Tag: گردوں کی پیوندکاری

  • سعودی عرب: پیوندکاری کے مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری

    سعودی عرب: پیوندکاری کے مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری

    ریاض: سعودی عرب نے گردوں کی پیوندکاری کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک نیا انقلابی پروگرام شروع کر دیا ہے جس کے تحت گردوں کا تبادلہ خاندانوں کے اندر کیا جائے گا۔

    سعودی سینٹر فار آرگن ٹرانسپلانٹیشن (SCOT) نے بدھ کے روز ’نیشنل کڈنی ایکسچینج پروگرام‘ کا آغاز کیا ہے، اس پروگرام کے تحت ایسے افراد کے خاندانوں کے درمیان گردوں کا تبادلہ کیا جائے گا جنھیں گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

    اگر زندہ شخص کی طرف سے عطیہ کیا گیا گردہ مریض سے میچ نہ کرے تو وہ گردہ اس کے خاندان میں عطیہ کیا جائے گا، یہ پروگرام مملکت میں پہلی بار شروع کیا گیا ہے، اور اس کے تحت اسکاٹ کی زیر نگرانی پیوندکاری دمام کے کنگ فہد اسپیشلسٹ اسپتال اور ریاض میں نیشنل گارڈ کے کنگ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں کی جائے گی۔

    اس پروگرام کا مقصد زندہ عطیہ دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا اور عطیہ دہندگان اور مریض کے درمیان خون اور بافتوں کی عدم مطابقت کے مسئلے پر قابو پانا ہے، تاکہ گردے کی پیوند کاری کے لیے طول طویل انتظار کرنے والے مریضوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہو سکیں۔

    مملکت کے گردوں کی پیوندکاری کے تمام مراکز سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی خاندانوں کے درمیان گردوں کے تبادلے کے اس پروگرام میں شامل ہوں، تاکہ زندہ عطیہ دہندگان کے تناسب کو 10 فی صد سے بڑھا کر 30 فی صد کیا جا سکے۔

  • کیا کرونا سے صحت یاب لاکھوں افراد گردے فیل ہونے کے خطرے کا سامنا کریں گے؟

    کیا کرونا سے صحت یاب لاکھوں افراد گردے فیل ہونے کے خطرے کا سامنا کریں گے؟

    لندن: کرونا وائرس کے طویل المیعاد اثرات پر کام کرنے والے طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاکھوں افراد گردوں کے امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق طبی ماہرین کی جانب سے کرونا سے صحت یاب لاکھوں افراد میں گردوں کے امراض کے خطرے کا انتباہ سامنے آیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو ممکنہ طور پر گردوں کے ڈائیلاسز یا پیوند کاری کی ضرورت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    اس سلسلے میں برطانوی پارلیمنٹ کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی کمیٹی کو طبی ماہرین کی جانب سے بریفنگ دی گئی، سالفورڈ رائل این ایچ ایس ٹرسٹ کے طبی ماہر ڈونل اوڈونوہو نے بتایا کہ صحت یابی کے بعد کرونا وائرس کے اثرات دیگر بھی ہیں تاہم گردوں کو پہنچنے والا نقصان زیادہ بڑا خدشہ ہے، کرونا وائرس براہ راست گردوں پر حملہ کرتا ہے، وائرس سے ہونے والے ورم سے گردوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عام حالات میں آئی سی یو میں زیر علاج رہنے والے 20 فی صد افراد میں ڈائیلاسز کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن کو وِڈ 19 کے دوران یہ شرح 40 فی صد تک چلی گئی، 85 فی صد افراد کو گردوں کے کسی نہ کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

    پروفیسر ڈونل اوڈونوہو نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ڈائیلاسز اور پیوند کاری کی ضرورت پڑنے جیسے گردوں کے زیادہ سنگین امراض میں مبتلا افراد کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے، عام حالات میں ہر سال ساڑھے 6 ہزار افراد کو ڈائیلاسز اور پیوند کاری کے پروگرامز کا حصہ بنایا جاتا ہے، تاہم اب تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔

    تحقیقی ٹیم میں شامل لیسٹر یونی ورسٹی کے پروفیسر کرس برائٹلنگ نے اس حوالے سے بتایا کہ اٹلی میں ہونے والی تحقیق میں بھی مزید سراغ فراہم کیے گئے ہیں کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے، ہم نے گردوں، جگر، پھیپھڑوں اور دل کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھا اور کسی حد تک دماغ بھی متاثر ہوا، جن مریضوں کا 2 ماہ بعد جائزہ لیا گیا ان میں سے ایک تہائی سے زائد میں یہ اثرات دیکھنے میں آئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آغاز میں کرونا کو نظام تنفس کی ایک بیماری سمجھا گیا تھا لیکن اب ایسے متعدد شواہد ملے ہیں کہ دیگر کئی اعضا اس بیماری کے نتیجے میں شدید متاثر ہوئے۔

    انھوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کچھ مسائل شاید وقت کے ساتھ مزید بدتر ہوں، جیسے گردوں کو پہنچنے والا ابتدائی نقصان یا ذیابیطس کا آغاز۔