوفان میں دب کر ہلاک ہوگئے۔

    ان دنوں قریے کے پرانے باشندوں اور سیر سپاٹے کے شائقین کے ذہنوں میں اس قریے کی یاد ستانے لگی ہے، یہ لوگ اس قریے کے آثار دیکھنے کے لیے وہاں پہنچ رہے ہیں اور خیمے لگا کر چہل قدمی اور کوہ پیمائی کا شوق کر رہے ہیں۔

    محمد الغنبوصی نے بتایا کہ اس جگہ کے مکانات ابھی تک موجود ہیں، ان کی تعمیر میں پتھر استعمال ہوئے تھے جس کی وجہ سے مکانات متاثر نہیں ہوئے۔ یہاں 30 مکانات تھے ان میں 150 افراد سکونت پذیر تھے اور مسجد بھی تھی۔

    محمد العلوی نے بتایا کہ چند برس قبل جب اس قریے کے کچھ نشانات ابھر کر سامنے آئے تو میری والدہ نے وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی تھی، وہ وہاں پہنچ کر پرانی یادیں تازہ کرکے زارو قطار رونے لگی تھیں۔

    راشد العامری نے بتایا کہ جب وہ اپنے دو دوستوں کے ہمراہ قریے پہنچے یہ دیکھ کر بے حد عجیب سا لگا کہ قریہ تو نظروں سے اوجھل ہی ہے تاہم ریت کا طوفان کس قدر طاقتور تھا کہ اس کے نشانات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

  • اٹلی کا خوبصورت قصبہ جہاں رہنے کے لیے حکومت گھر اور خطیر رقم فراہم کرے گی

    اٹلی کا خوبصورت قصبہ جہاں رہنے کے لیے حکومت گھر اور خطیر رقم فراہم کرے گی

    اٹلی میں معمر افراد کی آبادی میں اضافے کے بعد اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ نوجوانوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہو، اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے لوگوں کو ایک یورو میں خالی مکانات دینے کی پیشکش کی جاتی ہے، جس کا مقصد وہاں کی آبادیوں میں اضافہ کرنا ہے۔

    اٹلی کے اکثر مقامات پر ہزاروں گھر خالی پڑے ہیں جو بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل اکثر مختلف قسم کی پرکشش آفرز کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ مکان کی تزئین نو ایک مخصوص وقت میں کرنے کی شرط بھی عائد کی جاتی ہے۔

    سنہ 2017 میں اٹلی کے خطے پولیا میں واقع قصبے کینڈیلا میں لوگوں کو بسنے پر 2 ہزار یورو دینے کی پیشکش کی گئی۔

    اب اس سے بھی بہتر پیشکش آبروزو میں واقع گاؤں سانتو اسٹیفنو ڈی سیشنو کی جانب سے کی گئی ہے، جو وہاں بسنے اور کاروبار شروع کرنے والے افراد کو رقم دینے کے ساتھ رہنے کے مکانات کے کرائے میں بھی معاونت فراہم کرے گا۔

    وہاں کے میئر فابیو سانٹاویسا کا کہنا ہے کہ ہم کسی کو کچھ بھی نہیں فروخت کر رہے، یہ کوئی کاروباری قدم نہیں، ہم بس اپنے گاؤں کی رونق بحال کرنا چاہتے ہیں۔

    اس کی شرط ہے کہ خواہشمند افراد کو اٹلی کا شہری ہونا چاہیئے یا شہری بننے کی قانونی اہلیت ہو اور 40 سال یا اس سے کم عمر ہو۔

    یہ پہاڑی گاؤں سطح سمندر سے 1250 فٹ بلندی پر واقع ہے، جہاں اس وقت صرف 115 افراد مقیم ہیں، جن میں سے نصف معمر جبکہ محض 20 سے کم 13 سال سے کم عمر ہیں۔

    ٹاؤن کونس کی جانب سے وہاں منتقل ہونے والے نئے رہائشیوں کو 3 سال تک ہر ماہ ایک مخصوص رقم دی جائے گی۔

    مجموعی طور پر ہر سال 8 ہزار یورو (15 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) دیئے جائیں گے، جبکہ کاروبار کے لیے 20 ہزار یورو (37 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) یکمشت دیے جائیں گے۔

    ان کو رہائش کے لیے ایک جائیداد بھی ملے گی جس کا علامتی کرایہ لیا جائے گا، تاہم یہ علامتی کرایہ کتنا ہوگا، اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں۔ میئر کے مطابق تمام درخواستوں کا تجزیہ کرنے کے بعد مالیاتی تفصیلات کا تعین کیا جائے گا۔

    اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد نے اس کے لیے درخواستیں دی ہیں مگر کونسل فی الحال صرف 5 جوڑوں کو منتخب کرے گی اور بتدریج اس تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

  • شگفتہ اعجاز نے لاک ڈاؤن کو بنایا کارآمد، مداح حیران

    شگفتہ اعجاز نے لاک ڈاؤن کو بنایا کارآمد، مداح حیران

    کراچی: کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران جہاں لوگ مختلف دلچسپیاں اپنا رہے ہیں وہیں معروف اداکارہ شگفتہ اعجاز نے اپنے ہی گھر میں ’گاؤں‘ بنا لیا۔

    معروف پاکستانی اداکارہ شگفتہ اعجاز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنے گاؤں کی تصاویر شیئر کیں جو انہوں نے اپنے گھر کی چھت پر بنایا ہے۔

    شگفتہ کا تعلق پنجاب کے ضلع گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے سے ہے جس کی یاد میں اپنے گھر کی چھت کو ہی انہوں نے گاؤں کی شکل دے ڈالی، اس گاؤں کا نام انہوں نے سوہنا سکھ وال رکھا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    Nothing beats a sunny afternoon in Sohna Sukhwaal ☀️❤️

    A post shared by Shagufta Ejaz 💫 (@shaguftaejazofficial) on

    انسٹاگرام پر انہوں نے اپنے گاؤں کی تصاویر شیئر کیں جن میں وہ مٹی کے چولہے پر کھانا اور چائے بنا رہی ہیں، ایک تصویر میں وہ چارپائی پر لیٹی بھی نظر آرہی ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    Alhamdulillah for all the countless blessings. Garam garam shakkar chaaye on matti ka choola on my rooftop ☕️

    A post shared by Shagufta Ejaz 💫 (@shaguftaejazofficial) on

    مداحوں نے ان کی تصاویر کو بے حد پسند کیا اور ان کی اس کاوش کو خوب سراہا۔

  • معمولی جھگڑے نے پورے گاؤں کو میدان جنگ بنا دیا، متعدد ہلاک

    معمولی جھگڑے نے پورے گاؤں کو میدان جنگ بنا دیا، متعدد ہلاک

    قازقستان کے ایک گاؤں میں معمولی جھگڑے نے خونریز فسادات کی شکل اختیار کرلی، ہولناک تصادم میں 8 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ متعدد گھروں کو آگ لگا دی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فسادات قازقستان اور کرغزستان کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ہوئے۔ واقعے کا آغاز ایک معمولی جھگڑے سے ہوا جس نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    تقریباً 400 کے قریب افراد آپس میں اور پولیس سے متصادم ہوگئے، بعد ازاں درجنوں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔

    موقع پر موجود چند افراد نے ویڈیوز بنا کر مختلف میسیجنگ ایپس پر شیئر کیں جو تیزی سے پھیل گئیں اور پولیس فوراً حرکت میں آئی۔ اس دوران قریبی گاؤں سے بھی کئی افراد وہاں پہنچے اور تصادم کا حصہ بنے۔

    خونریز تصادم میں اب تک 8 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ان گنت زخمی ہوگئے ہیں۔ مشتعل افراد نے درجنوں گھروں، عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جس کے بعد مذکورہ مقام میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔

    مشتعل افراد نے پولیس پر بھی حملہ کیا جبکہ کچھ افراد نے فائرنگ بھی کی جس سے 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، بعد ازاں نیشنل گارڈز کے دستوں نے موقع پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا۔

    قازقستان کے صدر نے معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داران، اور جھگڑے کو بڑھاوا دینے والے افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ واقعے میں متاثر ہونے والے، زخمیوں اور ہلاک افراد کے لواحقین کا بھرپور خیال رکھا جائے۔

  • بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی میں بلا کر باپ نے 20 بچوں کو یرغمال بنا لیا

    بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی میں بلا کر باپ نے 20 بچوں کو یرغمال بنا لیا

    آگرہ: بھارتی ریاست اتر پردیش میں مسلح شخص نے بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی کا جھانسہ دے کر محلے کے بچوں کو بلایا اور انہیں یرغمال بنا لیا، پولیس کے ہاتھوں ملزم کی ہلاکت کے بعد مشتعل ہجوم نے ملزم کی بیوی کو بہیمانہ تشدد کر کے مار ڈالا۔

    یہ دہشت ناک واقعہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر فرخ آباد میں پیش آیا، مسلح شخص جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ کچھ عرصہ قبل ہی جیل سے چھوٹ کر آیا تھا، نے 20 بچوں کو یرغمال بنا لیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے بچوں کو اپنی بیٹی کی برتھ ڈے پارٹی کا کہہ کر بلایا اور اس کے بعد انہیں یرغمال بنا لیا۔

    مقامی افراد کو جب اس کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے دروازہ کھلوانے کی کوشش کی تاہم سبھاش باتھم نامی اس عادی مجرم نے گھر کے اندر سے فائرنگ شروع کردی۔

    ملزم کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوا۔ مقامی افراد نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی اور موقع کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ گئی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ گھر کے اندر ملزم کی بیوی اور 1 سالہ بیٹی بھی موجود تھی اور ملزم نے انہیں بھی یرغمال بنا لیا۔ اس دوران ملزم نے ایک 6 ماہ کی بچی جو وہاں موجود بچوں میں شامل تھی، 7 گھنٹے بعد بالکونی کے ذریعے پڑوسیوں کے حوالے کی۔

    پولیس کے مطابق ملزم سمجھتا تھا کہ اس پر اس سے قبل لگایا جانے والا قتل کا الزام جھوٹا تھا اور اسے اس قتل کے الزام میں پولیس کے حوالے کرنے میں پڑسیوں کا ہاتھ تھا، ممکنہ طور پر اس نے پڑوسیوں سے بدلہ لینے کے لیے یہ سب کیا۔

    بچوں کو چھڑانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی تو ملزم نے انہیں فائرنگ اور بم سے اڑانے کی دھمکیاں دینی شروع کیں، اس نے پولیس کی طرف ایک کم شدت کا بم بھی پھینکا جس سے 3 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

    ملزم کے خطرناک ارادے دیکھتے ہوئے پولیس نے سخت ایکشن شروع کیا اور 11 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس ان کاؤنٹر کا اختتام ملزم کی موت پر ہوا۔ تمام بچوں کو بحفاظت چھڑا کر معمولی میڈیکل چیک اپ کے بعد انہیں ان کے والدین کے حوالے کردیا گیا۔

    ملزم

    ملزم کی موت کے بعد مشتعل مقامی افراد اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کی بیوی پر بہیمانہ تشدد کیا، پولیس عورت کو بچانے میں ناکام رہی جس کے بارے میں غیر واضح تھا کہ آیا وہ بھی ملزم کے ساتھ تھی یا خود بھی یرغمالیوں میں شامل تھی۔

    ملزم کی بیوی کو اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ اس سے قبل ہی دم توڑ گئی۔

    واقعے کے دوران تمام بھارتی میڈیا نے براہ راست نشریات چلائیں اور اس دوران کئی چینلز نے ملزم کو پیشکش کی کہ وہ اپنے مطالبات انہیں بتائے، وہ انہیں حکام بالا تک پہنچانے میں مدد کرسکتے ہیں۔

    اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بچوں کے بحفاظت چھڑائے جانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور آپریشن میں شامل پولیس ٹیم کو 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔

  • بندروں کی بھرمار سے گاؤں والے ہجرت پر مجبور

    بندروں کی بھرمار سے گاؤں والے ہجرت پر مجبور

    بھارت کے ایک گاؤں میں بندروں کی بھرمار نے گاؤں والوں کو ہجرت پر مجبور کردیا، یہ بندر فصلوں کو تباہ کر رہے تھے جبکہ گھروں میں گھس کر سامان بھی اٹھا لے جاتے تھے۔

    بھارتی گاؤں ناراس پور سے اب تک 20 سے زائد خاندان ہجرت کر کے جا چکے ہیں، وجہ اس گاؤں میں بندروں کی بھرمار ہے جن کی تعداد اندازاً 400 ہے۔

    یہ بندر فصلوں کو تباہ کر کے کسانوں کو مالی نقصان پہنچا رہے تھے جبکہ گھروں میں بھی گھس جاتے جہاں سے وہ مختلف سامان اٹھا کر بھاگ جاتے تھے۔

    تاہم اب گاؤں کے سرپنج نے گاؤں والوں کی مشکل حل کرنے کے لیے ان بندروں کو پکڑنے کے لیے ایک ٹیم بلا لی ہے جنہیں 15 سو روپے دیے جائیں گے۔ اس ٹیم نے اب تک 100 بندر پکڑ کر گھنے جنگل میں چھوڑ دیے ہیں جہاں سے وہ واپس نہ آسکیں۔

    سرپنچ کا کہنا ہے کہ ان بندروں نے گھروں اور فصلوں پر تباہی مچادی تھی اور اس وجہ سے کسان بہت پریشان تھے۔

    ان میں سے کچھ کسان ایسے تھے جنہیں صرف ایک ہی قسم کی فصل اگانے پر مہارت حاصل تھی اور ان کی وہ واحد فصل بھی بندروں کے ہاتھوں تباہ ہوجاتی تھی، چنانچہ کسان پریشان ہو کر یہاں سے جانے لگے تھے۔

    تاہم اب جب کسانوں کو علم ہوا کہ آہستہ آہستہ بندروں کا خاتمہ ہورہا ہے تو وہ اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں۔