Tag: گلوبل وارمنگ

  • گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    واشنگٹن: ایک نئی تحقیق کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ سے برفانی علاقوں میں رہنے والا پرندہ پینگوئن شدید متاثر ہوگا۔

    امریکی ریاست ڈیلاویئر کی یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پینگوئن دنیا میں صرف انٹارکٹیکا کے خطے میں پائے جاتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کے باعث متضاد اثرات کا شکار ہے۔

    penguins-2

    انٹارکٹیکا کا مغربی حصہ گلوبل وارمنگ کے باعث تیزی سے پگھل رہا ہے اور اس کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

    دوسری جانب انٹارکٹیکا کے دیگر حصوں میں گلوبل وارمنگ کا اثر اتنا زیادہ واضح نہیں۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات

    تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ انٹارکٹیکا کے وہ پانی جو گرم ہو رہے ہیں وہاں سے پینگوئنز کی آبادی ختم ہو رہی ہے اور وہ وہاں سے ہجرت کر رہے ہیں۔ اس کی بہ نسبت وہ جگہیں جہاں انٹارکٹیکا کا درجہ حرارت معمول کے مطابق ٹھنڈا ہے وہاں پینگوئنز کی آبادی مستحکم ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

    penguins-3

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

    penguins-4

    واضح رہے کہ اس سے قبل ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ حال ہی میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل کی معدومی کی بھی تصدیق کی جاچکی ہے۔

  • کراچی: ماحول دشمن درخت ’کونو کارپس‘ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد

    کراچی: ماحول دشمن درخت ’کونو کارپس‘ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد

    کراچی: کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت ’کونو کارپس‘ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔ انہوں نے شہر کو سرسبز بنانے کے لیے اگلے ہفتے سے شجر کاری کی نئی مہم کا آغاز کرنے کا اعلان بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کمشنر آفس کراچی میں شجر کاری سے متعلق ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ایڈیشنل کمشنر کراچی، تمام اضلاع کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز، ضلعی میونسپل کارپوریشن ایڈمنسٹریٹرز، کنٹونمنٹ انتظامیہ، محکمہ جنگلات سندھ کی انتظامیہ اور کے الیکٹرک کے نمائندگان نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے کہا کہ شہر کو سرسبز بنانے کے لیے سرسبز کراچی مہم کے تحت آگاہی مہم چلائی جائے گی جس میں شہریوں کو آگاہی فراہم کی جائے گی کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اہم معلومات اور اقدامات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

    کمشنر کا کہنا تھا کہ اگلے ہفتے سے شہر کو سرسبز بنانے کے لیے شجر کاری کی نئی مہم شروع کی جائے گی جس کا آغاز مزار قائد سے ہوگا۔ اس مہم میں نیم، ببول، گل مہر، سائرس، لنگرا اور دیگر ماحول دوست درخت ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں لگائے جائیں گے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری

    انہوں نے ’کونو کارپس‘ درخت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو اس پر عملدر آمد یقینی بنانے کی سختی سے ہدایت کی۔

    واضح رہے کہ کونو کارپس کے درخت درختوں کی مقامی قسم نہیں ہے جس کے باعث یہ کراچی کے لیے مناسب نہیں۔ کونو کارپس کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    مزید پڑھیں: قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    معلومات کی عدم فراہمی کے باعث کراچی میں بڑے پیمانے پر یہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ صرف شاہراہ فیصل پر 300 کونو کارپس درخت موجود ہیں۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

  • دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کے سب سے زیادہ ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    ماحولیاتی کارکردگی کی فہرست مرتب کرنے والا ادارہ ای پی آئی اے دو شعبوں میں کارکردگی دیکھتے ہوئے اپنی فہرست مرتب کرتا ہے۔ ایک انسانی صحت کے تحفظ اور دوسرے ماحول یا ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات۔

    اس فہرست میں 4 یورپی ممالک فن لینڈ، آئس لینڈ، سوئیڈن اور ڈنمارک ابتدائی 4 پوزیشنز پر ہیں البتہ ان ممالک کا پڑوسی ملک ناروے اپنے بے تحاشہ کاربن اخراج اور زراعت میں فرسودہ طریقوں کے باعث پیچھے ہے۔

    finland-4

    فہرست میں دسویں نمبر پر فرانس ہے۔ نویں پر مالٹا، آٹھویں پر یورپی ملک ایسٹونیا، ساتویں پر پرتگال، چھٹے پر اسپین اور پانچویں پر سلووینیا شامل ہے۔

    چوتھے نمبر پر ڈنمارک ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی معیشت میں بہتری لا رہا ہے جسے گرین گروتھ کا نام دیا گیا ہے۔

    تیسرے نمبر پر موجود ملک سوئیڈن میں پینے کے پانی کو محفوط کرنے اور استعمال شدہ پانی کو ٹھکانے لگانے کی بہترین حکمت عملیوں پر عمل ہورہا ہے۔

    دوسرے نمبر پر آئس لینڈ ہے جو اپنی توانائی کی تمام ضروریات قابل تجدید ذرائع (ری نیو ایبل) جیسے شمسی ذرائع سے پورا کرتا ہے۔

    finland-2

    فہرست کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست ملک فن لینڈ ہے۔

    فن لینڈ نے ماحولیاتی شعبہ میں بے حد ترقی کی ہے جس کی بنیاد کاربن سے پاک ملک بنانے کے لیے اقدامات تھے۔ ان اقدامات سے فن لینڈ کی صحت، توانائی اور ماحولیات کے شعبہ میں بہتری آئی، آبی حیات، جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملی جبکہ فضائی آلودگی میں کمی اور آبی ذخائر میں اضافہ ہوا۔

    رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بڑی عالمی معیشتیں جو صنعتی شعبہ میں روز بروز ترقی کر رہی ہیں اس فہرست میں بہت نیچے ہیں کیونکہ ان ممالک کا ماحول بدترین خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال چین ہے جو فہرست میں 109ویں درجہ پر ہے۔

    finland-3

    اس سے قبل عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں فضائی آلودگی کے باعث ایک لاکھ کی آبادی میں سے 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی اور بدترین ماحولیاتی خطرات کی بڑی وجہ ہے۔

  • ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو: جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی عوام نے اپنی پہلی خاتون گورنر کا انتخاب کرلیا۔ یوریکو کوئیکے ایک سابق ٹی وی اینکر ہیں جبکہ وہ وزیر برائے دفاع بھی رہ چکی ہیں۔

    یوریکو تحفظ ماحول کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔ وہ ٹوکیو کی پہلی خاتون گورنر ہیں جبکہ بطور وزیر دفاع بھی وہ پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر فائز رہیں۔

    tokyo-2

    یوریکو نے وزیر اعظم شنزو ایبے کے حمایت یافتہ امیدوار ہیرویا ماسودا کو شکست دے کر فتح حاصل کی۔ انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور 2.9 ووٹ حاصل کیے۔

    واضح رہے کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج 2020 کے ٹوکیو اولمپکس کی تیاریاں ہوں گی جو کہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔ اولمپکس کی تیاریوں کے اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث شنزو ایبے اور ان کی حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے۔

    اہم عہدوں کی دوڑ میں خواتین نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا *

    یوریکو 2003 سے 2005 کے دوران جاپان کی وزیر ماحولیات بھی رہ چکی ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سبز کپڑے اور بینڈز پہن کر تحفظ ماحول کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں۔

    اپنے دور حکومت میں انہوں نے کئی ماحول دوست اقدامات متعارف کروائے جس میں سب سے اہم ’کیوٹو پروٹوکول‘ کی تکمیل کے لیے کاربن ٹیکس کا نفاذ تھا۔

    tokyo-3

    کیوٹو پروٹوکول 1997 میں اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کروایا جانے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت وہ ممالک جو کاربن کے اخراج میں حصہ دار ہیں، ان غریب ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو ان کاربن گیسوں کی وجہ سے نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

    یوریکو کا متعارف کروایا جانے والا کاربن ٹیکس مختلف اقسام کے فیول کے استعمال پر لاگو کیا گیا تھا جو بڑی بڑی فیکٹریوں اور صنعتوں کو ادا کرنا تھا۔

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون *

    سال 2005 میں یوریکو نے ایک پروگرام بھی شروع کیا جس کے تحت دفاتر میں کام کرنے والے مرد ملازمین سے کہا گیا کہ وہ گرمیوں میں کوٹ پہننے سے گریز کریں تاکہ ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کم ہوسکے۔

    یوریکو نے عوام پر ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹگ بیگز کی جگہ ’فروشکی‘ استعمال کرنے پر زور دیا۔ فروشکی روایتی جاپانی کپڑے کے تھیلے ہیں جو مختلف چیزیں لانے اور لے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    tokyo-4

    نو منتخب گورنر یوریکو نے قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور وہ روانی کے ساتھ عربی زبان بول سکتی ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ وہ ٹوکیو میں خواتین دوست پالیسیاں متعارف کروائیں گی۔

  • ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے، ماہرین

    ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے، ماہرین

    برلن: آب و ہوا میں تبدیلی ایک جانب موسم بگڑنے سے قدرتی آفات اور خشک سالی کا خدشہ ہے تو دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ ملکوں اور گروہوں کے درمیان تنازعات اور جنگوں کی وجہ بھی بن سکتی ہے.

    تفصیلات کےمطابق جرمنی میں پوٹس ڈیم انسٹی ٹیوٹ آف کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی سے ملکوں کے درمیان تنازعات اور جنگیں ہوسکتی ہیں.

    ماہرین نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے کہ دو مختلف آبادیوں والے خطّوں اور ممالک کے درمیان تنازعات عین اسی وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی قدرتی آفت درپیش ہوتی ہے اور انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا ادراک بھی نہیں ہوتا.

    ماہرین کے مطابق موحولیاتی تبدیلی براہِ راست جنگ کی وجہ تو نہیں بنے گی لیکن پرانے خوابیدہ مسائل کو دوبارہ چھیڑنے کی وجہ بن سکتی ہے.

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس مطالعے کا معاشروں پر براہِ راست اطلاق نہیں کیا جاسکتا تاہم اس مطالعے میں 1980 سے 2010 تک قدرتی آفات سے ہونے والے مالی نقصان کاجائزہ بھی لیا گیا ہے لیکن اسی دوران ممالک کے درمیان رونما ہونے والے جھگڑوں کو بھی نوٹ کیا گیا ہے.

    واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق خشک سالی،پانی کے مسائل اور قدرتی وسائل پر دباؤ دو گروہوں کے درمیان وسائل کی جنگ چھیڑسکتے ہیں اور خصوصاً شمالی اور وسط افریقہ اور ایشیا میں بھی یہ تنازعات سر اٹھا سکتے ہیں.

  • فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جسے اگر ہزاروں سال بھی زمین میں دفن رکھا جائے تب بھی یہ کبھی زمین کا حصہ نہیں بنتی۔ یہ ہمیشہ جوں کی توں حالت میں رہتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔

  • بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    جنیوا: عالمی اقتصادی فورم ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات والے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں وسطی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے ہر روز 18 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ یہ شرح 6.5 ملین ہے اور یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور سڑک پر ہونے والے حادثات کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

    pollution-2

    فضائی آلودگی صنعتوں اور ٹریفک کے دھویں، سگریٹ نوشی اور کھانا پکانے کا دھویں کے باعث پیدا ہوتی ہے اور یہ انسانی صحت کو لاحق چوتھا بڑا جان لیوا خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی سے ایشیا اور افریقہ میں قبل از وقت اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا اور یورپ میں اس شرح میں کمی آئی ہے۔

    فضائی آلودگی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے مگر چند ممالک میں یہ بلند ترین سطح پر ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے ان 10 ممالک کی فہرست جاری کی ہے جہاں آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔

    فہرست میں جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کی اموات کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

    pollution-3

    شمالی کوریا 235 افراد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ شمالی کوریا کی فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ایندھن کی ضروریات کے لیے کوئلے کا استعمال ہے۔ 2012 میں شمالی کورین کوئلے کی صنعت نے 65 ملین ٹن کاربن کا اخراج کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    بوسنیا ہرزگووینیا 224 افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ یہاں آلودگی کی بڑی وجہ ٹریفک کا دھواں ہے۔

    بلغاریہ 175 افراد کے ساتھ چوتھے، البانیہ 172 افراد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت چین میں فضائی آلودگی کے باعث 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اور فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی کی وجہ ہے۔

    pollution-1

    ساتویں نمبر پر افریقی ملک سیرالیون 143 اموات کے ساتھ ہے۔ یہاں گھروں کے اندر جلایا جانے والا ایندھن فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔

    یوکرین 140 افراد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ یوکرین میں گرمیوں کے موسم میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں جس کے باعث فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ

    رومانیہ 139 افراد کے ساتھ نویں جبکہ سربیا 138 اموات کے ساتھ دسویں نمبر پر موجود ہے۔

    فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ صنعتوں سے نکلنے والا کاربن کا اخراج ہے جس کے سدباب کے لیے رواں سال کے آغاز میں ایک معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کیے گئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق 195 ممالک نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتوں سے خارج ہونے والا کاربن عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرچکا ہے اور یوں کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کے خلاف کی جانے والی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔

  • گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

    واضح رہے کہ حال ہی میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔

    حال ہی میں ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک پیشن گوئی میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔

    birds

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے، کچھ ناکام ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی نسل معدوم ہونے لگے گی۔

    انہوں نے واضح کیا کہ اگر درجہ حرارت میں اضافے کا رجحان ایسے ہی جاری رہا تو 2050 تک دنیا سے ایک چوتھائی جنگلی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    wildlife-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث جہاں دنیا کو قدرتی آفات میں اضافے کا خطرہ لاحق ہے وہیں جانور بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    اس سے قبل کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث 1999 میں سینٹرل امریکا کا آخری سنہری مینڈک بھی مرچکا ہے جسے کلائمٹ چینج کے باعث پہلی معدومیت قرار دی گئی ہے۔

    polar-bear

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث قطب شمالی کی برف بھی پگھل رہی ہے جس سے برفانی ریچھوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث کئی امریکی ریاستوں میں پائے جانے والے پرندے وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ وہ پرندے تھے جو ان ریاستوں کی پہچان تھے مگر اب وہ یہاں نہیں ہیں۔

  • تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    مٹھی: ڈپٹی کمشنر تھرپارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی لگا دی۔

    محکمہ اطلاعات سندھ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے درختوں کو زمین کا حسن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو اس حسن کو برباد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    مزید پڑھیں: عامر خان کا تھر کے پیاسوں کی امداد کے لیے میچ

    انہوں نے کہا ہے کہ تھر کے صحرا میں ان درختوں کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ جانوروں کے چارے کا ذریعہ ہیں لہٰذا یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ درختوں کی حفاظت کی جائے۔

    مزید پڑھیں: چنار کا ڈھائی ہزار سال قدیم درخت دریافت

    تھر میں یہ پابندی دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت لگائی گئی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ایبٹ آباد میں 200 سال قدیم درخت برفباری کی نذر

    ڈپٹی کمشنر نے ایس ایس پی تھر کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ درختوں کی حفاظت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائیں اور ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں جو درختوں کی کٹائی میں ملوث پائے جائیں۔

  • گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے 2030 تک کم از کم 2 کھرب پاؤنڈز کے نقصان کا اندیشہ ہے۔

    یہ رپورٹ اقوام متحدہ، اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی میں اضافے کی وجہ سے کھلی فضا میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا جس کے باعث دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثر پڑے گا۔

    lanour-new

    رپورٹ کے مطابق مشرقی ایشیائی ممالک میں خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافے کے بعد سالانہ اوقات کار میں 20 فیصد تک کمی ہوجائے گی۔

    جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 43 ممالک جن میں زیادہ تر ایشیائی ممالک ہیں، کو اپنی کل مجموعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہوگا۔

    ان 14 سالوں میں چین اور بھارت کو سالانہ تقریباً 340 بلین پاؤنڈز جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کو 188 بلین اور تھائی لینڈ کو 113 بلین پاؤنڈز کا نقصان اٹھانا ہوگا۔

    کلائمٹ چینج کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ *

    رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر ٹورڈ کیلسٹورم کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہماری روزمرہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہوگا۔ ’جتنی زیادہ گرمی ہوگی، ہمارے کام کرنے کی رفتار اتنی ہی کم ہوجائے گی۔ کئی ممالک میں صرف چند روز کے لیے ہیٹ ویو آئی اور اس سے ان ممالک کی معیشتوں کو اربوں کا نقصان پہنچا‘۔

    global-warming

    تاہم دیگر ماہرین کی طرح انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اگر ہم ہنگامی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کریں تو ہم اس نقصان میں کسی حد تک کمی کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر وہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے مطمئن نہیں۔ ’یہ اقدامات ابھی بھی کم ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اب سے 40 سال بعد اس کے لیے اقدامات کریں گے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں‘۔

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج اور اس کے باعث ہونے والی گلوبل وارمنگ کو دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اس وقت دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

    گلوبل وارمنگ: شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کرچکا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔