Tag: گرین لینڈ

  • نیٹو کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد گرین لینڈ میں فوج بھیجنے پر غور

    نیٹو کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد گرین لینڈ میں فوج بھیجنے پر غور

    نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) ممالک نے امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد گرین لینڈ میں فوج بھیجنے پر غور کررہی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیٹو ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ڈنمارک کے جزیرے پر قبضے کے لیے امریکی فوج کو استعمال کرنے کی دھمکی کے جواب میں گرین لینڈ میں فوج فوج بھیجنے پر غور کررہی ہے۔

    برطانوی اخبار ٹیلی گراف کا دعویٰ ہے کہ جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک کی بات چیت جاری ہے، اگر امریکی صدر نے اپنی دھمکیوں پر عمل کیا تو ’نیٹو کے دستے کیا کریں گے‘ اس بارے میں بات چیت جاری ہے۔

    واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آرکٹک میں ڈنمارک کے ایک خودمختار علاقے اور دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو امریکہ کا حصہ بنانے میں نئی ​​دلچسپی ظاہر کی ہے۔

    ٹرمپ نے سب سے پہلے بطور صدر اپنی پہلی مدت کے دوران 2019 میں گرین لینڈ خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اب انھوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے اور گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کی بات کی ہے۔

    انہوں نے سات جنوری کو ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تک کہا تھا کہ وہ گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عسکری طاقت کے استعمال پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ گرین لینڈ کی ضرورت معاشی وجوہات کی وجہ سے ہے۔

    دوسری جانب گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈ نے گزشتہ ماہ واضح طور پر کہا تھا کہ گرین لینڈ اس کے لوگوں کا ہے اور یہ برائے فروخت نہیں ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/president-trump-at-the-national-prayer-breakfast/

  • امریکا میں شامل ہونے پر گرین لینڈ میں ریفرنڈم، نتیجہ کیا آیا؟

    امریکا میں شامل ہونے پر گرین لینڈ میں ریفرنڈم، نتیجہ کیا آیا؟

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کو امریکا میں شامل کرنے کی خواہش کے بعد وہاں ریفرنڈم ہوا جس کا حیرت انگیز نتیجہ سامنے آیا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ہی اپنے بیانات سے توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار شروع کر دی اہے۔ کبھی وہ میکسکیو کے حوالے سے متنازع بیان دیتے ہیں، کبھی گرین لینڈ پر قبضے کی بات کرتے ہیں تو کبھی کینیڈا کو امریکا میں ضم کر کے 51 ویں ریاست بنانے کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں۔

    ایسا ہی ایک بیان گزشتہ دنوں انہوں نے جزیرائی ملک گرین لینڈ کو امریکا کا حصہ بنانے کی بات کی تھی، جس پر عالمی سطح پر منفی ردعمل آیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق جب اس حوالے سے گرین لینڈ میں ریفرنڈم کرایا گیا تو حیران کن طور پر گرین لینڈ کے رہائشیوں کی اکثریت نے امریکا میں شامل ہونے کی حمایت میں ووٹ دیا ہے۔

    پیٹریاٹ پولنگ فاؤنڈیشن کی طرف سے اس حوالے سے کیے گئے ایک ریفرنڈم میں 57.3 فیصد شرکا نے گرین لینڈ کے امریکا کا حصہ بننے سے اتفاق کیا۔ 37.4 فیصد نے اس کی مخالفت کی جب کہ 5.3 فیصد افراد نے اس پر کسی بھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔

    یہ ریفرنڈم نو منتخب صدر کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے دورے کے دوران کیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بارہا اس جزیرے کے حصول میں اپنی دلچسپی کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ جزیرہ آرکٹک اوقیانوس اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ہےاور ڈنمارک کی بادشاہی کے اندر ایک خود مختار انتظامی ڈویژن ہے۔

    گرین لینڈ کی آبادی صرف 57 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اس کا تعلق ڈنمارک سے ہے لیکن اسے خود حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ معدنیات، تیل اور قدرتی گیس کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ لیکن اس کی سست ترقی نے اس کی معیشت کو ماہی گیری اور ڈنمارک سے ملنے والی سالانہ سبسڈی پر انحصار کرنے والا بنا دیا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/germany-france-warn-trump-greenland/

  • گرین لینڈ کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، سائنس دانوں نے خطرے سے خبردار کر دیا

    ماحولیاتی سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ گرین لینڈ کے برف کی چادر تیزی سے پگھل رہی ہے، جس سے سطح سمندر میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا۔

    گرین لینڈ آئس شیٹ عالمی آب و ہوا کے نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ برف کی یہ چادر اب تک کے سب سے زیادہ گرم درجہ حرارت سے گزر رہی ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق اگر یہ درجہ حرارت اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو 2100 تک دنیا بھر کے سمندر 20 انچ تک بلند ہو جائیں گے۔

    الفریڈ ویگنر انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کے ڈیٹا کے مطابق 2001 سے 2011 تک گرین لینڈ کا درجہ حرارت 20 ویں صدی کی نسبت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا، اور یہ دہائی گزشتہ ہزار سالوں میں سب سے گرم دہائی تھی۔

    نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ، ہیلم ہولٹز سینٹر فار پولر اینڈ میرین ریسرچ (AWI) کے ماہرین نے واضح ثبوت پیش کیے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے اثرات وسطی شمالی گرین لینڈ کے دور دراز، نہایت اونچائی والے علاقوں تک پہنچ چکے ہیں۔

    گزشتہ 30 سال سے زائد کے عرصے میں دنیا کے سمندروں کی سطح بلند کرنے میں گرین لینڈ نے بڑا کردار ادا کیا ہے کیوں کہ وہاں برف پگھلنے میں اضافہ ہوا ہے، ایک حالیہ اہم رپورٹ کے مطابق اس خطہ میں 1990 کی دہائی کے مقابلے میں سات گُنا زیادہ تیزی سے برف پگھل رہی ہے۔

    ماہرین کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ ممکنہ طور پر برف کی چادر کے معاملات ایسی نہج تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔

    ماہرین کے مطابق کاربن اخراج کے سبب عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ کیوبک کلومیٹر برف میں بہت زیادہ مقدار میں پانی ذخیرہ ہے، اس کا پگھلنا اور اس کے نتیجے میں سطح سمندر میں اضافہ ایک بڑے خطرے کی علامت ہے۔

  • شدید گرمی سے ایک اور خطرناک نقصان

    شدید گرمی سے ایک اور خطرناک نقصان

    دنیا بھر میں تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اس کی وجہ سے زمین کو بے شمار خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کی برفانی چادر پگھلنے سے اس صدی کے اختتام تک عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں لگ بھگ ایک فٹ کا اضافہ ہوسکتا ہے اور ایسا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوگا۔

    جرنل نیچر کلائمٹ چینج میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ آنے والے برسوں میں گرین لینڈ کی 3.3 فیصد برفانی چادر پگھل جائے گی جو کہ 110 ٹریلین میٹرک ٹن برف کے برابر ہے۔

    اس برف کے پگھلنے سے 2022 سے 2100 کے درمیان سمندروں کی سطح میں 10 انچ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج فوری طور پر روک دیا جائے تو بھی گرین لینڈ کی برف کو پگھلنے سے روکنا اب ممکن نہیں۔

    گرین لینڈ کی برفانی چادر انٹار کٹیکا کے بعد سب سے بڑی ہے اور اس جزیرے کے 80 فیصد حصے پر پھیلی ہوئی ہے۔

    ماضی میں ہونے والے تحقیقی کام میں بتایا گیا تھا کہ اگر گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے تو عالمی سطح پر سمندروں کی سطح میں 23 فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 2000 سے 2019 تک کے سیٹلائیٹ ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی تھی۔

    انہوں نے گرین لینڈ کی برفانی چادر پگھلنے کی شرح کا اندازہ برفباری کی مقدار سے کیا اور تخمینہ لگایا کہ اس صدی کے اختتام تک 3.3 فیصد برف پگھل جائے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرین لینڈ میں موسم گرما کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جس سے برفانی چادر زیادہ تیزی سے پگھلنے لگی ہے۔

    سمندری سطح میں ایک فٹ کا اضافہ ساحلی علاقوں کے لگ بھگ 20 کروڑ افراد کے بے گھر ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔

  • زمین کا وہ کون سا مقام ہے جہاں پہلی بار بارش ہوئی ہے؟

    زمین کا وہ کون سا مقام ہے جہاں پہلی بار بارش ہوئی ہے؟

    زمین کے ایسے مقام پر تاریخ میں پہلی بار بارش ہوئی جہاں آج تک بارش نہیں ہوئی تھی، اس تبدیلی نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق زمین کے ایسے مقام پر جہاں آج تک (1950 سے جب سے ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے) بارش ریکارڈ نہیں ہوئی تھی وہاں آسمان سے پانی برسنے نے سائنسدانوں کو حیران اور پریشان کردیا۔

    گرین لینڈ کی سطح سمندر سے 2 میل بلند چوٹی پر موجود وسیع و عریض پٹی پر بارش کو پہلی بار ریکارڈ کیا گیا اور اسے موسمیاتی تبدیلیوں کا تنیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

    اس 3216 میٹر بلند چوٹی پر عموماً درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہوتا ہے مگر حال ہی میں وہاں گرم ہوا کے نتیجے میں شدید بارش ہوئی اور 7 ارب ٹن پانی برفانی پٹی پر برس گیا۔

    یو ایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے موسمیاتی اسٹیشن نے 14 اگست کو اس مقام پر بارش کو برستے دیکھا مگر ان کے پاس جانچ پڑتال کے یے پیمانہ ہی نہیں تھا کیونکہ انہیں اس کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

    یہ بارش اس وقت ہوئی جب گرین لینڈ میں 3 دن درجہ حرارت اوسط سے 18 سینٹی گریڈ زیادہ رہا اور اس کے نتیجے میں گرین لینڈ کے بیشتر علاقوں میں برف پگھلتے ہوئے دیکھا گیا۔

    کولوراڈو یونیورسٹی کے نیشنل اسنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے سائنسدان ٹیڈد اسکمبوز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، ہم نے کچھ ایسا دیکھا وہ ایک شاید صدیوں میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ حالات میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک ہم وہ سب کچھ ٹھیک نہیں کرلیتے جو ہم نے فضا کے ساتھ کیا۔

    گرین لینڈ میں جولائئی میں بھی بڑے پیمانے پر برف پگھلی تھی اور 2021 گزشتہ صدی کا چوتھا سال بن گیا جب اس طرح بڑے پیمانے پر برف پگھلی۔ اس سے قبل 1995، 2012 اور 2019 میں ایسا ہوا تھا۔

    14 سے 16 اگست کے دوران بارش اور برف پگھلنا اس سال کے موسمیاتی اثرات کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔ جولائی اور اگست میں برف پگھلنے کی وجہ ایک ہی ہے یعنی گرم ہوا اس خطے میں اوپر کی جانب پھیلی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات ایسے نہیں جو کبھی نہ ہوئے ہوں مگر ان کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔

    اگر گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے تو عالمی سمندری سطح میں 6 میٹر تک اضافہ ہوجائے گا، اگرچہ ایسا ہونے میں صدیاں لگ سکتی ہیں، مگر 1994 سے گرین لینڈ سے کھربوں ٹن پگھل چکی ہے جس سے سمندری سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

    سمندری سطح میں ابھی تک 20 سینٹی میٹر اضافہ ہوچکا ہے اور آئی پی سی سی کے مطاب اس میں مزید 28 سے 100میٹر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • امریکی صدر نے گرین لینڈ کی وجہ سے ڈنمارک کا دورہ منسوخ کر دیا

    امریکی صدر نے گرین لینڈ کی وجہ سے ڈنمارک کا دورہ منسوخ کر دیا

    واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممکنہ طور پر گرین لینڈ کو خرید لینے سے متعلق تنازعے کی وجہ سے اپنا ڈنمارک کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ ڈینش وزیر اعظم میٹے فریڈےرِکسن گرین لینڈ کو بیچنے کے حوالے سے گفتگو پر راضی نہیں اور وہ اس وجہ سے اپنا کوپن ہیگن کا دورہ ملتوی کر رہے ہیں۔

    گرین لینڈ ایک خود مختار علاقہ ہے لیکن یہ ڈنمارک کا حصہ ہے، اتوار کو صدر ٹرمپ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ گرین لینڈ خریدنا چاہتے ہیں لیکن ڈینش حکومت نے کہا تھا کہ گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کیاتھا ، گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے اور اس وقت ڈنمارک کے ماتحت ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش گزشتہ برس ظاہر کی تھی، گزرتے وقت کے ساتھ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش بھی شدید ہوگئی ہے اور انہوں نے اعلیٰ حکومتی مشیروں اور اداروں کے سربراہوں سے رائے طلب کی ہے کہ گرین لینڈ کو خریدنے کا سودا کیسے رہے گا۔

    گرین لینڈ اگرچہ ڈنمارک کے ماتحت ہے، تاہم اسے دنیا بھر میں خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، گرین لینڈ دنیا کے کم آبادی والے ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے اور اس ملک کے رقبے کا 80 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔

    اسے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ بھی مانا جاتا ہے۔گرین لینڈ بحر اوقیانوس اور بحر منجمند شمالی کے درمیان واقع اس ریاست کو دنیا کی خوش ترین ریاستوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، یہاں ماہی گیری کا کاروبار سب سے زیادہ ہے، تاہم گزشتہ کچھ سال سے وہاں تیل و گیس سمیت قیمتی معدنیات کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔

    گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت امریکی اڈہ بھی موجود ہے، جہاں 600 سے زائد فوجی اہلکار موجود ہیں۔

  • صدر ٹرمپ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کے خواہاں

    صدر ٹرمپ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کے خواہاں

    واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ دنیا نے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کردیا ، گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے اور اس وقت ڈنمارک کے ماتحت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا یورپی ملک ڈنمارک کی خودمختار ریاست کا درجہ رکھنے والے ملک گرین لینڈ کو خریدنے کا سوچ رہا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائیٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکومتی مشیروں سمیت ملک کے اعلیٰ افسران سے رائے پوچھی ہے کہ اگر گرین لینڈ کو خرید لیا جائے تو امریکا کے لیے کیسا رہے گا۔

    امریکی اخباروال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش گزشتہ برس ظاہر کی تھی، گزرتے وقت کے ساتھ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش بھی شدید ہوگئی ہے اور انہوں نے اعلیٰ حکومتی مشیروں اور اداروں کے سربراہوں سے رائے طلب کی ہے کہ گرین لینڈ کو خریدنے کا سودا کیسے رہے گا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکومتی مشیروں اور اداروں کے سربراہوں کو بتایا گیا ہے کہ انہیں پتہ چلا ہے کہ ڈنمارک گزشتہ کچھ ماہ سے گرین لینڈ کو فروخت کرکے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔

    یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ ایک ماہ بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے ڈنمارک کے دورے پر پہنچیں گے، تاہم اطلاعات ہیں کہ دورے کے دوران امریکی صدر گرین لینڈ کو خریدنے کی بات نہیں کریں گے۔

    گرین لینڈ اگرچہ ڈنمارک کے ماتحت ہے، تاہم اسے دنیا بھر میں خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، گرین لینڈ دنیا کے کم آبادی والے ممالک میں بھی شمار ہوتا ہے اور اس ملک کے رقبے کا 80 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔

    اسے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ بھی مانا جاتا ہے۔گرین لینڈ بحر اوقیانوس اور بحر منجمند شمالی کے درمیان واقع اس ریاست کو دنیا کی خوش ترین ریاستوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، یہاں ماہی گیری کا کاروبار سب سے زیادہ ہے، تاہم گزشتہ کچھ سال سے وہاں تیل و گیس سمیت قیمتی معدنیات کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔

    گرین لینڈ میں مستقبل میں سونا، یاقوت، پلاٹینیم، المونیم اور پلاٹینم جیسی معدنیات کا بھاری مقدار میں نکلنے کا امکان ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت امریکی اڈہ بھی موجود ہے، جہاں 600 سے زائد فوجی اہلکار موجود ہیں۔

    خیال رہے سپر پاور ملک امریکا کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس نے نہ صرف دوسرے ممالک میں زمین خرید کر وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کیے بلکہ اس نے کئی جزیرے اور ریاستیں خرید کر اپنا حصہ بھی بنائیں، امریکا نے جہاں ڈیڑھ صدی قبل ریاست الاسکا کو روس سے خرید کر اپنا حصہ بنایا تھا، وہیں امریکا نے ریاست لوویزیانا کو بھی خرید کر اپنا حصہ بنایا تھا۔

  • 500 سال کی عمر رکھنے والی شارک

    500 سال کی عمر رکھنے والی شارک

    برفانی خطے آرکٹک میں واقع ملک گرین لینڈ میں پائی جانے والی ایک مخصوص شارک کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کی عمر 512 سال ہے۔

    سائنس جنرل میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے 512 سالہ شارک دریافت کی ہے جو ممکنہ طور پر سنہ 1505 میں پیدا ہوئی تھی۔

    گرین لینڈ کی یہ شارک جسے گرین لینڈ شارک کہا جاتا ہے کئی سو سال تک زندہ رہنے کے لیے مشہور ہے۔ ان کی جسامت سال میں صرف 1 سینٹی میٹر بڑھتی ہے چانچہ سائنسدانوں کے لیے اس کی جسامت سے عمر کا اندازہ لگانا نہایت آسان ہے۔

    یہ شارکس اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں طویل عرصہ لگاتی ہیں اور یہ عرصہ عموماً 150 سال پر محیط ہوتا ہے۔ یہ ایک طویل عرصے تک اپنے ساتھی کی تلاش میں تیرتی رہتی ہیں۔

    حال ہی میں دریافت ہونے والی گرین لینڈ شارک کو دنیا کا طویل العمر ترین مہرے دار (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا) جاندار کہا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شارک کی لمبائی 18 فٹ جبکہ وزن ایک ٹن کے قریب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی عمر 272 سال سے 512 کے درمیان ہوسکتی ہے۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان شارکس کو زندہ ٹائم کیپسول کہا جاتا ہے، اس جاندار نے صدیوں پر محیط تاریخی واقعات اور مختلف ارتقا کا مشاہدہ کیا ہے۔

  • 4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے جنہیں قطبین (قطب شمالی اور قطب جنوبی) کہا جاتا ہے دنیا کے سرد ترین برف سے ڈھکے ہوئے مقامات ہیں۔

    عموماً منفی 57 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رکھنے والے یہ علاقے زمین کے درجہ حرارت کو بھی اعتدال میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    تاہم دنیا بھر میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات یعنی گلوبل وارمنگ نے ان علاقوں کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان مقامات کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

    حال ہی میں چند سائنسدانوں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 4 میل طویل ایک برفانی تودہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا اور سمندر پر بہنے لگا۔

    برفانی تودہ ٹوٹنے کی یہ ویڈیو بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ میں ریکارڈ کی گئی۔

    گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ پہلے ہی ایک بلند و بالا برفانی تودے کے آگے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • آئس برگ کی یہ تصویر آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی

    آئس برگ کی یہ تصویر آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی

    آپ نے ہالی ووڈ کی معروف فلم ٹائی ٹینک تو ضرور دیکھی ہوگی جس میں ہزاروں مسافروں سے لدا بحری جہاز ایک برفانی تودے یا آئس برگ سے ٹکرا جاتا ہے۔

    فلم کے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ عرشے پر موجود ہیرو اور ہیروئن کو اچانک آئس برگ دکھائی دیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کے اندر کمروں میں موجود لوگوں کو بھی اپنی کھڑکی سے آئس برگ نظر آتا ہے۔

    ایک بلند و بالا برفانی تودے کو اپنے سامنے دیکھنا یقیناً ایک دل دہلا دینے والا منظر ہوسکتا ہے، وہ بھی کسی ایسے مقام پر جہاں اس کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔

    ایسا ہی ایک منظر اب گرین لینڈ کے ایک گاؤں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔

    بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ اس وقت نہایت غیر یقینی کی صورتحال میں مبتلا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔

    گاؤں میں 169 افراد رہائش پذیر ہیں جن میں سے کچھ کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر برفانی تودے کی براہ راست زد میں ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    یہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں رہنے کی وجہ سے ایسے برفانی تودوں کا یہاں سے گزرنا عام سی بات ہے تاہم اس تودے کی جسامت یقیناً خوفزدہ کردینے کے لیے کافی ہے۔

    خیال رہے کہ گرین لینڈ دنیا کے برفانی خطے یعنی قطب شمالی میں واقع ہے۔ قطب شمالی یا بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔

    اس کا رقبہ 1 کروڑ 40 لاکھ 56 ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ اس کی برف تیزی سے پگھلنے شروع ہوگئی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں یہاں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔