Tag: گلوبل وارمنگ

  • پاکستان: مصدق ملک کے پانی، موسمیاتی آفات اور گرمی کی شدت کے حوالے سے خیالات

    پاکستان: مصدق ملک کے پانی، موسمیاتی آفات اور گرمی کی شدت کے حوالے سے خیالات

    کراچی کی جھلستی گرمی میں، جہاں سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے ساتھ کشیدگی جاری ہے، مصدق مسعود ملک امریکانو کافی نوش کررہے تھے۔ حال ہی میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری مقرر ہونے والے مصدق ملک نے وزارت آبی وسائل اور پیٹرولیم کی نگرانی کے اپنے سابقہ عہدے کو چھوڑ کر ایک ایسا کردار سنبھالا ہے جسے وہ ناگزیر اور چیلنجنگ قرار دیتے ہیں۔ اپریل 2025 کی تبدیلی کے بعد اپنے پہلے انٹرویوز میں سے ایک میں، انہوں نے خصوصی طور پر ڈائیلاگ ارتھ سے بات کی۔

    ملک پاکستان کے سب سے سنگین ماحولیاتی خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، “فضائی آلودگی اور اس کا پاکستانی عوام پر اقتصادی اثر۔ پانی کی آلودگی اور اس تک رسائی۔ اور ٹھوس فضلہ (چاہے وہ میتھین ہو یا کاربن ڈائی آکسائیڈ) کے انتظامات ۔ یہ تین بڑے چیلنجز ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے”۔

    لیکن انہیں سب سے زیادہ تشویش پاکستان کے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کی ہے۔ کراچی آنے سے پہلے، سینیٹر ملک کے پہلے سرکاری دوروں میں سے ایک گلگت بلتستان تھا، جو پاکستان کا شمالی ترین علاقہ ہے اور قطبی علاقوں کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر ذخائر کا گھر ہے۔ وہ وہاں اقوام متحدہ کے ایک منصوبے کے تحت جاری اقدامات کا جائزہ لینے گئے تھے، جس کا مقصد گلیشیئر جھیلوں کے اچانک بہاؤ (جی ایل او ایف) کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اعداد اپنی حقیقت خود بیان کرتے ہیں، پاکستان میں 13,000 سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو اسے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے سامنے فرنٹ لائن پر کھڑا کرتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، “آبادی کے بڑھنے کے ساتھ، کمیونٹیاں اب وہیں نہیں رہتیں جہاں ان کے اجداد رہتے تھے۔ اگر وہ ان خطرات کے راستے میں ہوں تو کیا ہوگا؟”

    گلگت بلتستان سے تقریباً 2,000 کلومیٹر دور، وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، کراچی میں بالکل مختلف قسم کے موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی مرکز ہے۔ ان میں سب سے اہم وفاق اور صوبوں کے درمیان سیاسی خلیج کو پُر کرنا اور صوبوں کے متصادم مفادات کو سمجھنا ہے۔

    تباہی کا تماشہ؟
    بھارت کی طرف سے مالی امداد روکنے کے سفارتی دباؤ کے باوجود، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اس ماہ پاکستان کے لئے ایک نیا قرضہ منظور کیا ہے۔ ایک بیان میں، آئی ایم ایف نے تصدیق کی کہ اس نے پاکستانی حکومت کی ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف ) کے تحت درخواست قبول کر لی ہے، جس کے تحت 1.4 ارب امریکی ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی تاکہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجز کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔

    اگرچہ یہ فنڈنگ ایک اہم مدد ثابت ہوگی، لیکن مالک اس حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہم ابھی تک 2022 کے سیلاب کے دوران پیش آنے والے بہت سے مسائل سے نہیں نکل پائے۔ وعدے کئے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔” انہوں نے مزید کہا، “نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے وعدے کئے گئے تھے، لیکن کیا اس فنڈ میں رقم ڈالی گئی؟ وعدوں کے حجم کو دیکھیں، پھر اصل میں موصول ہونے والی فنڈنگ کو دیکھیں۔”

    وہ پوری عالمی ردعمل کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں، “کیا یہ سب صرف ایک تباہی کا تماشہ ہے، جہاں ہم سب مل کر شاندار انگریزی بولتے ہیں اور زبردست تقاریر کرتے ہیں؟”

    حال ہی میں، پاکستان نے متعلقہ فریقین سے تباہی اور نقصان فنڈ سے فنڈز کی تقسیم کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ ملک شدید موسمی واقعات اوربتدریج بڑھتے موسمیاتی اثرات کا شکار ہے۔ مالک کہتے ہیں، “میں مایوس نہیں ہوں۔ جو کچھ میں اس وقت کر رہا ہوں وہ لابنگ ہے۔ اور یہ صرف پاکستان کے لئے نہیں، اگرچہ یہ میری پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے، بلکہ میں کمزور طبقات کے لئے، میں موسمیاتی انصاف کے لئے لابنگ کر رہا ہوں۔”

    وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے حالیہ بین الاقوامی فورمز پر بھرپور انداز میں اپنا موقف رکھا ہے، جہاں انہوں نے موسمی انصاف اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے بھرپور حمایت کی ہے۔ جنیوا کلائمٹ سمٹ سمیت دیگر مواقع پر، انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیات کے نظام میں موجود ناانصافیوں کی سخت الفاظ میں نشاندہی کی۔ وہ چند ممالک کو غیر متناسب فوائد پہنچنے پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “دنیا کے باقی ممالک کا کیا ہوگا؟” اور پوچھتے ہیں، “پاکستان کا کیا ہوگا؟”

    پانی کے تنازعات
    ملکی سطح پر ماحولیات کے سب سے زیادہ متنازعہ مباحثوں میں سے ایک جنوبی پنجاب کے چولستان کے صحرا میں متعقدہ چھ نہروں کا منصوبہ ہے۔ پاکستان میں پانی ایک نہایت حساس اور سیاسی مسئلہ ہے، جہاں صوبے دریائے سندھ کے نظام میں اپنے حصے کی تقسیم پر طویل عرصے سے متنازعہ رہے ہیں، کیونکہ یہ نظام ملک کی زرعی معیشت کا سہارا ہے۔ اسی پس منظر میں، چھ نہروں کا یہ منصوبہ، جسے سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ صوبے کی طرف پانی کے بہاؤ کم ہوجاۓ گا، سخت مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ سندھ حکومت نے پانی کی مقدار میں کمی کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے، منصوبے پر مشاورت نہ ہونے پر بھی اعتراض کیا ہے۔

    ملک اس تصور کا دفاع کرتے ہیں اور اسے ممکنہ طور پر فائدہ مند قرار دیتے ہیں، لیکن زور دیتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان اعتماد اور شفافیت خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہر صوبے کے پانی کے حقوق کی حفاظت کا ممکنہ حل یہ ہے کہ ہر بین الصوبائی جنکشن پر پانی کی نگرانی کے لئے ایک ٹیلیمیٹری نظام قائم کیا جائے، تاکہ ہر وہ بوند جو بہتی ہے، اس کا حساب رکھا جا سکے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ جب یہ نظام نافذ ہو جائے گا، تو صوبے یہ یقین دہانی کر سکیں گے کہ انہیں اپنے حصے کا پانی “سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مل رہا ہے، نہ کہ انسانی مداخلت سے۔”

    تاہم، عوامی مظاہروں اور بڑھتے ہوئے بین الصوبائی تنازعات کی وجہ سے حکام نے اس منصوبے کو اس وقت تک روک دیا ہے جب تک کہ اتفاقِ رائے نہ ہو جائے۔ ملک کہتے ہیں، “ہم صوبوں کی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتے، اور صوبوں سے مشاورت کی جانی چاہیے۔”

    ملک پانی کے نظم و نسق میں شفافیت اور جوابدہی کے اپنے عزم کو دہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “کوئی یکطرفہ فیصلہ سازی نہیں ہوگی،” اور مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ایک مضبوط ٹیلیمیٹری نظام حقیقی وقت میں پانی کی نگرانی اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گا۔

    وفاقی وزیر پانی کی پیداواری صلاحیت کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، ایک ایسا تصور جسے ان کے خیال میں پاکستان میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ وہ کہتے ہیں، “زرعی شعبے میں پانی کے استعمال کی پیداواریت میں 3 فیصد بہتری وہی پیداوار دے سکتی ہے جو 30 لاکھ ایکڑ فٹ سیلابی آبپاشی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔” دوسرے الفاظ میں: “زیادہ فصل، کم پانی۔”

    ان کے مطابق، توجہ کو آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کو پھیلانے کے بجائے موجودہ پانی کے مؤثر استعمال پر مرکوز کرنا چاہیے۔

    جب پاکستان میں بندوں کی تعمیر کے سیاسی تنازعے کے بارے میں پوچھا گیا تو ملک نے مسکراتے ہوئے کہا، “میں اس بند کا نام نہیں لوں گا، ورنہ ‘مجرم’ بنا دیا جاؤں گا۔

    بھارت اور پاکستان کے درمیان تازہ کشیدگی اور تصادم کے بعد حال ہی میں اعلان کردہ جنگ بندی کے باوجود، انڈس واٹرز ٹریٹی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ کشمیری علاقے پہلگام پر حملے کے بعد بھارت نے انڈس واٹرز ٹریٹی کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا، جس کی پاکستان نے سخت مذمت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “اگر کوئی اختلاف ہو تو پہلا قدم انڈس کمشنرز کے درمیان دوطرفہ بات چیت ہونی چاہیے۔ اگر وہ کامیاب نہ ہو تو دوسرا راستہ تکنیکی ماہرین کی غیرجانبدارانہ مشاورت ہے۔” “آخری حل ثالثی عدالت ہے، اور یہ طریقہ اس معاہدے میں کام کرتا رہا ہے۔ اور اگر اس معاہدے کی کوئی وقعت نہیں، تو دنیا میں کسی معاہدے کی وقعت نہیں۔”

    ملک کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے اس معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “معاہدے کی ایک لازمی شرط یہ ہے کہ کمشنرز کو وقتاً فوقتاً ملاقات کرنی ہوتی ہے، جس کی بھارت پہلے ہی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ وہ اتنی معلومات یا ڈیٹا بھی فراہم نہیں کرتا جو اس دوطرفہ نظام میں پانی کے بہاؤ کی تصدیق میں مدد دے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلگام حملے سے پہلے ہی بھارت معاہدے کی شرائط دوبارہ طے کرنے کی بات کر رہا تھا۔ “یہ شک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ کیا پہلگام کو معاہدے کی خلاف ورزی کا بہانہ بنایا گیا؟” وہ سوال اٹھاتے ہیں۔

    علاقائی کشیدگی سے لے کر عالمی بے عملی تک، ملک پھر سے موسمیاتی تبدیلی کے انسانی نقصانات کی طرف آ تے ہیں، خاص طور پر پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ گروپ کے لئے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم اسکولوں اور صحت کے مراکز تک رسائی کھو دیتے ہیں۔ ہماری لڑکیاں اور خواتین ان تباہ کاریوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔”

    پھر ایک خاموش لمحے میں، ملک نے معصوم ماضی یاد کرتے ہوئے کہا، ” اپنے بچپن میں ہم اپنے باغ میں جگنو پکڑتے، انہیں بوتلوں میں بند کر کے اندھیرے کمروں میں لے جاتے، مگر پھر باہر آ کر انہیں آزاد کر دیتے تاکہ وہ مر نہ جائیں۔ شام کے وقت تتلیوں کے پیچھے دوڑتے تھے۔ وہ تتلیاں اور جگنو کہاں گئے؟ اب ان کا پیچھا کرنے کون دوڑتا ہے؟ ہرے توتے اور بلبل کہاں ہیں؟ کیا آپ نے انہیں حال میں دیکھا ہے؟” وہ جواب کی توقع نہیں رکھتے۔

    ملک کے نزدیک، بتدریج گرم درجہ حرارت کی طرف مائل دنیا کی وجہ سے جو جمالیاتی اور ثقافتی نقصان ہوتا ہے، وہ مادی یا جسمانی نقصان کے برابر ہی گہرا ہے۔ ملک افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ شاعری اور لوک گیت جو کبھی پاکستان کی قدرتی خوبصورتی کی تعریف میں گائے جاتے تھے، اب معدوم ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “سیلاب اور موسمیاتی آفات صرف مادی نقصان نہیں پہنچاتیں، بلکہ ہماری ثقافت کو بھی چھین لیتی ہیں۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں سست روی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا’

    جب رومینہ خورشید عالم نے اپریل 2024 میں عہدہ سنبھالا تو وہ اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے بخوبی واقف تھیں۔ سینیٹر شیری رحمان کی کوپ 27 میں ترقی پذیر ممالک کے لئے نقصان اور تباہی فنڈ قائم کرنے سے متعلق مذاکرات کی تاریخی قیادت اور دیگر پیشروؤں کی اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ اس عہدے سے وابستہ توقعات کافی زیادہ ہیں۔ رحمان سے پہلے، سابق وزیر ماحولیات اور معروف موسمیاتی وکیل، ملک امین اسلم، پہلے ہی پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کو عالمی سطح پر پیش کرچکے ہیں۔

    پاکستان نقصان اور تباہی فنڈ کے معاوضے کا منتظر ہے، اس دوران موسمیاتی رابطہ کار رومینہ خورشید عالم نے ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ملک کے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور کوپ 29 کے حوالے سے تیاری کے بارے میں اپنے وژن پر گفتگو کی

    رومینہ خورشید عالم اپنے پیشروؤں کی طرف سے رکھی گئی بنیادوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور ساتھ یہ بھی جانتی ہیں کہ آگے ایک طویل سفر ہے۔ نمایاں پیش رفت کے باوجود، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار مملک میں سے ایک ہے۔ شدید اور متواتر موسمی واقعات کے ساتھ، قوم کو ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ اگرچہ حالیہ مالیاتی بجٹ میں مالی سال 2024-25 کے لئے موسمی طور پر حساس علاقوں کے لئے مختص کئے گئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن بہت سے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور ملک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے احتیاط سے منصوبہ بند پالیسیوں اور فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔

    ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی رابطہ کار (کلائمیٹ کوآرڈینیٹر) رومینہ خورشید عالم نے اپنے پیشروؤں کو سراہا اور اپنے کیریئر کے سفراوراہداف کا خاکہ پیش کیا۔ وہ اپنا تعارف بطور ایک پر عزم موسمیاتی کارکن کراتی ہیں جوکہ پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے کا جذبہ رکھتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا، ” میرا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے، میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 2005 میں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام سے کیا۔ 2008 تک میں مسلم لیگ ن کے گوجرانوالہ چیپٹر کی سیکرٹری جنرل رہی۔ بطور مسیحی اور بعد میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی پارٹی سے میری وابستگی برقرار رہی‘‘۔

    انہوں نے اپنے عہدے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا، “ وزیر اعظم میرے باس ہیں؛ مجھے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ طاقت کی تعریف اس کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ میں اپنے اہداف کو جارحانہ طریقے سے حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہوں، میرے نزدیک غیر فعالیت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔”

    ڈائیلاگ ارتھ: آپ نے آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے کی بات کی ہے۔ اپنے موجودہ کردار میں آپ کے پاس کس قسم کا اختیار ہے؟ آپ اصل میں کتنی طاقت رکھتی ہیں؟

    رومینہ خورشید عالم: موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن پر وزیر اعظم کی رابطہ کار کی حیثیت سے، میں نے پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات کی قیادت کی ہے۔ میرے کام میں موسمیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنا، ماحولیاتی نظم و نسق کو بڑھانا، اور لچکدار منصوبوں کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا شامل ہے۔ میری توجہ پلاسٹک کے فضلے، پانی کے تحفظ، اور قابل تجدید توانائی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے پر بھی مرکوز ہے۔

    تاہم، میرا کردار مشاورت اور سہولت کار کا ہے، ایگزیکٹو نہیں ہے۔ میں اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہوں اور رابطے وضع کرسکتی ہوں لیکن پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم کے لئے وزارتوں اور محکموں پر انحصار کرتی ہوں۔

    آپ کی توجہ اس وقت کن اہم مسائل پر مرکوز ہے اور کون سے بڑے اقدامات پائپ لائن میں ہیں؟

    ہماری توجہ فعال صوبائی تعاون کے ساتھ، موسمیاتی اثرات کے مقابلے میں پاکستان کی مطابقت بڑھانے کے لئے نیشنل اڈاپٹیشن پلان پر عملدرآمد کی قیادت پرمرکوز ہے۔ کوششوں میں پائیدار ترقی کے لئے موسمیاتی مالیات کو متحرک اور استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا اور کاربن ٹریڈنگ کے لئے ایک فریم ورک کو حتمی شکل دینا شامل ہے تاکہ اخراج کو کم کیا جا سکے اور گرین ماحول دوست ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ آلودگی کو روکنے کے لئے پلاسٹک پر پابندی کے ضوابط کو نافذ کرنا بھی ایک ترجیح ہے۔ مزید برآں، ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانا جو ماحولیاتی پائیداری کو صنعتی کاموں میں ضم کریں اور عوامی بیداری بڑھانے اور اسٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی اقدامات میں شامل کرنے کے لئے میڈیا کی حکمت عملی تیار کرنا اہم اقدامات ہیں۔

    کوپ 29 قریب ہے اور پاکستان کا اس پر کافی انحصار ہے۔ سربراہی اجلاس کے لئے ملک کے بنیادی اہداف کیا ہیں اور آپ انہیں پیش کرنے کی کیا تیاری کررہی ہیں؟

    کوپ 29 کے لئے پاکستان کے اہداف میں موسمیاتی مالیات میں اضافہ یقینی بنانا ہے، خاص طور پر کمزور خطوں میں موافقت اور لچک کے منصوبوں کے لئے۔ ملک کا مقصد اپنے نیشنل اڈاپٹیشن پلان کو فروغ دینا، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کا ازالہ کرنا اور پائیدار منصوبوں میں سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے کاربن مارکیٹ کی پالیسی کو حتمی شکل دینا ہے۔ ہم محدود افرادی قوت کے باوجود فنڈنگ ​​کی منظوری اور اربوں ڈالرز کے لئے 25 سے 30 پروجیکٹس تیار کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی شراکت داری کو مضبوط بنانا اور موسمیاتی انصاف کی وکالت، بشمول مالیات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ منصفانہ سلوک بھی ترجیحات میں شامل ہیں۔

    تیاری میں وزارتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ، موسمیاتی اثرات پر ڈیٹا اور تحقیق کو مرتب کرنا، اعلیٰ سطح کی سفارت کاری، اور کوپ 29 میں پاکستان کے اہداف کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کےلئے ایک جامع مواصلاتی حکمت عملی تیار کرنا شامل ہے۔

    سابقہ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمان نے 2022 کے سیلاب کے بعد نقصان اور تباہی کے فنڈ کی وکالت میں اہم پیش رفت کی۔ کیا پاکستان کو اس اقدام سے کوئی مالی مدد ملی ہے اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟

    پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد، سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کوپ 27 میں نقصان اور تباہی کے فنڈ کے قیام کی پرزور اپیل کی۔ اس فنڈ کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی مدد کرنا تھا جو موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہیں۔

    کوپ 27 کے دوران نقصان اور نقصان کے فنڈ پر باضابطہ طور پر اتفاق کیا گیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔ تاہم، فنڈ کو فعالیت کی رفتار سست ہے ،اس کی ساخت، حکمرانی، اور فنڈز تک رسائی کے معیار کے حوالے بات چیت جاری ہے۔ پاکستان، اس پر تیزی سے عملدرآمد کے لئے ان مذاکرات میں فعال طور پر شامل رہا ہے، تاکہ کمزور ممالک کو بروقت امداد مل سکے۔

    پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ حکومت موسمیاتی خدشات کو اپنی وسیع تر توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں کیسے ضم کر رہی ہے؟

    پاکستان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود بتدریج آب و ہوا کے مسائل کو اپنی توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں ضم کر رہا ہے۔ متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی (2019) کا مقصد 2030 تک 60 فیصد صاف توانائی حاصل کرنا ہے، جس میں شمسی، ہوا اور پن بجلی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ نیشنل الیکٹرک وہیکلز (ای وی) پالیسی فضائی آلودگی اور معدنی ایندھن پر انحصار کو کم کرنے کے لئے الیکٹرک وہیکلز کے استعمال کو فروغ دیتی ہے۔ گرین فنانسنگ کے اقدامات، جیسے قابل تجدید توانائی کی فنانسنگ اسکیم اور پاکستان کے پہلے گرین بانڈ کا اجراء ، پائیدار توانائی کی سرمایہ کاری کو سپورٹ کرتے ہیں۔

    اقتصادی منصوبہ بندی میں بشمول موسمیاتی کارروائی (ایس ڈی جی 13)، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز شامل ہیں، اور کمزور گروہوں پر موسمیاتی اثرات کو تسلیم کیا گیا ہے، ساتھ ہی نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی ) اور موسمیاتی لچکدار زراعت کے اقدامات ان مسائل کو حل کرتے ہیں۔ احساس پروگرام جیسے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک خواتین اور پسماندہ کمیونٹیز میں موسمیاتی اثرات سے پیدا ہونے والی غربت کو کم کرنے پر ہیں۔ محدود وسائل اور نفاذ کے مسائل سمیت چیلنجز برقرار ہیں، لیکن جامع اور مساوی آب و ہوا کی پالیسیوں کے لئے عزم بھی برقرار ہے۔

    فضائی آلودگی سے متعلق پاکستان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون کتنا اہم ہے اور اس تعاون کو فروغ دینے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟

    ماحولیاتی چیلنجوں جیسے فضائی آلودگی، ہمالیائی ماحولیاتی نظام کے انتظام، اور آبی وسائل کے مسائل سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون بہت ضروری ہے۔

    فضائی آلودگی پورے جنوبی ایشیائی خطے کو متاثر کرتی ہے، جس کی نگرانی، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور اخراج کے معیارات میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمالیائی ماحولیاتی نظام کا انتظام، پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لئے اہم ہے، اور مشترکہ تحقیق اور تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ قلت اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ پانی کے وسائل کا انتظام ضروری ہے۔

    پاکستان علاقائی اقدامات میں فعال طور پر مصروف ہے جیسے ماحولیاتی انتظام کے لئے ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو انوائرمنٹ پروگرام (ایس اے سی ای پی) میں شرکت، انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بھارت کے ساتھ بات چیت کا انعقاد کررہا ہے، اور تحقیق اور تعاون کے لئے ہمالین یونیورسٹی کنسورشیم (ایچ یو سی) کا رکن ہے۔ دو طرفہ اور کثیر الجہتی معاہدے بھی ماحولیاتی مسائل میں مددگار ہیں۔ ان تعاون پر مبنی کوششوں کو مضبوط بنانا خطے میں پائیداری اورمطابقت کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔

    (یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)

  • اے سی میں دھماکے : اہم وجوہات اور بچاؤ کے طریقے

    اے سی میں دھماکے : اہم وجوہات اور بچاؤ کے طریقے

    آج کل میڈیا میں اے سی میں دھماکے اور آگ لگنے کے واقعات کی خبریں اور ویڈیوز تواتر سے دیکھی جارہی ہیں، جیسے جیسے گلوبل وارمنگ کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں اور درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ رہا ہے، اے سی کے دھماکوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

    لوگ یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک الیکٹرانک مشین جو گرمی میں سکون دینے کے لیے بنائی گئی تھی، وہ خود ہی آگ کیسے لگا سکتی ہے اور ہمارے مسائل میں مزید اضافہ کیسے کر سکتی ہے۔

    زیر نظر مضمون میں اے سی میں دھماکوں کے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ہم اپنے گھر یا دفتر میں ایسے خطرناک حادثات پر کیسے قابو پاسکتے ہیں۔

    اے سی کے دھماکوں کی عام وجوہات

    زیادہ استعمال : درجہ حرارت کے بڑھنے کے ساتھ اے سی کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ گرم ہو جاتا ہے، یہ زیادہ استعمال کمپریسر پر دباؤ ڈال سکتا ہے جو بالآخر آگ لگنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    گیس لیک : اے سی یونٹس کولنگ کے لیے ریفریجرینٹ گیس پر انحصار کرتے ہیں اگر یہ گیس لیک ہوجائے تو اے سی مؤثر طریقے سے ٹھنڈا نہیں کر سکے گا، جس سے یونٹ پر مزید بوجھ پڑے گا اور ممکنہ طور پر زیادہ گرم ہو کر آگ لگ سکتی ہے۔

    وولٹیج کا اتار چڑھاؤ : بار بار وولٹیج میں اتار چڑھاؤ کمپریسر اور اے سی کے دیگر الیکٹریکل آلات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، یہ نقصان اوورلوڈ کا باعث بن سکتا ہے جو کہ زیادہ گرم ہونے اور ممکنہ طور پر آگ لگنے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    وقفہ دیں : زیادہ درجہ حرارت والے دنوں میں اپنے اے سی کو ہر 2-3 گھنٹے بعد وقفہ دیں تاکہ وہ ٹھنڈا ہوسکے اور زیادہ گرم ہونے سے بچ سکے۔

    باقاعدہ دیکھ بھال : لیکس یا بلاکجز کو وقت پر پکڑنے کے لیے باقاعدہ چیک اور دیکھ بھال کا انتظام کریں۔

    وولٹیج اسٹبلائزر لگائیں : اگر آپ کے علاقے میں وولٹیج کے اتار چڑھاؤ کے مسائل ہیں تو اپنے اے سی کو بچانے کے لیے وولٹیج اسٹبلائزر لگائیں۔

    ڈیڈیکیٹڈ سرکٹ : یہ یقینی بنائیں کہ آپ کا اے سی ایک الگ الیکٹریکل سرکٹ سے منسلک ہو تاکہ اوور لوڈنگ سے بچا جا سکے۔

    پیشہ ورانہ تنصیب : ہمیشہ اپنے اے سی کی تنصیب کسی پیشہ ور کاریگر سے کروائیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ صحیح طریقے سے نصب کیا گیا ہے۔ ان تجاویز پر عمل کرکے آپ گرمی کے موسم میں اپنے اے سی کو محفوظ اور فعال رکھ سکتے ہیں۔

  • 2050 کے بعد ہر سال 5 گنا زیادہ لوگ مرنے لگیں گے

    2050 کے بعد ہر سال 5 گنا زیادہ لوگ مرنے لگیں گے

    عالمی حدت سے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر مطالبات سامنے آنے کے بعد اگلے ہفتے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کا پہلا دن اس مسئلے کے لیے وقف کر دیا گیا ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے شدید گرمی، فضائی آلودگی اور مہلک متعدی بیماریوں کے بڑھتے پھیلاؤ کے سبب ماحولیاتی تبدیلی کو انسانیت کو درپیش صحت کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

    لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2050 تک درجہ حرارت میں 2 ڈگری سیلسیز اضافہ ہو جائے گا، اس کے بعد ہر سال گرمی سے پانچ گنا زیادہ لوگ مریں گے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2030 اور 2050 کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ اضافی اموات متوقع ہیں۔

    محققین نے کہا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گزشتہ سال موسم گرما کے دوران یورپ میں 70 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں، جو اس سے پہلے 62 ہزار تھیں، دریں اثنا طوفان، سیلاب اور آگ دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق گلوبل وارمنگ کے صحت پر تباہ کن اثرات کو روکنے اور موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی لاکھوں اموات کو روکنے کے لیے پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیس کے ہدف تک محدود رکھا جانا چاہیے۔ جب کہ اقوام متحدہ نے رواں ہفتے کہا کہ دنیا اس صدی میں 2.9 سینٹی گریڈ تک گرم ہونے کے راستے پر ہے۔

    سب سے زیادہ خطرہ بچوں، خواتین، بوڑھوں، تارکین وطن اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو ہوگا، جنہوں نے سب سے کم گرین ہاؤس گیسز خارج کی ہیں۔ توقع ہے کہ یہ سال گرم ترین ہوگا اور جیسے جیسے دنیا گرم ہوتی جا رہی ہے، اس سے بھی زیادہ اور تواتر کے ساتھ شدید گرمی کی لہریں آنے کی توقع ہے۔

  • ’روز محشر‘ نامی گلیشیئر خطرے میں گرفتار، سائنس دانوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    ’روز محشر‘ نامی گلیشیئر خطرے میں گرفتار، سائنس دانوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    سائنس دانوں نے انٹارٹیکا میں ’روز محشر‘ نامی گلیشیئر کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ اس کے برف کے تختے کے نیچے غیر متوقع تبدیلی رونما ہو رہی ہے، جو اس گلیشیئر کے لیے خطرے کی علامت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات رونما ہو رہے ہیں، گلوبل وارمنگ گلیشیئرز کو دیمک کی طرح چاٹنے لگی ہے، اور سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ’تھاویٹس گلیشیئر‘ المعروف ’ڈومس ڈے گلیشیئر‘ مشکل میں گرفتار نظر آ رہا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق ڈومز ڈے نامی گلیشئر 1990 کی دہائی کے مقابلے میں 8 گنا تیزی سے پگھل رہا ہے، اس گلیشیئر سے ہر سال 80 ارب ٹن برف ٹوٹ کر سمندر میں شامل ہو رہی ہے جو سطح سمندر میں 4 فی صد سالانہ اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

    ماہرین نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ تھاویٹس گلیشئر تیزی سے تباہی کے دہانے کی جانب بڑھ رہا ہے، عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کو نہیں روکا گیا تو یہ دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔

    واضح رہے کہ اس گلیشیئر کو ڈومس ڈے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر یہ پگھل کر سمندر میں گر گیا تو اس سے زمین پر قیامت خیز تباہی برپا ہوگی۔ یہ گلیشیئر تقریباً فلوریڈا کے سائز کا ہے اور مغربی انٹارکٹیکا میں واقع ہے۔

  • گلوبل وارمنگ : بھارت میں گرمی کا  146 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    گلوبل وارمنگ : بھارت میں گرمی کا 146 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    نئی دہلی : بھارت میں گرمی کا 146 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ، 1877 کے بعد فروری کا مہینہ سب سے زیادہ گرم رہا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں گرمی نے ماہِ فروری میں ہی لوگوں کو جھلسا کر رکھ دیا۔

    بھارت میں ماہِ فروری کی گرمی نے گزشتہ 146 سال کا ریکارڈ توڑ دیا، محکمہ موسمیات نے بتایا کہ بھارت میں انیس سو ستتر کے بعد سے اس سال کا سب سے گرم مہینہ فروری رہا ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ فروری میں متعدد بھارتی شہروں کا اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بڑھ کر انتیس اعشاریہ پانچ ڈگری سلسیس ریکارڈ کیا گیا۔

    ایک ورچوئل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ڈی کے ہائیڈرومیٹ اور ایگرومیٹ ایڈوائزری سروسز کے سربراہ ایس سی بھان نے کہا کہ مارچ میں گرمی کی لہروں کا بہت کم امکان ہے، لیکن ملک کے بیشتر حصوں میں اپریل اور مئی میں انتہائی موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    بھان کا کہنا تھا کہ "پوری دنیا گلوبل وارمنگ کے دور میں گزر رہی ہے اور ہم گرمی کی بڑھتی ہوئی دنیا میں رہ رہے ہیں‘‘۔

  • گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے خلا میں ’دیوار‘ قائم کرنے کا منصوبہ

    گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے خلا میں ’دیوار‘ قائم کرنے کا منصوبہ

    عالمی درجہ حرارت میں اضافہ دنیا کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو دنیا بھر میں بے شمار قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے، اب ماہرین نے اس سے نمٹنے کے لیے خلا میں دیوار قائم کرنے کا خیال پیش کیا ہے۔

    دنیا میں درجہ حرارت میں اضافے سے سنگین موسمیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور اس مسئلے کی روک تھام کے لیے سائنسدانوں کی جانب سے کافی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

    مگر اس مسئلے کا جو نیا حل سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی جانب سے پیش کیا گیا ہے وہ ذہن گھما دینے والا ہے۔

    اس منصوبے کے تحت چاند کی گرد کو استعمال کرکے ایک ایسی ڈھال تیار کی جائے گی جو زمین تک پہنچنے والی سورج کی حرارت کی شدت کو کم کر دے گی۔

    جرنل پلوس کلائمٹ میں امریکا کی یوٹاہ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ چاند سے لاکھوں ٹن گرد کو جمع کرکے خلا میں زمین سے 10 لاکھ میل کی دوری پر چھوڑا جائے، جہاں گرد کے ذرات سورج کی روشنی کو جزوی طور پر بلاک کر دیں گے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس گرد کے ذرات کا حجم ایسا ہے جو زمین تک آنے والی سورج کی روشنی کو مؤثر طریقے سے جزوی طور پر بلاک کرسکتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ چونکہ چاند کی سطح سے ان ذرات کو لانچ کرنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں تو یہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک بہترین طریقہ کار ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے زمین اور سورج کے درمیان L1 Lagrange point نامی مقام پر ایک نئے خلائی اسٹیشن کی ضرورت ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ کار سولر جیو انجینیئر نگ کے دیگر مجوزہ منصوبوں سے بہتر ہے اور زمین کی آب و ہوا پر اس سے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

    مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کا متبادل نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے ہمیں زمین پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کچھ وقت مل جائے گا۔

    اس سے قبل اکتوبر 2022 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے 5 سالہ تحقیقی منصوبے پر غور کیا جارہا ہے جس میں زمین تک پہنچنے والی سورج کی روشنی کی مقدار کو کم کرنے کے مختلف طریقوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی، تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔

    وائٹ ہاؤس کے آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے مطابق اس تحقیق میں مختلف طریقوں جیسے کرہ ہوائی میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کے ایرو سولز کے چھڑکاؤ کے ذریعے سورج کی روشنی کو واپس خلا میں پلٹانے کا تجزیہ کیا جائے گا جبکہ یہ بھی دیکھا جائے گا اس طرح کے طریقہ کار سے زمین پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

  • گلوبل وارمنگ کے پاکستان پر اثرات کا معاملہ عالمی فورم پر اٹھانے کا فیصلہ

    گلوبل وارمنگ کے پاکستان پر اثرات کا معاملہ عالمی فورم پر اٹھانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : پاکستان نے گلوبل وارمنگ کے اثرات کا معاملہ عالمی فورم پر اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق گلوبل وارمنگ کے پاکستان پر اثرات کا معاملہ عالمی فورم پر اٹھانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    پاکستان کی جانب سے انٹرپارلیمنٹری یونین اجلاس میں سیلابی صورتحال زیر غور لانے کی دراخوست کی گئی۔

    اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے آئی پی یو کے صدر دوآر تے پاشیکو کے نام خط لکھا ، جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سیلاب سے33ملین لوگ متاثر ہوئے۔

    خط کے متن میں کہا گیا کہ سیلاب سے1400لوگ جاں بحق اورتقریباًایک تہائی ملک ڈوبا، سیلاب سے 12 لاکھ گھر تباہ اور 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

    چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان گرین ہاؤس گیس میں ایک فیصدسےبھی کم کاحصہ دارہے، اجلاس میں سیلابی صورتحال کو بطور ایمرجنسی ایجنڈا آئٹم شامل کیا جائے۔

    خط میں کہنا تھا کہ آئی پی یو اجلاس سے ہی ہم ممبر ممالک کو امداد اور بحالی کی دارخوست کرسکتے ہیں ، آئی پی یوممبرز کم کاربن خارج کرنے والے ممالک کو بچانے کیلئے اقدامات کریں۔

    صادق سنجرانی نے مزید کہا کہ امداد صرف سخاوت نہیں بلکہ انصاف کا تقاضا بھی ہے، انٹر پارلیمنٹری یونین 178 ممالک پر مشتمل سب سے بڑی عالمی پارلیمانی تنظیم ہے۔

  • گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    گلوبل وارمنگ کس طرح کچھوے کی جنس تبدیل کر رہی ہے؟

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، زمین پر موجود تمام جانداروں کو متاثر کر رہا ہے، بعض جاندار اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں کہ ان کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، کچھوا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    ماحولیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت مادہ کچھوؤں کی پیدائش میں اضافے کا سبب بن رہا ہے جس سے ان کی نسل میں جنسی عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھوے کی نسل معدوم ہوسکتی ہے۔

    کچھوے کی بقا کی جنگ

    دنیا بھر میں کچھوے کی 7 نمایاں اقسام موجود ہیں جن میں سے 5 پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں، پاکستان حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے نہایت زرخیز سمجھا جاتا ہے اور 5 اقسام کے کچھوؤں کی موجودگی اس کی بہترین مثال ہے۔

    تاہم پاکستان میں کچھوے کی نسل کو مختلف خطرات لاحق رہے جس کے باعث ان کی آبادی میں کمی دیکھی گئی، اس وقت پاکستان میں کئی ادارے کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کوششوں سے کچھوے کی نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

    یہ جاننا آپ کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 70 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھوے کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں جو نہ صرف افزائش نسل کے لیے مادہ کچھوے کو پیش آتی ہیں بلکہ ننھے کچھوے جب سمندر تک پہنچتے ہیں تب بھی انہیں بے حد خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے، بعد ازاں وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔ وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    دوسری صورت میں مادہ جب انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے تو ساحلوں پر پھینکے کچرے کے باعث وہاں موجود کتے گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    جو انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    اگر پاکستانی ساحلوں کی بات کی جائے تو ساحلوں پر تفریح کے لیے آئے افراد ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوے کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سمندر تک پہنچ جانے والے کچھوؤں کی زندگی بھی آسان نہیں ہوتی، ماہی گیروں اور ماحولیاتی اداروں کی جانب سے کئی ایسے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں کم یا درمیانی عمر کے کچھوے سمندر میں شارک کا شکار بن گئے۔

    یہ تمام عوامل وہ ہیں جن کی وجہ سے کچھوے کے سروائیول کی شرح بے حد کم ہوجاتی ہے۔

    موسم سے جنس کا تعین

    سنہ 2018 میں امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین نے کچھ جانوروں کے ایک جین KDM6B میں اس سرگرمی پر تحقیق کی جس کی وجہ سے بعض جانوروں کی جنس کا تعلق موسم سے ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گرم موسم میں اس جین میں ہونے والی سرگرمی یہ طے کرتی ہے کہ انڈے سے نکلنے والے جانور کی جنس مادہ ہوگی۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ موسم سے جنس کے تعین کا عمل کچھوے کے علاوہ بھی کچھ ریپٹائلز میں ہوتا ہے جیسے کہ مگر مچھ اور چھپکلی کی ایک قسم بیئرڈڈ ڈریگن۔

    سنہ 2018 میں ہی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے اسی حوالے سے ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں انکشاف ہوا کہ گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کے شمالی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد جبکہ جنوبی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 69 فیصد مادہ ہیں۔

    اس بارے میں تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کہتے ہیں کہ درجہ حرارت نارمل ہوگا تو انڈے سے نکلنے والے نر یا مادہ کا امکان یکساں ہوگا، درجہ حرات کم ہوگا تو نر کی پیدائش ہوگی جبکہ گرم موسم سے مادہ کی پیدائش میں اضافہ ہوگا۔

    معظم خان کے مطابق اب تک اس حوالے سے جامع تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا کچھوے کی جنس میں عدم توازن پیدا ہوچکا ہے یا اس کی شرح کیا ہے تاہم کچھوے کی افزائش کے اس قدرتی پہلو کے باعث یہ طے ہے کہ بہت جلد یہ بگاڑ سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ نر کچھوؤں کی تعداد کم ہوجائے اور مادہ کی زیادہ، جس سے افزائش کا عمل بھی متاثر ہوگا، کچھووؤں کی آبادی کم ہوتی جائے گی یوں ان کی نسل معدومی کی طرف بڑھتی جائے گی۔

    ایکو سسٹم پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

    سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حمید خان کہتے ہیں کہ کچھوؤں کو آبی خاکروب کہا جاتا ہے، کچھوے سمندر اور آبی ذخائر کو صاف رکھنے میں مدد دیتے ہیں جس سے آبی حیات پھلتی پھولتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق کچھوے کی نسل میں اس عدم توازن کے اثرات 10 سے 15 سال بعد سامنے آنا شروع ہوسکتے ہیں، کچھوؤں کی آبادی میں کمی یا ان کی معدومی سمندروں کی آلودگی میں اضافہ کرسکتی ہے جس سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانداروں اور پودوں کو نقصان ہوگا، اور یہ انسانوں کے فوڈ چین کو بھی متاثر کرے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ سمندری گھاس کچھوؤں کی خوراک ہے، کچھوؤں کے کھانے کی وجہ سے یہ گھاس متوازن مقدار میں سمندر میں موجود ہوتی ہے، اگر اس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے سمندر کا ایکو سسٹم بھی متاثر ہوگا۔

    کیا اس صورتحال کو روکا جا سکتا ہے؟

    سنہ 2018 میں نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن کی تحقیق میں جب گریٹ بیریئر ریف میں مادہ کچھوؤں کی آبادی 99 فیصد ہونے کا انکشاف ہوا، اس وقت ماہرین نے تجویز کیا تھا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ریت پر سایہ دار جگہیں فراہم کرنا یا مصنوعی بارشیں برسانا بہتر رہیں گی جس سے ریت کا درجہ حرارت کم ہو۔

    تاہم کیا پاکستان کے ساحلوں پر بھی ایسا ممکن ہے؟

    اس بارے میں معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی 800 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے اور اس پوری پٹی پر ایسے اقدامات کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے، تاہم چھوٹے پیمانے پر کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ریت میں موجود پلاسٹک کے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) ریت کا درجہ حرارت بڑھا دیتے ہیں، چنانچہ ساحلوں سے پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔

    معظم خان کے مطابق کچھوؤں کی نسل کو لاحق دیگر خطرات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ماحول کے لیے بے حد اہم اس جاندار کا تحفظ کیا جاسکے۔

  • آبادی میں تیزی سے اضافہ: کیا فصلوں کی پیداوار بڑھانا ممکن ہے؟

    آبادی میں تیزی سے اضافہ: کیا فصلوں کی پیداوار بڑھانا ممکن ہے؟

    واشنگٹن: سائنس دانوں کو ایک تحقیق سے علم ہوا ہے کہ پودوں کے RNA میں تبدیلی سے ان کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ کیا جا سکتا ہے اور وہ خشک سالی کے حالات میں بھی زیادہ مزاحمت کر سکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یونیورسٹی آف شکاگو، پیکنگ یونیورسٹی اور گوئی چو یونیورسٹی کی ٹیم نے آلو اور چاول کے پودوں میں ایک جین کا اضافہ کیا جسے ایف ٹی او کہا جاتا ہے۔

    اس کے نتیجے میں ان میں خوراک پیدا کرنے کا عمل یعنی فوٹو سینتھسس کا سبب بننے والے عوامل میں اضافہ ہوا اور نتیجتاً پودے زیادہ بڑے بھی ہوئے اور ان کی پیداوار بھی کہیں زیادہ ہوئی۔

    تجربہ گاہ میں انہوں نے اصل سے تین گنا زیادہ پیداوار فراہم کی جبکہ کھیتوں میں 50 فیصد زیادہ، ان کا جڑوں کا نظام بھی کہیں زیادہ بڑا نظر آیا جس کی وجہ سے وہ خشک سالی کی صورت میں زیادہ مزاحمت بھی دکھا رہے ہیں۔

    تحقیق میں شامل چوان ہی کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی واقعی حیران کن ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ تکنیک اب تک ہر پودے پر کام کرتی دکھائی دے رہی ہے اور عمل بھی سادہ ہے۔

    کیمسٹری، بائیو کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی کے معروف پروفیسر چوان ہی کہتے ہیں کہ ہم پودوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، لکڑی کے حصول سے لے کر خوراک، ادویات، پھولوں اور تیل تک ، یہ طریقہ پودوں سے حاصل کردہ ان چیزوں کی پیداوار بڑھانے کا بھی ذریعہ بنے گا۔

    ان کے مطابق اس سے گلوبل وارمنگ کے اس ماحول میں پودوں کو بہتر بنانے کا موقع بھی ملے گا۔

    یاد رہے کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب اس وقت غذائی تحفظ یا فوڈ سیکیورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے جو کلائمٹ چینج، عالمی حدت اور ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے مستقبل قریب میں دنیا کو پیش آسکتا ہے۔