Tag: گاندھی

  • بھارت کی زمین ’’گاندھی‘‘ کی اولاد کیلیے غیر محفوظ ہو گئی، پڑ پوتے پر حملہ

    بھارت کی زمین ’’گاندھی‘‘ کی اولاد کیلیے غیر محفوظ ہو گئی، پڑ پوتے پر حملہ

    بھارت کی حکمراں جماعت ہندو انتہا پسندی کے بعد اب زبان بندی پر اتر آئی مخالفت پر گاندھی کے پڑ پوتے پر حملہ کر دیا۔

    بھارت میں مودی کی سرپرستی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی ہندو انتہا پسندی پر مبنی دہشتگردی اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں لیکن اب مودی سرکار مخالفین کی زبان بندی کے لیے ہر اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے پر اتر آئی ہے اور اس نے ہندوستان کی سر زمین کو اس کے بانی مہاتما گاندھی کی اولاد کے لیے بھی غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق چند روز قبل کیرالہ میں گاندھی کے پڑ پوتے تشار گاندھی نے سماجی رہنما گوپی ناتھ نائر کے مجسمہ کی تقریب رونمائی کرتے ہوئے آر ایس ایس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ہندو انتہا پسندی کو نشانہ بنایا تھا۔

    تشار گاندھی نے کہا تھا کہ آرایس ایس ایسا زہر ہے جو بھارت کی بنیادوں میں پھیل کر انہیں تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اگر یہ زہر ختم نہ کیا گیا تو بھارت ٹوٹ جائے گا۔

    گاندھی کے پڑ پوتے کا یہ کڑوا سچ بی جے پی اور آر ایس ایس کو برداشت نہ ہوا اور ان کے کارکنوں نے ایک مقام پر تشار گاندھی کی کار کو روک کر ان پر حملہ کیا تاہم محفاظوں نے ان کی جان بچا لی۔

    بعد ازاں تشار گاندھی نے اس حملے پر ردعمل دیتے ہوئے آر ایس ایس کو بھارتی قوم کی سب سے بڑی دشمن جماعت اور اس کے خلاف لڑائی کو تحریک آزادی ہندوستان سے زیادہ اہم قرار دیا اور کہا کہ میں قوم کے غداروں اور دغا بازوں کے خلاف بولتا رہوں گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر گاندھی جی کے قاتلوں کی اس خطرناک اولاد کا راستہ نہیں روکا گیا تو یہ ایک دن ان کا مجسمہ بھی گرا دیں گے۔

  • گاندھی کا مجسمہ اور جمشید نسروانجی کا بیان

    گاندھی کا مجسمہ اور جمشید نسروانجی کا بیان

    شخصی خاکوں کی کتاب بعنوان ’عظمت رفتہ‘ ضیاء الدین برنی کی تصنیف کردہ ہے جو یاد نگاری اور تذکرہ نویسی کے ساتھ کئی دل چسپ واقعات کا گل دستہ بھی ہے۔ اس میں موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح کے خاکے بھی شامل ہیں۔ یہاں ہم جمشید نسروانجی سے متعلق برنی صاحب کی ایک یاد تازہ کر رہے ہیں۔

    کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نومبر 1933ء میں اس عہدے پر فائز ہوئے اور کراچی شہر اور اس کے باسیوں‌ کے لیے کئی خدمات انجام دیں۔ گرو مندر کراچی کے قریب ایک سڑک بھی ان سے منسوب ہے۔ جمشید نسروانجی کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی کئی برس تک کراچی میں بعض کئی اہم عمارتوں پر گاندھی کی تصاویر اور مجسمے دیکھے جا سکتے تھے جن کا افتتاح تقسیم سے پہلے گاندھی جی نے کیا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ماضی کی یہ یادگاریں سرحد کے دونوں اطراف ہی فسادات اور نفرت کی آندھی کے سامنے تو نہیں‌ ٹھیر سکتی تھیں۔ سو، بہت کچھ برباد ہوا اور بہت کچھ مٹا دیا گیا۔ لیکن جب گاندھی کا ایک مجسمہ موسم کی نذر ہوا اور یہ خبر بھارت کے عوام تک پہنچی تو یہ خدشہ ہوا کہ دلوں میں اس سے منفی جذبات پیدا ہوں گے اور کسی سطح پر ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔ تب، جمشید نسروانجی کا بیان سامنے آیا۔ ضیا الدین احمد برنی نے اپنی مذکورہ کتاب جو 1961ء میں شایع ہوئی تھی، اس میں اس واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے جمشید نسروانجی سے متعلق لکھا ہے:

    میں بمبئی میں برسوں سے کراچی کے اس سینٹ (مقدس بزرگ) کا نامِ نامی سنتا چلا آیا تھا اور اسی لیے کراچی آتے ہی اپنی اوّلین فرصت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر ملاقات میں ان کی شرافت اور خلوص سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں مملکتوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے گاندھی جی کے مجسمے کے متعلق خاص طور پر ان سے بیان دلوایا۔

    ہندوستان والوں کا خیال تھا کہ مجسمہ جان بوجھ کر گرایا گیا ہے اور پاکستان والے کہتے تھے کہ تند ہواؤں کے جھونکوں سے یہ خود بخود گر گیا ہے۔ اس خیال سے کہ کہیں یہ واقعہ دنوں مملکتوں کے مابین مزید کشیدگی کا باعث نہ بن جائے، لیاقت علی خان نے جمشید مہتا سے ایک بیان دلایا جس کا ہندوستان پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ جمشید نسروانجی کی ساری زندگی خدمت الناس میں گزری اور انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی سے بتایا کہ مادّیت کے اس دور میں بھی بے غرضی، سچائی اور روحانیت کو روزمرہ کے کاموں میں کس طرح سمویا جا سکتا ہے۔

  • ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مدارس کے بوریا نشینوں اور معمر باریش غازیوں نے موت سے بے نیاز ہو کر میرِ کارواں کا کردار ادا کیا۔ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی اور تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔

    ان کی گاندھی سے ایک ملاقات اور اس دوران ہونے والی گفتگو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے، جس کے راوی سید محمد اسلم ہیں جو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: میں نے ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی۔ مسجد کے شمالی دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جو امام صاحب کا قبرستان کہلاتا ہے۔ اسی قبرستان میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی (م 1956ء) اور مولوی سمیع اللہ (م 1969ء) محو خوابِ ابدی ہیں۔

    مولانا لدھیانوی ایک زمانے میں مجلسِ احرار کے صدر تھے اور پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد موصوف مہاجروں کے قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے، لیکن یہاں ان کا جی نہ لگا اور موصوف دسمبر 1947ء کے اواخر میں دوبارہ بھارت چلے گئے۔ 3 جنوری 1948ء کو وہ ’گاندھی جی‘ سے ملے۔ گاندھی جی نے ان سے کہا۔ مولانا کیا آپ بھی پاکستان چلے گئے تھے؟ کیا آپ نے لدھیانہ کی سکونت اس بنا پر ترک کی کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، اگر آپ کا یہی جرم تھا تو آپ اپنے دین کے لیے جان کا نذرانہ پیش نہ کر سکے۔ یہ بات خود مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے راقم الحروف کو سنائی تھی۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ گاندھی جی کی باتیں سن کر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہ گاندھی کے ساتھ ان کی آخری ملاقات تھی۔ 30 جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

    (کتاب ’سفرنامۂ ہند‘، از قلم سید محمد اسلم)

  • جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے!

    جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے!

    یہ متحدہ ہندوستان میں انگریز راج کی آخری دہائی کے سیاسی حالات اور جاپان کی جانب سے ہندوستان پر حملہ کرنے اور جنگ کے خدشہ کے پیشِ‌ نظر کی گئی اُس تیّاری کا احوال ہے جس کے خلاف کانگریس کے ایک بڑے اور جانے مانے لیڈر ابوالکلام آزاد نے ساتھیوں‌ کے صلاح مشورے سے تدبیر اور کاوشیں‌ شروع کی تھیں۔

    مولانا آزاد لکھتے ہیں، ہندوستان پر جاپان کے امکانی حملے کے پیش بندی کے طور پر میں نے پہلے ہی کچھ اقدامات کر لیے تھے۔ کانگریس کی تنظیم سے میں نے کہا تھا کہ جاپانیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی تعمیر کے لیے اُسے پروپیگنڈے کی ایک مہم چلانی چاہیے۔

    میں نے کلکتہ کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کرایا تھا اور رضا کاروں کے جتھے، جنہوں نے جاپان کی مخالفت کا عہد کر رکھا تھا ان کی تربیت اور تنظیم شروع کر دی تھی۔ ان رضا کاروں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اگر جاپانی فوج پیش قدمی کرے، تو اس کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج پیچھے ہٹے، کانگریس کو اپنے رضا کاروں کی مدد سے آگے بڑھ کر ملک کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے قدم جما سکیں، بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہو جانا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہم اپنے نئے دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے اور اپنی آزادی حاصل کر سکتے تھے۔

    درصل مئی اور جون 1942ء میں میرے وقت کا بیش تر حصہ اس نئی تدبیر کو آگے بڑھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں صرف ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاندھی جی مجھ سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں مجھ سے کہا کہ اگر جاپانی فوج کبھی ہندوستان آ ہی گئی، تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں، بلکہ انگریزوں کے دشمن کے طور پر آئے گی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر انگریز چلے گئے، تو جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے۔ میں اس تجزیے کو تسلیم نہیں کرسکا اور طویل بحثوں کے باوجود ہم کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے، چناں چہ ہم اختلاف کے ایک نوٹ کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

  • مودی نے پارلیمنٹ سے گاندھی کے مجسموں کو ہٹوادیا، کانگریس کا احتجاج

    مودی نے پارلیمنٹ سے گاندھی کے مجسموں کو ہٹوادیا، کانگریس کا احتجاج

    نئی دہلی: کانگریس نے پارلیمنٹ کے احاطہ میں موجود مہاتما گاندھی، چھترپتی شیواجی مہاراج اور بابا صاحب امبیڈکر کے مجسموں کو ہٹائے جانے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے مودی اور بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق کانگریس رہنماء پون کھیڑا کا مودی اور بی جے پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مودی حکومت لوک سبھا انتخاب میں اپنی شکست کو ہضم نہیں کر پا رہی ہے، اس لیے روزانہ نئے شگوفے ڈھونڈ کر کسی طریقے سے آئین اور جمہوریت کے ستونوں کو توڑنے میں مصروف رہتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کانگریس نے انتخابات میں آئین کو بچانے کی مہم شروع کی تو بھڑاس نکالنے کے لیے امبیڈکر جی کے مجسمہ کو اس کی جگہ سے پیچھے دھکیل دیا۔ پھر جب مہاراشٹر کی عوام نے انتخابات میں زوردار جواب دیا تو بدلہ لینے کے لیے شیواجی مہاراج جی کے مسجمہ کو بھی ہٹا دیا۔

    انتخاب کے درمیان نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’گاندھی‘ فلم آنے سے پہلے مہاتما گاندھی کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب عوام نے انتخابی نتائج کے ذریعہ اس کا جواب دیا تو غصہ نکالنے کے لیے گاندھی کے مجسمہ کو ہٹا دیا گیا۔

    اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 77 فلسطینی شہید

    کانگریس رہنماء نے کہا کہ چونکہ اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ ان مجسموں کے سامنے حکومت کی غلط پالیسیوں کے تئیں احتجاجی مظاہرہ کرتے تھے، اس لیے حکومت نے ان مجسموں سے دشمنی نکالی۔ ایسے میں مودی حکومت ملک کی عوام کو وضاحت دے کہ عظیم ہستیوں کے مجسمے کو ہٹانے کے پیچھے کونسا راز ہے۔

  • ’مودی نے اڈانی پر جواب دینے کی بجائے میرے ’گاندھی‘ ہونے پر توہین آمیز ریمارکس دیے‘

    ’مودی نے اڈانی پر جواب دینے کی بجائے میرے ’گاندھی‘ ہونے پر توہین آمیز ریمارکس دیے‘

    وائناڈ: کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے کہا ہے کہ مودی نے اڈانی پر جواب دینے کی بجائے میرے ’گاندھی‘ ہونے پر توہین آمیز ریمارکس دیے۔

    کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم مودی سے ان کے اڈانی کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب نہیں دیا، بلکہ میری کنیت (گاندھی) پر بات کرتے لگے۔

    وائناڈ سے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے اپنی پارلیمانی حلقہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا وزیر اعظم مودی خود کو سب سے طاقت ور قرار دیتے ہیں، جن سے سب کو ڈرنا چاہئے لیکن یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ وزیر اعظم ہیں یا تمام سرکاری ایجنسیاں ان کے پاس ہیں، کیونکہ سچ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ایک دن ان کو سچ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    سوال پوچھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کنیت کے حوالے سے مودی کے ریمارکس نے براہ راست میری توہین کی، اسے لوک سبھا کی کارروائی سے نہیں ہٹایا گیا۔

     انہوں نے کہا کہ ملک کے وزیراعظم نے براہ راست میری توہین کی لیکن ان کے الفاظ آف دی ریکارڈ نہیں تھے، لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ سچ ہمیشہ سامنے آتا ہے۔

  • گاندھی کے قاتل کی پذیرائی پر مبنی فلم، ریلیز پر پابندی کا مطالبہ

    گاندھی کے قاتل کی پذیرائی پر مبنی فلم، ریلیز پر پابندی کا مطالبہ

    نئی دہلی: آل انڈیا سنیما ورکرز ایسوسی ایشن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے شارٹ فلم وائی آئی کلڈ گاندھی پر مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    تنظیم نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھ کر اس فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ اس میں مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کی تعریف کی گئی ہے۔

    خط میں لکھا گیا ہے کہ آل انڈین سینیما ورکرز ایسوسی ایشن مذکورہ فلم پر مکمل پابندی کا مطالبہ کرتی ہے، فلم 30 جنوری 2022 کو بھارت میں او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز ہونے جارہی ہے۔ فلم میں گاندھی کے غدار اور قاتل نتھورام گوڈسے کی تعریف کی گئی ہے۔

    خط کے مطابق گاندھی جی وہ شخصیت ہیں جن کی تعریف پورا ملک اور پوری دنیا کرتی ہے، گاندھی جی کا نظریہ ہر ہندوستانی کے لیے محبت اور قربانی کی علامت ہے۔

    ایسوسی ایشن کی جانب سے مزید کہا گیا کہ نتھو رام گوڈسے کسی عزت کے مستحق نہیں، اگر یہ فلم ریلیز ہوتی ہے تو پورا ملک حیرانی اور صدمے سے دوچار ہوگا۔

    خط میں لکھا گیا کہ وہ اداکار جس نے نتھورام گوڈسے کا کردار ادا کیا ہے، لوک سبھا میں موجودہ رکن پارلیمنٹ ہے، اگر یہ فلم ریلیز ہوتی ہے تو 30 جنوری 1948 کو ہونے والے گھناؤنے جرم کی نمائش سے پوری قوم شرمندہ ہوگی۔

    ایسوسی ایشن نے خط میں فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    مذکورہ فلم سنہ 2017 میں بنائی گئی تھی جو اب 30 جنوری کو مہاتما گاندھی کی برسی کے موقع پر ریلیز کی جائے گی۔

  • بھارت میں گاندھی کا مجسمہ گرا دیا گیا

    بھارت میں گاندھی کا مجسمہ گرا دیا گیا

    نئی دہلی: بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ میں نامعلوم افراد نے تاریخی مقام پر نصب مہاتما گاندھی کا مجسہ گرا دیا، پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کردی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ جھاڑ کھنڈ کے شہر ہزاری باغ میں پیش آیا، مجسمہ دریائے کنر کے کنارے گاندھی گھاٹ پر نصب تھا جہاں گاندھی کے جسم کی راکھ بہائی گئی تھیں۔

    واقعہ رات کے اندھیرے میں پیش آیا جب نامعلوم افراد نے گاندھی کے مجسمے کو نقصان پہنچایا اور اسے توڑ دیا۔

    علاقے کے ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ واقعے کی تفتیش شروع کردی گئی ہے جبکہ جائے وقوع پر پولیس اہلکاروں کو بھی تعینات کردیا گیا ہے۔ گاندھی کا نیا مجسمہ اسی مقام پر جلد ہی نصب کردیا جائے گا۔

    ڈپٹی کمشنر کے مطابق علاقے کے ایم ایل اے سے فنڈز کے لیے درخواست کی جائے گی تاکہ اس مقام پر سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نصب کیا جائے۔

    یاد رہے کہ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں تشدد کا نظریہ پروان چڑھ رہا ہے اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے نظریے کی کھلے عام مخالفت کی جارہی ہے۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے تشدد اور انتہا پسندی کے پیرو کاروں کی ہمت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ کھلے عام گاندھی کو برا بھلا کہتے دکھائی دیتے ہیں اور کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

    ایسا ہی ایک ششدر کردینے والا واقعہ گزشتہ برس گاندھی کی برسی کے موقع پر پیش آیا تھا جب علی گڑھ میں انتہا پسند ہندوؤں نے گاندھی کے قتل کا جشن منایا تھا۔

    انتہا پسند تنظیم ہندو مہاشبا تحریک کی جنرل سیکریٹری پوجا شاکون کی قیادت میں گاندھی کے قتل کا منظر دوبارہ پیش کیا گیا تھا، انتہا پسند تنظیم کی رہنما نے گاندھی کے پتلے پر گولی چلائی اور خون کی تھیلی پھٹنے سے زمین پر خون بہنے لگا۔

    جیسے ہی پتلے سے خون بہا تو ہندو انتہا پسندوں نے ’مہاتما نتھو رام گوڈسے (گاندھی کا قاتل) ہمیشہ زندہ رہے گا، آج آل انڈیا ہندو مہاشبا کی فتح کا دن ہے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے نتھو رام گوڈسے کے پتلے پر ہار ڈالا اور گاندھی کو قتل کرنے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی۔

  • بھارتی حکومت مہاتما گاندھی کے قاتل کی پیروکار ہے: فواد چوہدری

    بھارتی حکومت مہاتما گاندھی کے قاتل کی پیروکار ہے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آج بھارتی حکومت مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کی پیروکار ہے، مہاتما گاندھی یہ دیکھ کر دکھی ہوں گے کہ بھارت میں انتہا پسند حکومت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ آج برصغیر کے عظیم لیڈر مہاتما گاندھی کی سالگرہ ہے، مہاتما گاندھی یہ دیکھ کر دکھی ہوں گے کہ بھارت میں انتہا پسند حکومت ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آج بھارتی حکومت مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کی پیروکار ہے، وزیر اعظم مودی اور ان کے ساتھی آر ایس ایس فلسفے کی توسیع ہیں۔

    اس سے قبل ایک موقع پر ان کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، کشمیر کے معاملے پر دنیا پر انحصار نہیں کر سکتے، کشمیر کی جنگ خود لڑنا ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ چین اور ترکی کے شکر گزار ہیں، انہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں تمام لیڈر شپ کو بند کر دیا گیا ہے، پوری کشمیری قوم نے مودی کے جارحانہ اقدام کو مسترد کردیا ہے۔

    وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ پاکستان عراق یا افغانستان نہیں، بھارت کو منہ توڑ جواب دیں گے، دنیا کی بڑی فوج پاکستان کے پاس ہے، کرتار پور پر بھی بھارت کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

  • پرینکا کی مقبولیت نے مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    پرینکا کی مقبولیت نے مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    لکھنؤ: پرینکا گاندھی کی مقبولیت نے کانگریس میں‌ نئی روح‌ پھونک دی، نریندر مودی کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ 

    تفصیلات کے مطابق جوں جوں‌ عام انتخابات قریب آرہے ہیں، مودی سرکار کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، لکھنؤ میں‌ پرینکا گاندھی کی ریلی کو ملنے والے ردعمل کے بعد سیاسی ماحول گرم ہوگیا.

    اندرا گاندھی کی پوتی پرینکا گاندھی نے اب عملی سیاست میں قدم رکھ دیا ہے، اس فیصلے  کے بعد کانگریس کے کارکنوں میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔

    پرینکا گاندھی نے اپنی سیاست کا آغاز لکھنو سے کیا، جہاں‌ان کی ریلی کو شان دار پذیرائی ملی، جہاں‌ ہزاروں ان کے استقبال کے لیے پہنچے.

    ان دوران کانگریس کے حق میں نعرے لگتے رہے، پرینکا کی ریلی پر گل پاشی ہوتی رہی، اس موقع پر راہول گاندھی بھی موجود تھے.

    مزید پڑھیں: بھارت میں موروثی سیاست، گاندھی خاندان سے ایک اور چہرہ متعارف

    خیال رہے کہ ماضی میں پرینکا پردے کے پیچھے رہتے ہوئے پارٹی معاملات سنبھال رہی تھیں، البتہ اب وہ اتر پردیش سے ہی آئندہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں.

    یاد رہے کہ گذشتہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کو بی جی پی کے مقابلے میں غیرمتوقع کامیابی حاصل ہوئی تھی.