Tag: گلوبل وارمنگ

  • جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    لندن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے جانوروں اور پرندوں کی کئی اقسام تیزی سے بدلتے ہوئے موسم یعنی کلائمٹ چینج سے مطابقت نہیں کر سکیں گی جس کے باعث ان کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    ایک نئے تحقیقی مقالے میں 50 ایسے جانوروں، پرندوں اور پودوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو تیزی سے بدلتے موسموں سے مطابقت نہیں کرسکیں گے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کئی رینگنے والے جانور، آبی حیات اور پودے کلائمٹ چینج کے باعث خاص طور پر معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ ان جانداروں کو ہے جو گرم خطوں کے رہنے والے ہیں۔ کلائمٹ چینج یعنی موسموں میں تبدیلی کا سب سے اہم پہلو گلوبل وارمنگ یعنی دنیا بھر کے درجہ حرات میں اضافہ ہے جس کے باعث نہ صرف ٹھنڈے علاقوں میں مجموعی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، بلکہ گرم علاقوں کا موسم بھی مزید گرم ہورہا ہے۔

    leopard

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انسان کی طرح کئی جاندار بھی ہجرت کر جائیں گے اور نئے ٹھکانے تلاش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، لیکن بہت سے ایسے ہوں گے جو اپنی پناہ گاہیں چھوڑنے کے قابل نہیں ہوں گے نتیجتاً وہ موت کا شکار ہوتے جائیں گے۔

    ماہرین کے مطابق موجودہ درجہ حرات بھی جانداروں کی کئی اقسام کو ان کی جگہوں سے ہجرت پر مجبور کرچکا ہے۔

    مقالے میں شامل ڈاکٹر وائنز کا کہنا ہے کہ پانی میں رہنے والے اور رینگنے والے جانداروں کی نسبت ممالیہ جانور اور پرندوں کا مستقبل کچھ بہتر ہے کیونکہ وہ اپنا جسمانی درجہ حرارت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ دہرا خطرہ ہے، ایک تو موسم میں تبدیلی، جسے ہم بدتر تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔ دوسری اپنی پناہ گاہوں سے محرومی۔

    birds

    اس سے قبل بھی لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 تک ہماری دنیا میں موجود جنگلی جانوروں کی ایک تہائی تعداد کم ہوجائے گی جس کے بعد دنیا کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    رپورٹ میں پچھلی ایک صدی کے دوران جانوروں کی نسل کا خاتمہ (اگر کوئی ہوا ہے)، ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات، انسانی آبادی اور شکار کے تناسب کا مطالعہ پیش کیا گیا تھا۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    :جنگلی حیات کے بارے میں مزید مضامین

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس میں کچھوے کو شکست

    برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

  • شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ جب کبھی آپ کو سبزیوں اور پھلوں کی ضرورت ہو، آپ اپنے فلیٹ یا گھر کی چھت پر جائیں اور وہاں اگی ’فصل‘ سے اپنی مطلوبہ شے توڑ کر لے آئیں؟

    یہ بات شاید آپ کو بہت عجیب لگے، لیکن دنیا بھر میں اب یہی رجحان فروغ پا رہا ہے جسے اربن فارمنگ کہا جاتا ہے۔

    شہری زراعت یا اربن فارمنگ کا مطلب شہروں کے بیچ میں زراعت کرنا ہے۔ یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    farming-6

    farming-2

    farming-4

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    دوسری جانب جن زمینوں پر زراعت کی جارہی ہے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ان کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں، گھر اور اسکول وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

    تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے افراد کو آخر کس طرح سبزیاں اور پھل فراہم کیے جائیں؟

    اس کا حل ماہرین نے شہری زراعت کے طور پر پیش کیا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ شہری زراعت کے ذریعہ شہر کی زیادہ سے زیادہ عمارتوں کی چھتوں کو گارڈن کی شکل میں تبدیل کردیا جائے اور وہاں پھل اور سبزیاں اگائی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے عمارتوں کی چھتوں پر مویشی بھی پالے جاسکتے ہیں جو دودھ اور گوشت کی فراہم کا ذریعہ بنیں گے۔

    farming-5

    یہی نہیں یہ سر سبز چھتیں شہر سے آلودگی کو بھی کم کریں گی جبکہ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ ٹھنڈک فراہم کریں گی اور وہی کام کریں گی جو درخت سر انجام دیتے ہیں۔

    یہ طریقہ کئی ممالک میں زیر استعمال ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں بھی متعدد فلک بوس عمارتوں کی چھتوں پر زراعت شروع کردی گئی ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی اجناس کی مقدار 23 ہزار کلو گرام سالانہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق شہری زراعت کے طریقے کو اپنا کر اگر کوئی ایک شہر بھی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوجائے تو اس سے ملکی معیشت کو کافی سہارا ہوسکتا ہے اور کسی ملک کی مجموعی زراعت پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔

    عالمی رپورٹس کے مطابق زراعت کو ایک اور خطرہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج سے بھی ہے۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ہر سال بارشوں کی مقدار میں تبدیلی (کسی سال کم اور کسی سال زیادہ بارش ہونا) بھی فصل کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے اس کی سالانہ مقدار میں کمی ہوتی ہے، یوں یہ غذائی اجناس کمیاب اور مہنگی ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر شہری زراعت کے علاوہ انفرادی طور پر بھی گھروں میں زراعت یا چھوٹے چھوٹے گملوں میں مختلف سبزیاں اور پودے اگانا کسی خاندان کو اس کی غذائی ضروریات میں خود کفیل کرسکتا ہے۔

  • انسان کی بقا کے لیے ضروری یہ جاندار خود خطرے کا شکار

    انسان کی بقا کے لیے ضروری یہ جاندار خود خطرے کا شکار

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا میں ایک جاندار ایسا ہے جو کسی وجہ سے اگر دنیا میں نہ رہے تو انسانی نسل بھی ختم ہوجائے گی؟

    یہ جاندار شہد کی مکھیاں ہیں۔ جی ہاں، خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہماری اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    شہد کی مکھیاں کیوں ضروری ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: امریکی نصف غذا ضائع کردیتے ہیں

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں۔

    دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    مکھیاں خطرے کی زد میں

    نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سنہ 2020 تک جنگلی حیات کی ایک تہائی آبادی کے خاتمے کا خدشہ

    ایک اور وجہ پودوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔ یہ ادویات جہاں پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کا صفایا کرتی ہیں وہیں یہ فائدہ مند اجسام جیسے ان مکھیوں کے لیے بھی خطرناک ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری اپنی نسل کو معدومی کا خطرہ ہے۔

  • برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے جس نے ماہرین کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    greenland-4

    واضح رہے کہ اتنی بڑی مقدار میں برف پگھلنے کی وجہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرات میں اضافہ ہے۔

    اس سے قبل بھی عالمی سائنسی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا گیا تھا۔ ناسا کے مطابق رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    مزید پڑھیں:

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ناسا کے ماہرین کے مطابق سنہ 2016 ایک گرم سال تھا جس نے دنیا بھر میں اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔ رواں برس مئی اور جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر برفانی علاقوں پر پڑ رہا ہے۔ شدید گرمی کے باعث یہاں موجود گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    bear-6

    رپورٹس کے مطابق سال 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

  • موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کا تعاون

    موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کا تعاون

    اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی نے پاکستان کے 3 شہروں کے لیے ایک ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی ہے جس کے تحت ان شہروں میں موسمیاتی تغیرات کے نقصانات کی بحالی کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے منظوری دیے جانے والے اس منصوبے میں تکنیکی معاونت شہروں میں موسمیاتی تغیر کے نقصانات سے بحالی کے ٹرسٹ یو سی سی آر ٹی ایف کے حوالے کی گئی ہے۔

    اس منصوبے کے تحت ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ اور ان کی بحالی کی جائے گی۔ ان نقصانات میں کلائمٹ چینج کے باعث وقوع پذیر ہونے والے واقعات جیسے سیلاب، ہیٹ ویو، یا غذائی قلت سے ہونے والے نقصانات شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    منصوبے میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھارت، انڈونیشیا، میانمار، اور ویتنام کے شہروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    اے ڈی بی کے مطابق جن 3 پاکستانی شہروں کو اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے وہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے نہایت شدید خطرات کا شکار ہیں۔

    منصوبے کے تحت ان شہروں میں مقامی رہائشیوں کے ساتھ مل کر دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ایسے انفراسٹرکچر کے قیام پر کام کیا جائے گا جو موسمیاتی  تبدیلیوں کی صورت میں ہونے والے نقصانات کو برداشت کرسکے۔

    اس سے قبل ایشیائی ترقیاتی بینک ہی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 1951 سے ان شہروں کی آبادی میں سالانہ 4 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں آبادیوں میں اضافے کا سبب

    اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ سنہ 2060 تک پاکستان کی 60 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوجائے گی جس سے ان شہروں کو انفرا اسٹرکچر، ماحول، معیشت اور امن و امان کے حوالے سے بے پناہ دباؤ اور سنگین خطرات کا سامنا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 30 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور

    اے ڈی بی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اربنائزیشن (گاؤں، دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت) کا عمل ایک بدترین صورتحال میں بدل چکا ہے جس کی وجہ مناسب حکمت عملیوں اور منصوبہ بندی کا فقدان، کمزور قوانین، اور سہولیات کی عدم فراہمی ہے۔

    اے ڈی بی کے منصوبے میں شامل خیبر پختونخوا کے 3 شہر بھی اسی صورتحال کا شکار ہیں اور وہاں رہائش پذیر بیشتر آبادی کو گھر، روزگار اور بنیادی سہولیات کا عدم فراہمی کا سامنا ہے۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    مراکش: ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس کوپ 22 مراکش میں جاری ہے۔ کانفرنس میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات میں مزید شدت آئے گی اور یہ دنیا کے تمام حصوں کو متاثر کرے گی۔

    کانفرنس میں پیش کی جانے والی متعدد رپورٹس میں سے ایک کے مطابق سنہ 2011 سے سنہ 2015 کے 5 سال دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال تھے۔ ماہرین نے واضح طور پر بتایا کہ موسموں کی شدت میں اضافے کے ذمہ دار خود انسان ہیں اور اس شدت میں مزید اضافہ ہوگا جو معیشت سمیت تمام شعبوں پر خطرناک اثرات مرتب کریں گے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں میں یہ تبدیلی یا کلائمٹ چینج دنیا بھر میں ہیٹ ویو، قحط، شدید بارشوں اور خطرناک سیلابوں کی شرح میں اضافہ کردے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ سنہ 1996 سے 2015 تک دنیا کے مختلف حصوں میں 11 ہزار شدید ہیٹ ویوز آئیں جن کے باعث 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک جبکہ معیشتوں کو مجموعی طور پر 3 کھرب ڈالرز کا نقصان پہنچا۔

    ان خطرناک ہیٹ ویوز میں پاکستان اور بھارت میں 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے دنیا کے تمام سمندروں کی سطح میں اضافہ ہوگا اور اس سے دنیا کے 90 فیصد ساحلی علاقوں کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ ماہرین کے مطابق سنہ 2040 تک ساحلی علاقوں کے ساتھ موجود سمندر کی سطح میں 7 انچ سے زائد اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    ماہرین نے واضح کیا کہ ان خطرات پر کسی حد تک قابو پانے کے لیے گزشتہ برس پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی معاہدے پر ہنگامی بنیادوں پر عملدر آمد ضروری ہے۔

    اس معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کر کے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے جن کے باعث زہریلی گیسوں کا اخراج دنیا بھر کے موسموں میں تبدیلی لارہا ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ کر رہا ہے۔

    رواں برس ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدر آمد کے لیے اقدامات وضع کرنا ہے۔

    :ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیاں باعث تشویش

    کانفرنس کے دوران ہی امریکا میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا اور ڈونلد ٹرمپ امریکا کے نئے صدر منتخب ہوگئے جس نے کانفرنس کے شرکا کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کے ماحول دشمن اقدامات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا، لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    trump-2-2

    صرف یہی نہیں ٹرمپ کے انتخابی منشور میں ماحول دشمن اقدامات بھرے پڑے ہیں جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ امریکا، جو پہلے ہی کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے، مزید زہریلی گیسوں کا اخراج کرے گا جس کے بعد دنیا بھر میں ماحول کی بہتری کے لیے جاری اقدامات خطرے کا شکار ہوگئے ہیں۔

    ٹرمپ کے ان اقدامات میں امریکا میں کوئلے کی صنعت کی بحالی اور صدر اوباما کے شروع کیے گئے تمام ماحول دوست منصوبوں کو ختم کرنا سرفہرست ہے۔

    پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    دوسری جانب پاکستان اس منصوبے پر عملدر آمد کے حوالے سے نہایت سنجیدہ ہے اور چند روز قبل ہی پاکستان کی جانب سے پیرس معاہدے کی توثیق کی جاچکی ہے۔

    پاکستان اس معاہدے کی توثیق کر کے اب اس بات کا پابند ہوچکا ہے کہ وہ داخلی سطح پر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا، اور خارجی سطح پر ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرے گا جو دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے کی جارہی ہیں۔

  • ایسا اخبار جو پودے اگا سکتا ہے

    ایسا اخبار جو پودے اگا سکتا ہے

    ماحول کو بچانے کے لیے کام کرنے والے افراد بہت سے حیرت انگیز کام سرانجام دیتے ہیں، جس سے ایک طرف تو وہ جدید دور کی انسانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، دوسری طرف وہ ماحول کو بھی حتیٰ الامکان فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش جاپان کے ایک اخبار شائع کرنے والے ادارے نے کی جنہوں نے اپنے اخبار کو ایسے کاغذ پر چھاپنا شروع کیا جو پودے اگا سکتا ہے۔

    آپ کو علم ہوگا کہ کاغذ درختوں میں موجود خاص قسم کی گوند سے تیار کیے جاتے ہیں۔ کاغذوں کا ایک دستہ جس کا وزن ایک ٹن ہو، اسے بنانے کے لیے 12 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی *

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    کاغذوں سے بننے والے اخبارات عموماً ناقابل تجدید ہوتے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل نہیں ہوتے، یوں یہ بے شمار کاغذ ضائع ہوجاتے ہیں۔

    ان تشویش کن اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے جاپانی اشاعتی ادارے نے یہ قدم اٹھایا جس کے بعد اب قارئین پڑھنے کے بعد اخبار کو گملوں اور مٹی میں دبا دیتے ہیں اور چند ہی دن بعد وہاں لہلہاتے پھول اگ آتے ہیں۔

    paper-3

    اشاعتی ادارے نے اس خیال پر عملدر آمد کرنے کے لیے اپنے کاغذ کو بنواتے ہوئے اس میں بیجوں کی آمیزش شروع کردی۔

    اخبار کی اشاعت کے لیے جو سیاہی استعمال کی جاتی ہے اس میں سبزیوں کو ملایا جاتا ہے جس کے بعد یہ قدرتی کھاد کا کام انجام دیتی ہیں۔

    paper-2

    اس اخبار کو پڑھنے کے بعد لوگ اپنے گھر میں موجود پودوں اور باغیچوں میں دفن کردیتے ہیں اور چند ہی روز بعد اس اخبار کی بدولت خوشنما پھول اور پودے اگ آتے ہیں۔

    اس آئیڈیے کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس خیال کے تحت انہوں نے فطرت کا چکر (سائیکل) قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایک چیز جو درختوں سے بن رہی ہے وہ اپنے خاتمے کے بعد دوبارہ درخت بن جائے گی۔

    paper-4

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں تعمیرات کے لیے جنگلات کا بے دریغ صفایا کیا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 18 ملین ایکڑ رقبہ پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

  • پاکستان کی ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے عالمی معاہدے کی توثیق

    پاکستان کی ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے عالمی معاہدے کی توثیق

    نیویارک: پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی ہے جس کے بعد اب پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    آج صبح نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے معاہدے کی توثیقی دستاویز پیش کی۔ پاکستان اس معاہدے کی توثیق کرنے والا ایک سو چوتھا ملک ہے جبکہ اب تک 105 ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    یہ تاریخی معاہدہ سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں طے پایا تھا جس پر 195 ممالک نے دستخط کر کے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    پاکستان سمیت اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں، معاہدے کے تحت امیر ممالک کو اس بات کا پابند بھی کیا گیا ہے کہ وہ ان ممالک کی مالی امداد کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں مضر (گرین ہاؤس) گیسوں خصوصاً کاربن کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمہ دار امیر اور ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں جن میں پہلا نمبر چین اور دوسرا امریکا کا ہے۔ کاربن گیسوں کے اخراج میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ تو نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی شمالی علاقوں میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    پاکستان اس معاہدے کی توثیق کر کے اب اس بات کا پابند ہوچکا ہے کہ وہ داخلی سطح پر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا، اور خارجی سطح پر ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرے گا جو دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے کی جارہی ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی تھی، اور رواں برس جب اس معاہدے پر دستخط کیے جارہے تھے تب ویر اعظم اور صدر ممنون کی خصوصی ہدایت کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس پر دستخط کیے تھے۔

  • ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    واشنگٹن: امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلد ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر اوباما کے دور میں کیے گئے بیشتر معاہدوں کو منسوخ اور پالیسیوں کو تبدیل کردیں گے جس سے دنیا بھر میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔

    اگر وہ حقیقتاً اپنی اس بات پر عمل کر بیٹھے تو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

    یہ معاہدہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی عالمی کانفرنس میں طے پایا تھا۔ اس تاریخی معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کیے تھے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    امریکا بھی اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک میں شامل ہے تاہم ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب اس معاہدے پر تشویش کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    خیال رہے کہ امریکا اس وقت کاربن سمیت دیگر نقصان دہ (گرین ہاؤس) گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    فرانس کی وزیر ماحولیات اور گزشتہ ماحولیاتی کانفرنس کی سربراہ سیگولین رائل کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اچانک اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ معاہدے کی شق کے مطابق 3 سال سے قبل کوئی ملک معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی ملک پیچھے ہٹنا بھی چاہے تو اسے کم از کم ایک سال قبل باقاعدہ طور پر اس سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ’گویا ہمارے پاس ابھی 4 سال کا وقت ہے‘۔

    لیکن انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جس معاہدے کو تیار کرنے اور پوری دنیا کو ایک صفحہ پر لانے میں 20 سال سے زائد کا عرصہ لگا، امریکا اس معاہدے سے بآسانی دستبردار ہوجائے گا‘۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس شکست خوردہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کلائمٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی نقصانات سے بچاؤ کے لیے اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ تھیں۔

    ٹرمپ ۔ ماحول دشمن صدر؟

    لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    trump-2

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    :صدر اوباما ۔ ماحول دوست صدر

    اس سے قبل صدر اوباما نے داخلی سطح پر کئی ماحول دوست منصوبے شروع کر رکھے تھے جن کے لیے ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ انہیں ختم کردیں گے۔

    مزید پڑھیں: صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    صدر اوباما نے کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے کی منظوری دی تھی تاہم اس کے لیے انہوں نے ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکن اراکین سے کئی بحث و مباحثے کیے تھے۔

    obama-3

    ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیگر ری پبلکن بھی صرف دہشت گردی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کلائمٹ چینج ان کے نزدیک غیر اہم مسئلہ ہے۔

    صدر اوباما کی انسداد ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میں ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ کلائمٹ چینج فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں ہونے والا اضافہ ہمیں اس بات پر مجبور کرے گا کہ ایمرجنسی اقدامات کے شعبوں میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف کیا جائے۔

    obama-2

    ماہرین کے مطابق امریکا کے علاوہ بھی دنیا بھر میں قحط اور سیلاب کے باعث امن و امان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور امن و امان کی خراب صورتحال لوگوں کو ان کے گھر چھوڑنے پر مجبور کردے گی جس کے بعد دنیا کو پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے مسائل کی میزبانی کرنی ہوگی۔

    مزید پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے

    امریکا کے نئے صدر ٹرمپ ایک ماحول دشمن صدر ثابت ہوں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحول اور زمین کا احساس کرنے والے افراد کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

  • مراکش میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی سالانہ کانفرنس کا تصویری احوال

    مراکش میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی سالانہ کانفرنس کا تصویری احوال

    مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوچکا ہے۔ دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کے لیے منعقد کی جانے والی یہ کانفرنس ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔

    گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔

    سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں 195 ممالک نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    11

    کانفرنس کا باقاعدہ آغاز فرانس کی وزیر ماحولیات اور گزشتہ کانفرنس کی سربراہ سیگولین رائل نے کیا۔

    10

    انہوں نے رواں برس کی کانفرنس کی نظامت مراکش کے وزیر خارجہ اور کوپ 22 کے صدر صلاح الدین میزور کے حوالے کی۔

    9

    کانفرنس میں فٹبال کھلاڑیوں کا ایک گروہ بھی شرکت کرے گا جس کی سربراہی معروف ارجنٹینی فٹبالر ڈیاگو میراڈونا کریں گے۔

    6

    13

    علامتی طور پر زمین کے تحفظ کا عزم۔

    کانفرنس کے موقع پر شہر کے کئی مقامات کو سبز روشنیوں سے نہلا دیا گیا۔

    17

    18

    19

    کانفرنس کے شرکا کو مختلف انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔

    16

    1
    تصویر: ندیم احمد

    کانفرنس کے اندرونی مناظر۔

    2
    تصویر: ندیم احمد
    3
    تصویر: ندیم احمد
    5
    تصویر: ندیم احمد

    کانفرنس میں قائم پاکستانی پویلین۔

    4
    تصویر: ندیم احمد

    آبی ذخائر کو لاحق خطرات سے متعلق ہونے والا سیشن۔

    8

    شرکا کی تفریح طبع کے لیے مراکش کے ثقافتی رنگ۔

    14

    15

    مراکش میں ہونے والی یہ کانفرنس 18 نومبر تک جاری رہے گی۔