Tag: گجرات فسادات

  • گجرات فسادات کیخلاف آخری دم تک لڑنے والی ذکیہ جعفری انتقال کرگئیں

    گجرات فسادات کیخلاف آخری دم تک لڑنے والی ذکیہ جعفری انتقال کرگئیں

    بدنام زمانہ گجرات فسادات کیخلاف آخری دم تک لڑنے والی ذکیہ جعفری انتقال کرگئیں، انھوں نے اس سازش کی تحقیقات کے لیے قانونی جدوجہد کی۔

    ذکیہ جعفری آج احمد آباد میں انتقال کر گئیں، وہ کانگریس کے سابق ایم پی احسان جعفری کی بیوہ تھیں، ان کے شوہر 2002 کے بدنام زمانہ گجرات فسادات کے دوران گلبرگ سوسائٹی میں 68 دیگر افراد کے ساتھ قتل کر دیے گئے تھے۔

    2002 کے گجرات فسادات میں مبینہ طور پر بڑی سازش کی تحقیقات کے لیے انھوں قانونی طور پر جدوجہد کی، ذکیہ جعفری نے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

    مذکورہ کیس میں مجسٹریٹ عدالت نے خصوصی تفتیشی ٹیم کی جانب سے دی گئی کلین چٹ کےبعد ان کی درخواست مسترد کر دی جس کے بعد نے گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    ہائی کورٹ نے بھی 2017 میں ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو قبول کیا، جس کے بعد وہ سپریم کورٹ گئیں، جون 2022 میں، سپریم کورٹ نے بھی ذکیہ کی درخواست کو مسترد کر دیا اور ریاستی حکام کو دی گئی کلین چٹ کو برقرار رکھا تھا۔

    ذکیہ جعفری کے انتقال پر تیستا سیتلواڑ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’ذکیہ آپا جو انسانی حقوق کے لیے ایک ہمدرد رہنما تھیں ابھی 30 منٹ پہلے دنیا سے رخصت ہو گئیں!‘

    ’ان کی بصیرت انگیز موجودگی کو قوم، خاندان، دوستوں اور دنیا بھر کے لوگوں کی طرف سے یاد رکھا جائے گا! ہم ذکہ آپا کی فیملی کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔

  • بھارتی عدالت نے گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل میں ملوث 69 ملزمان کو بری کردیا

    بھارتی عدالت نے گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل میں ملوث 69 ملزمان کو بری کردیا

    نئی دہلی: بھارتی عدالت نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران 11 مسلمانوں کے قتل کے الزام میں 69 ہندوؤں کو بری کر دیا۔

    خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق بھارت کی ایک عدالت نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک سابق وزیر سمیت 69 ہندوؤں کو مغربی ریاست گجرات میں 2002 میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 11 مسلمانوں کے قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا۔

    بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں 11 مسلمانوں کے قتل کے مقدمے کے مطابق فروری 2002 میں ہندو انتہاپسندوں نے مسلمان آبادی میں گھروں کو آگ لگائی تھی جس میں 11 مسلمان شہید ہوئے تھے۔

    صرف میں نہیں بھارتی بھی مودی کو گجرات کا قصائی کہتے ہیں، بلاول

    متاثرین کے وکیل شمشاد پٹھان نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کریں گے، فیصلے سے ایک بار پھر متاثرین کو انصاف سے محروم کیا گیا ہے، بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی فسادات کے دوران گجرات کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے، ہم ان بنیادوں کا مطالعہ کریں گے جن کی بنیاد پر عدالت نے ملزمان کو بری کیا ہے۔

    یہ فسادات ہندو ياتريوں کی ايک ريل گاڑی ميں آتش زدگی کے واقعے کے بعد شروع ہوئے تھے، جس ميں 59 ياتريوں کی جان چلی گئی تھی۔ 31 مسلمانوں کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار ديا گيا تھا۔ اسی واقعے کے بعد اس بھارتی ریاست میں مذہبی فسادات بھڑک اٹھے تھے جس میں کم از کم 1000 لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

  • شیو سینا نے بھی مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا

    شیو سینا نے بھی مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا

    نئی دہلی: بی جے پی اور شیو سینا میں ٹوٹ پھوٹ، اور تنازع شدت اختیار کر گیا، شیوسینا نے بھی مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق بی جے پی کا عسکری وِنگ شیو سینا بھی مودی سرکار پر برس پڑا، شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

    ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ اٹل بہاری نے گجرات فسادات کے دوران مودی کو راج دھرما نبھانے کا حکم دیا تھا، واجپائی نے مودی کو فسادات کے دوران اخلاقی ذمہ داری دی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ 2004 انتخابات میں شکست پر واجپائی نے مودی سے استعفیٰ بھی مانگا تھا، ادھو ٹھاکرے کے مطابق تب بال ٹھاکرے نے مودی کا سیاسی کیریئر بچانے میں کردار ادا کیا اور واجپائی کو مودی کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

    مودی سرکار برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے پر تُل گئی

    ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ بال ٹھاکرے مودی کی پشت پر کھڑا نہ ہوتا تو مودی آج وزیر اعظم نہ ہوتا، لیکن بی جے پی اب ہندوتوا کے نظریے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

    انھوں نے کہا مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت آ چکے ہیں، کیا بھارتی عوام ایسے شخص کو دوبارہ وزیر اعظم منتخب کریں گے جس کے جرائم کے ثبوت آ چکے ہیں؟

    انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا تیسری بار وزیر اعظم بننے والا مودی خطے اور عالمی دنیا کے لیے مزید خطرہ ثابت نہیں ہوگا؟

  • گجرات فسادات کے ثبوت اکھٹے کرنے والے پولیس افسر کی بیٹی مودی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی

    گجرات فسادات کے ثبوت اکھٹے کرنے والے پولیس افسر کی بیٹی مودی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی

    لندن: مودی کا ایک اور گھناؤنا چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا، گجرات فسادات میں مودی کے خلاف گواہی دینے والے پولیس افسر کی بیٹی انصاف کے لیے لندن کی سڑکوں پر نکل آئی۔

    تفصیلات کے مطابق لندن میں مودی کے خلاف گواہی دینے والے سابق پولیس افسر سنجیو بھٹ کی بیٹی آکاشی بھٹ نے والد کے لیے انصاف کی اپیل کی ہے، آکاشی نے کہا کہ ان کے والد کو 20 سال پرانے بے بنیاد کیس میں پھنسایا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ پولیس افسر سنجیو نے مودی کے گجرات فسادات میں ملوث ہونے کے ثبوت اکٹھے کیے تھے، عدالت میں بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا جس پر مودی سرکار نے سنجیو بھٹ کو مقدمے میں پھنسایا۔

    دریں اثنا، برطانوی پارلیمنٹ کے باہر گاندھی کے مجسمے کے سامنے بھارتی کمیونٹی نے سابق پولیس افسر سنجیو بھٹ کی رہائی اور بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مظاہرہ کیا۔

    واضح رہے کہ کل 20 اگست کی صبح کو گجرات ہائی کورٹ میں پولیس افسر کی رہائی کی اپیل کی پہلی سماعت ہے، ہائی کورٹ میں ان کی عمر قید کی سزا کو چیلنج کیا گیا ہے۔

    بھارت میں پولیس افسر سنجیو بھٹ کے حق میں ہزاروں لوگوں نے آواز بلند کی ہے، رواں ماہ پندرہ اگست کو رکھشا بندھن کے تہوار پر ملک بھر سے 30 ہزار راکھیاں ان کے گھر بھجوائی گئیں۔ راکھیوں کے لیے اپیل سنجیو کی وکیل دیپکا راجوت نے ٹویٹر پر کی تھی۔

    سنجیو بھٹ کو اکتوبر 1990 میں ریاست گجرات کے ضلع جام نگر کے علاقے جام جودھ پور میں واقع ہونے والے، اکیس سالہ لڑکی کے ریپ اور حراستی قتل کیس میں، جام نگر کی مقامی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی، واقعے کے وقت وہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر تھے۔

  • گجرات فسادات سے متعلق بھارتی فوجی جنرل کے چشم کشا انکشافات

    گجرات فسادات سے متعلق بھارتی فوجی جنرل کے چشم کشا انکشافات

    نئی دہلی: سابق بھارتی فوجی جنرل ضمیر الدین شاہ نے گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے حوالے سے چشم کشا انکشاف کر دیے۔

    بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل (ر) کا کہنا تھا کہ ’احمد آباد جل رہا تھا اور ہم بے بسی سے اسے جلتا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے، فوج کو حکومت کی طرف سے 34 گھنٹوں تک گاڑیاں فراہم نہیں کی گئیں‘۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ ’فسادات شروع ہونے کے بعد فوج کی نفری کو صورتحال قابو میں کرنے کے لیے راجسھتان سے بلایا گیا مگر  24 گھنٹے تک حکومت نے ائیرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی‘۔

    جنرل (ر) ضمیر شاہ کا کہنا تھا کہ اگر ریاست بروقت ٹرانسپورٹ کا انتظام  کر کے ہمیں اجازت دیتی تو کم از کم 300 لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا، اس واقعے کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: گجرات فسادات میں ستانوے مسلمانوں کی قاتلہ عدالت سے بری

    ضمیر شاہ نے یہ تمام انکشاف اپنی کتاب ’دی سرکاری مسلمان‘ میں کیے، جس میں اُن کا مزید کہنا ہے کہ مقامی پولیس نے ہندو انتہاء پسندوں کا ساتھ دیا اور انہیں نشاندہی کر کے قتل کروایا، جہاں پولیس ملوث نہیں تھی وہاں مقامی تھانے کے اہلکار خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔

    سابق بھارتی فوجی کا کہنا ہے کہ ’میں سیدھا وزیراعلیٰ (مودی) کی رہائش گاہ پہنچا جہاں وزیر دفاع جارج فرنانڈز بھی موجود تھے، میں نے دونوں کو بتایا کہ ہمیں فساد پر قابو پانے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی مگر ریاست نے انتظام نہ کیا اور 2 مارچ کو گاڑیاں فراہم کی گئیں جس کے بعد 48 گھنٹوں میں صورتحال کو قابو کرلیا‘۔

    یاد رہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں سن 2002 میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے، اُس وقت وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے جو آج بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ گجرات میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 1 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں کثیر تعداد مسلمانوں کی تھی۔

    لوک سبھا کی سب سے بڑی جماعت کانگریس اور دیگر حلقوں نے گجرات فسادات کا ذمہ دار مودی کو ٹھہرایا جبکہ اُن کی جانب سے متعدد بار یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ انتہاء پسند ہندوؤں کو مسلمانوں کے قتل عام کا فری لائسنس دے دیا گیا تھا۔

    گجرات فسادات کا پس منظر 

    بھارت کی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں اُس وقت ہنگامے پھوٹ پڑے تھے کہ جب گودھرا سے آنے والی ٹرین کو آگ لگا دی گئی تھی، اس میں 59 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    ہندو انتہاء پسندوں نے حادثے کا الزام مسلمانوں پر لگایا اور پھر اُن کا کھلا قتل عام کیا جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا تھا۔

    گجرات فسادات میں ہندو انتہاء پسندوں نے 2500 سے زائد مسلمانوں کو بے رحمانہ قتل یا انہیں زندہ جلا دیا تھا جبکہ متعدد خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی سامنے آئے تھے، اس حادثے میں ہزاروں مسلمان بے گھر بھی ہوئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: چوبیس سالہ نوجوان گجرات کے لیے امید کی نئی کرن، مودی پریشان

    فسادات کو روکنے کے لیے مقامی پولیس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا اور نہ ہی اُس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی نے اس کو روکنے کے کوئی احکامات جاری کیے تھے، بلواسطہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ اس قتل و غارت کے سرپرست قرار پائے تھے۔

    بعد ازاں گجرات کی ہائی کورٹ میں اس سانحے کے کیس کی سماعت ہوئی جس کا فیصلہ عدالت نے رواں برس اپریل میں سناتے ہوئے بی جے پی کے سابق وزیر مایا کوڈاتی پر عائد ہونے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا تھا۔

    قبل ازیں مجسٹریٹ کی عدالت نے کوڈانی کو 28 برس قید کی سزا سنائی تھی جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کردیا تھا۔

  • گجرات فسادات میں ستانوے مسلمانوں کی قاتلہ عدالت سے بری

    گجرات فسادات میں ستانوے مسلمانوں کی قاتلہ عدالت سے بری

    گجرات: گجرات فسادات میں ملوث حکمران جماعت کی خاتون سیاست دان کو ہائی کورٹ نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے، مایا کودنانی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قریبی ساتھیوں میں شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والی متعصب سیاست دان مایا کودنانی کو 2012 میں ماتحت عدالت نے مذہبی فسادات میں کلیدی کردار ادا کرنے پر اٹھائیس برس قید کی سزا سنائی تھی، استغاثہ کے مطابق مایا ستانوے مسلمانوں کے قتل میں ملوث تھیں۔

    عدالتی فیصلے کے بعد وکیل استغاثہ نے میڈیا کو بتایا کہ کودنانی کا نام خصوصی تفتیشی ٹیم کی طرف سے فسادات کی چھان بین کے دوران سامنے آیا تھا، عدالت نے خصوصی ٹیم کی تفتیش سے عدم اتفاق کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مایا کودنانی کے خلاف پیش کردہ گیارہ گواہان کے بیانات میں عدم توازن پایا جاتا ہے۔

    واضح رہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں 2002 میں خوف ناک مذہبی فسادات ہوئے تھے جس میں سینکڑوں مسلمان قتل کردیے گئے تھے۔ انسانی حقوق سے متعلق اداروں کے مطابق گجرات ميں رونما ہونے والے ان واقعات ميں ہلاک ہونے والے ڈھائی ہزار افراد میں اکثريت مسلمانوں کی تھی۔

    گجرات مسلم کش فسادات کے 11 ملزمان کو 7 سال قید کی سزا

    مسلمان عورتوں، مردوں اور بچوں کو قتل اور تشدد کرنے کے علاوہ زندہ جلائے جانے ميں بھی ملوث خاتون سیاست دان نے سزا کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، دیگر مجرموں کی جانب سے بھی نظرثانی درخواستیں دی گئی تھیں لیکن انھیں مسترد کردیا گیا۔

    واضح رہے کہ 2007 سے 2009 تک بچوں اور خواتین کے امور کی وزیر رہنے والی مایا کودنانی کے بارے میں خصوصی تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ وہ احمد آباد کے نواحی علاقے نروداپاتیا میں مسلمانوں کی ہلاکت میں انتہائی متحرک رہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔