Tag: گلوبل وارمنگ

  • دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    نیویارک: دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدہ پیش کیا گیا جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    اس معاہدے پر 191 ممالک نے دستخط کیے جبکہ 60 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی توثیق کردی ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں صرف 47 فیصد حصہ ہے۔

    paris_accord1

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں فضا میں کاربن گیس کی مقدار بڑھا دیتا ہے جس سے نہ صرف ماحول، انسان اور جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ یہ گیس آسمان میں جا کر عالمی درجہ حرات میں اضافہ کا سبب بھی بن رہی ہے یعنی دنیا کے اکثر ممالک میں موسم گرم ہوگیا ہے۔

    ان زہریلی گیسوں جسے گرین ہاؤس گیس بھی کہا جاتا ہے کے اخراج میں سب سے آگے چین اور امریکا ہیں جو معاہدے کے دستخط کنندہ ہیں۔

    رواں برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 31 مزید ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے جس کے بعد دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کی کوششوں کا اعادہ کرنے والے ممالک کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔

    global-warming-2

    اقوام متحدہ کو امید ہے کہ رواں برس مراکش میں جب کلائمٹ چینج کی سالانہ عالمی کانفرنس منعقد ہوگی اس وقت تک تمام دستخط کنندہ ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہوں گے اور دنیا کو بچانے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہوجائے گا۔

    ان کوششوں کے تحت کئی ممالک اپنی توانائی کی ضروریات قدرتی ذرائعوں (سورج، ہوا، پانی) سے پورا کرنے، ماحول دوست بجلی کے آلات متعارف کروانے، ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے، جنگلی حیات اور جنگلات کے تحفظ کرنے، قدرتی ذرائع جیسے گلیشیئر اور جھیلوں، دریاؤں کا تحفظ کرنے اور مختلف آفات سے متاثر ہونے کے خدشے کا شکار آبادیوں کی تربیت جیسے اقدامات کر رہے ہیں۔

    رواں برس مراکش میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ان امیر ممالک سے جو کاربن کے اخراج کا سبب بن رہے ہیں، اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ غریب اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کا شکار ممالک کو معاشی طور پر بھی سہارا دیں تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں۔

  • برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    لندن: برطانیہ کی ہر 10 میں سے 1 جنگلی حیات کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1970 سے برطانیہ کی خطرے کا شکار جنگلی حیات کا بھی ایک تہائی خاتمہ ہوچکا ہے۔

    ایک برطانوی ادارے اسٹیٹ آف نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں جنگلی حیات کی اقسام کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ہر 6 میں سے ایک جانور، پرندے، مچھلی یا پودے کی نسل غائب ہوچکی ہے۔

    uk-2

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ زراعت میں اضافہ اور اس میں جدید تکنیکوں کا استعمال، ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ علاقوں کی طرف ہجرت (اربنائزیشن)، اور موسمی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے شدید اثرات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان عناصر کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی اور تیزی سے ہوتی صنعتی ترقی نے برطانیہ کو ان ممالک میں شامل کردیا ہے جہاں فطرت کو تیزی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

    رپورٹ کے سربراہ مارک ایٹن کا کہنا ہے، ’گزشتہ کچھ عرصہ سے ہم نے اپنی زراعت میں جدید تکنیکوں کا استعمال شروع کردیا ہے، یہ سوچے بغیر کہ یہ جدت ہمارے قدرتی حسن کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے‘۔

    hog
    ایک مردہ خار پشت ۔ فصلوں کو جانوروں سے بچانے کے لیے اکثر برقی باڑھ لگادی جاتی ہے جن میں چھوٹے جانور پھنس کر مرجاتے ہیں

    انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں جنگلی حیات اور ان کے مساکن (رہنے کی جگہ) کی بحالی کے کئی پروجیکٹ جاری ہیں، مگر جس تیزی سے انہیں نقصان پہنچ رہا ہے اس کے مقابلے میں یہ اقدامات بہت کم ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 1970 سے 2013 کے دوران جنگلی حیات کی نسل میں 56 فیصد کمی ہوئی جبکہ صرف 2002 سے 2013 کے درمیان یہ تناسب 53 فیصد رہا۔

    واضح رہے کہ دنیا کے تیزی سے بدلتے موسم اور اس کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے جہاں نسل انسانی کو شدید خطرات لاحق ہیں، وہیں زمین پر موجود جنگلی حیات کے معدوم ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

    uk-3

    ماہرین کے مطابق سنہ 2050 تک ایک چوتھائی جنگلی حیات معدوم ہوسکتی ہے۔

    اس سے قبل جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں ماہرین نے بتایا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے، کچھ ناکام ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی نسلیں معدوم ہونے لگے گی۔

    دوسری جانب امریکا میں درجہ حرارت میں اضافے کے باعث کئی ریاستوں میں پائے جانے والے پرندے بھی وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ وہ پرندے تھے جو ان ریاستوں کی پہچان تھے مگر اب وہ یہاں نہیں ہیں۔

    panda-2

    ان جنگلی حیات کو بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات بھی کیے جارہے ہیں اور ان اقدامات کے باعث حال ہی میں چین کا مقامی پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آیا ہے۔ اب اس کی نسل کو معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

  • امریکی عوام موسم خزاں سے محروم ہوجائے گی

    امریکی عوام موسم خزاں سے محروم ہوجائے گی

    واشنگٹن: امریکا میں رہنے والے افراد کو اب موسم خزاں سے لطف اندوز ہونے کا موقع کم ملے گا کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے موسموں کے طریقہ کار میں تبدیلی کے باعث موسم خزاں کا دورانیہ کم ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث اب سردیوں میں موسم کی شدت کم ہوگی جبکہ موسم گرما بھی اپنے وقت سے پہلے آجائے گا یعنی خزاں کا دورانیہ کم ہوگا اور پھولوں کو مرجھانے اور پتوں کو گرنے کا ٹھیک سے وقت نہ مل سکے گا۔

    fall-2

    ماہرین کے مطابق اس وجہ سے اب موسم خزاں پہلے کے مقابلے میں کم رنگین ہوجائے گا۔

    خیال رہے کہ موسم خزاں یا سرما میں سورج کے کم نکلنے کے باعث پتوں میں کلوروفل بننے کا عمل کم ہوجاتا ہے۔ کلوروفل وہ عنصر ہے جو پتوں کو سبز رنگ فراہم کرتا ہے۔

    fall-4

    مختصر دنوں اور لمبی راتوں کے باعث پتوں میں موجود سبز رنگ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے اور پتے نارنجی، سرمئی، یا سنہری ہو کر خشک ہوجاتے ہیں اور بالآخر گر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: موسم خزاں کو شاعر کیسے دیکھتے ہیں؟

    لیکن چونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث دنوں کا دورانیہ بھی لمبا ہوگا اور راتیں بھی مختصر ہوں گی لہٰذا پتوں میں سے کلوروفل ختم نہیں ہوسکے گا یوں امریکی عوام خزاں کے سحر انگیز موسم اور رنگوں کو کھو دے گی۔

    fall-3

    واضح رہے کہ اس سے قبل بھی برطانوی ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں مصنوعی روشنیوں کے باعث موسمیاتی پیٹرن (طریقہ کار) میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے باعث موسم بہار ایک ہفتہ جلد آرہا ہے جس کا اثر پودوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

  • آلودگی سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    آلودگی سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    آپ یقیناً اپنے شہر کی آلودگی سے بہت پریشان ہوں گے۔ گاڑیوں کا دھواں، مٹی اور آلودگی انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس آلودگی سے کوئی ایسی چیز تخلیق کی جائے جو فائدہ مند ثابت ہو؟

    امریکی ماہرین اس پر کام کر رہے ہیں۔ وہ آلودگی سے سڑکیں اور پل تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

    جی ہاں، امریکی ماہرین ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس میں کاربن کو کنکریٹ کی شکل میں تبدیل کردیا جائے گا جسے تعمیری مقاصد میں استعمال کیا جاسکے گا۔

    co2-2

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں میں سب سے زیادہ کاربن گیس شامل ہوتی ہے جو آلودگی کا سبب بنتی ہے اور ماحول اور انسان کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ کاربن اخراج عالمی درجہ حرات میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے جس سے دنیا بھر کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس یعنی یو سی ایل اے میں تجرباتی طور پر تیار کی جانے والی اس کنکریٹ کو سی او ٹو کریٹ کا نام دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    اسے تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔ اس طرح ہمارے ماحول اور صحت کو نقصان پہنچانے والی گیس تعمیری اشیا میں تبدیل ہوگئیں۔

    اس تحقیقی تجربہ کے لیے یونیورسٹی کے انجینیئرز، کیمیا دان اور حیاتیاتی سائنسدانوں نے مل کر کام کیا۔ فی الحال اسے تجرباتی طور پر لیبارٹری میں تیار کیا جارہا ہے مگر بہت جلد اس کی پیداوار بڑھانے کے متعلق سوچا جارہا ہے۔

    co2-1

    اس سے قبل بھی فضا میں پھیلی کاربن کو فائدہ مند اشیا میں تبدیل کرنے کے مختلف تجربات کیے جاچکے ہیں۔ آئس لینڈ میں سائنسدانوں نے کاربن گیس کو پانی کے ساتھ مکس کر کے زیر زمین گہرائی میں پمپ کیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    کاربن کی تبدیل شدہ یہ شکل چونے کے پتھر کی شکل میں نمودار ہوئی اور ماہرین کے مطابق یہ مختلف تعمیری کاموں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔

  • اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کرہ ارض کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس یہ دن ’اوزون اور کلائمٹ‘ کے عنوان سے منایا جارہا ہے۔

    اوزون سورج کے گرد قائم آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ اوزون کی تہہ کا 90 فیصد حصہ زمین کی سطح سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پایا جاتا ہے۔

    سنہ 1970 میں مختلف تحقیقات سے پتہ چلا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے مرکبات کی زہریلی گیسیں اوزون کی تہہ کو تباہ کر رہے ہیں۔ تباہی سے مراد اس کی موٹائی میں کمی ہونا یا اس میں شگاف پڑنا ہے۔ 1974 میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ اوزون کی تہہ کو لاحق خطرات کے باعث اگلے 75 سالوں میں اس تہہ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے۔

    ozone-2

    دسمبر 1994 میں اقوام متحدہ نے آج کے دن کو اوزون کی حفاظت کے دن سے منسوب کیا جس کا مقصد اس تہہ کی اہمیت کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔


    اوزون کو کس چیز سے خطرہ لاحق ہے؟

    دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں کئی ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا وہیں اس ترقی نے ہماری زمین پر ناقابل تلافی خطرناک اثرات مرتب کیے۔

    ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ ہماری فضا میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کاربن کا اخراج ہماری اور ہماری زمین کی صحت کے لیے نہایت مضر ہے اور یہ اوزون پر بھی منفی طور سے اثر انداز ہو رہا ہے۔

    اس کا سب سے زیادہ اثر برف سے ڈھکے انٹار کٹیکا کے علاقے میں ہوا جہاں اوزون کی تہہ میں گہرا شگاف پیدا ہوچکا ہے۔ اوزون کو نقصان کی وجہ سے اس علاقہ میں سورج کی روشنی پہلے کے مقابلہ میں زیادہ آرہی ہے جس سے ایک تو اس علاقہ کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا دوسری جانب برف کے تیزی سے پگھلنے کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے دنیا بھر میں شدید سیلاب آنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: قطب شمالی کی گلابی برف

    تاہم ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ انٹار کٹیکا کے اوپر اوزون میں پڑنے والا شگاف اب مندمل ہورہا ہے اور 2050 تک یہ پہلے کی طرح مکمل ٹھیک ہوجائے گا۔

    اوزون کی تہہ کو ان چیزوں سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ۔

    سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں اضافہ۔

    کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بعد اس سے نکلنے والا زہریلا دھواں۔

    کلورو فلورو کاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا استعمال۔ یہ گیس انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتا ہے۔

    واضح رہے کہ اس گیس کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1989 میں 150 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر عمل کے بعد اب دنیا بھر میں ہائی سی ایف سی گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔


    اوزون تہہ کی تباہی کی صورت میں نقصانات

    اوزون کی تہہ تباہ ہونے یا اس کی موٹائی میں کمی ہونے کی صورت میں یہ نقصانات ہوں گے۔

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافہ۔

    عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ۔

    دنیا بھر میں سیلابوں کا خدشہ ۔ ساحلی شہروں کے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ۔

    سورج کی تابکار شعاعوں کا زمین پر براہ راست آنا جس سے انسانوں و جانوروں میں جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    شدید گرمی سے درختوں اور پودوں کو نقصان۔

    گرم موسم کے باعث زراعت میں کمی جس سے کئی علاقوں میں قحط اور خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والے جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ۔
    ozone-4


    اوزون کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟

    اوزون کی حفاظت ماحول دوست گیسوں کے حامل برقی آلات اور مشینری کے استعمال سے ممکن ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں طویل المدتی شہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے تحت کھلے، ہوادار گھر بنائے جائیں اور ان میں سبزہ اگایا جائے تاکہ وہ ٹھنڈے رہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کم سے کم توانائی کا استعمال کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے ماحول دوست ممالک

    مزید پڑھیں: مراکش میں مساجد کو ماحول دوست بنانے کا آغاز

    واضح رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں بھی ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔


     

  • فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    واشنگٹن: ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔

    امریکا کے نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں کی جانے والی ایک ریسرچ کے مطابق ایک دماغی اسکین میں دماغ کے ٹشوز میں آلودگی کے باعث پیدا ہونے والے ذرات پائے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فضا میں موجود مضر صحت ذرات جیسے آئرن آکسائیڈ الزائمر کی نشونما اور اس میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    اس نئی تحقیق نے فضائی آلودگی کے باعث ہونے والے طبی خطرات میں اضافہ کردیا ہے۔

    اس سے قبل ماہرین نے فضائی آلودگی کے صرف پھیپھڑوں اور دل پر منفی اثرات کے حوالے سے تحقیق کی تھی۔ حالیہ تحقیق سے پتہ چلا کہ فضائی آلودگی کے باعث مضر صحت چھوٹے چھوٹے ذرات انسانی دماغ تک بھی پہنچتے ہیں اور اس پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے 37 افراد کے دماغی ٹشوز کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے کچھ افراد آلودہ ترین شہروں کے رہائشی تھے اور انہی کے دماغ میں ایسے ذرات پائے گئے۔ ماہرین کے مطابق ایسے ہی ذرات ان افراد کے دماغ میں بھی دیکھے گئے جو کسی بجلی گھر کے قریب رہائش پذیر تھے۔

    مزید پڑھیں: محبت کی نشانی تاج محل آلودگی کے باعث خرابی کا شکار

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث ہر سال 30 لاکھ جبکہ ہر روز 18 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ شرح ایڈز، ٹی بی اور سڑک پر ہونے والے حادثات کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

  • عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    ہونو لولو: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا عمل یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو ’بیمار‘ بنا رہا ہے جس سے سمندری جاندار اور سمندر کے قریب رہنے والے انسان بھی بیمار ہو رہے ہیں۔

    یہ تحقیق امریکی ریاست ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس میں پیش کی گئی۔ ورلڈ کنزرویشن کانگریس جانداروں کے تحفظ پر غور و فکر کرنے کے لیے بلایا جانے والا اجلاس ہے جس کا میزبان عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این ہے۔

    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    اجلاس میں دنیا بھر سے 9 ہزار لیڈرز اور ماہرین ماحولیات نے شرکت کی۔

    ایونٹ میں شرکا کی آگاہی کے لیے رکھی گئی سمندری حیات کی ایک قسم ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    شرکا کو کچھوے کی لمبائی، وزن اور عمر ناپنے کی تکنیک بتائی گئی ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ *

    آئی یو سی این کے ڈائریکٹر جنرل انگر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ سمندر ہماری کائنات کی طویل المعری اور پائیداری کا سبب ہیں۔ سمندروں کو پہنچنے والے نقصان سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    پاکستان سے سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم ایونٹ میں شریک ہیں ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    مذکورہ تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق سمندروں پر کی جانے والی اب تک کی تمام تحقیقی رپورٹس سے سب سے زیادہ منظم اور جامع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 1970 سے اب تک دنیا بھر کے سمندر 93 فیصد زائد درجہ حرارت برداشت کر چکے ہیں جس کی وجہ سے سمندری جانداروں کی کئی اقسام کا لائف سائیکل تبدیل ہوچکا ہے۔

    seas-2

    ماہرین کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت کچھوؤں کی پوری ایک جنس کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ مادہ کچھوؤں کی زیادہ تر افزائش گرم مقامات، اور گرم درجہ حرارت میں ہوتی ہے جبکہ نر کچھوؤں کو افزائش کے لیے نسبتاً ٹھنڈے درجہ حرارت کی ضرورت ہے۔

    کچھوے اور انسان کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟ *

    رپورٹ میں شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ کس طرح گرم سمندر جانوروں اور پودوں کو بیمار کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گلوبل وارمنگ کا عمل، تیزی سے بدلتے دنیا کے موسم جسے کلائمٹ چینج کہا جاتا ہے، دنیا کے لیے بے شمار خطرات کا سبب بن رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشت، زراعت اور امن و امان کی صورتحال پر شدید منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی، جبکہ کئی زرعی فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوجائے گی جس سے دنیا کی ایک بڑی آبادی بے روزگار ہوجائے گی۔

    کلائمٹ چینج کے خطرے میں کسی حد تک کمی کرنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • امریکا میں طوفانوں کی وجہ کلائمٹ چینج ہے، ہیلری کلنٹن

    امریکا میں طوفانوں کی وجہ کلائمٹ چینج ہے، ہیلری کلنٹن

    واشنگٹن: امریکی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے آنے والا ہرمائن سمندری طوفان موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کا شاخسانہ ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ امریکیوں کو ایسے مزید طوفانوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    فلوریڈا میں انتخابی مہم کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہیلری نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سال 2015 ایک گرم ترین سال تھا اور اس کے سائنسی شواہد موجود ہیں۔ ’حال ہی میں آنے والا سمندری طوفان اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمیں شدید موسموں کا سامنا کرنا ہوگا اور امریکا کا ہر شخص اس سے متاثر ہوگا‘۔

    h2

    انہوں نے سائنسی تحقیق اور رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 1950 سے سطح سمندر میں ہر سال ایک انچ اضافہ ہو رہا ہے۔ ’اس لحاظ سے 2030 تک، جو زیادہ دور نہیں، ہم 70 بلین ڈالر مالیت کا ساحلی رقبہ کھو دیں گے‘۔

    واضح رہے کہ سمندر کنارے واقع امریکی ریاست فلوریڈا کلائمٹ چینج کے مختلف عوامل جیسے سطح سمندر میں اضافہ، مختلف سمندری طوفان اور سیلابوں کا براہ راست شکار بنتی ہے اور ہر بار اسے انفرا اسٹرکچر کی تباہی اور بھاری مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    گذشتہ ہفتہ آنے والا سمندری طوفان ہرمائین ماہرین کے مطابق کمزور ترین طوفانوں کے درجہ میں رکھا گیا تاہم اس نے فلوریڈا میں خاصی تباہی مچائی۔

    h3

    ہیلری کلنٹن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آئندہ انفرا اسٹرکچر کے تمام ترقیاتی منصوبے سیلابوں اور کلائمٹ چینج کے دیگر خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیے جائیں تاکہ یہ بدترین صورتحال میں بھی کام کرسکیں۔

    اس سے قبل ایک رپورٹ میں کلائمٹ چینج سے امریکا کی عسکری صلاحیت میں کمی کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے باعث امریکا کے مشرقی ساحل پر قائم فوجی اڈوں کو تباہی کا سخت خطرہ لاحق ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ کلائمٹ چینج کے باعث امریکا میں مستقل آنے والے سمندری طوفان اور سطح سمندر میں اضافہ ان فوجی اڈوں، ان کے تحت چلائے جانے والے آپریشنز اور یہاں موجود تنصیبات کو متاثر کرے گا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ 2050 تک یہ اڈے سیلاب سے 10 گنا زیادہ متاثر ہوں گے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو روز پانی کے تیز بہاؤ یا سیلاب کا سامنا کریں گے۔

    ان 18 اڈوں میں سے 4 اہم فوجی اڈے صدی کے آخر تک اپنا 75 سے 95 فیصد رقبہ کھودیں گے۔

  • مراکش میں مساجد کو ماحول دوست بنانے کا آغاز

    مراکش میں مساجد کو ماحول دوست بنانے کا آغاز

    رباط: مراکش کی تمام بڑی مساجد کو ماحول دوست بنانے کے منصوبے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 2 ماہ بعد منعقد ہونے والی کلائمٹ چینج کی کانفرنس کوپ 22 کی تیاریوں کی ایک کڑی ہے۔

    مراکش کی وزارت اوقاف و مذہبی امور کے مطابق 6 شہروں کی 64 مساجد کو ماحول دوست بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس منصوبے سے ملک بھر کی 15 ہزار مساجد کی استعمال شدہ تونائی میں 40 فیصد کمی لائی جائے گی۔

    morocco-3

    واضح رہے کہ مراکش 2 ماہ بعد کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیر) کی عالمی سالانہ کانفرنس کی میزبانی کرنے جارہا ہے۔ کوپ یا کانفرنس آف پارٹیز ہر سال دنیا بھر کے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے اقدامات پر غور و فکر کے لیے منعقد کی جاتی ہے۔

    گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    شارجہ کی ماحول دوست مسجد *

    مراکش میں مساجد کو ماحول دوست بنانے کے منصوبے کا آغاز اسی معاہدے کے تحت کیے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔ منصوبے کے تحت مساجد میں توانائی کی بچت کرنے والی لائٹس اور شمسی توانائی کے سسٹم نصب کیے جائیں گے جن کے ذریعہ وضو خانوں میں گرم پانی اور مساجد کو ٹھنڈا رکھنے والے اے سی کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

    منصوبے میں شراکت دار جرمن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن جی آئی زیڈ کے مطابق یہ منصوبہ عام لوگوں میں بھی توانائی کی بچت کے حوالے سے آگاہی بیدار کرے گا۔ یہی نہیں اس منصوبے میں شامل تمام اشیا مقامی مارکیٹوں میں تیار کی جائیں گی جس سے مقامی افراد کو روزگار بھی ملے گا۔

    morocco-4

    اس سے قبل مراکش کے سلطان کنگ محمد ششم ملک میں ایک ماحولیاتی پالیسی کا بھی نفاذ کر چکے ہیں جس کے تحت 34 ملین آبادی والے اس ملک میں کئی ماحولیاتی منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔

    مراکش 2001 میں ہونے والی کوپ 7 کی بھی میزبانی کر چکا ہے۔

  • صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    ہونولولو: امریکی صدر بارک اوباما ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے بحرالکاہل میں قائم کیے گئے سمندری جانداروں کی حفاظتی پناہ گاہ (ریزرو) میں جا پہنچے۔

    امریکی صدر اوباما آج کل چھٹیوں پر ہیں اور اپنی چھٹیاں جزیرہ ہوائی میں گزار رہے ہیں۔ اس دوران وہ ہونو لولو سے 3 گھنٹے کی مسافت پر ایک جزیرے پر گئے۔ اس جزیرے پر بحر اوقیانوس کی آبی حیات کے لیے پناہ گاہ قائم کی گئی ہے۔

    obama-2

    اوباما اس پناہ گاہ کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری بھی دے چکے ہیں جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    ہوائی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’درجہ حرارت اور سطح سمندر میں اضافہ سے دنیا بھر کے ممالک خطرے کا شکار ہیں۔ جبکہ دوسری طرف امریکی کانگریس ابھی تک اس بحث میں الجھی ہے کہ کلائمٹ چینج حقیت ہے یا وہم‘۔

    obama-3

    انہوں نے کہا، ’ہم میں سے کئی افراد ایسے بھی ہیں جو اس بارے میں سنجیدہ ہیں اور مستقبل میں اپنے رہنے کے لیے نئی جگہوں کی تلاش میں ہیں‘۔

    صدر اوباما کا یہ دورہ ان کے 8 سالہ صدارتی عہد کے دوران ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تغیرات سے بچاؤ کے اقدامات کو سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے کی ایک کڑی ہے۔ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے والے امریکا کے پہلے صدر ہیں۔

    obama-4

    واضح رہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ دنیا بھر کے لیے ایک شدید خطرے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔

    اس خطرے میں کسی حد تک کمی کرنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ سے متعلق مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں