Tag: گرین ہاؤس گیس

  • پاکستان میں چاول کی فصل سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا اندازہ لگانے کے لیے ٹرائلز شروع

    پاکستان میں چاول کی فصل سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا اندازہ لگانے کے لیے ٹرائلز شروع

    اسلام آباد: پاکستان میں چاول کی فصل سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا اندازہ لگانے کے لیے ٹرائلز شروع ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں گرین ہاؤس گیس اخراج کم کرنے کی طرف اہم قدم اٹھاتے ہوئے پانی کی پیداواری صلاحیت بہتر کرنے کے لیے شیخوپورہ اور اوکاڑہ میں پائلٹ اسٹڈی شروع کر دی ہے۔

    پاکستان میں زمین کو گیلا اور خشک کرنے کے لیے متبادل طریقہ کار کے ٹرائلز کا آغاز کر دیا گیا ہے، ای ڈی بی کے مطابق شیخوپورہ اور اوکاڑہ میں چاول کی فصل پر متبادل طریقہ کار کے ٹرائلز کا نفاذ کیا گیا ہے، اور متبادل طریقہ کار کے چاول کی پیداوار پر اثرات کاتجزیہ کیا جا رہا ہے۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ مشترکہ مطالعے میں یونیورسٹی آف فلپائن کا انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور جرمنی کا کارلسروہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شریک ہیں، ان ٹرائلز سے چاول کی فصل سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔

    اے ڈی بی کے مطابق ٹرائلز ملک کی گرین ہاؤس گیس انوینٹری کی درستگی کو بڑھائے گا، اور اس سے پاکستان میں کاربن مارکیٹ کے اقدامات کے لیے ضروری ڈیٹا فراہم ہو سکے گا۔

    اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ پانی کے بہتر استعمال کے لیے کسانوں کو متبادل طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے، چاول کی عالمی پیداوار میں پاکستان کا ٹاپ 10 پروڈیوسر میں شمارہوتا ہے، اور چاول کی پیداوار کے موجودہ طریقہ کار سے ماحولیات پر نمایاں خدشات موجود ہیں۔

  • ماحولیاتی آلودگی کا مشاہدہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ کی تیاری

    ماحولیاتی آلودگی کا مشاہدہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ کی تیاری

    لندن: برطانیہ خلا میں ایسا سیٹلائٹ بھیجے گا جو فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور اس کے زمین پر مرتب ہونے والے اثرات کی پیمائش کرے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ نے زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور اس کے زمین پر مرتب ہونے والے اثرات کی پیمائش کے لیے ایک خصوصی سیٹلائٹ کی تیاری کا آغاز کر دیا ہے۔

    یورپین خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کے زمین کا مشاہدہ کرنے والے مشن فار انفرا ریڈ آؤٹ گوئنگ ریڈی ایشن انڈر اسٹیندنگ اینڈ مانیٹرنگ (فورم) کے تحت اس سیٹلائیٹ کو ہوائی جہاز بنانے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ایئر بس کی اسٹیون ایج میں واقع فیکٹری میں تیار کیا جائے گا۔

    اس خصوصی جہاز کی تیاری کے لیے فورم نے ایئر بس کے ساتھ 160 ملین یورو کے معاہدے کو برطانوی پارلیمنٹ میں رواں ہفتے وزیر برائے سائنس، تحقیق اور جدت جارج فری مین کی موجودگی میں عملی شکل دے دی ہے۔

    جارج فری مین کا اس منصوبے کے حوالے سے کہنا ہے کہ فورم یورپین اسپیس ایجنسی کا ایسا شاندار منصوبہ ہے جس نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق اور سیٹلائٹس کی تیاری میں برطانیہ کو بہت مضبوط کردیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ خصوصی سیٹلائٹ ہمارے سیارے کی سطح سے آنے والی بالائے بنفشی تابکاری کی مانیٹرنگ کرے گا، جس کے نتیجے میں گیسوں کے مالیکول جیسا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات کو مرتعش کرتے ہوئے کرہ ہوائی کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور یہ ماحولیاتی تبدیلی کا ایک اہم پہلو ہے۔

    توقع ہے کہ اس مشن کے تحت ایک ٹن وزنی اس سیٹلائٹ کو ویگا راکٹ کے ذریعے 2027 تک مدار میں بھیجا جائے گا۔

  • امریکا دنیا کے لیے اہم معاہدے سے باضابطہ طور پر نکل گیا

    امریکا دنیا کے لیے اہم معاہدے سے باضابطہ طور پر نکل گیا

    واشنگٹن: امریکا باضابطہ طور پر عالمی ماحولیاتی معاہدے سے علیحدہ ہو گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا تین سالہ تاخیر کے بعد آخر کار موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیرس معاہدے سے نکلنے والا پہلا ملک بن گیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ ختم کیا تھا۔

    صدر ٹرمپ نے دراصل جون 2017 میں اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد گزشتہ برس اقوام متحدہ کو اس سے باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا، تاہم یو این ضابطے کے مطابق مطلع کیے جانے کے بعد ایک سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے، یہ انتظار آج بدھ کے روز ختم ہو گیا۔

    معاہدے سے دست برداری کا فیصلہ ایک ایسے دن نافذ العمل ہوا ہے جب کہ محض ایک دن قبل ہی امریکی انتخابات منعقد ہوئے، اور آج دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک کی جیت کا اعلان ہوگا۔

    سابق اسٹیٹ سیکریٹری جان کیری اپنی پوتی کو گود میں لیے اقوام متحدہ میں پیرس ایگریمنٹ پر دستخط کر رہے ہیں

    مستقبل میں امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے، اس کے لیے آنے والے صدر کو اس کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    پیرس معاہدے پر تقریباً 200 ممالک نے دستخط کیے تھے، ان میں سے امریکا پہلا ملک بنا ہے جس نے گرین ہاؤس گیس اخراج کو کم کرنے کے وعدوں سے منہ پھیرا۔

    اٹھارویں صدی کے وسط سے جب سے صنعتی دور شروع ہوا ہے، تب سے امریکا وہ ملک ہے جس نے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت فضا میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کیا۔

  • گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے: وزیر اعظم

    گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے: وزیر اعظم

    نیویارک: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر کوئی ملک اکیلے کچھ نہیں کر سکتا، گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا، وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی پر ساری دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسمیاتی ہجرت وجود میں آ رہی ہے، گلوبل وارمنگ سے جو ممالک متاثر نہیں وہ مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

    تازہ ترین:  امریکا کو افغانستان میں امن کے لیے اپنی فوج نکالنا ہوگی: عمران خان

    عمران خان نے کہا آج بہت سے ملک معاملے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھ رہے، دنیا کو سوچنا ہوگا گلوبل وارمنگ انفرادی نہیں اجتماعی مسئلہ ہے۔

    انھوں نے کہا میں آج طاقت ور ملکوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، یہ انسانی صلاحیت ہے کہ جب وہ کسی چیلنج کو قبول کرتا ہے تو وہ اسے پورا کر لیتا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا ہمارے دریاؤں کا 80 فی صد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے 5 ہزار نئی جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں، ہمارے گلیشیئرز انتہائی تیزی سے پگھل رہے ہیں، اسی لیے ہم نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا۔

    انھوں نے مزید کہا پاکستان نے گزشتہ 5 سال میں ڈیڑھ ارب درخت لگائے، آیندہ 10 سالوں میں مزید 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔

  • پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    دنیا بھر میں اس وقت کاربن اخراج ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو کم سے کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم امریکی محکمہ دفاع کے بارے میں حال ہی میں جاری ہونے والی ایک تحقیق نے دنیا بھر کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا۔

    امریکا اس وقت سب سے زیادہ کاربن اخراج کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ امریکی محکمہ دفاع کا ہیڈ کوارٹر پینٹاگون، اس وقت صنعتی ممالک جیسے سوئیڈن اور پرتگال سے زیادہ کاربن اخراج کر رہا ہے۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ پینٹاگون نے سنہ 2017 میں 59 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اور مختلف گرین ہاؤس (نقصان دہ) گیسز خارج کیں۔ یہ مقدار سوئیڈن اور پرتگال جیسے کئی چھوٹے ممالک کے کاربن اخراج سے زیادہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اسلحے کے استعمال اور اس کی نقل و حرکت میں اس ادارے کی 70 فیصد توانائی استعمال ہوتی ہے جس کا زیادہ حصہ جیٹ اور ڈیزل فیول پر خرچ ہوتا ہے۔

    پینٹاگون کی جانب سے تاحال اس تحقیق پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

    اس سے قبل پینٹاگون بذات خود موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث امریکا میں مستقل آنے والے سمندری طوفانوں اور سطح سمندر میں اضافہ فوجی اڈوں، ان کے تحت چلائے جانے والے آپریشنز اور یہاں موجود تنصیبات کو متاثر کرے گا۔

    ماہرین کے مطابق 2050 تک یہ اڈے سیلاب سے 10 گنا زیادہ متاثر ہوں گے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو روز پانی کے تیز بہاؤ یا سیلاب کا سامنا کریں گے۔

    ان 18 اڈوں میں سے 4، جن میں کی ویسٹ کا نیول ایئر اسٹیشن، اور جنوبی کیرولینا میں میرین کورپس ڈپو شامل ہیں، صدی کے آخر تک اپنا 75 سے 95 فیصد رقبہ کھو دیں گے۔

  • دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی نافذ کردیا گیا ہے تاکہ ملک میں توانائی کے کفایت شعار استعمال اور اس کی بچت کو یقینی بنایا جاسکے۔

    واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے فعال ہونے والی پارلیمنٹ بن چکی ہے۔

    وفاقی وزیر زاہد حامد نے بتایا کہ پاکستان دنیا بھر میں مضر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتا ہے، تاہم ان گیسوں سے وقوع پذیر ہونے والے کلائمٹ چینج اور اس کے خطرات سے متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ ’دنیا آگاہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے‘۔

    زاہد حامد نے مراکش میں ہونے والی موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی عالمی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی سربراہی بھی کی تھی۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ساتھ کھڑا ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی بھی توثیق کردی ہے۔ انہی ماحول دوست اقدامات کے تحت پرائم منسٹر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں شجر کاری کی جائے گی۔

    زاہد حامد نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بھی تیار کی ہے اور پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس کی قومی اسمبلی نے ان اہداف کو قومی پالیسی کا حصہ بنانے کے بل کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔

  • کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    جنیوا: اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہماری فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور مضر ہوچکی ہے جس سے زمین اور اس پر رہنے والے افراد کی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے موسمیات کا کہنا ہے کہ ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کی اثر انگیزی کچھ مہینوں اور کچھ مقامات پر بڑھ گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    ماہرین کے مطابق کاربن کی اثر انگیزی میں ریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے اور ایسا پچھلی کئی نسلوں میں نہیں ہوا۔ یعنی کاربن گیس اب پہلے سے زیادہ خطرناک اور مضر صحت بن چکی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ کاربن کی اثر انگیزی میں اضافے کی ایک وجہ رواں برس کا ایل نینو بھی ہے۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایل نینو ختم ہوچکا ہے، لیکن کلائمٹ چینج تاحال جاری ہے۔

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں اور گیسیں جن میں کاربن کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے، ایک طرف تو ہماری فضا کو زہریلا اور آلودہ بنا رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم کر رہی ہیں جسے گلوبل وارمنگ (عالمی درجہ حرارت میں اضافہ) کا عمل کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گزشتہ برس پیرس میں منعقد کی جانے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔