اسلام آباد(4 اگست 2025): گلاب کے پودے لگانے کیلئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں کم از کم 6 گھنٹے روزانہ دھوپ رہتی ہو۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق ہارٹیکلچرو فلو ری کلچر جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے ماہرین نے پھولوں کے کاشتکاروں کو گلاب کے پودے درختوں سے دور لگانے کا مشورہ دیا ہے۔
ماہرین نے یہ مشورہ اس لیے دیا تاکہ ان پر درختوں کا سایہ نہ پڑ سکے اور کہا ہے کہ گلاب کے پودے لگانے کیلئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں کم از کم 6 گھنٹے روزانہ دھوپ رہتی ہو۔
کیونکہ گلاب کے پھول کو جسے کوئین آف فلاورز بھی کہا جاتا ہے اپنی بڑھوتری کیلئے 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 6 گھنٹے دھوپ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اس کیلئے مناسب درجہ حرارت 20 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔
تاہم 28 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت ہونے پر پھولوں کی پیداوار میں کمی بھی رونما ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گلاب کی مختلف اقسام کو مختلف انواع کی زمینوں اور آب و ہوا میں کاشت کیا جاسکتا ہے، گلاب نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی مسحور کن خوشبو و خوبصورتی کے لحاظ سے بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
عرق گلاب گھروں میں عام استعمال ہونے والی شے ہے تاہم اس کا استعمال باقاعدگی سے نہیں کیا جاتا، اس کا باقاعدہ استعمال بے شمار فائدوں کا سبب بن سکتا ہے۔
گلاب کا عرق جلد کے کئی مسائل کو حل کرتا ہے، یہ وٹامن سی، آئرن، کیلشیئم ،وٹامن اے اور وٹامن ای سے بھر پور ہوتی ہیں، اس عرق کے کچھ ایسے فوائد بھی ہیں جن کے بارے مین بہت کم لوگ واقف ہیں۔
جلد کی نمی
عرق گلاب جلد کی قدرتی نمی کو برقرار رکھتا ہے، اسے بطور ٹونر استعمال کرنے سے جلد ہائیڈریٹ رہتی ہے اور کئی مسائل سے محفوظ رہتی ہے۔ یہ جلد کو خشکی سے بچا کر جھریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
چھائیوں سے نجات
چھائیاں جلد کا سب سے عام مسئلہ ہے اور عرق گلاب اس مسئلے کا سب سے مؤثر علاج ہے، اس مقصد کے لیے 2 چمچ بیسن میں چٹکی بھر ہلدی اور تھوڑاسا عرق گلاب ملا کر استعمال کریں اور خشک ہونے پر دھولیں، اس طرح چھائیوں سے نجات مل جائے گی۔
آنکھوں کے لیے مفید
فی زمانہ لوگوں کی اکثریت دن کا زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزارتی ہے جس سے آنکھوں کے کئی مسائل جنم لینے لگتے ہیں، اس کا بہترین حل عرق گلاب ہے، روئی کو عرق گلاب میں بھگو کر آنکھوں پر رکھنے سے سکون اور راحت کا احساس ہوتا ہے۔
بہترین فیس ماسک
عرق گلاب کو چہرے کو دلکشی بڑھانے کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے، چہرے کی رنگت نکھارنے کے لیے ایک چمچ ملتانی مٹی، لیموں کا رس، اور 2 چمچ عرق گلاب لے کر فیس ماسک تیار کریں اور اسے چہرے پر لگائیں، خشک ہونے پر ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔
کراچی : خلیج بنگال میں بننےوالا سمندری طوفان نے گلاب نے ڈپریشن کی شکل اختیار کر لی تاہم پاکستان کی کسی ساحلی پٹی کواس سسٹم سےخطرہ نہیں۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ خلیج بنگال میں سمندری طوفان گلاب بھارتی اوریساسےگزر کر کمزور پڑھ گیا، جس کے بعد سمندری طوفان نے اب ڈپریشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کےبھارتی گجرات کی جانب بڑھنےکے امکانات ہیں ، جس کے بعد یہ سمندری طوفان ہواکےکم دباؤمیں تبدیل ہوجائے گا۔
یہ سسٹم جب بحیرہ عرب پرپہنچےگاتودوبارہ طاقتور ہونےکےامکانات ہیں ، جس کے باعث 28ستمبرسے 2 اکتوبر تک کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ میں تیز بارشوں کا امکان ہے۔
گذشتہ روز محکمہ موسمیات نےاپناچوتھا اورآخری الرٹ جاری کیا تھا ، جس میں بتایا تھا کہ سمندری طوفان گلاب بھارت اڑیساسےگزررہاہے، طوفان جیسے جیسے آگے بڑھے گا، شدت میں کمی کاامکان ہے۔
الرٹ میں کہا گیا تھا کہ سمندری طوفان پہلےڈپریشن میں اورپھرہواکےکم دباؤ میں تبدیل ہوسکتا ہے ، تاہم پاکستان کی کسی ساحلی پٹی کواس سسٹم سےخطرہ نہیں۔
سندھی اور اردو زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے اپنی وائی میں لکھا ہے، جب ڈالیوں پر سرخ گلاب کھلیں گے، ہم تب ملیں گے۔ رواں سال وبا کے بیچ جب سرخ گلاب کھلے، تو عاشقوں کو محبوب سے ملن کا موقع تو مل گیا، لیکن فکر معاش نے انہیں کھل کر خوش ہونے نہ دیا۔
میلوں تک پھیلا کھیت اور اس پر جا بجا لگے سرخ گلاب، دیکھنے میں تو سحر انگیز منظر ہے، لیکن اپنے نگہبانوں کے لیے ایک پریشان کن نظارہ، جو جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا نے اس سال ان پھولوں کے نصیب میں خاک میں مل جانا لکھا ہے۔
کرونا وائرس کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو معطل کیا اور عالمی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، وہیں سرخ گلابوں کا کاروبار بھی ایسا ٹھپ ہوا کہ اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے چولہے سرد ہوگئے۔
گلشن کا مہکتا ہوا کاروبار
صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد، مٹیاری اور ٹنڈو الہٰ یار گلاب کی کاشت کے مرکز ہیں۔ یہاں لگے گلاب کے کھیت نہ صرف مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ انہیں باہر بھی بھیجا جاتا ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ مقامی استعمال سے زیادہ فائدہ مند بیرون ملک ایکسپورٹ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف ایکسپورٹ بلکہ مقامی کھپت بھی بے حد متاثر ہوئی اور گلاب کے کاروبار سے جڑے لوگوں کی زندگیوں میں معاشی بدحالی در آئی۔
کبیر حسین منگوانو مٹیاری میں 40 ایکڑ زمین کے مالک ہیں جس پر گلاب کاشت کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران گلاب کی مقامی کھپت میں 50 فیصد کمی آئی جبکہ بیرون ملک ایکسپورٹ مکمل طور پر رک گئی، اور گلاب کی پتیوں سے بھرے بورے یونہی گوداموں میں پڑے رہ گئے۔
کبیر حسین کے مطابق گلاب کا موسم سارا سال رہتا ہے لیکن کچھ ماہ ایسے ہیں جنہیں اس کا سیزن کہا جاتا ہے، یہ سیزن پیداوار کا بھی ہوتا ہے اور استعمال کا بھی۔ سیزن کے دوران ان کے 40 ایکڑ کے فارم سے روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار کلو گلاب پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ یہ تعداد گھٹ کر 5 سو سے 6 سو کلو یومیہ چلی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گلابوں کا زیادہ استعمال درگاہوں میں کیا جاتا ہے، کرونا کی وبا سے پہلے کراچی کی صرف ایک عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ پر یومیہ 15 سو سے 2 ہزار کلو پھولوں کی پتیاں فروخت کی جاتی تھیں، درگاہوں پر پھولوں کی کئی مختلف دکانیں ہوتی ہیں اور یہ ان کی روزانہ مجموعی کھپت تھی، لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے اس کھپت میں 50 فیصد کمی ہوئی۔ کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں سال کا زیادہ تر حصہ درگاہیں اور مزارات ویسے بھی بند رہے، اور جب کھلے تب بھی لوگوں کی آمد و رفت پہلے جیسی نہیں تھی۔
گلاب کا دوسرا استعمال دواؤں اور کاسمیٹکس میں کیا جاتا ہے جبکہ گلقند بھی بنایا جاتا ہے، اور پھر اس کا سب سے بڑا حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔ برآمد کیا جانے والے حصہ گلاب کی خشک پتیاں ہوتی ہیں جنہیں سکھایا جاتا ہے اور پھر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ خشک پتیاں یورپ اور عرب ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں اور وہاں انہیں دواؤں اور کاسمیٹکس کے علاوہ چائے کی پتی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
گلاب کی کاشت کے حوالے سے کبیر حسین منگوانو نے بتایا کہ گلاب کو قدرتی اور آرگینک طریقے سے اگایا جاتا ہے اور مصنوعی کھاد یا کیڑے مار ادویات استعمال نہیں کی جاتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک درآمد کرنے کے بعد ان پتیوں کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر اس پر کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے جائیں تو ایسی چیز کو دوا یا کاسمیٹکس میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سے مقامی بیوپاری اور پھر کاشت کار کے منافع پر فرق پڑتا ہے۔
گلاب کا پودا لگائے جانے کے بعد بڑھتا رہتا ہے اور ایک خاص حد تک بڑھنے کے بعد اسے تراش دیا جاتا ہے جس کے صرف 40 دن کے اندر وہ پھر سے گلاب کی پیداوار شروع کردیتا ہے۔ ایک پودے کی اوسط عمر 2 سال ہوتی ہے۔
گلاب کی چنائی کے لیے مقامی افراد کو رکھا جاتا ہے جو ان کا ذریعہ روزگار بن جاتا ہے۔ کبیر حسین منگوانو کے فارم پر کام کرنے والی روپی بھی انہی میں سے ایک ہے۔
روپی قریبی گاؤں دودو منگوانو کی رہائشی ہے اور وہ خود، اس کا شوہر اور بڑی عمر کے بچے سب ہی اس کام سے وابستہ ہیں۔ روپی کا کہنا ہے کہ ان کی ایک طے کردہ مزدوری ہوتی ہے جو کلو کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ یعنی جتنے کلو وہ پھول توڑتے ہیں اس حساب سے انہیں مزدوری ملتی ہے۔
روزانہ صبح 5 بجے فارم پر آجانے والی روپی خاصی بے دردی سے پھول توڑتی دکھائی دیتی ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اسے کم وقت میں زیادہ پھول توڑنے ہیں، اگر وہ نرمی و نزاکت سے پھول توڑنے لگے تو اس کے روز کے کوٹے میں فرق پڑے گا اور اجرت میں کمی آئے گی جو پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے خاصی کم ہوچکی ہے۔
فارم پر کام کرنے والا ہر شخص روزانہ اوسطاً 12 سے 15 کلو پھول توڑتا ہے۔ روپی اور اس جیسے سینکڑوں مرد و خواتین اور بچے صبح ہی پھول توڑ کر انہیں بوریوں میں جمع کرتے جاتے ہیں، ان بوریوں کا وزن کیا جاتا ہے، اور پھر شہر سے آنے والی گاڑیاں انہیں لے کر روانہ ہوجاتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں برف کی سلیں بھی موجود ہوتی ہیں جو ان پھولوں کو تازہ رکھتی ہیں۔
چنے گئے پھول مارکیٹ بھجوائے جارہے ہیں
کبیر حسین منگوانو اور ان جیسے دیگر کئی کھیت مالکان کے فارم سے چلنے والی گاڑیاں کراچی کے علاقے تین ہٹی آ پہنچتی ہیں۔ یہ گلابوں کی منڈی کہلاتی ہے اور یہاں سے پورے شہر میں گلاب سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہاں پھولوں کی نیلامی اور خرید و فروخت کا عمل انجام پاتا ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والے دکاندار یہاں سے مختلف قیمتوں میں پھول اور پتیاں خریدتے ہیں، بعض اوقات وہ گلابوں کی چھانٹی بھی کرتے ہیں، اچھے اور بڑے گلابوں کی زیادہ قیمت بھی دے دیتے ہیں جبکہ چھوٹے گلاب کم قیمت میں بکتے ہیں۔
دلدار احمد کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں پھولوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے منڈی سے پھولوں کی فروخت 50 روپے سے لے کر، 60، 70 یا 100 سو روپے فی کلو بھی ہوتی ہے۔ چونکہ یہاں سے مختلف داموں پر خریداری ہوتی ہے، لہٰذا دکاندار آگے جا کر اپنی دکان پر بھی مختلف قیمت پر پھول فروخت کرتے ہیں۔
دلدار احمد کی دکان سے زیادہ تر شادی ہالز یا شادی کے گھروں میں پھول جاتے ہیں، لیکن کرونا وائرس کے دوران شادیوں میں سادگی کا رجحان بڑھ گیا جس سے ان کے کاروبار پر بھی فرق پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ پھولوں کی فروخت کا ایک روز شب برات بھی ہوتا ہے۔ اس دن پھولوں اور پتیوں کی فروخت دگنی تگنی ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ بعض فارم مالکان شب برات کے موقع پر خود ہی تین ہٹی آتے ہیں اور خرید و فروخت کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔
کبیر حسین منگوانو کے فارم سے کچھ فاصلے پر گوادم ہے جہاں ایکسپورٹ ہونے والی پتیاں سکھائی جاتی ہیں، ان پتیوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے بعد ازاں بوروں میں بھر کر ایکسپورٹ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے امپورٹ ایکسپورٹ رک گئی تو پتیوں کے بورے گوداموں میں ہی پڑے رہ گئے۔
گلاب کی پتیاں سکھا کر انہیں ایکسپورٹ کیا جاتا ہےوبا کے دوران راستے بند ہونے سے پتیاں ایکسپورٹ نہ کی جاسکیں
گلاب سکھانے کے لیے استعمال کیے جانے والے گودام اکثر فارم مالکان ہی کی ملکیت ہوتے ہیں، ان کا شکوہ ہے کہ انہیں ایکسپورٹ تک براہ راست رسائی حاصل نہیں اور اس کے لیے انہیں درمیان میں بیوپاریوں اور ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کی مدد لینی پڑتی ہے جس سے منافعے میں کمی آتی ہے۔
کلائمٹ چینج سے پھولوں کی پیداوار متاثر
دنیا بھر میں بدلتے ہوئے موسم نے فصلوں کی تمام اقسام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور پھول بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
ہارٹی کلچر سوسائٹی سے وابستہ ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ پھولوں کی فصل کا دارومدار دن میں سورج کی روشنی کی مدت پر ہوتا ہے، سورج کی تمازت میں کمی یا زیادتی بھی پھولوں کے کھلنے اور ان کی افزائش کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں مون سون کا سیزن تبدیل ہورہا ہے یعنی جن مہینوں میں بارشیں ہونا تھیں ان میں نہیں ہو رہیں جبکہ جن مہینوں میں بارشوں کا امکان نہیں ہوتا ان دنوں بادل برس رہے ہیں۔ یہ تبدیلی سب ہی فصلوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
علاوہ ازیں پانی کی کمی بھی تمام پھولوں کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔
رفیع الحق نے کہا کہ گلاب کے پھولوں کی چنائی، ان کی مقامی طور پر فروخت اور درآمد سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، پھولوں کی پیداوار میں کمی سے انفرادی اور مجموعی طور پر بھی منفی معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔
شام میں ہونے والی خانہ جنگی نے ایک طرف تو ہزاروں لاکھوں افراد کی جانیں لے لیں، تو دوسری اس ملک کی ثقافت و روایات اور تاریخ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
انہی میں سے ایک شام کا خوبصورت پھول ’دمسک‘ بھی ہے جسے تاریخ کا قدیم ترین گلاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس پھول کا تذکرہ مغربی شاعری و ادب میں بھی ملتا ہے جبکہ شیکسپیئر نے بھی 400 سال قبل اپنی تحاریر میں اس کا ذکر کیا۔
اپنی خوشبو اور خصوصیات کی وجہ سے مشہور یہ پھول شام میں بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا رہا جہاں سے اسے یورپ بھی بھیجا جاتا تھا۔
تاہم خانہ جنگی نے اس پھول اور اس کی تجارت سے جڑے چہروں کو مرجھا دیا۔
دمسک گلاب جس کی وجہ سے ہی شام کے دارالحکومت کا نام دمشق پڑا، شام میں تو اب تقریباً خاتمے کے قریب ہے، تاہم لبنان میں ایک مقام پر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔
یہ مقام اس شامی جوڑے کا گھر ہے جو 5 سال قبل شام سے ہجرت کر کے لبنان آیا، کچھ عرصہ پناہ گزین کیمپ میں رہا اور پھر شام سے لائی اپنی تمام جمع پونچی خرچ کر کے اپنے لیے ایک چھت تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
نہلا الزردہ اور سلیم الذوق اپنے دو بچوں کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے اس گلاب کے بیج بھی لبنان لے آئے۔ یہاں انہوں نے اس گلاب کی افزائش شروع کی اور 5 سال بعد اب ان کے گھر کا پچھلا حصہ گلابوں سے بھر چکا ہے۔
یہ دونوں اس گلاب کو لبنان کے مختلف شہروں میں فروخت کرتے ہیں جہاں اس سے عرق گلاب بنایا جاتا ہے۔ وہ خود عرق گلاب نہیں بنا سکتے کیونکہ ان کے پاس مناسب سامان نہیں۔
شام کی خانہ جنگی نے اس تاریخی و خوبصورت پھول کو بری طرح متاثر کیا ہے، صرف دارالحکومت دمشق کے قریب ایک گاؤں ’نبک‘ میں، جو دمسک کی افزائش کے لیے مشہور ہے، ہر سال 80 ٹن ان گلابوں کی افزائش ہوتی تھی تاہم خانہ جنگی کے دوران یہ گھٹ کر 20 ٹن رہ گئی۔
نہلا اور سلیم پرامید ہیں کہ اپنی اس کوشش کے ذریعے وہ اپنی اس ثقافتی و تاریخی علامت کو بچانے اور پھر سے زندہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
مہکتے ہوئے خوش رنگ پھول کسے اچھے نہیں لگتے، ان کی بھینی بھینی خوشبو اپنے قریب رہنے والے افراد کو معطر کردیتی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پھول ہمارے ماحول کے لیے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔
دنیا بھر میں اگائے جانے والے پھولوں کو دیگر فصلوں کے مقابلے میں زیادہ پانی، کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔
نیدر لینڈز یورپ میں پھولوں کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک ہے۔ یہاں گلاب کے ایک ایکڑ پر 106 کلو گرام کیڑے مار ادویات جبکہ للی کے پھولوں کے ایک ایکڑ پر 135 کلو گرام ادویات چھڑکی جاتی ہیں۔
پھولوں میں سبزیوں کی فصلوں سے 30 گنا زیادہ پانی بھی استعمال ہوتا ہے۔
دوسری جانب افریقی ملک کینیا دنیا میں پھولوں کی پیداوار کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ یہاں استعمال کی جانے والی ادویات مٹی اور پانی کو بھی زہر آلود کر دیتی ہیں۔
کینیا میں پھولوں کی سب سے زیادہ افزائش نیواشا جھیل کے کنارے ہوتی ہے جو میٹھے پانی کی ایک بڑی جھیل ہے۔ پانی اور کیڑے مار ادویات کا بہت زیادہ استعمال اس جھیل کو خشک کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
دنیا بھر میں پھولوں کی مانگ کے سبب اس کی برآمدات کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ پھولوں کو ہوائی جہازوں کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے جس سے ایندھن کا بے تحاشہ استعمال اور کاربن کا اخراج بھی ہوتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق صرف ایک عدد پھول اپنی افزائش اور برآمد کے مرحلے کے دوران اتنی کاربن خارج کرتا ہے جتنی کہ ایک دھواں چھوڑتی گاڑی کی چند منٹوں کی ڈرائیو۔
ماہرین کے مطابق کیڑے مار ادویات کے بغیر اگائے جانے والے پھول ماحول دوست ہوسکتے ہیں جو کم از کم زمین اور پانی کو زہریلا نہیں کرتے۔