Tag: گرو دت

  • فلم یا محبّت میں ناکامی گرو دَت کی خود کُشی کی وجہ کیا تھی؟

    فلم یا محبّت میں ناکامی گرو دَت کی خود کُشی کی وجہ کیا تھی؟

    فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار گرو دَت کو ہندوستانی سنیما میں شہرت تو خوب ملی، لیکن اس وقت جب گرو دَت اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ وہ اپنے پیچھے کئی کہانیاں چھوڑ گئے۔

    گرو دَت کی موت طبعی نہ تھی۔ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والے گرو دَت 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح اپنے بیڈ روم میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔ لیکن 1970ء کی دہائی میں گرو دِت کو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ بولی میں ان کی فلموں کا چرچا ہونے لگا اور 1980ء میں ایک فرانسیسی محقق کی گرو دَت پر ریسرچ سامنے آئی تو وہ فن کی دنیا میں‌ عالمی سطح پر بھی پہچانے گئے۔ یہ سلسلہ یوں دراز ہوا کہ گرو دَت کی فلمیں فرانس اور یورپ کے متعدد شہروں میں منعقدہ ثقافتی میلوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

    بھارت کے اس باکمال ہدایت کار، فلم ساز اور اداکار نے بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو آنکھ کھولی تھی۔ وہ صرف 20 برس کے تھے جب اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ انھیں اس وقت کے فلمی صنعت کے گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے بڑے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ فلم ’بازی‘ کو گرو دَت کی اوّلین فلم تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے تین فلمیں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ کے لیے بھی گرو دَت اپنی صلاحیتوں کو آزما چکے تھے۔

    بمبئی میں گرو دَت کی خود کشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ ان کے فلمی دنیا کے وہ ساتھی فن کار جن کی گرو دَت سے گہری دوستی تھی، اطلاع ملتے ہی گرو دَت کے گھر پہنچ گئے۔ ان میں دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان جیسے بڑے فن کار شامل تھے۔ فلم نگری کا ہر چھوٹا بڑا فن کار اور آرٹسٹ اس موقع پر غم زدہ تھا۔ 39 سال کی عمر میں‌ موت کا انتخاب کرنے والے گرو دَت سبھی کے دل میں بستے تھے۔

    1951ء میں بولی وڈ کی کئی خوب صورت اور یادگار فلموں‌ میں گرو دَت کی فلم بازی بھی شامل تھی اور اس نے خاصا بزنس کیا تھا۔ یوں گرو دَت صرف 25 برس کی عمر میں کام یاب ہدایت کار بن چکے تھے جب کہ اپنی فلموں میں‌ بطور اداکار بھی کام کر کے خود کو منوایا تھا۔ اس کے اگلے سال انھوں نے فلم جال کی ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی منظرِ عام پر آئی، جس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا تھا اور یہ فیصلہ اس ہدایت کار کی نجی زندگی کا اہم موڑ بھی ثابت ہوا۔ 1953ء میں گرو دَت نے معروف سنگر گیتا دَت سے شادی کر لی تھی جس کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے، لیکن بولی وڈ کی مشہور اداکارہ وحیدہ رحمان کی محبّت میں‌ گرفتار ہو کر گرو دَت نے اپنی خانگی زندگی کو تلخیوں سے بھر دیا۔ گرو دَت کی بیوی نے تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچّوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ کہتے ہیں‌ کہ وحیدہ رحمان نے یہ دیکھ کر گرو دَت سے دوری اختیار کرنا مناسب سمجھا اور یوں وہ تنہا رہ گئے۔ اسی زمانے میں‌ گرو دَت کی ایک فلم بھی ناکام ہو گئی جس پر گرو دَت سخت دل گرفتہ تھے۔ پھر ان کی خود کشی کی خبر آئی۔ ان کی موت خواب آور گولیاں وافر مقدار میں پھانک لینے سے ہوئی تھی۔

    1987ء میں لندن کی صحافی نسرین منّی کبیر نے ’اِن سرچ آف گرو دَت‘ کےعنوان سے دستاویزی فلم تیّار کی تھی جو تین اقساط پر مشتمل تھی اور چینل فور پر اس کی نمائش کی گئی۔ گرو دَت سے متعلق مواد کو 1996 میں نسرین منّی کبیر ہی نے کتابی شکل دی اور بعد میں ان کے 37 خطوط کا مجموعہ بھی شائع کروایا۔

    گرو دَت اور بولی وڈ کے مشہور اداکار دیو آنند میں گہری دوستی تھی اور دوستی کا یہ تعلق اسی زمانے میں استوار ہوا تھا جب دونوں ہی فلم نگری میں‌ نئے تھے۔ مشہور ہے کہ ان کے درمیان طے یہ پایا تھا کہ اگر گرو دَت پہلے ہدایت کار بن گیا تو وہ اپنی پہلی فلم میں دیو آنند کو چانس دے گا اور اگر دیو آنند نے پہلے فلم پروڈیوس کی تو گرو دَت کو بطور ہدایت کار موقع دے گا۔ ڈھائی تین برس بعد جب دیو آنند کے بڑے بھائی نے اپنی فلم کمپنی شروع کی اور پہلی فلم ’بازی‘ بنائی تو ہیرو کے روپ میں‌ دیوآنند اسکرین پر جلوہ گر ہوئے اور اپنے وعدے کے مطابق انھوں نے گرو دَت کو اس فلم کا ہدایت کار بنایا۔

  • نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    ہر عہد جو دس، بیس، تیس سال پر محیط ہوتا ہے اپنا الگ موسم رکھتا ہے۔

    کسی عہد پر بہار کی حکومت ہوتی ہے اور کسی عہد پر خزاں کا راج ہوتا ہے۔ اور اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ کسی عہد میں دیو زاد ہستیاں ابھرتی ہیں اور کسی عہد میں بونے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کے لوگ اپنی بڑائی کی ڈینگ ہانکتے رہتے ہیں۔ نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی۔

    یہ وہ عہد تھا جس میں سیاست کی دنیا پر مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کا سایہ تھا۔ ادب میں ٹیگور اور اقبال کے انتقال کے بعد بھی انہیں کی حکم رانی تھی اور جوش ملیح آبادی کا جاہ و جلال تھا۔ فلمی دنیا کے ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں میں محبوب خاں اور شانتا رام کا سکہ چلتا تھا۔ ان کے بعد والی نسل میں جو نرگس کی ہم عمر تھی راج کپور، دلیپ کمار اور گرو دَت جیسے فن کار تھے اور ان کے پیش رو سہگل، پرتھوی راج اور اشوک کمار تھے۔

    نرگس کی ہم عمر ہیروئنوں میں مینا کماری جیسی باکمال اور وجنتی مالا جیسی دلنواز ہستیاں تھیں۔ ستاروں کے اس خوب صورت جھرمٹ میں نرگس اپنے نور کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو سب سے پہلے اس عمر میں دیکھا تھا جب یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ فن کی اُن بلندیوں کو چُھوئے گی جن کی حسرت میں نہ جانے کتنے فن کار اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں۔

    1942ء میں جب میں بمبئی آیا تھا تو دو تین سال کے اندر نرگس کی والدہ جدن بائی کا نام سنا۔ وہ مرین ڈرائیو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھیں اور مجھے کئی بار جوش ملیح آبادی کے ساتھ شیٹو ونڈسر میں جانے کا موقع ملا۔ جدن بائی خود ایک باوقار شخصیت کی مالک تھیں اور ان کی زندگی میں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ تھا۔ ورنہ جوش ملیح آبادی جیسا تنک مزاج اور بلند مرتبہ شاعر وہاں ہرگز نہ جاتا۔ میں نے وہاں نرگس کو کم عمری کے عالم میں دیکھا تھا۔

    وہ زمانہ ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ تھا اور جدن بائی بھی اکثر نرگس کے ساتھ ہمارے جلسوں میں شریک ہوتی تھیں۔ اس زمانے کی ایک تصویر میرے پاس تھی جس میں جدن بائی اور نرگس بیٹھی ہوئی سجاد ظہیر کی تقریر سن رہی ہیں۔ ہم ترقی پسند مشاعروں اور جلسوں کے لیے جدن بائی سے چندہ بھی حاصل کرتے تھے۔ 1947ء سے پہلے بمبئی کی ایک پنجاب ایسوسی ایشن ہر سال یومِ اقبال مناتی تھی۔ نرگس جدن بائی کے ساتھ ان جلسوں میں بھی شریک ہوتی تھی۔ فلمی زندگی کی مصروفیات کے باوجود ادب اور شاعری کا یہ ذوق نرگس میں آخر وقت تک باقی رہا۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    ایک روز دسمبر 1953ء میں، مَیں ماسکو کے ایک ہوٹل میں چلی کے شاعر پابلو نرودا، ترکی کے شاعر ناظم حکمت، سویت ادیب ایلیا اہرن برگ اور میکسیکو کے ناول نگار امارد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دورانِ گفتگو "آوارہ” کا ذکر آیا۔ ناظم حکمت جو ایک صوفے پر لیٹا ہوا تھا ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اتنی خوب صورت لڑکی اس سے پہلے اسکرین پر نہیں آئی تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ نرگس کے سادہ اور پُر وقار چہرے میں وہ کون سا حُسن آگیا جس نے ناظم حکمت کو تڑپا دیا اور سوویت یونین کے نوجوانوں کو دیوانہ کر دیا۔ یہ اس کے فن کا حُسن تھا جس نے اس کی پوری شخصیت کو بدل دیا تھا۔ اور چہرے کو وہ تاب ناکی دے دی تھی جو صرف عظیم فن کاروں کو فطرت کی طرف سے عطیہ کے طور پر ملتی ہے۔ نرگس کو جو مقبولیت سوویت یونین میں ملی، وہی مقبولیت ہندوستان میں بھی حاصل تھی لیکن یہ سستی قسم کی فلمی مقبولیت نہیں تھی۔ لوگوں کی نظروں میں نرگس کا احترام تھا۔

    فلمی دنیا بڑی حد تک نمائشی ہے جس کو شو بزنس کہا جاتا ہے اور اپنی مقبولیت کے زمانے میں بہت سے فلمی ستاروں کو اس بات کا اندازہ نہیں رہ جاتا کہ ان کی مقبولیت میں نمائش کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ اور وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نرگس کو اپنی فلمی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی دل چسپی تھی، سیاست سے بھی لگاؤ تھا۔

    نرگس کی آخری اور شہکار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

    (ممتاز ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کے مضمون سے اقتباس)

  • گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    ستّر کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں گرو دَت کا چرچا تو خوب ہوا، لیکن جو شہرت انھیں‌ موت کے بعد نصیب ہوئی، وہ زندگی میں ان کا مقدر نہیں بن سکی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح گرو دَت کی موت کی خبر سامنے آئی۔ انھوں نے خود کشی کر لی تھی۔

    خود کُشی سے ایک روز قبل وہ رات گئے تک معروف مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے، لیکن اس رات خود کُشی کے طریقے بھی زیرِ بحث آئے تھے۔ ابرار علوی کی زبانی معلوم ہوا کہ گرو دت نے اس روز کہا تھا کہ زیادہ مقدار میں نیند کی گولیاں پانی میں‌ گھول کر پی جائيں تو خود کُشی کی کوشش میں کام یابی ہوسکتی ہے۔ اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے انھوں نے یہی طریقہ اپنایا۔ گرو دت اپنے بیڈ روم میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

    فلم انڈسٹری میں‌ گرو دت کو ایک باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز اور بہترین اداکار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہونے والے گرو دت کا بچپن کلکتہ میں‌ گزرا۔ وہ بیس برس کے تھے جب فلم نگری میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنا سفر شروع کیا۔ انھیں اس آغاز پر گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی تھی۔ گرو دَت کی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ تھی لیکن اس سے پہلے بھی وہ تین فلموں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ کے لیے اپنی صلاحیتوں‌ کو آزما چکے تھے۔

    گرو دت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے سے آگے کی فلمیں بناتے تھے۔ اس کی ایک مثال مسٹر اینڈ مسز 55 ہے جس میں نظر آنے ولے کردار ہمیں آج کی شہری زندگی میں‌ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ گرو دت کی فلم ‘پیاسا’ کو ٹائم ميگزین نے دنیا کی 100 بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

    1970ء میں گرو دَت کی فلموں کا خوب چرچا ہوا اور 1980ء میں ان کا نام ایک فرانسیسی محقّق کے ریسرچ پیپر میں شامل ہوا جس نے گرو دت کو عالمی سطح پر پہچان دی۔ ان کی فلمیں فرانسں اور یورپ کے متعدد شہروں میں منعقد ہونے والے فلمی میلوں میں زیرِ نمائش رہیں۔

    گرو دت کی الم ناک موت کی اطلاع پاکر اپنے وقت کے نام ور فن کار اور فلمی شخصیات جن میں دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس، مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان بھی شامل ہیں، اپنی مصروفیات ترک کر کے ممبئی (بمبئی) پہنچے تھے۔ ہر چھوٹا بڑا فن کار اور فلم نگری سے وابستہ آرٹسٹ ان کی آخری رسومات کی ادائیگی میں شریک اور غم زدہ تھا۔ گرو دَت 39 سال کے تھے جب انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔

    1951ء میں گرو دت کی فلم بازی ریلیز ہوئی تھی جس نے زبردست بزنس کیا اور یوں 25 برس کی عمر میں ان کے فن و کمال کو سبھی نے تسلیم کیا۔ وہ اپنی فلموں میں‌ اداکاری بھی کرتے رہے اور خود کو اس میدان میں منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اس سے اگلے سال گرو دت نے فلم جال کے لیے ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی جیسی فلمیں‌ بنائیں۔ گرو دت نے اداکارہ وحیدہ رحمان کو فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کرایا تھا اور ان سے تعلق اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی میں‌ ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ وحیدہ رحمان ان کی فلمی زندگی میں خوش گوار اضافہ تھی، لیکن اسی لڑکی نے فلم ساز کی خانگی زندگی میں وہ طوفان برپا کیا جس میں‌ گرو دت اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    1953ء میں گرو دت نے معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کی تھی۔ اس جوڑے کے یہاں‌ دو بیٹوں کی پیدائش ہوئی، لیکن وحیدہ رحمان سے گرو دت کے عشق نے ان کی بیوی کو بدظن کر دیا اور وہ بچّوں کو لے الگ رہنے لگی۔ یہ عشق کسی سے چھپا نہ رہ سکا اور اہلیہ سے تلخی اور اس کا گھر چھوڑ دینا اب ایک افسانہ بن گیا تھا۔ وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھا گرو دَت سے دور جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب گرو دَت تنہا رہ گئے تھے۔

    اسی عرصہ میں‌ ان کی ایک فلم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی اور ہدایت کار کی حیثیت سے گرو دت کو اس کا بڑا قلق ہوا۔ بیوی بچّوں اور پھر وحیدہ کا ان سے دور ہوجانا جہاں ان کی ذہنی حالت پر اثرانداز ہوا تھا، وہیں فلم کی ناکامی نے بھی گرو دَت کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور ان سارے جھمیلوں سے نجات پانے کے لیے گرو دت نے نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

  • گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد اس کا مقدر بنی۔ انھوں نے خود کشی کرلی تھی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح وہ اپنے بیڈ روم میں مردہ پائے گئے تھے۔

    1970ء کی دہائی میں گرو دت کو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ ان کی فلموں کا چرچا ہونے لگا اور 1980ء میں ایک فرانسیسی محقق نے کی گرو دت پر ریسرچ شایع ہوئی تو اسے دنیا بھر میں‌ پہچان مل گئی۔ بعد کے برسوں میں گرودت کی فلمیں فرانس میں اور یورپ کے دیگر شہروں میں منعقدہ میلوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

    وہ ہندوستان کے نام وَر اور باکمال ہدایت کار، فلم ساز اور اداکار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہوئے۔

    گرو دت بیس برس کی عمر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ سے پہلے تین فلمیں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ بھی کی تھیں۔

    گرو دت کی بمبئی میں خود کشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی تھی۔ دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان جیسے فن کار خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر بمبئی پہنچ گئے۔ فلم نگری کا ہر چھوٹا بڑا فن کار، آرٹسٹ غم زدہ تھا۔ وہ 39 سال کے تھے جب اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

    1951ء میں فلم نگری نے کئی خوب صورت اور یادگار فلمیں‌ ریلیز کی تھیں جن میں گرو دت کی فلم بازی بھی تھی جس نے اچھا خاصا بزنس کیا اور محض 25 برس کی عمر میں انھیں ایک باکمال ہدایت کار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ انھوں نے اپنی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور ایک باصلاحیت اداکار کے طور پر خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اگلے سال انھوں نے فلم جال کی ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی منظرِ عام پر آئی، جس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا تھا جو اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔

    1953ء میں گرو دت معروف سنگر گیتا دت سے شادی کرچکے تھے اور ان کے دو بیٹے بھی تھے، لیکن وحیدہ رحمان کی وجہ سے اس کی خانگی زندگی میں گویا زہر گھل گیا۔

    گرو دت کی بیوی نے تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچّوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ تب وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھ کر گرو دت سے دوری اختیار کر لی اور یوں گرو دت بالکل تنہا رہ گئے۔

    اسی زمانے میں‌ گرو دت نے ایک فلم بنائی جو ناکام ہوگئی جس کا ہدایت کار کو شدید صدمہ ہوا۔ کہتے ہیں اس فلم کی ناکامی نے انھیں‌ توڑ کر رکھ دیا۔

    ایک روز انھوں نے وافر مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لی۔