Tag: گزشتہ لکھنؤ

  • حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    حافظ نور اللہ سے نواب سعادت علی خان کی فرمائش

    دریا کے دو کناروں پر بسے ہوئے لکھنؤ کو بارہا روندا گیا اور حملہ آور افواج آگے بڑھ گئیں۔ ہندوستان کا یہ مشہور شہر صدیوں تک اجڑتا اور اپنے دامن میں لوگوں بساتا رہا یہاں تک کہ لکھنؤ کو ایرانی نژاد نوابینِ اودھ نے تہذیب و ثقافت کا گڑھ اور علم و ادب کا گہوارا بنا دیا اور اہلِ لکھنؤ پر راج کیا۔

    عبدالحلیم شررؔ بیسویں صدی کی علمی و ادبی شخصیت تھے جنھیں لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب "مشرقی تمدن کا آخری نمونہ: گزشتہ لکھنؤ” ہمیں اُس لکھنؤ کی سیر کراتی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور اس کتاب کے صفحات رفتگاں کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ اس کتاب کے ایک باب میں عبدالحلیم شررؔ نے لکھنؤ کے چند باکمال خوش نویسوں کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "علوم ہی سے وابستہ کتابت اور تحریر کے فن ہیں۔ مسلمانوں کا پُرانا خط عربی تھا جس کو نسخ کہتے ہیں۔ خلافتِ بغداد کے ازمنۂ وسطی تک ساری دنیائے اسلام میں مشرق سے مغرب تک یہی خط تھا جو ارض حیرہ کے پرانے خط سے، خطِ کوفی اور خط کوفی سے خطِ نسخ بن گیا تھا۔ خاندانِ طاہریہ کے زمانے سے وہ تمام علم و فن جو بغداد میں عروج پا رہے تھے، ایران و خراسان کی طرف آنے لگے۔ اور دیلمیوں اور سلجوقیوں کے زمانے میں بغداد کے اکثر کمالات ایران میں بخوبی جمع ہو گئے۔ خصوصاً دیلمیوں کے علمی ذوق اور تفننِ طبع سے ایران کا مغربی صوبہ آذربائیجان جو قدرۃً عراق عجم و عراق عرب کے آغوش میں واقع تھا، ہر قسم کی خوبیوں اور ترقیوں کا گہوارہ قرار پا گیا۔”

    "اسی علاقے میں پہلے پہل خط نے بھی نئی وضع اختیار کرنا شروع کی۔ کتابت خطاطی کی حدوں سے نکل کے نقاشی کی قلمرو میں داخل ہو گئی اور اس میں مصورانہ نزاکتیں پیدا کی جانے لگیں۔ عجمی نزاکت پسندوں کو خطِ عرب کی پرانی سادگی میں بھدا پن نظر آیا اور پرانی شان اور وضع خود بخود چھوٹنے لگی۔ نسخ میں قلم ہر حرف اور لفظ میں اوّل سے آخر تک یکساں رہا کرتا تھا۔ حرفوں میں غیر موزوں خمی اور غیر متناسب ناہمواری ہوتی تھی۔ دائرے گول نہ تھے بلکہ نیچے اور چپٹے ہوتے اور ادھر اُدھر ان میں کونے پیدا ہو جاتے۔ اب نقاشی کی نزاکت کو خطاطی میں ملا کے تحریر میں نوک پلک پیدا کی جانے لگی۔ حرفوں کی نوکیں، گردنیں، اور دُمیں باریک بنائی جانے لگیں۔ دائرے خوبصورت اور گول لکھے جانے لگے۔ اس جدید مذاق کو پوری طرح پیش نظر رکھ کے سب سے پہلے میر علی تبریزی نے، جو خاص دیلم کا رہنے والا تھا، اس نئے خط کو بااصول و باقاعدہ بنا کے مشرقی بلاد میں رواج دیا اور اس کا نام نستعلیق قرار دیا۔ جو اصل میں نسخ تعلیق یعنی ضمیمۂ نسخ تھا۔”

    "یہ نہیں معلوم کہ میر علی تبریزی کس زمانے میں تھے۔ منشی شمس الدین صاحب جو آج لکھنؤ کے مشہور و مستند خوش نویس ہیں، ان کا زمانہ تیمور سے پہلے بتاتے ہیں۔ لیکن نستعلیق کی کتابیں اتنی پُرانی ملتی ہیں کہ تیمور درکنار، ہم سمجھتے ہیں کہ اس خط کی ایجاد محمود غزنوی سے بھی پہلے ہو چکی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ محمود کے حملوں کے ساتھ ہی ساتھ ہندوستان میں فارسی خوش نویسوں کی بھی آمد شروع ہو گئی ہو گی۔ جس کے اثر سے یہاں اس خط کا رواج شروع ہوا۔ اور ہندوستان کے ہر صوبے اور ہر خطے میں نستعلیق کے خوش نویس کثرت سے پیدا ہو گئے۔ لہٰذا یا تو میر علی تبریزی کا زمانہ بہت قدیم ہے اور یا وہ اصلی موجدِ خط نہیں ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ دہلی و لکھنؤ بلکہ سارے ہندوستان کی موجودہ خوش نویسی اپنا استادِ اوّل میر علی تبریزی کو بتاتی ہے۔ ان کے ایک مدتِ دراز کے بعد ایران میں نستعلیق کی استادی میں میر عماد الحسنی کا نام مشہور ہوا، جو خوش نویسوں میں بڑے ممتاز و نامور کاتب اور استادُ الکُل مانے جاتے ہیں۔ ان کے بھانجے آغا عبد الرشید دیلمی، نادر شاہ کے حملوں کے زمانے میں واردِ ہند ہوئے اور لاہور میں آ کر ٹھہر گئے۔ لاہور میں ان کے صدہا شاگرد پیدا ہوئے جنہوں نے اقطاعِ ہند میں پھیل کے انہیں ہندوستان کی خوش نویسی کا آدم نہیں تو نوح ضرور ثابت کر دیا۔ انہی کے دو شاگرد جو ولایتی تھے، واردِ لکھنؤ ہوئے۔ ان دونوں بزرگوں میں سے ایک حافظ نور اللہ اور دوسرے قاضی نعمت اللہ تھے۔”

    "کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بیگ نامی آغا عبد الرشید کے ایک تیسرے باکمال شاگرد بھی لکھنؤ میں آئے تھے۔ ان حضرت کے آنے کا زمانہ غالباً نواب آصف الدّولہ بہادر کا عہد تھا، جب یہاں کوئی باکمال آ کے واپس نہ جانے پاتا تھا۔ قاضی نعمت اللہ آتے ہی اس خدمت پر مامور ہو گئے کہ شاہ زادوں کو اصلاح دیا کریں اور حافظ نور اللہ کو بھی دربارِ اودھ سے تعلق ہو گیا اور ان دونوں نے یہاں ٹھہر کے لوگوں کو خوش نویسی کی تعلیم دینا شروع کی۔”

    "ان بزرگوں کے علاوہ یہاں اور پرانے خوش نویس بھی تھے جن میں سے ایک نامور بزرگ منشی محمد علی بتائے جاتے ہیں۔ مگر آغا الرشید کے شاگردوں نے اپنا ایسا سکّہ جما لیا کہ خوش نویسی کے تمام شائق بلکہ سارا شہر ان کی طرف رجوع ہو گیا۔ جسے خطاطی کا شوق ہوا، انہی کا شاگرد ہو گیا۔ اور تمام خوش نویسانِ سلف کے نام مٹ کے گمنامی کے ناپیدا کنار سمندر میں غرق ہو گئے۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ بزرگ اپنے کمال کے اعتبار سے اس کے مستحق بھی تھے۔”

    "حافظ نور اللہ کی لکھنؤ میں جو قدر ہوئی اس کا اندازہ اسی سے نہیں ہو سکتا کہ وہ یہاں سرکار میں ملازم ہو گئے تھے بلکہ لکھنؤ کی قدردانی کا صحیح اندازہ اس سے ہوت ہے کہ لوگ ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قطعوں کو موتیوں کے دام مول لیتے۔ یہاں تک کہ ان کی معمولی مشق بازار میں صرف ایک روپیہ حرف کے حساب سے ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔”

    "ان دنوں اُمرا اور شوقین لوگ اپنے مکانوں کو بجائے تصویروں کے قطعات سے آراستہ کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے علی العموم قطعوں کی بے انتہا مانگ تھی۔ اور جہاں کسی اچھے خوش نویس کے ہاتھ کا قطعہ مل جاتا، اس پر لوگ پروانوں کی طرح گرتے اور اسے آنکھوں سے لگاتے۔ اس سے سوسائٹی کو تو یہ فائدہ پہنچتا کہ اکثر اخلاقی اصول اور ناصحانہ فقرے یا اشعار ہمیشہ پیشِ نظر رہتے، اور ہر وقت گھر میں اخلاقی سبق ملتا رہتا اور خوش نویسی کو یہ فائدہ پہنچتا کہ خوش نویسوں اور صاحب کمال خطاطوں نے اپنے کمال کو قطعہ نویسی ہی تک محدود کر دیا تھا۔ جو آب دار اور عمدہ وصلیوں کو لکھ کے تیار کرتے اور اسی میں وہ گھر بیٹھے دولت مند ہو جاتے۔ مگر افسوس اب ہندوستان سے قطعات اور کتبوں کا رواج اُٹھتا جاتا ہے اور ان کی جگہ تصویروں نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے اگلے نفیس و مہذب شرعی مذاقِ آرایش کے مٹ جانے کے ساتھ خوش نویسی بھی ہندوستان سے اٹھ گئی۔ اب کاتب ہیں، خوش نویس نہیں ہیں۔”

    "اور جو دو ایک خطاط مشہور بھی ہیں، وہ مجبور ہیں کہ کاپی نویسی اور کتابت سے اپنا پیٹ پالیں جو چیز کہ اصل میں خوش نویسی کی دشمن ہے۔ بہ خلاف اس کے، ان دنوں ایک گروہ قائم ہو گیا تھا جس کا کام فقط یہ تھا کہ خوش نویسی کو اپنے اصول پر قائم رکھے اور اس کو وقتاً فوقتاً مناسب ترقیاں دیتا رہے۔ چنانچہ اگلے خوش نویس، کتابت کو اپنی شان سے ادنا سمجھتے تھے اور خیال کرتے کہ جو شخص پوری پوری کتابیں لکھے گا، وہ غیر ممکن ہے کہ اوّل سے آخر تک اصول و قواعدِ خوش نویسی کو پوری طرح نباہ سکے۔ اور سچ یہ ہے کہ جتنی محنت اور مشقت وہ لوگ ایک ایک وصلی کی درستی میں کرتے تھے، اس کی عشرِ عشیر محنت بھی کاتب کسی پوری کتاب کے لکھنے میں نہیں کر سکتے۔”

    "ان کی محنت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ سے ایک بار نواب سعادت علی خاں نے فرمایش کی کہ "مجھے گلستاں کا ایک نسخہ لکھ دیجیے” نواب سعادت علی خاں، گلستانِ سعدی کے بے حد شائق تھے اور کہتے ہیں کہ گلستاں ہر وقت ان کے سرہانے موجود رہا کرتی تھی۔ اور کوئی ایسی فرمایش کرتا تو حافظ نور اللہ اپنی توہین سمجھ کے اس کا منہ ہی نوچ لیتے مگر فرماں روائے وقت کا کہنا تھا، منظور کر لیا، اور عرض کیا، تو مجھے اسی گڈی کاغذ (ان دنوں رم کو گڈی کہتے تھے) ایک سو (100) قلم تراش چاقو اور خدا جانے کتنے ہزار قلموں کے نیزے منگوا دیجیے” سعادت علی خاں نے حیرت سے پوچھا: "فقط اکیلی ایک گلستان کے لیے اتنا سامان درکار ہو گا؟” کہا "جی ہاں، میں اتنا ہی سامان خرچ کیا کرتا ہوں۔” نواب کے لیے اس سامان کا فراہم کرنا کچھ دشوار تو تھا نہیں، منگوا دیا۔ اب حافظ صاحب نے گلستاں لکھنا شروع کی مگر پوری نہیں ہونے پائی تھی، سات ہی باب لکھنے پائے تھے اور آٹھواں باب باقی تھا کہ انتقال ہو گیا۔”

    "ان کے بعد جب ان کے بیٹے حافظ ابراہیم دربار میں پیش ہوئے اور انہیں سیاہ خلعتِ تعزیت عطا ہوا تو سعادت علی خاں نے کہا: "بھئی، میں نے حافظ صاحب سے گلستاں لکھوائی تھی، خدا جانے اس کا کیا حال ہوا؟” حافظ ابراہیم نے عرض کیا: "ان کے لکھے ہوئے سات باب تیار ہیں، آٹھواں باب باقی ہے، اسے یہ حقیر لکھ دے گا۔ اور اس قدر ان کی شان سے ملا دے گا کہ حضور امتیاز نہ کر سکیں گے۔ لیکن ہاں اگر کسی مُبصر خوش نویس نے دیکھا تو وہ بے شک پہچان لے گا۔” نواب نے اجازت دی اور اس گلستاں کو حافظ ابراہیم نے پورا کیا۔”

    "ان بزرگوں کے تذکرے سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ خوش نویسی میں لکھنؤ کو کوئی ایسا امتیاز حاصل ہو گیا تھا جو ہندوستان میں عدیم النظیر ہو، بہ خلاف اس کے میرا خیال ہے کہ نسخ کے جیسے جیسے باکمال دولتِ مغلیہ سے پہلے ہندوستان میں گزر چکے ہیں، ان کے عشرِ عشیر درجے کو بھی یہ لوگ نہیں پا سکتے بلکہ نسخ کا کمال ان دنوں مٹ چکا تھا۔ نستعلیق کے متعلق اس قدر البتہ کہا جا سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ اور حافظ ابراہیم کے ہاتھ کے قطعات جس ذوق و شوق سے سارے ہندوستان میں مقبول ہوئے اور کسی خوش نویس کے شاید نہ ہو سکے ہوں گے۔ لیکن اس پر بھی خطاطی کے فن میں لکھنؤ کا درجہ قریب قریب وہی تھا جو دیگر متمدن شہروں کا ہو سکتا ہے۔”

  • لچھمن پور، لکھنؤ اور ہزار سَروں والا سانپ

    لچھمن پور، لکھنؤ اور ہزار سَروں والا سانپ

    ٹھیک کسی کو معلوم نہیں کہ لکھنؤ کی آبادی کی بنیاد کب پڑی، اس کا بانی کون تھا اور وجہ تسمیہ کیا ہے؟ لیکن مختلف خاندانوں کی قومی روایتوں اور قیاس سے کام لے کر، جو کچھ کہا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے۔

    کہتے ہیں، راجا رام چندر جی لنکا کو فتح کرکے اور اپنے بن باس کا زمانہ پورا کرکے جب سریرِ جہاں پناہی پر جلوہ افروز ہو ئے تو یہ سَر زمین انہوں نے جاگیر کے طور پر اپنے ہم سفر و ہمدرد بھائی لچھمن جی کو عطا کر دی۔ چنانچہ انہی کے قیام یا ورود سے یہاں دریا کے کنارے ایک اونچے ٹیکرے پر ایک بستی آباد ہو گئی جس کا نام اس وقت سے لچھمن پور قرار پایا اور وہ ٹیکرا لچھمن ٹیلا سے مشہور ہوا۔

    اس ٹیلے میں ایک بہت ہی گہرا غار یا کنواں تھا جس کی کسی کو تھاہ نہ ملتی تھی اور لوگوں میں مشہور تھا کہ وہ سیس ناگ (ہندو دیو مالا میں‌ سیس ناگ (شیش ناگ) اس ہزار سَر والے سانپ کا نام ہے جو دھرتی کو اپنے پھن پر اٹھائے ہوئے ہے) تک چلا گیا ہے، اس خیال نے جذباتِ عقیدت کو حرکت دی اور ہندو لوگ خوش اعتقادی سے جا جا کے اس میں پھول پانی ڈالنے لگے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ جودھستڑ کے پوتے راجہ جنم جے نے یہ علاقہ مرتاض بزرگوں، رشیوں اور منیوں کو جاگیر میں دے دیا تھا، جنہوں نے یہاں چپے چپے پر اپنے آشرم بنائے اور ہرؔ کے دھیان میں مصروف ہو گئے۔ ایک مدت کے بعد ان کو کمزور دیکھ کے دو نئی قومیں ہمالیہ کی ترائی سے آکے اس ملک پر قابض ہو گئیں جو باہم ملتی جلتی اور ایک ہی نسل کی دو شاخیں معلوم ہوتی تھیں، ایک بھر اور اور دوسری پانسیؔ۔

    انہیں لوگوں کا سید سالار مسعود غازیؔ سے 459 محمدی (1030ء) میں مقابلہ ہوا اور غالباً انہیں پر بختیار خلجی نے 631 محمدی ( 1202ء) میں چڑھائی کی تھی۔ لہٰذا اس سرزمین پر جو مسلمان خاندان پہلے پہل آکے آباد ہوئے وہ انہیں دونوں حملہ آوروں خصوصاً سید سالار مسعود غازی کے ساتھ آنے والوں میں سے تھے۔

    بھرؔ اور پانسیوں کے علاوہ برہمن اور کایستھ بھی یہاں سے پہلے موجود تھے، ان سب لوگوں نے یہاں مل کے ایک چھوٹا سا شہر بسا لیا اور امن و امان سے رہنے لگے۔

    لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بستی کا نام لچھمن پور سے بدل کر لکھنؤ کب ہو گیا۔ اس آخری مروّجہ نام کا پتا شہنشاہ اکبرؔ سے پہلے نہیں چلتا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندو اور مسلمانوں کی کافی آبادی پہلے سے موجود تھی، جس کا ثبوت اس واقعہ سے ہو سکتا ہے، جو شیوخِ لکھنؤ کی خاندانی روایتوں سے بہت پہلے سے موجود ہے کہ 969 محمدی ( 1540ء) میں جب ہمایوںؔ بادشاہ کو شیر شاہ کے مقابل جون پورؔ میں شکست ہوئی تو وہ میدان چھوڑ کے سلطان پور، لکھنؤ، پیلی بھیت ہوتا ہوا بھاگا تھا۔

    لکھنؤ میں اس نے صرف چار گھنٹے دم لیا تھا اور گو کہ شکست کھانے کے بعد آیا تھا اور کوئی قوّت و حکومت نہ رکھتا تھا مگر لکھنؤ کے لوگوں نے محض انسانی ہمدردی اور مہمان نوازی کے خیال سے اُن چند گھنٹوں ہی میں دس ہزار روپیہ اور پچاس گھوڑے اس کے نذر کیے تھے۔ اتنے تھوڑے زمانے میں اس سامان کے فراہم ہو جانے سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان دنوں یہاں معتدبہ آبادی موجود تھی۔ اور ان دنوں کا لکھنؤ آج کل کے اکثر قصبات سے زیادہ بارونق اور خوش حال تھا۔

    (اردو زبان کے نام وَر ناول نگار، مترجم اور کئی کتابوں کے مصنّف عبدالحلیم شرر کی کتاب گزشتہ لکھنؤ سے اقتباسات)

  • انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    "گذشتہ لکھنو” عبد الحلیم شرر(1860 تا 1926) کے انشائیوں اور مضامین پر مشتمل کتاب ہے جو برصغیر کے مشہور شہروں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی سرگزشت ہے۔ اس کتاب سے یہ اقتباس حاضر ہے جس میں شرر نے لکھنؤ کی ثقافت اور اس زمانے میں فارسی زبان کی اہمیت کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہوسکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔ اور لکھنؤ کی زبان پر حملہ کرنے والوں کو اگر کوئی اعتراض اتنے دنوں میں مل سکا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس میں فارسی اعتدال سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اُس دور کے معیارِ ترقی کے لحاظ سے یہی چیز لکھنؤ کی زبان کی خوبی اور اُس کی معاشرت کے زیادہ بلند ہو جانے کی دلیل تھی۔ خود دہلی میں زبانِ اردو کی ترقی کے جتنے دور قائم کیے جائیں اُن میں بھی اگلے پچھلے دور کا امتیاز صرف یہی ہو سکتا ہے کہ پہلے کی نسبت بعد والے میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے کہیں نہ تھے۔

    کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے، مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ ”