Tag: گراہم بیل

  • گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل کا نام اُس وقت سے ہمارے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جب ہم نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ آج بھی معلوماتِ عامّہ پر مشتمل سوالات ہوں یا انقلابی ایجادات کا تذکرہ کیا جائے، ٹیلی فون اور اس کے موجد گراہم بیل کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔

    مواصلاتی رابطے کے آغاز کی بات کریں تو لوگوں کو دور بیٹھے ہوئے ایک مشین یا آلے کی بدولت احباب کی آواز سننے کا موقع اسکاٹش موجد، انجینئر اور اختراع ساز الیگزینڈر گراہم بیل کی بدولت ملا اور 2 جون 1875ء کو ٹیلی فون کی ایجاد نے دنیا کو بدل دیا۔ 1885ء میں گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی، جو بعد ازاں امریکن ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف (AT&T) کے نام سے معروف ہوئی۔ لینڈ لائن فون سے ٹیلی مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا، جو آج اسمارٹ فون کی ترقی یافتہ شکل میں ہماری جیب میں موجود ہے۔

    الیگزینڈر گراہم بیل نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں 3 مارچ 1847ء کو ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں لفظ اور آواز کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ ان کے والد پروفیسر میلوِل بیل ماہرِ لسانیات تھے۔ انھوں نے’’فونیٹک الفابیٹ ‘‘ بنائے تھے۔ جب کہ والدہ ایلیزا گریس، سماعت سے محروم تھیں اور ان کے لیے آواز ایک جادوئی شے اور ایسی چیز تھی جس کے لیے وہ متجسس رہتی تھیں۔ ماں کے اسی تجسس نے گراہم بیل کو آواز کی سائنس Acoustics کے مطالعہ پر مائل کیا۔ وہ صرف سائنس میں ہی دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ والدہ کے طفیل شاعری، آرٹ اور موسیقی کا ذوق و شوق بھی ان میں‌ پیدا ہوا۔ اختراع اور نت نئی چیزیں بنانے کا ذوق لڑکپن سے ہی ان کے مزاج کا حصّہ رہا اور والد کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا۔

    آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ جس ایجاد نے ہوا کے دوش پر ہماری زندگیوں اور مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اس کے موجد گراہم بیل نہیں‌ تھے، لیکن ٹیلی فون اور مواصلاتی نظام کو 1887ء میں جب برلن میں‌ عوام کے سامنے متعارف کروایا گیا تھا تو نام گراہم بیل کا ہی لیا گیا تھا۔ بعد میں‌ اس نظام کے تحت تاریں اور ٹیلی فون سیٹ ہر جگہ نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایک صدی سے زائد عرصہ بیت گیا ار اچانک لندن میں قائم سائنس میوزیم میں محفوظ فائلوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ سامنے آیا کہ گراہم بیل سے 15 سال قبل ایک جرمن سائنس دان نے اسی موصلاتی نظام کے تحت کام کرنے والا ٹیلی فون ایجاد کیا تھا۔ یہ فائل جو سب کی نظروں سے اوجھل تھی، سائنس میوزیم کے اُس وقت کے مہتمم جان لفن کے ہاتھ لگی تو اس کا مطالعہ کرنے کے بعد شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا جو سائنس کی دنیا میں گراہم بیل کی شہرت کو مشکوک بناتا ہے۔

    میوزیم میں موجود کاغذات کی بدولت دو نام سامنے آئے جن میں ایک جرمن سائنس دان فلپ ریئس کا تھا اور اس فائل کے مطالعے کے بعد کہا گیا کہ اس نے 1863ء میں‌ موصلاتی نظام کی مدد سے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سیٹ پر وصول کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اسی فائل میں دوسرا نام اُس برطانوی بزنس مین کا ہے جس پر فلپ ریئس کے اس کارنامے کو دنیا کی نظروں‌ سے مخفی رکھنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو مواصلاتی سائنس اور کاروبار کی تاریخ میں‌ سَر فرینک گِل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ان کاغذات کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ اسی کاروباری شخصیت نے گراہم بیل کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمن سائنس دان کے آلے اور تجربات کے شواہد اور تفصیلات کو عام نہیں ہونے دیا۔ سَر فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی نے اسی جرمن سائنس داں کے تیّار کردہ آلے پر کئی برس بعد تجربات کیے تھے، لیکن اس زمانے میں فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی کاروبار کے لیے ایک ایسا معاہدہ کرنے والی تھی جس کا تعلق بیل کمپنی کی ایک شاخ سے تھا۔ اگر اس وقت جرمن سائنس داں کے ایجاد کردہ آلے کے کام یاب تجربات منظرِ عام پر لائے جاتے تو معاہدے کی توثیق کے امکانات محدود ہوسکتے تھے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اس سے پہلے بھی کئی محققین ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا جرمن سائنس داں کے سَر باندھنے کی بات کرچکے ہیں اور ان کے دعوؤں کو میوزیم میں موجود فائل سے تقویت ملتی ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ موجد الیگزینڈر گراہم بیل 1922ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ اسکاٹ لینڈ سے ہجرت کرکے امریکا جانے والے گراہم بیل باصلاحیت اور قابل طالبِ علم تھے اور صرف 14 سال کی عمر میں انھوں نے گندم صاف کرنے والی ایک سادہ مشین بنا کر خود کو انجینیئر اور موجد ثابت کردیا تھا۔ وہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور بعد میں ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن میں‌ داخل ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ گراہم بیل 23 برس کے تھے جب انھیں تپِ دق کا مرض لاحق ہوا اور معالج کے مشورے پر والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحّت افزا مقام پر لے گئے۔ وہاں بھی گراہم بیل سائنسی تجربات میں‌ مگن رہے۔ اس وقت انھوں نے بالخصوص ٹیلی گراف کے تصوّر کو عملی شکل دینے کے لیے کام کیا اور کام یاب ہوئے۔

    متعدد اہم اور نمایاں سائنسی ایجادات کے ساتھ الیگزینڈر گراہم بیل نے 1881ء میں میٹل ڈیٹیکٹر کی ابتدائی شکل متعارف کروائی۔ 1898ء میں ٹیٹرا ہیڈرل باکس کائٹس اور بعد میں‌ سلور ڈاٹ طیارہ بنایا، جس کی آزمائش 1909ء میں کی گئی اور یہ پرواز کام یاب رہی۔ اسی طرح‌ کئی مشینیں اور کام یاب سائنسی تجربات پر انھیں اس زمانے میں جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    گراہم بیل ایک درد مند انسان تھے اور وہ جذبۂ خدمت سے سرشار رہے۔ انھوں‌ نے تاعمر سماعت سے محروم افراد کی خوشی اور ان کے معمولاتِ زندگی کو اپنی ایجادات کے ذریعے آسان بنانے کی کوشش کی۔ گراہم بیل نے ایسے اسکول قائم کیے جہاں سماعت سے محروم بچّوں کو تعلیم دی جاتی تھی جب کہ اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا اور ہر قسم کی اعانت کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ یہاں‌ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ اس سائنس داں نے اپنی شریکِ‌ سفر جس خاتون کو بنایا، وہ قوّتِ گویائی سے محروم تھی۔

  • کیا فرینگ گلِ کی اخلاقی بددیانتی نے گراہم بیل کو ٹیلی فون کا موجد ‘بنایا’ تھا؟

    کیا فرینگ گلِ کی اخلاقی بددیانتی نے گراہم بیل کو ٹیلی فون کا موجد ‘بنایا’ تھا؟

    آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوگا کہ وہ ایجاد جس نے ہوا کے دوش پر ہماری زندگیوں اور مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اس کے موجد گراہم بیل نہیں‌ تھے، جی ہاں‌، ہم بات کررہے ہیں‌ ٹیلی فون کی جس کی جدید اور ترقی یافتہ شکل اسمارٹ فونز کی صورت میں‌ اب ہمارے ہاتھوں‌ میں ہے۔

    دہائیوں قبل کئی میل دور بیٹھے دو افراد ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے کی آواز سنتے اور آپس میں بات چیت کرتے تھے اور یہ مواصلاتی رابطہ ٹیلی فون سیٹ کے ذریعے قائم ہوتا تھا۔ اس نظام اور آلے کے موجد گراہم بیل مشہور ہوئے جو ایک اسکاٹش انجینئر اور اختراع ساز تھے۔ 2 جون 1875ء کو انھوں نے مواصلاتی نظام کی وضاحت کرتے ہوئے ٹیلی فون جیسی حیرت انگیز سہولت کی ایجاد کا مژدہ سنایا۔

    1887ء میں اس ایجاد کی عملی صورت برلن میں‌ سامنے آئی اور اوّلین ٹیلی فون لائن کے ساتھ سیٹ کو منسلک کیا گیا۔ بعد میں‌ دنیا بھر میں‌ اس نظام کے تحت تاریں اور ٹیلی فون سیٹ نظر آنے لگے۔ مگر ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد لندن میں قائم سائنس میوزیم میں محفوظ فائلوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک جرمن سائنس دان نے گراہم بیل سے 15 سال پہلے ٹیلی فون ایجاد کر لیا تھا۔

    یہ فائل جو سب کی نظروں سے اوجھل تھی، سائنس میوزیم کے اُس وقت کے مہتمم جان لفن کے ہاتھ لگی تو اس کا مطالعہ کرنے کے بعد شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا جو سائنس کی دنیا میں گراہم بیل کی شہرت کو مشکوک بناتا ہے۔

    میوزیم میں موجود کاغذات کی بدولت دو نام سامنے آئے جن میں ایک جرمن سائنس دان فلپ ریئس کا تھا اور اس فائل کے مطالعے کے بعد کہا گیا کہ اس نے 1863ء میں‌ موصلاتی نظام کی مدد سے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سیٹ پر وصول کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اسی فائل میں دوسرا نام اُس برطانوی بزنس مین کا ہے جس پر فلپ ریئس کے اس کارنامے کو دنیا کی نظروں‌ سے مخفی رکھنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو مواصلاتی سائنس اور کاروبار کی تاریخ میں‌ سَر فرینک گِل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ان کاغذات کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ اسی کاروباری شخصیت نے گراہم بیل کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمن سائنس دان کے آلے اور تجربات کے شواہد اور تفصیلات کو عام نہیں ہونے دیا۔ سَر فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی نے اسی جرمن سائنس داں کے تیّار کردہ آلے پر کئی برس بعد تجربات کیے تھے، لیکن اس زمانے میں فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی کاروبار کے لیے ایک ایسا معاہدہ کرنے والی تھی جس کا تعلق بیل کمپنی کی ایک شاخ سے تھا۔ اگر اس وقت جرمن سائنس داں کے ایجاد کردہ آلے کے کام یاب تجربات منظرِ عام پر لائے جاتے تو معاہدے کی توثیق کے امکانات محدود ہوسکتے تھے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اس سے پہلے بھی کئی محققین ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا جرمن سائنس داں کے سَر باندھنے کی بات کرچکے ہیں اور ان کے دعوؤں کو میوزیم میں موجود فائل سے تقویت ملتی ہے۔

    آج ٹیلی فون کے شہرت یافتہ موجد الیگزینڈر گراہم بیل کا یومِ وفات ہے۔ وہ
    ذیابیطس کے مرض کے باعث جسمانی پیچیدگیوں کے سبب سخت علیل ہوگئے تھے اور 1922ء میں انتقال کرگئے۔

    گراہم بیل کا وطن اسکاٹ لینڈ تھا اور بعد میں انھوں نے امریکا ہجرت کی تھی۔ 3 مارچ 1847ء کو گراہم بیل نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد ماہرِ لسانیات تھے اور پروفیسر کی حیثیت سے اپنے شعبے میں‌ فعال تھے۔ گراہم بیل کی والدہ قوّتِ سماعت سے محروم تھیں۔ مشہور ہے کہ اس سائنس داں کو والدہ کی اسی محرومی نے مواصلاتی نظام کے تحت ایک آلے کی ایجاد پر آمادہ کیا تھا۔ گراہم بیل ادب اور فنونِ‌ لطیفہ کے بھی بڑے شیدائی تھے اور پیانو بجانے میں انھیں کمال حاصل تھا۔

    گراہم بیل کی ایجاد سے متعلق تنازع یا کسی بھی بحث کو چھوڑ کر بات کی جائے تو وہ ایک باصلاحیت اور قابل طالبِ علم تھے انھیں لڑکپن ہی سے نت نئی چیزیں بنانے کا شوق ہوگیا تھا۔ اس دنیا میں ان کے استاد اور راہ نما ان کے والد تھے۔ گراہم بیل نے محض 14 سال کی عمر میں گندم صاف کرنے والی ایک سادہ مشین بناکر خود کو انجینیئر اور موجد ثابت کیا۔ وہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور بعد میں ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن میں‌ داخل ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔

    گراہم بیل 23 برس کے تھے جب معالج کی تشخیص نے انھیں تپِ دق کا مریض بتایا اور معالج کے مشورے پر والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحّت افزا مقام پر لے گئے، اور وہاں بھی گراہم بیل سائنسی تجربات میں‌ مگن رہے۔ اس وقت انھوں نے بالخصوص ٹیلی گراف کے تصوّر کو عملی شکل دینے کے لیے کام کیا اور کام یاب ہوئے۔

    متعدد اہم اور نمایاں سائنسی ایجادات کے ساتھ الیگزینڈر گراہم بیل نے 1881ء میں میٹل ڈیٹیکٹر کی ابتدائی شکل متعارف کروائی۔ 1898ء میں ٹیٹرا ہیڈرل باکس کائٹس اور بعد میں‌ سلور ڈاٹ طیارہ بنایا، جس کی آزمائش 1909ء میں کی گئی اور یہ پرواز کام یاب رہی۔ اسی طرح‌ کئی مشینیں اور کام یاب سائنسی تجربات پر انھیں اس زمانے میں جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    عالمی شہرت یافتہ گراہم بیل جذبۂ خدمت سے سرشار رہے اور تاعمر سماعت سے محروم افراد کی مدد اور ان کے معمولاتِ زندگی کو اپنی ایجادات کی مدد سے آسان بنانے کے لیے کام کرتے رہے۔ انھوں نے ایسے اسکول قائم کیے جہاں سماعت سے محروم بچّوں کو تعلیم دی جاتی تھی جب کہ اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا اور ہر قسم کی اعانت کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ یہاں‌ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ اس سائنس داں نے اپنی شریکِ‌ سفر جس خاتون کو بنایا، وہ قوّتِ گویائی سے محروم تھیں۔

  • ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل نے آج کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں

    ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل نے آج کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں

    1922ء میں آج ہی کے دن الیگزینڈر گراہم بیل نے دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ ان کی ایک ایجاد کی بدولت انسان فاصلے سے براہِ راست آواز کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے قابل ہوا تھا۔ ان کی اس ایجاد کو ہم ٹیلی فون کہتے ہیں۔

    اسکاٹ لینڈ ان کا وطن تھا جو بعد میں امریکا منتقل ہوگئے، وہ ایک انجینئر اور اختراع ساز تھے جنھوں نے 2 جون 1875ء کو ٹیلی فون ایجاد کیا جو دنیا بھر میں انسانوں کے درمیان رابطے اور بات چیت کا وسیلہ بنا۔ آج ہم وائر لیس ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فونز کے دور میں زندہ ہیں، لیکن 1885ء میں جب گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی تو مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا۔

    الیگزینڈر گراہم بیل نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں 3 مارچ 1847ء کو ایک پروفیسر اور ماہرِ لسانیات کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کی والدہ قوّتِ سماعت سے محروم تھیں۔ کہتے ہیں گراہم بیل کو ان کی والدہ کی اسی محرومی نے سائنس اور نشریاتی رابطوں کے تجربات پر آمادہ کیا تھا۔ گراہم بیل شاعری، آرٹ اور موسیقی کا شوق رکھتے تھے اور پیانو بھی بجانا جانتے تھے۔

    انھوں نے 14 برس کی عمر میں گندم صاف کرنے والی ایک مشین بنائی تھی جو ان کی پہلی ایجاد تھی۔ تعلیم کا سلسلہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن سے مکمل کیا۔

    گراہم بیل 23 برس کی عمر میں تپِ دق کے عارضے میں مبتلا ہوئے تو والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحت افزا مقام پر لے گئے جہاں بیل ایسے ٹیلی گراف کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے کام کرتے رہے، جو ایک ساتھ کئی پیغامات وصول کر سکے۔ اس ضمن میں مزید کام اور عملی تجربات نے انھیں کام یابی دی اور انھوں نے فلاڈیلفیا میں ٹیلی فون کی نمائش اور اس کے کام کا عملی مظاہرہ کیا۔

    الیگزینڈر گراہم بیل کو حکومت کی جانب سے انعام و میڈلز کے علاوہ کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں نے اعزازی ڈگریاں دیں۔

    75 برس کی عمر میں ذیابیطس کے مرض سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور طبّی مسائل نے انھیں علیل کردیا تھا اور اسی باعث ان کا انتقال ہوگیا۔