Tag: گلوبل وارمنگ

  • ایفل ٹاور ہرا بھرا ہوگیا

    ایفل ٹاور ہرا بھرا ہوگیا

    پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس وقت خوبصورت نظارے دیکھنے میں آئے جب ایفل ٹاور سمیت پیرس کے تاریخی مقامات سبز روشنیوں میں نہا گئے۔

    یہ سبز روشنیاں دراصل اس بات کی خوشی میں روشن کی گئیں کہ گزشتہ برس ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل اب عالمی قوانین کا حصہ ہے۔

    paris-2

    paris-3

    paris-4

    paris-5

    اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ان ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کر کے اسے اپنی پالیسیوں اور قانون کا حصہ بنا لیا ہے جو دنیا میں مضر گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں۔

    ایفل ٹاور اور پیرس کی یادگار محراب کو سبز رنگ میں روشن کرنا ماحول دوستی اور اور زمین کے تحفظ کی طرف اشارہ ہے۔

    گزشتہ برس پیرس میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں 195 ممالک نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟ *

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہورہے ہیں۔

    گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ *

    پاکستان بھی اس معاہدے کا دستخط کنندہ ہے۔

    اب تک جن ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے وہ، وہ ممالک ہیں جن کا کاربن اخراج بہت زیادہ ہے۔ اگر وہ معاہدے کے تحت اپنے کاربن اخراج کو کم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نقصانات کو کم کرنے کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔

  • سنہ 2020 تک جنگلی حیات کی ایک تہائی آبادی کے خاتمے کا خدشہ

    سنہ 2020 تک جنگلی حیات کی ایک تہائی آبادی کے خاتمے کا خدشہ

    عالمی اداروں نے انتباہ کیا ہے کہ سنہ 2020 تک ہماری دنیا میں موجود جنگلی جانوروں کی ایک تہائی تعداد کم ہوجائے گی جس کے بعد دنیا کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ عشروں کے ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اس ڈیٹا میں پچھلی ایک صدی کے دوران جانوروں کی نسل کا خاتمہ (اگر کوئی ہوا ہے)، ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات، انسانی آبادی اور شکار کے تناسب کی جانچ کی گئی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    leopard

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    elephant3

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ صورتحال نسل انسانی کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک زندگی کا دار و مدار دوسری زندگی پر ہے۔ ’ہم بچپن سے یہ بات پڑھتے آئے ہیں کہ ہم ایک لائف سائیکل کے مرہون منت ہیں جو صدیوں سے جاری ہے۔ اس لائف سائیکل یا زندگی کے چکر کے تحت ہر جاندار کسی دوسرے جاندار کے لیے ضروری ہے۔ اگر اس چکر میں ایک بھی جاندار کم ہوجائے تو اس کا اثر پورے چکر پر پڑے گا‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ انسان پوری طرح فطرت کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاف ہوا، صاف پانی، غذا اور دیگر اشیا کا حصول فطرت سے ہی ممکن ہے اور جانور ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ جانوروں کی تعداد میں کمی کا مطلب فطرت کو تباہ کرنا ہے اور ہم یہ کسی صورت برداشت نہیں کر پائیں گے۔

    panda-21

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر و سینیٹر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    یہ پہلی رپورٹ نہیں جو جنگلی حیات اور فطرت کو لاحق خطرات کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے ہی تیز رفتار ترقی کے باعث انسانوں، جنگلی حیات اور فطرت کو نقصان پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے جسے اگر روکا نہیں گیا تو شاید یہ زمین پر آباد جانداروں کے خاتمے پر منتج ہو۔

    فطرت اور جنگلی حیات کے بارے میں مزید مضامین

    فطرت کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس میں کچھوے کو شکست

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

  • کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    جنیوا: اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہماری فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور مضر ہوچکی ہے جس سے زمین اور اس پر رہنے والے افراد کی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے موسمیات کا کہنا ہے کہ ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کی اثر انگیزی کچھ مہینوں اور کچھ مقامات پر بڑھ گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    ماہرین کے مطابق کاربن کی اثر انگیزی میں ریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے اور ایسا پچھلی کئی نسلوں میں نہیں ہوا۔ یعنی کاربن گیس اب پہلے سے زیادہ خطرناک اور مضر صحت بن چکی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ کاربن کی اثر انگیزی میں اضافے کی ایک وجہ رواں برس کا ایل نینو بھی ہے۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایل نینو ختم ہوچکا ہے، لیکن کلائمٹ چینج تاحال جاری ہے۔

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں اور گیسیں جن میں کاربن کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے، ایک طرف تو ہماری فضا کو زہریلا اور آلودہ بنا رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم کر رہی ہیں جسے گلوبل وارمنگ (عالمی درجہ حرارت میں اضافہ) کا عمل کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گزشتہ برس پیرس میں منعقد کی جانے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی

    دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی

    دنیا بھر کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ دنیا کو خطرناک موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات سے کیسے بچایا جائے۔ اس کے لیے نہ صرف مختلف عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں بلکہ دنیا کو اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔

    اسی طرح کی ایک کوشش امریکا میں کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے بھی کی جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دنیا کے طویل ترین درختوں پر چڑھے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    ان کا مقصد ان نادر و نایاب درختوں کا کلون تیار کرنا ہے۔

    clone-3

    دنیا کے یہ طویل ترین درخت امریکی ریاست کیلیفورنیا میں واقع ہیں جنہیں سیکوئیا ریڈ ووڈز کہا جاتا ہے۔ ان کی عمومی قامت 300 فٹ یا 91 میٹرز ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ اپنے اندر بے تحاشہ کاربن جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ان درختوں کی عمر بھی کئی ہزار سال ہے اور اس دوران یہ مختلف آتش زدگیوں، خشک سالیوں اور بیماریوں کو جھیل چکے ہیں اس کے باوجود یہ قائم رہے۔

    امریکا میں درختوں کے تحفط کے لیے کام کرنے والے ادارے ’آرک اینجل اینشینٹ ٹری آرکائیو‘ کے بانی ڈیوڈ کلارک کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ قدم بہت تاخیر سے اٹھایا ہے اور ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ’ان قدیم اور طویل ترین درختوں کی جینیات اکٹھی کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو محفوظ کیا جائے اور دوبارہ کام میں لایا جائے‘۔

    clone-2

    ادارے کے ایک اور رکن جیکب ملر کا کہنا ہے کہ ان درختوں کی جینیات میں کوئی ایسی خاصیت موجود ہے جو سینکڑوں سال سے موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کے اثرات کو برداشت کر سکتی ہے اور ان کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے۔

    اس پروجیکٹ کے لیے کوہ پیماؤں نے ان درختوں پر چڑھ کر ان کی ٹہنیاں اور پتے حاصل کیے۔ اس کے بعد ان کو مشی گن کی ایک لیبارٹری میں لے جایا گیا اور وہاں ان کو دوبارہ زمین میں بویا گیا۔ یہ پودے اب کچھ ہی عرصہ میں جڑ پکڑ لیں گے اور اس کے بعد ان کی افزائش شروع ہوجائے گی۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس درخت کے 3 لاکھ کلون بوئے ہیں اور وہ اس سلسلے کو مزید وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    clone-4

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے خطرات سے نمٹنے کا آسان حل ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں۔ یہ ان علاقوں کے لیے اور بھی ضروری ہے جو کلائمٹ چینج کے باعث شدید موسموں جیسے ہیٹ ویو کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    پاکستان کی معاشی رگ شہر کراچی پچھلے 2 سال سے ہیٹ ویو برداشت کررہا ہے اور اس کے باعث درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، تاہم ابھی تک شجر کاری کے کسی سنجیدہ اور طویل المدت منصوبے پر کام نہیں کیا گیا جو کراچی کے شہریوں کو شدید گرمی سے بچا سکے۔

  • ہوا سے پانی کھینچنے والی ٹربائن

    ہوا سے پانی کھینچنے والی ٹربائن

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پینے کے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کا منفی اثر زراعت پر بھی ہوگا اور کروڑوں افراد قحط کا شکار ہوجائیں گے۔

    تاہم سائنس دان اب ایسی ایجادات کر رہے ہیں جو مختلف طریقوں سے ہمارے قدرتی وسائل میں اضافہ کرے، ماحول دوست ہوں اور ہماری زمین پر موجود وسائل کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے میں مدد دیں۔

    مزید پڑھیں: پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    ایسی ہی ایک ایجاد واٹر سیر نامی ٹربائن بھی ہے جو فضا میں موجود پانی کو پینے کے لیے فراہم کرے گی۔

    دن کے 24 گھنٹے کام کرنے والی یہ ٹربائن فضا میں موجود پانی لے کر اسے پینے کے قابل بناتی ہے اور اس کے لیے اسے کسی قسم کی بجلی، توانائی، یا کیمیکلز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    اس کے زمین کے اوپر لگے بلیڈز ہوا کی طاقت سے گھومتے ہیں اور ہوا کو زمین کے اندر نصب چیمبر میں دھکیلتے ہیں۔ یہ چیمبر مٹی میں دبا ہوتا ہے اور ٹھنڈی مٹی کی وجہ سے خاصا سرد ہوتا ہے۔

    water-seer-2

    یہ اپنے اندر موجود گرم ہوا کو بھی ٹھنڈا کردیتا ہے اور اس میں موجود پانی قطروں کی صورت میں چیمبر کی دیواروں پر جم جاتا ہے۔

    یہ ٹربائن ہوا چلنے یا نہ چلنے دونوں صورتوں میں کام کرتی ہے اور روزانہ 37 لیٹرز پانی فراہم کرتی ہے۔

    یہ ٹربائن ان گاؤں دیہاتوں میں نصب کرنے کے لیے بہترین ہے جہاں بچوں اور خواتین کو پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں دور تک چلنا پڑتا ہے۔

    پانی کے حصول کے لیے گاؤں کی خواتین کو کیسے درد ناک سفر طے کرنے پڑتے ہیں، پڑھیں خصوصی رپورٹ

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی کے باعث 2025 تک دنیا کی ایک تہائی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    اس وقت دنیا بھر میں 780 ملین افراد پینے کے صاف پانی سے محروم اور گندا اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو انہیں مختلف بیماریوں اور بعض اوقات موت سے ہمکنار کردیتا ہے۔

  • عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    سیئول: بھارت نے گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں پاکستان کا کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیر) سے متعلق پروجیکٹ مسترد کردیا۔ بھارتی نمائندے نے منصوبے کو ناقص قرار دیتے ہوئے دیگر تمام منصوبوں کے لیے حمایت ظاہر کردی۔

    جنوبی کوریا کے شہر سونگ ڈو میں گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں بھارت نے انتہائی درجے کا تعصب برتتے ہوئے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو مسترد کردیا۔

    گرین کلائمٹ فنڈ اقوام متحدہ کے کلائمٹ چینج معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت امیر ممالک موسمیاتی تغیر کے نقصانات کا شکار ہونے والے غیر ترقی یافتہ ممالک کی مالی امداد کرتے ہیں۔ یہ امداد موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے والے پروجیکٹ کی فنڈنگ کی صورت میں کی جاتی ہے۔

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام *

    پروجیکٹ کی منظوری دینے والے بورڈ میں ایشیا پیسیفک کی نمائندگی کرنے والے 3 رکن ممالک بھارت، چین اور سعودی عرب شامل ہیں۔ بھارت میں وزارت خزانہ کے معاون خصوصی دنیش شرما اس بورڈ میں بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    دنیش شرما نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو ناقص اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ اس پروجیکٹ پر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ہمالیائی علاقے میں عمل درآمد کیا جانا تھا جس میں موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    flood-2

    بورڈ کے سینیئر ارکان کی جانب سے استفسار پر دنیش شرما نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے میں تکنیکی خرابیاں پائیں اور وہ کسی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔

    انہوں نے مختلف ممالک کی جانب سے پیش کیے جانے والے دیگر منصوبوں کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے ان کے لیے اپنی حمایت ظاہر کی۔

    تاہم بورڈ کے دیگر ارکان نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے کی ضروت ہے۔ ’یہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے قومی مفادات کا تحفظ نہیں کرنا چاہیئے۔ ہم سب یہاں دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کے لیے بیٹھے ہیں‘۔

    ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ بھارتی نمائندے بے شک پروجیکٹ پر شرائط عائد کردیتے لیکن اس کی منظوری دے دیتے، بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

    دنیش شرما نے پروجیکٹ میں موجود متعدد تکنیکی خرابیوں کو اپنی مخالفت کی وجہ قرار دیا۔ انہیں پیشکش کی گئی کہ وہ پاکستانی ماہرین سے مل کر اس پروجیکٹ میں تبدیلیاں کروا کر پروجیکٹ کو قابل عمل بنا سکتے ہیں۔

    تاہم انہوں نے پروجیکٹ کو بالکل ہی ناقابل عمل قرا دے کر جواز پیش کیا کہ وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ متعصب نہیں، پاکستانی ماہرین سے مل سکتے ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے میں مزید کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    پاکستان کی جانب سے پیش کیا جانے والا پروجیکٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ پروجیکٹ میں آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں شدید سیلابوں سے بچاؤ کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    یہ سیلاب گلیشیئر والی جھیلوں میں اس وقت آتے ہیں جب جھیل میں موجود پانی کو ذخیرہ کرنے والا سسٹم (جو عموماً کوئی ڈیم ہوتا ہے) اسے روکنے میں ناکام ہوجائے اور یہ پانی سیلاب کی شکل میں باہر آ کر قریبی آبادیوں کو نقصان سے دو چار کرے۔

    flood-3

    اس قسم کے سیلابوں کا سلسلہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سارا سال جاری رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ پروجیکٹ منظور ہوجاتا تو 7 لاکھ کے قریب افراد کو آئندہ سیلابوں سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا تھا۔

  • روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    آپ کسی نئی جگہ جاتے ہوئے وہاں موجود چیزوں یا مقامات کو یاد کرلیتے ہوں گے تاکہ دوبارہ وہاں جائیں تو مطلوبہ مقام ڈھونڈنے میں آسانی ہو، لیکن اگر ایسا ہو کہ آپ صبح کے وقت کہیں جائیں اور وہاں موجود کچھ مجسموں کو بطور نشانی یاد رکھیں، لیکن اگر شام میں جائیں تو آپ کو مجسمے وہاں مل ہی نہ سکیں کیونکہ وہ غائب ہوچکے ہوں؟

    یہ بات کافی حیرت انگیز لگتی ہے کہ مضبوطی سے نصب مجسمے اپنی جگہ سے کیسے غائب ہوسکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور آرٹ اور تعمیرات کا یہ منفرد نمونہ لندن میں موجود ہے۔

    t6

    برطانوی مجسمہ ساز جیسن ٹیلر نے ان حیرت انگیز مجسموں کو بنایا ہے جو دریائے ٹیمز کے کنارے موجود ہیں۔ یہ دن کے صرف دو حصوں میں مکمل طور پر نظر آتے ہیں جب دریا کی لہریں نیچی ہوتی ہیں۔

    t3

    t8

    t7

    شام میں جب دریا کی لہریں اونچی ہوجاتی ہیں اور پانی کنارے تک آجاتا ہے تب یہ مجسمے پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور ذرا سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

    t5

    اس کے تخلیق کار کا کہنا ہے کہ ان مجسموں کے ذریعہ وہ دنیا کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں یعنی کلائمٹ چینج کی طرف دلانا چاہتا ہے کہ کس طرح ان کے باعث سمندروں کی سطح اونچی ہوجائے گی اور ہم ڈوبنے کے قریب پہنچ جائیں گے۔

    t2

    یہ مجسمے 4 گھوڑوں کے ہیں جن پر دو صنعت کار اور دو بچے براجمان ہیں۔ گھوڑوں کے منہ آئل پمپس جیسے ہیں جو دنیا میں تیل کے لیے جاری کھینچا تانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ مجسمے ہمیں ایک لمحے کے لیے یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی آئندہ نسل کے لیے ماحولیاتی طور پرایک بہتر دنیا چھوڑ کر جانی چاہیئے۔

  • برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے برفانی خطے انٹارکٹیکا میں نیلے پانیوں کی جھیلیں بن رہی ہیں جس نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    lake-2

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے فیس بک اور گوگل کے دفاتر ڈوبنے کا خدشہ

    ماہرین نے بتایا کہ اس کی وجہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    حال ہی میں عالمی خلائی ادارے ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب گلوبل وارمنگ ان برفانی خطوں کی برف کو گلابی بھی بنا رہی ہے۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

  • کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    آج دنیا بھر میں جانوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتے موسموں کے باعث انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    جانوروں کا دن منانے کا مقصد جانوروں سے محبت کا برتاؤ رکھنے اور ان کا خیال رکھنے کے متعلق آگاہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ جانوروں کی کھالوں اور دیگر اعضا کے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہونے کے باعث ان کے شکار کی وجہ سے مختلف جانور معدومی کے خطرے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

    leopard

    ماہرین کے مطابق برطانیہ کی ہر 10 میں سے 1 جنگلی حیات کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1970 سے برطانیہ کی خطرے کا شکار جنگلی حیات کا بھی ایک تہائی خاتمہ ہوچکا ہے۔

    ادھر افریقہ میں ہاتھی دانت کی تجارت عروج پر ہے جس کے باعث ہاتھیوں اور گینڈوں کی نسل کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔

    elephant3

    ان کا کہنا ہے کہ ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت ان کی نسل کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے۔

    ایشیائی ممالک میں غیر قانونی فارمنگ کے باعث چیتوں کی آبادی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے 100 سالوں میں چیتوں کی آبادی میں 97 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تقریباً 1 لاکھ کے قریب چیتے موجود تھے جو اب گھٹ کر 4 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ چیتوں کی کئی اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    جانوروں کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ سے بھی ہے۔ قطب شمالی کے درجہ حرات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے برفانی ریچھ اور پینگوئن کی نسل کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

    penguin

    تاہم مختلف حکومتوں اور اداروں نے خطرے کا شکار جنگلی حیات کے لیے حفاظتی اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن کے باعث کئی جانور معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور وہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آیا۔

    گزشتہ عشرے میں پانڈا کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اب ان کی تعداد 2000 ہوگئی ہے۔

    panda-21

    امریکا میں بھی کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ لاحق تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

    چند روز قبل جانوروں کی تجارت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس میں دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیے جانے والے ممالیہ پینگولین کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پینگولین افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    پاکستان میں بھی معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات جاری ہیں اور حال ہی میں وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔

  • خزاں میں پتوں کا رنگ کیوں تبدیل ہوجاتا ہے؟

    خزاں میں پتوں کا رنگ کیوں تبدیل ہوجاتا ہے؟

    خزاں یا پت جھڑ کا موسم تخلیق کاروں کو ان کی تخلیق کے لیے مہمیز کرتا ہے۔ سرخ، ہرے، زرد پھول اور پتے سنہری اور پھر سرمئی رنگ کے خشک ہو کر نیچے گر جاتے ہیں اور شاہراہوں، پگڈنڈیوں اور راستوں کو بھر دیتے ہیں جو ایک سحر انگیز سا منظر تخلیق کرتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں خزاں میں پھول اور پتے اپنا رنگ کیوں تبدیل کرلیتے ہیں؟

    موسم خزاں کو شاعر کیسے دیکھتے ہیں؟ *

    ہم بچپن سے کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ پتوں میں کلوروفل نامی ایک مادہ ہوتا ہے جو ان پتوں کو سبز رنگ فراہم کرتا ہے۔ ان کے علاوہ پودوں میں ایک اور کیمیائی عنصر کیروٹینائڈز بھی پایا جاتا ہے۔

    autumn-3

    یہ مادہ گاجر میں بھی پایا جاتا ہے جو اسے نارنجی یا سرخ رنگ فراہم کرتا ہے۔ پودوں میں یہ مادہ کلوروفل کے نیچے موجود ہوتا ہے اور سارا سال اپنی موجودگی ظاہر نہیں کرتا۔

    سردیوں میں جب کلوروفل ختم ہونے لگتا ہے اس وقت یہ مادہ ابھر کر آتا ہے اور پتوں کو سنہرا، پیلا یا سرمئی رنگ کا کر دیتا ہے۔

    اب یہ بھی جان لیجیئے کہ خزاں میں کلوروفل کے ختم ہونے کی وجہ کیا ہے۔

    مصنوعی روشنیوں کے باعث برطانیہ کے موسم میں تبدیلی *

    کلوروفل دھوپ یا سورج کی روشنی سے اپنی تونائی پاتا ہے۔ جتنا زیادہ سورج روشن ہوگا کلوروفل بھی اتنا ہی بھرپور، اور پتہ اتنا ہی سبز ہوگا۔ موسم خزاں یا سرما میں سورج چونکہ کم نکلتا ہے جس کے باعث پتوں میں کلوروفل بننے کا عمل کم ہوتا جاتا ہے۔

    سردیوں میں چونکہ سورج جلدی ڈھل جاتا ہے لہٰذا کلوروفل کو موقع نہیں مل پاتا کہ وہ سورج سے توانائی حاصل کر کے پتے کو رنگ فراہم کرے لہٰذا وہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے۔

    یہ عمل راتوں میں اور بھی تیزی سے ہوتا ہے کیونکہ سردیوں کی راتیں لمبی ہوتی ہیں۔

    autumn-2

    مختصر دنوں اور لمبی راتوں کے باعث پتوں میں موجود سبز رنگ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے اور پتے نارنجی، سرمئی، یا سنہری ہو کر خشک ہوجاتے ہیں اور بالآخر گر جاتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق موسموں کے طریقہ کار میں تبدیلی کے باعث موسم خزاں کا دورانیہ کم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث امریکا میں رہنے والے افراد کو اب موسم خزاں سے لطف اندوز ہونے کا موقع کم ملے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث اب سردیوں میں موسم کی شدت کم ہوگی جبکہ موسم گرما بھی اپنے وقت سے پہلے آجائے گا یعنی خزاں کا دورانیہ کم ہوگا اور پھولوں کو مرجھانے اور پتوں کو گرنے کا ٹھیک سے وقت نہ مل سکے گا۔ یوں امریکی عوام پت جھڑ کے سحر انگیز نظاروں سے محروم ہوجائے گی۔