Tag: گاندھی جی

  • قدیم ہندی تصوّراتِ فلسفہ اور گاندھی

    قدیم ہندی تصوّراتِ فلسفہ اور گاندھی

    موہن داس کرمچند گاندھی ایک زیرک سیاست داں اور سماجی مصلح تھے جنھیں ‘مہاتما’ کہا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی تسلط سے آزادی کی جدوجہد اور غریب ہندوستانیوں کے حقوق کے لیے کوششوں‌ کے علاوہ ان کا سادہ طرزِ زندگی اور خاص طور پر عدم تشدد کا فلسفہ دنیا اور بالخصوص ہندوستان میں ان کے احترام کی ایک وجہ ہے۔ ہندوؤں ہی میں نہیں‌ بلکہ یہاں کے مسلمانوں اور دوسری مذہبی اور ثقافتی اقلیتیں‌ بھی گاندھی جی کی تعلیمات سے متأثر رہی ہیں۔

    سید عابد حسین کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ بیسویں صدی کے ادیب اور دانش ور تھے جن کی ایک تحریر سے یہ اقتباسات ہندوستانی مشاہیر کے افکار و ںظریات میں دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے پیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    دراصل گاندھی جی کے فلسفے میں کوئی خیال نیا نہیں۔ یہ سب تصورات قدیم ہندی فلسفے میں پائے جاتے ہیں۔ نئی چیز وہ ربط ہے جو گاندھی جی نے ان میں پیدا کیا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ انھوں نے اس سلسلے کی ایک ایک کڑی کو اپنی زندگی میں عمل اور تجربے کی کسوٹی پر کسنے کے بعد قابلِ قبول سمجھا۔

    مشہور حکیموں میں گاندھی جی سے پہلے فلسفے کے اصول روزمرہ کی عملی زندگی سے اخذ کرنے کی خصوصیت سقراط میں پائی جاتی ہے۔ ان دونوں میں اور بھی باتیں مشترک ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دونوں کے یہاں فلسفے کی بحثوں میں زندگی کی حرکت اور حرارت ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدود ادب سے مل جاتی ہیں۔

    اگر ہم فلسفی اور ادیب کی منطقی تعریف کے جھگڑے میں نہ پڑیں اور سیدھے لفظوں میں ان دونوں اصطلاحوں کا مطلب سمجھانا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں فلسفی وہ ہے جو دنیا اور انسانی زندگی کی حقیقت کو خواہشات اور جذبے سے الگ ہو کر مجرد تصورات کی مدد سے سمجھے اور سمجھائے، اور ادیب وہ ہے جو اس حقیقت کو فکر، احساس اور آرزو کی سموئی ہوئی نظر سے دیکھے اور دکھائے۔ جب تک انسانی ذہن میں تازگی، سادگی آواز، بے ساختہ پن موجود تھا فلسفی اور ادیب دونوں زندگی اور دنیا کا براہِ راست مشاہدہ کر کے اپنی ذاتی فکر کے نتیجوں کو فلسفے اور ادب کے نام سے پیش کرتے تھے، مگر جب یہ ذہن روایات کے بوجھ میں دب کر جولانی اور اپج سے محروم ہو گیا تو فلسفی اسے کہنے لگے جو روایتی فلسفے کے چشمے سے اور ادیب اسے جو روایتی ادب کی عینک سے حقیقت کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرے۔

    جہاں تک گاندھی جی کے فلسفے کا تعلق ہے، ظاہر ہے اس پر اس مختصر مضمون میں تفصیلی بحث تو ہو نہیں سکتی، ہم صرف ان کے حیات و کائنات کے بنیادی تصور پر ایک سرسری نظر ڈال سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان کی فلسفیانہ فکر کا موضوع اور مقصد کیا ہے۔ وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں ’’وہ چیز جس کی مجھے تلاش ہے، جس کی آرزو اور سعی میں تیس سال سے بے چین ہوں۔ معرفتِ نفس، دیدارِ الٰہی، حصولِ موکش ہے۔ یہی تلاش، یہی کوشش میرا اوڑھنا بچھونا ہے، یہی میری زندگی ہے۔ میری تحریر و تقریر کا میری سیاسی جد و جہد کا یہی مقصد ہے۔‘‘

    اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ عہدِ قدیم کے ہندی فلسفیوں کی طرح گاندھی جی کے یہاں بھی فلسفے اور مذہب کی حدود الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ان کے موضوع فکر میں مابعد الطبیعیات اور الٰہیات ایک دوسرے سے ملے جلے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد صرف نظری نہیں بلکہ عملی بھی ہے۔ عہد جدید کے فلسفی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتے ہیں۔ الٰہیات سے انھیں عام طور پر دلچسپی نہیں ہوتی، اور اگر ہو بھی تو وہ صرف سرچشمۂ حقیقت کا پتہ چلانے تک محدود ہوتی ہے، مگر گاندھی جی اس کے علاوہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کا پتہ چلانے کے بعد روحِ انسانی کو وہاں تک پہنچانے اور سعادت ابدی کا وہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں، جسے مذہب کی اصطلاح میں نجات کہتے ہیں۔

    لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ موضوع اور مقصد کے لحاظ سے تو گاندھی جی کی فکر عہد قدیم اور عہد وسطیٰ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، لیکن سوچنے کا طریقہ انھوں نے ایسا اختیار کیا ہے جو عہد جدید کی علمی تحقیق کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ فلسفے کی تعریف میں عہد جدید کی یہ خصوصیت سمجھی جاتی ہے کہ بیکن سے لے کر کانٹ تک مفکروں کے ایک پورے سلسلے نے نظریۂ علم کے مسائل پر غور کر کے تجربے اور مشاہدے کے طریقۂ تحقیق کو نشو و نما دی۔ یوں تو یہ طریقہ یونانیوں کے یہاں موجود تھا اور عربوں نے اسے خاصی ترقی دی تھی، لیکن عہد وسطیٰ میں اسے ترک کر دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلسفہ بے سر و پا خیال آرائیوں میں پڑ گیا اور حقیقی علمی ترقی رک گئی۔ عہد جدید کے ہر ادیبوں نے اسے پھر سے زندہ کیا اور تکمیل کو پہنچایا اور اس کے فیض سے علومِ طبیعی نے جو سائنس کہلاتے ہیں حیرت انگیز ترقی کی، گاندھی جی نے جدید فلسفے یا سائنس کی باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی۔ لیکن جب وہ بیرسٹری کا ڈپلوما لینے کے لیے انگلستان گئے تو انھوں نے اصولِ قانون کا مطالعہ کیا اور اپنے خداداد ذوقِ صحیح کے بدولت علمی طریقِ فکر کو اپنا لیا۔ جتنی چیزیں علمی مشاہدے کے لیے ضروری ہیں….احساسِ ذمہ داری، ذہنی دیانت، صبر احتیاط، جذبات اور خواہشات سے الگ ہو کر ہر چیز کو معروضی نظر سے دیکھنا، اپنے مشاہدے کے نتائج کو بغیر کسی رنگ آمیزی کے اصلیت میں ڈوبی ہوئی سادگی کے ساتھ بیان کرنا، غرور اور ادعا کے بجائے عاجزی اور انکساری سے کام لینا….وہ سب گاندھی جی میں اسی حد تک موجود تھیں، جتنی آج کل بڑے سے بڑے فلسفی یا سائنس داں میں ہوتی ہیں۔ بلکہ ان کے مذہبی جذبے نے ان صفات میں اور زیادہ وسعت اور گہرائی پیدا کر دی تھی۔ وہ ان تجربوں کے متعلق جو تلاش حق میں فرماتے ہیں،

    ’’میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ یہ تجربے مکمل ہیں۔ میں انھیں اس سے زیادہ قابل وثوق نہیں سمجھتا جتنا ایک دیانت دار سائنس داں اپنے تجربوں کو سمجھتا ہے۔ وہ بہت صحت کے ساتھ خوب سمجھ بوجھ کر ذرا ذرا سی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے تجربے کرتا ہے، مگر پھر بھی اسے یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ نتیجے اسے حاصل ہوئے، وہ آخری اور قطعی ہیں بلکہ وہ ان میں ترمیم اور اصلاح کی گنجائش سمجھتا ہے۔ میں نے بہت گہرے مشاہدۂ باطن سے کام لیا ہے۔ اپنے نفس کو اچھی طرح ٹٹولا ہے اور ہر نتیجوں پر پہنچا ہوں، وہ آخری اور قطعی یا خطا سے بری ہیں۔ البتہ اتنا دعویٰ مجھے ضرور ہے کہ میری ذات کے لیے یہ نتیجے بظاہر بالکل صحیح اور فی الحال قطعی ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ان پر اپنے عمل کی بنیاد نہ رکھتا۔ لیکن میں نے ہمیشہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے غور کر لیا ہے کہ کس نتیجے کو قبول کروں اور کسے رد کروں اور اس کے بعد جو رائے قائم ہوئی اس پر عمل کیا ہے۔‘‘

  • ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    مولانا حبیب الرّحمٰن کے بیٹے عزیز الرّحمٰن جامعی نہایت ہوشیار نوجوان تھے، انہیں شوق تھا کہ بڑے بڑے آدمیوں سے ملتے، والد کا ذکر کرتے اور کوئی نہ کوئی خبر اڑا لاتے، ان دنوں زعمائے احرار کی خبروں کا منبع عزیز الرّحمٰن ہی تھے۔ گاندھی، نہرو آزاد وغیرہ کے ہاں تو ان کا آنا جانا روز ہی کا تھا، ان سے ملاقات نہ ہوتی، ان کے سیکرٹریوں سے مل آتے، سیکرٹریوں سے نہ ملتے، تو ان کے سٹینو گرافروں سے مل آتے لیکن خبریں زور کی لاتے اور اکثر خبریں صحیح نکلتی تھیں۔

    ایک دن میں نے اور نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ان سے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کی راہ نکالو، عزیز نے کہا کہ ’’ابھی چلو، گاندھی جی نے بھنگی کالونی میں کٹیا ڈال رکھی ہے، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔‘‘ ہم تیار ہو گئے۔

    میں، نواب زادہ، انور صابری اورعزیز الرّحمٰن بھنگی کالونی پہنچے تو گاندھی جی وائسریگل لاج گئے ہوئے تھے۔ ان کی کٹیا ہری جنوں کی بستی کے بیچوں بیچ لیکن کھلے میدان میں تھی۔ کوئی تیس گز ادھر بانس بندھے ہوئے تھے اور یہ کھلا دروازہ تھا۔ یہاں سے قریب ہی ایک خیمہ تھا، جس میں رضاکاروں کا سالار رہتا، ادھر ادھر کچھ چارپائیاں پڑی تھیں۔ کرسیوں کا نشان تک نہ تھا، گاندھی جی کی بیٹھک کا تمام حصہ فرشی تھا، کچھ دیر تو ہم بعض دوسرے مشتاقین کے ساتھ بانس کے دروازے پر کھڑے رہے، پھر عزیز الرّحمن نے ہمت کی اور پیارے لال کو کہلوایا، اس نے بلوایا، پیارے لال گاندھی جی کا سکریٹری تھا، عزیز الرّحمٰن نے اس سے کہا کہ ’’ہم اس غرض سے آئے ہیں۔‘‘ وہ نیم راضی ہوگیا، کہنے لگا ’’آپ سامنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھیں، باپو ابھی آتے ہیں، ان کی مصروفیتیوں کا تو آپ کو اندازہ ہے، ممکن ہے کوئی اور وقت دیں۔‘‘

    ہم ٹھہر گئے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ میں ان دنوں کھدر پہنتا لیکن سر پر جناح کیپ رکھتا تھا۔ انور صابری نے قلندروں کا جھول پہن رکھا اور عزیز الرّحمٰن مولویوں کے چغہ میں تھا۔ کوئی چالیس منٹ ٹھہرے ہوں گے کہ گاندھی جی کی کار کی آمد کا غل ہوا۔ اتنے میں درجن ڈیڑھ درجن دیویاں بھی آگئیں، گاندھی جی کی کار سڑک سے اندر داخل ہوئی، دیویوں نے پاپوشی کرنی چاہی لیکن گاندھی جی تیر کی طرح نکل کر ہمارے پاس رک گئے۔ ہم نے ہاتھ اٹھا کر آداب کیا، مسکرائے۔

    ’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’پنجاب سے۔‘‘

    ’’آپ نے بہت تکلیف کی؟‘‘۔

    ’’جی نہیں، ہم آپ کے درشن کرنے آئے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے کہا: ’’مہاتما جی! میں مولانا حبیب الرّحمٰن لدھیانوی کا بیٹا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا! وہ مولوی صاحب جو مجھ سے بہت لڑتے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے ہم تینوں کا تعارف کرایا، گاندھی جی مسکراتے رہے۔ ملاقات کا وقت مانگا، گاندھی جی نے ہامی بھر لی، کہا: ’’آپ لوگ پرسوں شام پانچ بجے آدھ گھنٹے کے لیے آجائیں۔‘‘

    عزیز نے کہا:’’آپ کے سیکریٹری ٹرخا دیتے ہیں، ذرا ان سے بھی کہہ دیں۔‘‘

    گاندھی جی نے کہا:’’کوئی بات نہیں، یہ کھڑے ہیں، ان سے میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘ مزید کہا: ’’کل بھی میں آپ کو بلا سکتا ہوں لیکن کل میرا مون برت ہے۔ آپ باتیں کریں، تو میں سلیٹ پر لکھ کر جواب دوں گا، کچھ کہنا سننا ہے، تو پرسوں کا وقت ٹھیک رہے گا۔‘‘

    ہم نے صاد کیا ، گاندھی جی نے ہاتھ باندھ کر پرنام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کٹیا میں داخل ہوگئے۔ دوسرے لوگ ہمیں حیرت سے تکتے رہے۔

    (1946 میں شورش کاشمیری نے دہلی میں قیام کے دوران کئی قومی لیڈروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں جن کا ذکر اپنی کتاب بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل میں کیا ہے، یہ پارہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • ‘مسلمان ہی اردو کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں!’

    ‘مسلمان ہی اردو کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں!’

    "یوں تو اردو ہندی کا جھگڑا برسوں سے چلا آ رہا تھا، لیکن اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب گاندھی جی نے بھارتیہ ساہتیہ پریشد ناگپور کے جلسے (1936ء) میں برصغیر کی مجوزہ قومی زبان کو "ہندوستانی” کے بجائے ہندی، ہندوستانی کا نام دیا۔”

    اور وضاحت طلب کرنے پر کہا: "ہندی ہندوستانی” سے مراد ہندی ہے۔ اردو کے متعلق فرمایا: "یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے اور مسلمان ہی اس کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں۔”

    جامعہ ملّیہ دہلی کے پروفیسر محمد مجیب نے گاندھی جی کو انگریزی میں طویل خط لکھا جسے پنڈت نہرو نے پریشد کے اجلاس 1936ء میں پڑھ کر سنایا۔ لیکن گاندھی جی نے کوئی توجہ نہ دی۔ یہ خط گاندھی جی کی تصنیف "آوَر لینگوئج پرابلم (Our Language Problem)” میں شامل ہے اور ہندی اردو تنازع کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔

    اس خط کے اردو ترجمہ کو نگار میں‌ جگہ دیتے ہوئے فرمان فتح پوری مزید لکھتے ہیں کہ میں شکر گزار ہوں کہ میری گزارش پر سحر انصاری صاحب نے اسے اردو میں منتقل کرنے کی زحمت فرمائی۔

    اس خط سے یہ اقتباسات علمی و ادبی ذوق کے حامل قارئین کی دل چسپی کا باعث اور بالخصوص متحدہ ہندوستان کی تاریخ اور زبان و ادب کے طالبِ علموں کے لیے معلومات افزا ہوں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "میں بالکل شروع سے اپنی بات کا آغاز کروں گا۔”

    "گزشتہ کئی سال سے کانگریس ایک مشترکہ سیاسی مقصد کے لازمی جزو کے طور پر ایک مشترکہ زبان کی حمایت کر رہی ہے۔ ادبی نقطۂ نگاہ سے عوامی مقررین اس باب میں متعدد فروگزاشتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں اس نے سادگی اور بے تکلفی کا ایسا معیار پیدا کر دیا ہے جو اس سے قبل مفقود تھا۔ حتّٰی کہ مولانا سید سلیمان ندوی جیسے ادیب جن کی ساری زندگی عربی کتب کے مطالعے اور ناقابلِ تحریف اصطلاحات کے حامل موضوعات کو برتنے میں گزری ہے، پورے خلوص کے ساتھ اپنی زبان کو آسان کرنے اور ہندوستانی سے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ایک مشترکہ ہندوستانی زبان کا تصور انہیں بے حد عزیز ہے۔”

    "کانگریسی حلقوں میں اس مشترکہ زبان کو "ہندوستانی” کہا جاتا ہے، حالانکہ کانگریس نے اس نام کے سلسلے میں اردو اور ہندی بولنے والوں کے مابین کوئی قطعی مفاہمت پیدا نہیں کی ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں نام اپنے تلازمات کی بنا پر بے پایاں سیاسی و سماجی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اپنی مشترکہ زبان کا نام تجویز کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔”

    "اب تک اردو ہی ایک ایسی زبان رہی ہے جو کسی ایک صوبے یا مذہبی فرقے تک محدود نہیں، سارے ہندوستان کے مسلمان یہ زبان بولتے ہیں اور شمال میں اس زبان کے بولنے والے ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے زیادہ رہی ہے۔ اگر ہماری مشترکہ زبان کو اردو نہیں کہا جاسکتا تو کم از کم اس کا ایک ایسا نام ضرور ہونا چاہیے جس سے مسلمانوں کا یہ مخصوص منصب مترشح ہو سکے کہ انہوں نے ایک ایسی زبان کے ارتقا میں حصہ لیا ہے جو کم و بیش ایک مشترکہ زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔”

    "ہندوستانی” سے یہ مقصد حل ہو سکتا ہے، "ہندی” سے نہیں۔ ماضی میں مسلمانوں نے یہ زبان (ہندی) پڑھی ہے، اور اگر زیادہ نہیں تو اپنے ہندو بھائیوں ہی کے برابر انہوں نے بھی اسے ادبی زبان کے مرتبے تک پہنچانے میں حصہ لیا ہے۔ لیکن اس کے کچھ مذہبی اور ثقافتی تلازمات بھی ہیں جن سے مسلمان من حیث المجموع خود کو وابستہ نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں، اب یہ اپنا ایک الگ ذخیرۂ الفاظ وضع کر رہی ہے ، اور یہ ان افراد کے لیے عمومی طور پر ناقابلِ فہم ہے جو صرف اردو جانتے ہیں۔”

    "اردو اور ہندوستانی کے بجائے اگر ہندی اور ہندوستانی کے مابین خلط مبحث پیدا کرنے کا ایک واضح رجحان نہ پایا گیا ہوتا تو اس امر پر زور دینے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ گزشتہ سال اندور میں آپ کی تقریر نے یہ قطعی تأثر دیا کہ آپ دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں اور "ہنس” کے پہلے شمارے کے لیے اپنے پیش نامے میں آپ نے دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے۔”

    "مجھے پورا یقین ہے کہ ہندی سے آپ کی مراد بنیادی طور پر عام لوگوں کی زبان ہے۔ ایک ایسی زبان جو وہ بولتے ہیں اور جو ان کی تعلیم کے بہترین ذریعے کے طور پر کام آ سکتی ہے۔ لیکن متعدد ایسے افراد کے لیے جو اس کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کوشاں ہیں، "ہندی” ایسی کوئی زبان نہیں ہے۔ چنانچہ جب وہ ہندی کو ہندوستانی کا متبادل بنا کر پیش کرتے ہیں تو وہ دراصل ایک ذخیرۂ الفاظ ایک ذوق اور سیاسی و مذہبی وابستگیوں کو متعارف کرتے ہیں۔ میں اسی رجحان کے خلاف آپ سے اپیل کر رہا ہوں کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بھارتیہ ساہتیہ پریشد بھی اس کا شکار ہو گئی ہے۔”

    "میں پریشد کی تشکیل پر خوش ہونے والوں میں سے ایک تھا، کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ یہ ایک مشترکہ زبان کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرے گی۔ میں نے "ہنس” کی اشاعت کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔ میں پریشد کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اگر "ہنس” کے شمارے اس کے رویے اور حکمت عملی کی ذرا سی بھی غمازی کرتے ہیں تو اس سے بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ منشی پریم چند صاحب اس وقت شاید ہماری سب سے بڑی ادبی شخصیت ہیں، وہ ان کمیاب شخصیتوں میں سے ہیں جن کے لئے ادب ذاتی اظہارِ رائے کا ذریعہ بھی ہے اور خدمتِ خلق کا بھی۔ وہ اردو اور ہندی پر یکساں عبور رکھتے ہیں اور ان میں ہندو مسلم تہذیب کے بہترین ادبی و سماجی روایات کا امتزاج ملتا ہے، "ہنس” کو وہی زبان استعمال کرنی چاہیے تھی جو وہ خود لکھتے ہیں اور اسی روایت کا نقیب بننا چاہیے تھا جس کی وہ خود نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور یہی میرا سارا کرب ہے۔”

    "ہنس” واضح طور پر ایک فرقہ پرست رسالے کا تأثر دیتا ہے۔ دوسرے ہندی رسائل کے مقابلے میں یہ زیادہ سنسکرت آمیز ہندی استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جسے کسی طرح بھی ہندوستانی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے نقطۂ نظر یا انتخاب مضامین سے ہرگز یہ تاثر قائم نہیں ہوتا کہ ہنودستانی قوم مختلف معاشرتوں کا مجموعہ ہے یا یہ کہ ایک کے سوا کوئی اور ثقافت بھی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ اس سے اتحاد کی نہیں بلکہ سامراجیت کی بو آتی ہے۔”

    "ایک چھوٹی سی مثال سے میرا موقف واضح ہو جائے گا، ساہتیہ پریشد کو "بھارتیہ” کہا گیا ہے نہ کہ ہندوستانی۔ ایسا کیوں ہے؟”

    "اگر بھارت کا کوئی مطلب ہے تو صرف یہ کہ یہ آریوں کا ہندوستان ہے جس کی زندگی میں نہ صرف مسلمانوں اور ان کی خدمات کو بلکہ صدیوں کے ارتقاء اور تغیر کو بھی کوئی مقام حاصل نہیں۔ کیا اس سے علیحدگی پسندی اور رجعت پسندی کا اظہار نہیں ہوتا ہے؟ پھر ہمیں جو گشتی مراسلے ہندی میں بھیجے گئے ہیں ان میں بات چیت کی زبان کے دو یا تین سے زیادہ الفاظ نہیں ہیں۔ عام ہندی کے [नीचे लिखे हुए] (نیچے لکھے ہوئے) کی جگہ [निम्न लिखित] (نیمن لکھت) جیسے خالص سنسکرت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ چنانچہ ناگری رسمُ الخط سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود میرے لیے بھی یہ ناقابلِ فہم ہیں۔”

    "یہ امر بالکل واضح ہے کہ فنّی اصطلاحات کے لحاظ سے سنسکرت اور عربی دونوں زبانیں بھرپور ہیں لیکن ایک عام ہندوستانی زبان ان میں سے کسی ایک پر بھی مکمل انحصار نہیں کر سکتی کیونکہ اگر عربی ایک بدیسی زبان ہے تو سنسکرت بھی کبھی عام بول چال کی زبان نہیں رہی ہے۔ بول چال کی ہندی کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوگا کہ اس میں شامل شدہ تمام سنسکرت الفاظ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصے تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندوستان کے عام لوگ آسانی سے ان کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے۔”

    "ہندی کے بیشتر حامیوں نے یہ سارے حقائق نظر انداز کر دیے ہیں اور یہ اور کئی دوسرے الفاظ کے اصل سنسکرت متبادل شامل کر دیے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ سب کچھ ادعائے فضیلت کا نتیجہ ہے یا ناواقفیت کا یا تعصب کا؟ کیونکہ سنسکرت کے بول چال کے تو سارے الفاظ اردو میں شامل ہی ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور واضح ہے کہ ان دوستوں کا براہِ راست تعلق زندہ اور بولی جانے والی زبان کی ترویج و اشاعت سے نہیں بلکہ ہندوستانی زندگی کو آریائی طرز پر ڈھالنے سے ہے۔ اگر ہمارے ہندو بھائی اپنے اندر اصلاح یا رجعت کی کوشش کر رہے ہیں تو مسلمانوں کو اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں لیکن مشترک دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اس قسم کی تحریکوں کو لسانی مسئلہ سے سختی کے ساتھ دور رکھا جائے۔”

    "عقیل صاحب کے ایک خط کے جواب میں شری کے۔ ایم۔ منشی نے کہا ہے کہ: "گجرات، مہاراشٹر، بنگال اور کیرالا کے لوگوں نے ایسی ادبی روایات استوار کی ہیں جن میں خالص اردو عناصر تقریباً مفقود ہیں۔ اگر ہم ہندی کی طرف متوجہ ہوئے تو فطری طور پر ہم سنسکرتی ہندی کی طرف متوجہ ہوں گے۔”

    "سب سے پہلے تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ گجراتی، مرہٹی اور بنگالی، ان ساری زبانوں میں فارسی کے الفاظ کی خاصی تعداد موجود ہے۔ نیز یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ایک دوسرے سے اور مسلمانوں سے قریب آنے کے لیے گجرات اور بنگال کے ہندوؤں کو سنسکرت آمیز زبان اختیار کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں ہمیں خالص اردو عناصر سے نہیں بلکہ شمالی ہند کی زندہ زبان اور محاوروں سے سروکار ہے۔ اگر اس زندہ زبان اور محاورے کو ایک مشترکہ زبان کی بنیاد بنایا جائے تو مسلمان مؤثر طور پر تعاون کر سکتے ہیں۔ سنسکرت کی سمت مراجعت کا مطلب یہ ہے کہ ہندی، بنگالی اور گجراتی کے سلسلے میں مسلمانوں کی گزشتہ خدمات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ان حالات میں ہم سے تعاون کے لیے کہنا ایسا ہی ہے جیسے ہم سے کہا جائے کہ خودکشی کے لیے رضامند ہو جاؤ۔”

    "یہ امر کہ ہندی اردو کا سوال عنقریب ایک فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر سکتا ہے، اس تقریر سے ظاہر ہے جو مسٹر پرشوتم داس ٹنڈن نے اس ماہ کے پہلے ہفتے میں بنارس میں ہندی میوزیم کی افتتاحی تقریب میں کی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ چینی کے بعد ہندی دوسری زبان ہے جو ایشیا کے طول و عرض میں بولی جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک مشترکہ زبان کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اور وہ ہندی ہوگی، کیونکہ ہندوستانیوں کی اکثریت ہندی بولتی ہے۔ جو لوگ ہندوستانی کا نعرہ بلند کریں انہیں اکثریت دبا دے گی۔ لہذا ان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن سروں کا گننا اور سروں کا توڑنا کوئی مداوا نہیں ہے۔ مسٹر ٹنڈن کا حقیقی مفہم خواہ کچھ ہی ہو لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے Cummunal award کی طرح کی ایک اور شرمناک صورت حال کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے۔”

    "اب آپ کا وقار اور آپ کی شخصیت کا عطا کردہ اعتماد ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ میں ذیل میں چند ایسے نکات پیش کر رہا ہوں جو میری ناچیز رائے میں اعتدال پسندانہ ہیں اور ایک مشترکہ زبان کے لیے صحت مند اساس مہیا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نہ صرف اپنے نقطۂ نظر سے بلکہ ایک مقصد کی بجاآوری کے نقطۂ نظر سے ان پر غور کریں اور انہیں کسی قابل سمجھیں تو آپ انہیں دوسروں تک بھی پہنچا دیجیے۔ میرے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ یہ عوام کے سامنے آپ کے کسی اعلان کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

    نکات یہ ہیں کہ:

    1۔ ہماری مشترکہ زبان کو "ہندی” نہیں بلکہ "ہندوستانی” کہا جائے گا۔

    2۔ ہندوستانی کا کسی بھی فرقے کی مذہبی روایات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوگا۔

    3۔ "بدیسی” یا "دیسی” کے معیار پر کسی لفظ کو نہیں پرکھا جائے گا بلکہ استعمال کو سند مانا جائے گا۔

    4۔ اردو کے ہندو ادیبوں اور ہندی کے مسلمان ادیبوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سب کو رائج سمجھا جائے گا۔ بلاشبہ، اردو اور ہندی پر الگ الگ زبانوں کی حیثیت سے اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

    5۔ فنی اصطلاحوں بالخصوص سیاسی اصطلاحات کے انتخاب میں صرف سنسکرت ہی کو ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ اردو، ہندی اور سنسکرت کی اصطلاحوں سے فطری انتخاب کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے گا۔

    6۔ دیوناگری اور عربی ہر دو رسم الخط مستعمل اور سرکاری سمجھے جائیں گے۔ ان تمام اداروں میں جن کی پالیسی ہندوستانی کے سرکاری فروغ دہندگان مرتب کریں گے، ہر دو رسم الخط کے سیکھنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔

    کچھ ایسے دوست بھی ہوں گے جنہیں یہ تجاویز مسلم مطالبات قسم کی چیز معلوم ہوں گے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ کی اور پریشد کی جانب سے اس قسم کی کسی یقین دہانی کے بغیر، ایک مشترکہ زبان کے سلسلے میں مسلمانوں کی ادبی جدوجہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے میں نے یہ تجاویز آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔”

    "میں جانتا ہوں کہ اگر یہ حد سے متجاوز ہیں تو آپ مجھے معاف کر دیں گے اور اگر یہ نامناسب ہیں تب بھی آپ کی اہانت کا باعث نہیں بنیں گی۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں صرف اپنا فرض ادا کرنا اور آپ سے ایک درخواست کر کے آپ کے فیصلے کے ضمن میں اپنی بے پایاں عقیدت اور آپ کے گہرے احساسِ انصاف و تحمل پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔”

    (اماخوذ از رسالہ: نگار، اردو ترجمہ: سحر انصاری)

  • 3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہاں مالک و مختار بنا کر بھیجا گیا۔ وہ متحدہ ہندوستان (برٹش انڈیا) کا آخری وائسرائے تھا جسے آنے والے دنوں میں یہاں کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین اور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا جس کے ساتھ ہی ہندوستان سے برطانیہ کا اقتدار بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا۔

    ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سے بات چیت اور مذاکرات کیے جب مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن اور خودمختار و آزاد ریاست کے لیے اکٹھے ہوچکے تھے اور کسی قیمت پر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور متحدہ ہندوستان میں حکومت کرنے کا کوئی فارمولا اور آئینی راستہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

    ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے نوآبادیات کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، بالخصوص ہندوستان میں آزادی کے لیے مزاحمت، سیاسی دباؤ اور نوآبادیات میں‌ انتشار اور افراتفری نے برطانوی حکومت کی پریشانیاں بڑھا دی تھیں جس کی شدّت کو کم کرنے کے لیے ماؤنٹ بیٹن کو بھیجا گیا اور متحدہ ہندوستان کو قائم رکھنے کے لیے بات چیت میں ناکامی کے بعد تقسیم کا اعلان کردیا گیا۔

    اس موقع پر ایک مرتبہ پھر انگریزوں کی مکّاری اور مسلمان دشمنی کے ساتھ ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا اور انگریزوں نے مسلمانوں کے باب میں جو جو زیادتیاں اور نا انصافیاں کیں، وہ ایک اور نہایت دردناک داستان ہے۔

    مسلمانانِ برصغیر کی آزادی اور خود مختاری انھیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریس نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ آزاد اور خود مختار ریاستوں کا الحاق انڈین یونین سے کیا جائے گا جب کہ ایک اجلاس میں پارلیمنٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ برطانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ریاستوں کی آزاد حیثیت بحال ہوجائے گی، لیکن حیدرآباد دکن، جودھ پور، جونا گڑھ، بھوپال، بیکانیر اور میسور کے ساتھ جو کچھ ہوا ایک علیحدہ دل خراش داستان ہے۔ اضلاع اور سرحد کی تقسیم میں ناانصافیوں کے ساتھ قتل و غارت گری، دھمکیوں اور دباؤ کے شرم ناک اور اوچھے ہتھکنڈے اسی ماؤنٹ بیٹن اور ہندوؤں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھے۔

    3 جون 1947ء ہندوستان کی تاریخ میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز موقع پر ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا تھا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس سے پہلے ہندوستان کا مسئلہ آئینی طریقے سے حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے جتنی بھی کوششیں کی تھیں، وہ ناکام ہوگئی تھیں۔ اس دن طے پایا تھا کہ ہندوستان کو ہندو اکثریت اور مسلمان اکثریت والے علاقوں میں بانٹ دیا جائے گا مگر ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا اور کھلی سازش اور زبردستی سے کئی علاقے بھارت کو دے دیے گئے جنھیں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

    ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر کون سا علاقہ ہندوستان میں اور کون سا پاکستان میں شامل ہو گا، یہ طے کرنے کا کام برطانوی وکیل ریڈ کلف کا تھا اور وہ تقسیم کی لیکر کھینچ بھی چکے تھے، لیکن وائسرائے کی جانب سے بلاوا آیا اور ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد راتوں رات فیروز پور جیسے متعدد علاقے جو اصولی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ تھے، ہندوستان کو دے دیے گئے۔

    14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر آزاد مسلم ریاست ضرور ابھری، لیکن اس وقت تک چالاک اور جانب دار ماؤنٹ بیٹن اپنے سازشی فیصلوں کی وجہ سے ہزاروں زندگیوں کو مشکل میں ڈال چکا تھا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔