Tag: گلوبل وارمنگ

  • اسلام آباد کی سڑکیں ماحول دوست بن گئیں

    اسلام آباد کی سڑکیں ماحول دوست بن گئیں

    اسلام آباد: اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے شہر میں سائیکل سواروں کے لیے بنائی جانے والی خصوصی رو کو عوام کے لیے کھول دیا۔ مختلف سڑکوں پر سائیکل سواروں کے لیے مختص ان لینز کے قیام کا مقصد آلودگی میں کمی اور لوگوں کو صحت مند ذرائع سفر استعمال کرنے کی طرف راغب کرنا ہے۔

    وفاقی دارالحکومت میں ضلعی حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی ان لینز کو بنانے پر تقریباً 20 ہزار ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔

    مقامی حکومت کو امید ہے کہ 5 کلومیٹر طویل یہ سائیکل ٹریک گاڑیوں کے دھویں میں کمی کرنے میں معاون ثابت ہوں گے جو شہر کی فضا کو آلودہ کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر سائیکل سواروں کے لیے مخصوص ٹریک کافی عرصے پہلے بنائے گئے تھے لیکن تاحال انہیں ان کے اصل مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح

    اسلام آباد کے میئر شیخ انصر عزیز کا کہنا ہے کہ ان ٹریکس کے قیام سے لوگ کم از کم مختصر فاصلوں کے لیے گاڑیوں کے بجائے سائیکل استعمال کرنے پر غور کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ مقامی حکومت شہر بھر کی سڑکوں پر 60 کلومیٹر طویل سائیکل ٹریکس کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ منصوبہ وفاقی حکومت کی منظوری کا منتظر ہے۔

    فی الحال ان ٹریکس کو دارالحکومت کے نوجوان، غیر ملکی سفارت خانوں کے ملازمین اور بڑی عمر کے ریٹائرڈ حضرات شام اور صبح کے وقت بطور ورزش سائیکلنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

    track-1

    اسلام آباد کے والدین بھی خوش ہیں کہ ان کے بچوں کو ایک صحت مند بیرونی سرگرمی میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔

    دوسری جانب بہتری ماحولیات کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے کارکن اظہر قریشی کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں جیسے لاہور، اسلام آباد، کراچی اور پشاور میں سفر کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یا کلائمٹ چینج کو دیکھتے ہوئے ہمیں ماحول دوست ذرائع سفر اپنانے کی ضرورت ہے اور سائیکلنگ اس کی بہترین مثال ہے۔

    مزید پڑھیں: سائیکل سواروں کے لیے رات میں چمکنے والے راستے

    ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں کے موسم میں گاڑیوں کا دھواں گرمی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اگر شہر کی چند فیصد آبادی بھی سائیکل کا سفر کرے تو سڑکوں پر ہجوم اور دھویں میں خاصی حد تک کمی آسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد کی مقامی حکومت اس سے قبل بھی کئی ماحول دوست اقدامات کر چکی ہے۔ چند روز قبل میئر شیخ انصر عزیز نے فیصلہ کیا تھا کہ اسلام آباد میں ان تمام گھروں پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا جو پانی کا غیر ضروری استعمال اور اسے ضائع کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔

    انہوں نے یہ فیصلہ دارالحکومت میں پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے کیا تھا۔

  • مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو زمین کے سبزے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لیے دیوانہ وار کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا کو، زمین کو لاحق ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دیوانہ معروف اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی تھا جس نے قطب شمالی کے سمندر میں برفانی گلیشیئرز کے سامنے بیٹھ کر پیانو کی پرفارمنس پیش کی۔

    اس پرفارمنس کا مقصد دنیا کو متوجہ کرنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل کر دنیا کو کن خطرات سے دو چار کرنے والی ہے۔

    لارا جونز بھی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے فن پاروں کے ذریعہ دنیا کو مونگے کی بے رنگ ہوتی چٹانوں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانیں اپنی رنگت کھو رہی ہیں جسے بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔

    7

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے آسٹریلیا کے سمندر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں۔

    یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہے جو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔

    سنہ 1981 میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    لارا جونز انہی مرتی ہوئی خوبصورت چٹانوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کر رہی ہیں۔

    ان کے فن پارے دیکھ کر آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ خود سمندر میں موجود ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

    2

    4

    3

    5


     

  • سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    جیسے جیسے دنیا میں قدرتی آفات و مختلف موسمیاتی عوامل سامنے آرہے ہیں ویسے ویسے ماحولیات کا تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے۔

    تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں کلائمٹ چینج کے باعث جن شدید خطرات کا سامنا ہوگا، ان کے مقابلے میں ہمارے اقدامات نہایت معمولی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کو ہنگامی بنیادوں پر کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ دنیا کی ترقی، امن اور فلاح کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

    رواں برس پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کیے گئے، اور دنیا نے مزید کن ماحولیاتی خطرات کا سامنا کیا، آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    پاکستان ۔ کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سے ایک

    جنوری تا جون

    پاکستانی پارلیمنٹ مکمل طور پر شمسی توانائی پر انحصار کرنے والی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ بن گئی۔

    مارچ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے سرسبز پاکستان پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت ملک بھر میں 5 سال کے اندر 10 کروڑ درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا۔

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا۔ مسودہ تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔

    پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں تجویز دی گئی کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔

    انہوں نے متنبہ کیا کہ دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    جولائی تا دسمبر

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن رواں برس یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    ڈپٹی کمشنر تھر پارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی۔

     کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    وفاقی حکومت نے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

    رواں سال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بدترین دھند دیکھی گئی جسے ماہرین نے اسموگ قرار دیا۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق لاہور میں زہریلی اسموگ کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا تھا جو ایک غیر معمولی عمل تھا۔

    اس فوگ کی وجہ سے مختلف حادثات میں پنجاب میں 15 سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے۔

    لاہور ہائیکورٹ نے بھی حکومت سے اسموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی جس کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    پنجاب کے ضلع لیہ کے نواحی علاقے بکھری احمد کے مقام پر دریائے سندھ نے آگے بڑھنا شروع کردیا جس کے بعد ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ دریا کے آگے بڑھنے کے باعث اس مقام پر تیزی کے ساتھ زمین کا کٹاؤ جاری ہے اور زمین دریا برد ہورہی ہے۔

    وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد نے اعلان کیا کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    برطانوی باکسر عامر خان نے سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر میں 200 کنویں بنانے کا اعلان کیا۔

    وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر نایاب پرندے تلور اور ہجرت کر کے آنے والے دیگر پرندوں کے تحفظ و افزائش نسل کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیے گئے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر غیر معمولی جسامت کی جیلی فش دیکھی گئی جو اس سے قبل پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

    عالمی ادارے جرمن واچ نے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2017 جاری کیا جس میں کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو ساتویں نمبر پر رکھا گیا۔

    رواں برس آخری عشرے میں تلور کا شکار بھی موضوع بحث رہا۔ قطر سے آنے والے شہزادوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں دل بھر کر تلور کا شکار کیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی انہیں شکار کی اجازت دینے کا معاملہ مختلف اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بن رہا ہے۔

    سائنس آف دی ٹوٹل انوائرنمنٹ نامی جریدے میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والی 40 فیصد آبادی پارے (مرکری) کی آلودگی اور اس کے نقصانات کے خطرے کا شکار ہے۔

    دنیا نے کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

    جنوری تا اپریل

    یورپین خلائی ایجنسی نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیٹلائٹ لانچ کردیا۔

    کینیا میں ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے جانے والے فورم ’جائنٹ کلب‘ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکا کی جانب سے زور دیا گیا کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔

    مئی تا اگست

    متحدہ عرب امارات کی حکومت نے بارشوں میں اضافے کے لیے مصنوعی پہاڑ بنانے کا فیصلہ کیا۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوگئی جس کی سائنسدانوں نے تصدیق کردی۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والا پہلا ممالیہ ہے۔

    دوسری جانب معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کے تحفظ کے لیے نہایت منظم اقدامات اٹھائے گئے جن کے باعث چین میں خطرے کا شکار پانڈا، اور کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آئے۔

    دنیا بھر میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد عالمی خلائی ادارے ناسا نے متنبہ کیا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

    آسٹریلیا کے حکومتی سائنسی ادارے کے مطابق آسٹریلیا نے اپنے جغرافیہ میں ایک میٹر کی تبدیلی کرلی۔

    ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اپنی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہر سال 7 سینٹی میٹر شمال کی جانب حرکت کر رہا ہے اور سنہ 2020 تک اس کے جغرافیے میں 1.8 میٹر کی تبدیلی ہوچکی ہوگی۔

    ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطب شمالی اور گرین لینڈ میں برف گلابی ہونا شروع ہوگئی۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ستمبر تا دسمبر

    امریکی صدر بارک اوباما نے بحرالکاہل میں قائم کی گئی سمندری جانداروں کی حفاظتی پناہ گاہ (ریزرو) کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دور میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات کیے اور جانے سے قبل انہوں نے کلائمٹ چینج کو سیاسی ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔

    انڈونیشیا میں علمائے دین نے جنگل میں جان بوجھ کر لگائی جانے والی آگ کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے دیا۔

    عالمی عدالت برائے انصاف نے ماحولیاتی نقصانات سے متعلق کیسوں کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    سنہ 1975 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف منظور ہونے والے معاہدے سائٹس کی کانفرنس میں مختلف ممالک نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کلائمٹ چینج کے باعث وہاں موجود برف پگھل رہی ہے اور اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    سات نومبر کو مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوا۔ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا تھا۔

    نو نومبر کو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر نئے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کیے جانے والے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    صدر ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج بھی کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے تھے۔

    عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 اہم موسمیاتی مظاہر کا ذکر کیا گیا جو کرہ ارض پر آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں۔

    ایسے موسمیاتی مظاہر کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک ایسی شارک کو حرکت کرتے دیکھا گیا جس کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ ڈائنو سارز سے بھی پہلے سے ہماری زمین پر موجود ہے۔

    اب تک اس شارک کو کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کے باعث یہ شارک ایک تخیلاتی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور اس کے بارے میں مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آیا یہ موجود ہے بھی یا نہیں۔

    فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کردیا گیا۔

    دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا، براعظم افریقہ کے صحرائے اعظم میں 37 سال بعد برفباری ہوئی۔

    رواں برس دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا اور پیرس، میڈرڈ، تہران، نئی دہلی اور لاہور وغیرہ میں تاریخ کی بلند ترین فضائی آلودگی کی شرح ریکارڈ کی گئی۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات

    کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر میں غیر معمولی واقعات

    واشنگٹن: امریکی سائنسی ماہرین نے حال ہی میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج نے سال 2015 میں دو درجن سے زائد ایسے موسمیاتی مظاہر پیدا کیے جن کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    ماہرین نے ان واقعات میں سنہ 2015 میں کراچی کو اپنا نشانہ بنانے والی خوفناک اور جان لیوا ہیٹ ویو کو بھی شامل کیا ہے۔

    report-1

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری کی گئی اس تحقیقاتی رپورٹ میں دنیا بھر میں ہونے والے 24 سے 30 ایسے غیر معمولی واقعات کی فہرست بنائی ہے جو اس سے پہلے کبھی ان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔

    ان واقعات میں دنیا کے 11 علاقوں بشمول پاکستان اور بھارت کی ہیٹ ویو، برطانیہ میں سردیوں کے موسم میں سورج کا نکلنا، اور امریکی شہر میامی کے ایسے سیلاب کو شامل کیا گیا ہے جو اس وقت آیا جب سورج سوا نیزے پر تھا۔

    report-2
    امریکی شہر میامی میں آنے والا سیلاب

    رپورٹ میں مزید واقعات میں جنوب مشرقی چین کی شدید بارشیں، جبکہ شمال مغربی چین کی سخت گرمی، برفانی خطے الاسکا کے درجہ حرارت میں اضافہ اور اس کی وجہ سے وہاں کے جنگلات میں آتشزدگی، اور مغربی کینیڈا میں ہونے والی سخت خشک سالی شامل ہے۔

    ادارے کے پروفیسر اور رپورٹ کے نگران اسٹیفنی ہیئرنگ کے مطابق ان عوامل کی وجوہات کا تعین ہونا ضروری ہے۔

    report-3
    الاسکا کے جنگلات میں آگ

    انہوں نے کہا کہ دنیا کو تیزی سے اپنا نشانہ بناتا کلائمٹ چینج دراصل قدرتی عمل سے زیادہ انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اور ہم اپنی ترقی کی قیمت اپنے ماحول اور فطرت کی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    پروفیسر اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم غیر متوقع ہرگز نہیں اور اب ہمیں ہر سال اسی قسم کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

    اس سے قبل گزشتہ ماہ مراکش میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس کوپ 22 میں بھی ماہرین متنبہ کر چکے تھے کہ موسمیاتی تغیرات میں مزید شدت آتی جائے گی اور یہ دنیا کے تمام حصوں کو متاثر کرے گی۔

  • زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    نیروبی: افریقی جنگلات کی خوبصورتی اور قدرتی حسن میں اضافہ کرنے والے معصوم زرافوں کو بھی اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زرافوں کی نسل بہت آہستگی سے معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی سرخ فہرست برائے خطرے کا شکار نسل کے مطابق دنیا کے سب سے طویل القامت اس جانور کی آبادی میں سنہ 1980 سے 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد خاصی گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    giraffe-2

    آئی یو سی این نے زرافوں کو خطرے سے دو چار جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرافوں کی آبادی میں سب سے زیاہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔ موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی اس کے دیگر عوامل ہیں۔

    giraffe-6

    سرخ فہرست میں افریقہ کے سرمئی طوطے کو بھی شامل کیا گیا ہے جو انسانوں کی ہو بہو نقل اتارنے کے لیے مشہور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے اس پرندے کو پکڑ کر قید کیا جا رہا ہے جس کے بعد اسے دنیا کے مختلف علاقوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

    دوسری جانب ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ بدلتے موسموں کی وجہ سے جانوروں کو اپنی بقا کے شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات سنہ 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ مندرجہ بالا تمام عوامل مل کر ہماری زمین پر ایک اور عظیم معدومی کو جنم دے سکتے ہیں جو اس سے قبل آخری بار اس وقت رونما ہوئی جب ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے زمین سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا۔

  • آلودگی میں کمی کے لیے پیرس میں پبلک ٹرانسپورٹ مفت دستیاب

    آلودگی میں کمی کے لیے پیرس میں پبلک ٹرانسپورٹ مفت دستیاب

    پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آلودگی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا جس کے بعد شہری حکومت نے شہر میں دستیاب تمام پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    اس اعلان کے بعد اب پیرس کے شہری ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ میں مفت سفر کرسکیں گے۔

    یہ فیصلہ پیرس میں آلودگی کی خطرناک شرح کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ شہری اپنی کاروں کا استعمال کم سے کم کریں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں۔

    paris-1

    انتظامیہ کے مطابق یہ سال میں نواں موقع ہے جب شہر میں فضائی آلودگی کی سطح میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا۔ یہ اضافہ 30 نومبر کے بعد سے دیکھا گیا جس کے دوران ماہرین نے صحت سے متعلق بھی مختلف خدشات کا اظہار کیا۔

    پیرس کی مقامی حکومت اس سے قبل کاروں کے لیے جفت اور طاق نمبر پلیٹ کے اصول کا اطلاق بھی کر چکی ہے۔ اس اصول کے تحت گاڑیوں کو ان کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ کے حساب سے متبادل دنوں میں (ایک دن جفت اور ایک دن طاق نمبر پلیٹ والی گاڑیاں) سڑک پر لانے کی اجازت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    حکومت کے مطابق اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 35 ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

    فضائی آلودگی اور اس کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پیرس میں ایک اور قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت اب شہریوں کو کہیں بھی پودے اگانے کی اجازت ہوگی۔

    اس سے قبل پیرس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے پابندی عائد تھی کہ کوئی بھی شخص بغیر کسی منصوبہ بندی کے کہیں پر بھی باغبانی نہیں کر سکتا۔ لیکن اب نہ صرف اس پابندی کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ پیرس کے رہائشیوں پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ باغبانی کریں۔

    واضح رہے کہ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس فضائی آلودگی کے حوالے سے ایک بدترین سال ہے۔ اس سال ماحولیاتی آلودگی کا ایک خطرناک مظہر اسموگ کی شکل میں سامنے آیا جس نے پاکستان اور بھارت سمیت کئی دنیا کے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    مزید پڑھیں: اسموگ سے متاثر 10 شہر

    اس سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔

    رپورٹ میں شامل ماہرین کی آرا کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    ان کے مطابق یہ نہ صرف ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کے باعث ہر سال 5.5 ملین افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ کے قریب 5 سال کی عمر تک کے بچے شامل ہیں۔

  • ماحولیاتی بہتری کے لیے صدر ٹرمپ کو تجاویز

    ماحولیاتی بہتری کے لیے صدر ٹرمپ کو تجاویز

    واشنگٹن: آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار اور اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی لیونارڈو ڈی کیپریو نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں ماحول سے متعلق مختلف شعبہ جات اور اقدامات زیر بحث آئے۔

    لیونارڈو ڈی کیپریو فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ٹیری ٹمنن کے مطابق لیو نے امریکی صدر ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کے عملے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں لیو نے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے پیش کیے جن کے ذریعہ نئی نوکریاں پیدا کر کے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق لیو نے امریکی صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح تجارتی و رہائشی تعمیراتی منصوبے شروع کیے جائیں جو قابل تجدید توانائی پر مشتمل اور ماحول دوست ہوں، ان سے لاکھوں بے روزگار امریکیوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    واضح رہے کہ لیونارڈو ڈی کیپریو کو ملاقات میں خاص طور پر قابل تجدید یعنی ماحول دوست توانائی کے ذرائع کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، یعنی عنقریب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے جو ماحولیاتی آلودگی میں بدترین اضافہ کریں گے۔

    گو کہ لیو نے امریکی صدارتی انتخاب میں شکست خوردہ امیدوار ہیلری کلنٹن کی حمایت کی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب وہ ان کے ساتھ مل کر ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔

    لیو نے صدر ٹرمپ کو اپنی ڈاکیو منٹری بی فور دی فلڈ بھی پیش کی جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔

    واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی ماحول دشمنی اور لاعلمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ بارہا کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔

    صرف یہی نہیں بلکہ ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ امریکا میں کوئلے کی صنعت کی بحالی کے علاوہ صدر ٹرمپ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

  • لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    واشنگٹن: آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار اور اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی لیونارڈو ڈی کیپریو نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں انہوں نے صدر کو ماحول دوست اقدامات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔

    لیونارڈو ڈی کیپریو فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ٹیری ٹمنن کے مطابق لیو نے امریکی صدر ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کے عملے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں لیو نے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے پیش کیے جن کے ذریعہ نئی نوکریاں پیدا کر کے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: لیونارڈو ڈی کیپریو کی بے گھر افراد کی بحالی کے لیے کوشش

    فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق لیو نے امریکی صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح تجارتی و رہائشی تعمیراتی منصوبے شروع کیے جائیں جو قابل تجدید تونائی پر مشتمل اور ماحول دوست ہوں، ان سے لاکھوں بے روزگار امریکیوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    گو کہ لیو نے امریکی صدارتی انتخاب میں شکست خوردہ امیدوار ہیلری کلنٹن کی حمایت کی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب وہ ان کے ساتھ مل کر ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔

    لیو نے صدر ٹرمپ کو اپنی ڈاکیو منٹری بی فور دی فلڈ بھی پیش کی جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔

    لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب رہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی ماحول دشمنی اور لاعلمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

    اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ بارہا کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ ان کا انتخابی منشور بھی ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔

  • موسمیاتی تغیر کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری؟

    موسمیاتی تغیر کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری؟

    کراچی: پاکستان نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ یہاں موسمیاتی شدت مثلاً بارشوں، گرمی اور خشک سالی جیسے موسمیاتی سانحات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ بھارت پاکستان کا پانی روکنے پر تلا ہے جس سے نئے جنگی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

    کراچی کے مقامی ہوٹل میں گرین میڈیا انیشی ایٹو اور فریڈرک نومین فاؤنڈیشن (ایف این ایف ) کی جانب سے میڈیا ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد صحافیوں کو تربیت فراہم کرنا تھا۔

    آب و ہوا میں تبدیلی کے ابلاغ کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں، اس کے بہتر اظہار اور درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    اس موقع پر اے آر وائی نیوز کے ویب ایڈیٹر اور ڈیجیٹل میڈیا ماہر فواد رضا نے کہا کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے ڈیجیٹل میڈیا کی تشکیل کی ہے اور اب عوام اپنے موبائل فون سے خبروں کی ویب سائٹ دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں 90 سیکنڈ کی ایک معلوماتی ویڈیو 2 ہزار الفاظ کے کسی مضمون سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ثابت ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے پاکستان میں ماحولیاتی اور موسمیاتی ڈیٹا کی کمی سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس اور سروے کو مقامی حالات سے وابستہ کر کے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے۔

    اس کے علاوہ انہوں نے اردو اور انگریزی بلاگنگ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔

    سندھ سیڈ کارپوریشن کے سربراہ اور ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر اقبال سعید خان نے کہا کہ کراچی میں مبارک گوٹھ کے قریب چرنا جزیرے کے پانی میں مونگے اور مرجانی چٹانیں ہیں جہاں 80 فیصد آبی حیات رہتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس حساس جگہ پر تفریحی سرگرمیاں بڑھی ہیں، یہاں تک کہ بحری جہاز اور کشتیاں بھی دھوئی جارہی ہیں جس سے وہاں موجود آبی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    ڈاکٹر اقبال سعید خان نے زور دیا کہ پاکستان میں آب و ہوا کی قومی پالیسی اب باضابطہ طور پر منظور ہوچکی ہے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

    سینیئر صحافی محمود عالم خالد نے کہا کہ بڑے ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات، ان میں ماحولیات کے معاملے کو ٹائم پاس سمجھا جاتا ہے اور اسے عموماً صحت کی خبروں کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل کی اشاعت سے ایک جانب تو عوامی شعور بیدار ہوتا ہے تو دوسری جانب اخباری تراشے اور میڈیا میں تشہیر کے بعد متعلقہ مسئلے کے لیے بین الاقوامی مالی مدد کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس لیے ماحولیاتی رپورٹنگ ایک بہت ہی اہم کام ہے۔

    ایف این ایف کے سینیئر پروگرام کو آرڈنیٹر عامر امجد نے کہا کہ ان کی تنظیم گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے وابستہ مسائل اور شعور پر کام کررہی ہے اور اس ضمن میں کئی اداروں اور تنظیموں سے تعاون کیا جارہا ہے۔

    ان کے مطابق پاکستان بھر کے اسکولوں میں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شعور اور توانائی کی بچت کے طریقے بھی بتائے جارہے اور اس ضمن میں کوئی بھی اسکول ان کی تنظیم سے رابطہ کرسکتا ہے۔

    عامر امجد نے بتایا کہ ایف این ایف جمہوری اقدار، آزادی، خواتین اور نوجوانوں کی بہبود سمیت کئی اہم مسائل پر کام کر رہی ہے تاکہ سول سوسائٹی کو مضبوط کر کے قومی ترجیحات میں ان کی آواز شامل کی جاسکے۔

    سندھ کے ماحولیاتی مسائل پر ایک نظر

    ورکشاپ کے ایک اور اہم حصے میں تھر پارکر، حیدر آباد اور کراچی سے شامل صحافیوں کے وفود سے ان کے علاقوں میں اہم ترین مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان مسائل پر میڈیا کوریج ہونی چاہیئے۔

    تھر پارکر

    تھرپارکر سے آئے مہمان صحافی دلیپ دوشی لوہانو نے کہا کہ تھر پارکر میں جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ جاری ہے۔

    تھرکول کی وجہ سے 8 گاؤں کے باسیوں کو بے دخل کیا گیا ہے اور مویشیوں کی چراہ گاہیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔

    مریم صدیقہ نے کہا کہ تھری نقل مکانی پر مجبور ہیں اور انہیں غذائی تحفظ حاصل نہیں۔

    حیدر آباد

    حیدر آباد سے آئے صحافیوں نے کہا کہ نہر پھلیلی ایک زمانے میں پھولوں کا مرغزار ہوا کرتی تھی اور اب آلودگی اور صنعتی فضلے سے ہلاکت خیز پانی کا جوہڑ بن چکی ہے اور غریب لوگ اس کا پانی پی کر بیمار ہو رہے ہیں۔

    حیدر آباد شہر میں طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے کھلے عام پھینکا جارہا ہے۔

    حیدرآباد کے شہریوں کو منچھر جھیل کا آلودہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے جو کئی امراض کی وجہ بن رہا ہے۔

    ایک زمانے میں مٹیاری کے جنگلات بہت وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور اس کی ذمے دار ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا ہے۔

    کراچی

    کراچی میں کے ایم سی کے ٹرک مصروف اوقات میں کچرا اٹھا رہے ہیں اور ٹرک بند نہ ہونے کی وجہ سے کچرا روڈ پر گرتا ہے۔

    کراچی میں درختوں کی تیزی سے کٹائی جاری ہے اور یہ شہر شجر کاری کی ایک بھرپور مہم کا متقاضی ہے۔

    سمندر آلودہ ہو رہے ہیں اور اس پانی میں سیوریج کا گند شامل ہو رہا ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہے۔

    سرکاری اسکولوں میں بچوں کو ماحولیات اور کلائمٹ چینج کا شعور پہنچانے کی مہم کی ضرورت ہے۔

  • دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی نافذ کردیا گیا ہے تاکہ ملک میں توانائی کے کفایت شعار استعمال اور اس کی بچت کو یقینی بنایا جاسکے۔

    واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے فعال ہونے والی پارلیمنٹ بن چکی ہے۔

    وفاقی وزیر زاہد حامد نے بتایا کہ پاکستان دنیا بھر میں مضر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتا ہے، تاہم ان گیسوں سے وقوع پذیر ہونے والے کلائمٹ چینج اور اس کے خطرات سے متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ ’دنیا آگاہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے‘۔

    زاہد حامد نے مراکش میں ہونے والی موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی عالمی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی سربراہی بھی کی تھی۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ساتھ کھڑا ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی بھی توثیق کردی ہے۔ انہی ماحول دوست اقدامات کے تحت پرائم منسٹر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں شجر کاری کی جائے گی۔

    زاہد حامد نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بھی تیار کی ہے اور پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس کی قومی اسمبلی نے ان اہداف کو قومی پالیسی کا حصہ بنانے کے بل کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔