Tag: گاؤں

  • پولینڈ کا وہ گاؤں جہاں گزشتہ 10 سال میں صرف لڑکیوں کی پیدائش ہوئی

    پولینڈ کا وہ گاؤں جہاں گزشتہ 10 سال میں صرف لڑکیوں کی پیدائش ہوئی

    پولینڈ کے ایک گاؤں میں گزشتہ 10 برس سے کسی لڑکے کی پیدائش نہیں ہوئی، گزشتہ ایک دہائی میں یہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب ان لڑکیوں کو بھی وہ مہارتیں سکھائی جارہی ہیں جو صرف لڑکوں کے لیے مخصوص تھیں۔

    300 افراد پر مشتمل اس گاؤں میں لڑکیوں کو فائر فائٹنگ اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی ہے۔ سنہ 2013 میں ایک پروفیشنل فائر فائٹر نے انہی لڑکیوں کی درخواست پر فائر بریگیڈ قائم کیا جہاں یہ لڑکیاں اسکول کے بعد ٹریننگ حاصل کرنے آتی ہیں۔

    یہاں آنے والی سب سے کم عمر طالبہ صرف 2 سال کی ہے۔

    ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں لڑکوں کی تعداد کم ہونے کا کسی کو بھی احساس نہیں ہونے دینا چاہتیں۔

    ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جب ایک لڑکی سے شادی سے متعلق سوال پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ فی الحال اس کی توجہ مختلف ٹریننگز پر مرکوز ہے اور وہ چاہتی ہے کہ جلد سے جلد وہ لوگ ایک نیا فائر انجن خریدنے کے قابل ہوسکیں۔

    اس نے بتایا کہ یہاں کا فائر انجن 44 سال پرانا ہے اور انہیں ڈر کہ کسی روز جب واقعی اس انجن کی ضرورت پڑے تو وہ چلنے سے انکار نہ کردے۔

    ان لڑکیوں کا عزم ہے کہ نہ صرف وہ بہترین تعلیم حاصل کریں گی بلکہ ان شعبوں میں بھی مہارت حاصل کریں جو لڑکوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔

  • افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک گاؤں طیبیل میں یوں تو لوگ عام سے مٹی سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں، لیکن ان گھروں کی دیواروں پر نہایت دیدہ زیب اور انوکھی نقش نگاری کر کے انہیں نہایت خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔

    برکینا فاسو کا یہ گاؤں دنیا بھر میں اپنے ان خوبصورت منقش گھروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کو 15 صدی عیسوی میں بسایا گیا تھا۔

    یہاں کے لوگ گھر کی دیواروں پر نقش نگاری کے لیے مٹی اور چونے میں مختلف رنگوں کی آمیزش کردیتے ہیں۔ مردوں کو دفن کرنے کے لیے مخصوص مقام بھی اسی طرح کی نقش و نگاری سے آراستہ ہے۔

    دیواروں پر بنائے جانے والے یہ نقش، اشکال اور پیٹرنز قدیم افریقی ثقافت و مصوری کا حصہ ہیں۔ یہاں موجود افراد کے مطابق گھروں کی بیرونی دیواروں کو اس طرح رنگوں سے آراستہ کرنے کی روایت کا آغاز 16 صدی عیسوی سے ہوا۔

    ان گھروں کی ایک اور خاص بات ان کے چھوٹے دروازے ہیں۔ گھروں کا داخلی دروازہ نہایت مختصر سا ہوتا ہے جو دراصل دشمنوں سے بچنے کے مقصد کے پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

    یہاں ایک اور روایت ہے کہ کسی گھر کے مکمل ہونے کے بعد گھر کا مالک رہائش اختیار کرنے سے قبل 2 دن تک انتظار کرتا ہے۔ اگر ان 2 دنوں میں گھر میں کوئی چھپکلی نظر آئے تو ایسے گھر کو قابل رہائش سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن اگر گھر میں کوئی چھپکلی نہ دکھے تو اسے بدشگونی قرار دے گھر کو ڈھا دیا جاتا ہے۔

    اس گاؤں کے ثقافتی ورثے اور روایات کو دیکھتے ہوئے اسے سیاحتی مقام کا درجہ دینے پر غور کیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عراق میں شادی کی تقریب میں دھماکے‘26افراد ہلاک

    عراق میں شادی کی تقریب میں دھماکے‘26افراد ہلاک

    بغداد : عراق کے ایک گاؤں میں شادی کی تقریب کے دوران دو خودکش دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 26افراد جان کی بازی ہارگئے۔

    تفصیلات کےمطابق عراق کےشہر تکریت کے نزدیک ایک گاؤں میں شادی کی تقریب کےدوران دو خودکش حملہ آوروں نے خودکو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا جس کےباعث 26افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

    شادی کی تقریب میں کیے جانے والے دونوں خودکش دھماکوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کرلی ہے۔

    خیال رہےکہ داعش نے 2014 میں تکریت سمیت شمالی اور وسطی عراق کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اپریل 2015 میں عراقی افواج نے انہیں نکال باہر کیاتھا۔

    داعش کی جانب سے یہ حمہ ایک ایسے وقت میں کیا گیاہےجب عراقی فورسز موصل میں داعش کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے اورشہر کے ایک حصے کا کنٹرول عراقی فوج کی جانب سے حاصل کرلیاگیاہے۔

    مزید پڑھیں:بغداد میں خودکش دھماکہ‘کم ازکم 48افراد ہلاک

    اس سے قبل گزشتہ ماہ عراقی دارالحکومت بغداد میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم 48افراد ہلاک جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوگئےتھے۔

    مزید پڑھیں: بغداد : شادی کی تقریب میں دھماکہ ،درجنوں افراد ہلاک

    واضح رہےکہ گزشتہ سال نومبر میں عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایک شادی کی تقریب میں ہونے والے خود کش کار بم دھماکے میں کم سے کم 40 افراد ہلاک ہوگئےتھے۔

  • اس پراسرار گاؤں پر آخر کیا آفت آئی؟

    اس پراسرار گاؤں پر آخر کیا آفت آئی؟

    آپ نے دنیا کے کئی ایسے مقامات کے بارے میں سنا اور پڑھا ہوگا جو کسی نہ کسی وجہ سے پراسراریت کا شکار ہیں اور عام افراد وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔

    یہ مقامات کسی زمانے میں آباد ہوا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غیر آباد ہوگئے اور اب وہاں جانا نہایت دل گردے کا کام ہے۔

    اسپین میں بھی ایسا ہی ایک پراسراریت بھرا گاؤں موجود ہے جسے بھوت قصبہ کہا جاتا ہے۔ اس گاؤں کو پراسرار اور منفرد بنانے والی بات یہ ہے اس گاؤں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ لوگ یہاں سے اچانک غائب ہوگئے ہوں۔

    5

    اس گاؤں میں جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ گاؤں میں بچی کچھی اشیا کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات میں مشغول تھے۔ لیکن پھر اچانک ہی جیسے لوگ غائب ہوگئے اور چیزیں ویسی کی ویسی ہی پڑی رہ گئیں۔

    3

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ بظاہر اس گاؤں کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ یہاں کوئی قدرتی یا انسانی (ڈاکوؤں کی لوٹ مار یا کوئی اچانک حملہ) آفت آئی ہو۔

    2

    اگر تصور کیا جائے کہ اچانک ہی گاؤں سے باہر کوئی ایسی چیز آ پہنچی جسے دیکھنے کے لیے لوگ سب چھوڑ چھاڑ کر گاؤں سے باہر بھاگ کھڑے ہوئے ہوں تو اس کا امکان بھی کم نظر آتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں گھروں اور اسکولوں میں موجود خستہ حال سامان افراتفری میں بکھرا ہوا نظر آتا۔

    6

    اس کے برعکس یہاں موجود تمام چیزیں نہایت ترتیب سے موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اسکولوں میں ڈیسکوں پر کتابیں تک کھلی رکھی ہیں۔

    7

    یہاں جانے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ یہاں پہنچ کر آپ کو پراسراریت کے ساتھ ساتھ عجیب قسم کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسے آپ کوئی نام نہیں دے سکتے۔

    4

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں 1173 عیسوی تک قائم تھا، اس کے بعد اس گاؤں پر کیا گزری یہ آج تک صیغہ راز میں ہے۔

  • جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ یمن کا خوش قسمت گاؤں

    جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ یمن کا خوش قسمت گاؤں

    صنعا: مشرق وسطیٰ کے ملک یمن میں پچھلے 18 ماہ سے حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے جس نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی میں اب تک 3 ہزار 800 کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ 76 لاکھ افراد ایسے ہیں جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔

    لیکن یمن میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو جنگ کی تباہ کاریوں اور خوان خرابے سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔

    yemen-6

    yemen-5

    یہ خوش قسمت گاؤں یمن کے مغربی حصہ میں چند پہاڑیوں کی چوٹی پر واقع ہے۔ گاؤں والے جنگ کا شکار تباہ حال گھرانوں کو اپنے پاس پناہ بھی دے رہے ہیں لیکن حفاظت ان کا پہلا اصول ہے اور یہ زیادہ لوگوں کی نظروں میں نہیں آنا چاہتے کہ کہیں باغی ان پر بھی حملہ آور نہ ہوجائیں۔

    yemen-3

    yemen-4

    yemen-2

    یہ گاؤں بنیادی سہولتوں سے محروم ہے لیکن یہاں رہنے والے افراد خوش قسمت ہیں کہ کم از کم ان کی جانیں اور گھر تو محفوظ ہیں۔

    12

    یمنی صوبے رمیہ میں واقع اس گاؤں کے گھر پہاڑ کی چڑھائی پر بنے ہوئے ہیں۔ یہ گاؤں حملہ آوروں کی دست برد سے تو محفوظ ہے تاہم یہ صورتحال زیادہ باعث اطمینان بھی نہیں ہے کیونکہ گاؤں والوں کو اپنا سامان ضرورت نیچے اتر کر لانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے یا تو وہ پیدل سفر کرتے ہیں یا پھر کیبل کار ان کا ذریعہ سفر ہوتا ہے۔

    yemen-8

    گاؤں والے پانی کے نلکوں اور بجلی جیسی سہولیات سے ناواقف ہیں۔ یہاں موجود زیادہ تر افراد کا زریعہ روزگار زراعت ہے۔ یہ علاقہ شہد کی مکھیوں کی افزائش کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں ان مکھیوں سے شہد حاصل کیا جاتا ہے جو جنگ سے قبل ملک بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

    14

    yemen-9

    یہاں موجود خواتین گھروں میں ہی نصب چکی پر آٹا پیستی ہیں۔ گاؤں میں موجود گھر پتھروں سے تعمیر کیے جاتے ہیں اور کچھ گھر ایسے بھی ہیں جو کئی سو سال پرانے ہیں۔

    15

    16

    17

    گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں اور زندگی کی تمام تکالیف اور مصائب کے باوجود خوش ہیں۔

  • گجرات میں فائرنگ سےماں،باپ سمیت 5افراد جاں بحق

    گجرات میں فائرنگ سےماں،باپ سمیت 5افراد جاں بحق

    گجرات : صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کےگاؤں معین الدین پورمیں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ماں،باپ اور تین بچوں سمیت 5افرادجاں بحق ہوگئے .

    تفصیلات کے مطابق گجرات کےگاؤں معین الدین پورمیں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ماں،باپ اور تین بچوں سمیت پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے.

    پولیس کےمطابق فائرنگ کا واقعہ گاؤں معین الدین پورمیں پیش آیا جب نامعلوم افراد نے گھرمیں گھس کر فائرنگ کردی.

    فائرنگ کی وجہ سے گھر میں تسور حسین، ان کی بیوی اور تین بچے جاں بحق ہوگئے،جاں بحق ہونےوالوں کی عمریں بارہ سے سترہ سال کےدرمیان ہیں.

    پولیس کا کہناہےکہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں تاہم اب تک ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی.

    *بلوچستان میں فائرنگ کےدو واقعات میں5افرادجاں بحق

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے جھاؤ میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک گھر کے اندر گھس کر فائرنگ کی جس کےنتیجے میں ایک ہی خاندان کے تین افراد جان کی بازی ہارگئے، مرنے والوں میں ایک کمسن بچہ بھی شامل تھا.

    اسی طرح آواران سے متصل ضلع کیچ کے علاقےزعمران میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سےلیویز فورس کاایک اہلکار جان کی بازی ہار گیاتھا

    *بلوچستان میں فائرنگ،ہندو تاجر ہلاک

    واضح رہے کہ دو روز قبل صوبہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک ہندو تاجر ہلاک ہوگیاتھا.

  • نیدرلینڈز کا بغیر سڑکوں والا خوبصورت گاؤں

    نیدرلینڈز کا بغیر سڑکوں والا خوبصورت گاؤں

    ایک چھوٹا سا خوبصورت گاؤں، آلودگی سے پاک، سرسبز ہرا بھرا، جہاں لکڑی سے بنے خوبصورت گھر ہوں، کیا آپ کا دل نہیں چاہے گا کہ پرہجوم اور آلودگی بھرے شہروں کو چھوڑ کر اس خوبصورت گاؤں میں رہائش اختیار کرلی جائے؟

    نیدرلینڈز میں قائم اس گاؤں کی منفرد بات یہ ہے کہ یہاں کوئی سڑک نہیں۔ دراصل یہ گاؤں اٹلی کے شہر وینس کی طرح پانی پر قائم ہے۔

    13

    2

    15

    گیتھورن نامی اس گاؤں کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے 1230 عیسوی میں جیل سے فرار کچھ افراد نے آباد کیا تھا۔ 1958 میں بننے والی فلم فین فیئر میں اس گاؤں کو دکھایا گیا جس کے بعد اسے عالمی شہرت حاصل ہوگئی۔

    4

    3

    9

    ایمسٹرڈیم کے شمال مشرقی حصہ میں واقع اس گاؤں میں سفر کے صرف دو ذرائع ہیں، کشتی اور بائیک۔

    10

    11

    12

    یہاں پانی کی مختلف کینالز پر لکڑی کے خوبصورت اور قدیم دور کے 180 پل تعمیر کیے گئے ہیں۔

    5

    6

    13

    اسے بعض دفعہ ڈچ وینس یعنی نیدرلینڈز کا وینس بھی کہا جاتا ہے۔

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔