Tag: گلوبل وارمنگ

  • قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    اسلام آباد: کلائمٹ چینج کی وزارت نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا ہے۔ کونسل کی منظوری کے بعد پالیسی ملک بھر میں نافذ العمل ہوجائے گی۔

    حکام کے مطابق پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملک میں موجود جنگلات کو بچانے کے لیے صوبائی محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات، متعلقہ وفاقی ادارے، گلگت بلتستان، فاٹا، آزاد جموں و کشمیر اور غیر سرکاری تنظیمیں وسیع پیمانے پر ایک دوسرے سے روابط رکھیں گے۔ پالیسی کے تحت مقامی آبادیوں کے ذریعہ جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں جنگلات سے غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا فیصلہ

    حکام کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے مئی 2015 میں قومی پالیسی برائے جنگلات تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔

    حکام کے مطابق پالیسی میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس شعبہ میں صوبوں کی خود مختاری کے تحت جو پالیسیاں اور منصوبے بنائے گئے ہیں ان کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ پالیسی زیر تکمیل منصوبوں اور پالیسیوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے ہوئے جنگلات سے متعلق ان بین الاقوامی معاہدوں پر کام کرے گی جن کا پاکستان ایک حصہ ہے۔

    مزید پڑھیں: عمران خان 200 بلین روپے مالیت کے جنگلات کی کٹائی پر برہم

    پالیسی میں تجویز کیے گئے تمام اقدامات اور ہدایات کو آئین کے تحت تیار کیا گیا ہے۔

    پالیسی کا مقصد جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کے لیے صوبوں اور مقامی آبادیوں کو اس سلسلے میں ہر طرح کی قانونی و معاشی معاونت فراہم کرنا ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    واشنگٹن: سائنسدانوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زیر زمین گہرائی میں پمپ کرنے کے بعد اسے پتھر میں تبدیل کر کے کلائمٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔

    یہ تجربہ آئس لینڈ میں کیا گیا جہاں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    co2-1

    تحقیق کے سربراہ جرگ میٹر کے مطابق کاربن کا اخراج اس وقت دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے نقصانات سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ اسے ٹھوس شکل میں تبدیل کرلیا جائے۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس پر زور دے رہے ہیں۔

    اس سے قبل کاربن کو مٹی کی چٹانوں کے نیچے دبانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ وہاں سے کسی بھی وقت لیکج شروع ہوسکتی تھی۔

    co2-2

    آئس لینڈ کے ہیلشیڈی پلانٹ میں شروع کیا جانے والا یہ پروجیکٹ ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلاتا ہے جو آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    co2-3

    تحقیق میں شامل ایک پرفیسر کے مطابق اس کامیابی سے انہیں بہت حوصلہ ملا ہے اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر آب مارٹن اسٹٹ کے مطابق اس طریقہ کار سے کاربن کی ایک بڑی مقدار کو محفوظ طریقہ سے پتھر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔

  • سمندروں کا عالمی دن: صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض

    سمندروں کا عالمی دن: صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض

    کراچی: آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج سمندروں کا دن منایا جا رہا ہے، آج کے دن کا عنوان ’’’’صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔

    سمندروں کاعالمی دن 1992 میں ریوڈی جینرو میں ہونے والی زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا جبکہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت 2008 سے ہرسال سمندر کے تحفظ کا شعوراجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔

    ocean-post-4

    سمندر انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے ہیں ،اس کی اور انسان کی دوستی ابتدا سے ہے۔ اس دن ساحلوں کی صفائی، تعلیمی پروگرام، تصاویرسازی، سمندر سے حاصل ہونے والی لذیذ غذا کے ایونٹس سجانے سمیت دیگر تقاریب منائی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد انسانوں میں سمندر کے تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت ، آبی جانوروں کا تحفظ اور سمندری آلودگی کم کرنا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندرہماری زمین کا دل اور پھیپھڑے ہیں کیونکہ یہ زمین پراستعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 75فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔

    ocean-post-1

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔

    کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور رہائشی ٹھکانے بھی ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔

    ocean-post-3

    اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سمندرکو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہےجبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔

    پاکستان کا ساحل سمندر1050 کلو میٹرپرپھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔

    ocean-post-2

    پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیرٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاوں کی آلودگی،شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ ہے۔جبکہ تیل کے ٹینکز سے رسنے سے بھی سمندر آلودہ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پرمشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیاتِ انسانی کے لئے ضروری ہے، ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔

  • پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    کراچی:نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر پاکستان میں گرمی کی شدت کی ایک وجہ ہیں کیونکہ ڈارک کول کی وجہ سے پاکستان کے گلیشیئرز پر بھیانک اثرات پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں۔

    یہ انکشاف این ڈی ایم اے ڈی آر آر کمیٹی کے ممبر اور اس ضمن میں وزیراعظم ہاوس کے مقررہ افسر احمد کمال نے ایک ورکشاپ کے بعد اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

    3-7

    احمد کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ناردرن سرحد کے قریب بھارت 9ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے، یہ بجلی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل ہوتی ہے لیکن ان بجلی گھروں میں استعمال ہونے والا کوئلہ پاکستان کے گلیشیئرز کے لیے خطرہ ثابت ہوا ہے،تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ڈارک کول کی وجہ سے خطرناک دھواں اٹھتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز بھی ڈارک ہو رہے ہیں اور بھارت کی کول امیشن سے ہمارے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے گرمی بھی پڑتی ہے اور موسم کا توازن بھی تبدیل ہور ہاہے ،پاکستان سفارتی سطح پر بھی بھارت سے اس مسئلے پر بات چیت کر رہا ہے۔

    2-7

     اتوار کو مقامی ہوٹل میں این ڈی ایم اے کے ذمے داروں کی کراچی کے صحافیوں سے ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ، وزیر اعظم ہاﺅس میں مقرر این ڈی ایم کے افسر احمد کمال اور این ڈی ایم اے کے ماہر پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کی چونکا دینے والی باتیں ملکی قدرتی آفات کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافے کی جانب نشاند ہی کرتی ہیں لیکن ان کی باتوں سے یہ بھی محسوس ہوا کہ قومی سطح پر یا وفاقی حکومت کی حد تک ابھی تک کوئی بہت بڑی سنجیدگی نہیں نظر آرہی، البتہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

    سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ نے بتایا کہ سندھ میں سمندری تباہی معمولی نوعیت کی نہیں ہے اب تو کراچی کے ساحل کو بھی خطرہ موجود ہے جس کی وجہ سے سینیٹ کمیٹی نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ کراچی کے کلفٹن کے ساحل کے سامنے دیوار تعمیر کی جائے تاکہ سمندر کی سطح میں کوئی اضافہ ہونے کی صورت میں خدانخواستہ فوری طور پر کسی تباہی سے بچا جا سکے۔

    سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹھٹھہ کی کوسٹل بیلٹ پر 22 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے اور انڈس ڈیلٹا بھیانک دور سے گزر رہا ہے، دریائے سندھ میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ ہونے کی وجہ سے سمندر آگے بڑھ رہا ہے اور تمام سمندری کریکس ختم ہو رہے ہیں۔

    4-3

    سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود میں واقع سرکریک پر بھارت کا دعویٰ غیر منطقی ہے کیونکہ سر کریک سے لے کر کورنگی کریک تک تمام سمندری کریکس تک دریائے سندھ سے میٹھا پانی داخل ہوتا تھا جس کی وجہ سے سمندر کی طغیانی رک جاتی تھی۔

    این ڈی ایم اے کے ماہر اور پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کا کہنا تھا کہ 2012ءتا 2015ءپاکستان میں سیلاب اور زلزلے دونوں ہی آرہے ہیں، سمندری طوفان اور زمینی طوفان دونوں بڑھ رہے ہیں، چند روز قبل اسلام آباد میں آنے والا طوفان بھی انتہائی خطرناک طوفان تھا جو بڑی تباہی پھیلاتا لیکن جلد طوفان کا رخ تبدیل ہوگیا اور زور ٹوٹ گیا ،ایسا طوفان کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔محکمہ ماحولیات ہو یا این ڈی ایم اے ،دونوں میں سہولیات کا فقدان ہے، ہمارے پاس اپنا سیٹلائٹ سسٹم بھی نہیں ہے، اب پرانا ری ایکٹر اسکیل بھی استعمال نہیں ہوتا، تربیت کے فقدان کو مد نظر رکھ کر 1092 افسران کو تربیت دی گئی ہے۔

    1-6

    ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تمام صنعتوں کے نقشے آن لائن ہوتے ہیں، این ڈی ایم اے کی کوشش ہے کہ پاکستان کی تمام فیکٹریوں کے نقشے آن لائن ہونے چاہئیں تاکہ کسی بھی فیکٹری میں حادثے یا آفت آنے کی صورت میں فوری طور پر پہنچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی توازن بگڑنے سے ہمارے ملک میں گرمیوں کی شدت بڑھ رہی ہے، ہیٹ اسٹروک بھی اس کی ایک بڑی علامت ہے، خشک سالی بڑھ رہی ہے، پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور بارشیں ایک سو کلومیٹر مشرق سے مغرب کی طرف چلی گئی ہیں لیکن ہم سب قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    چار گھنٹے کے اس ڈائیلاگ میں وجیہ احمد اور الوینہ آغا نے بھی حصہ لیا۔ گفتگو کے دوران کراچی کے صحافیوں کے سوالات بھی بڑے تلخ تھے اور جملے بھی تند و ترش لیکن مذکورہ ماہرین بہرحال سرکار نہیں تھے کہ ہمارے سوالات کے جوابات دیتے۔ پوری گفتگو میں ایک بات سمجھ میں آگئی کہ ماحولیات کا عالمی دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا، آئندہ چند برس میں پاکستان کے بھی بھیانک ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

  • پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    کراچی : اقوام متحدہ کی اہم سرگرمی ہونے کے ناطے ماحولیات کا عالمی دن دنیا بھر میں ہر سال 5جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصدماحولیات کی اہمیت کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا اور ماحولیات کی بہتری کے لیے سیاسی سطح پر توجہ دلانا اور اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کو مزید فعال بناناہے۔

    اس سال عالمی یوم ماحولیات کا موضوع ہے

    ” Go Wild for the life” (جنگلی حیات کا تحفظ ہر قیمت پر) 

    اس موضوع کے انتخاب کا مقصد جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور ان جانوروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جن کی نسل ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے مثلا ہاتھی، گینڈا، چیتا، وھیل مچھلی اور کچھوے وغیرہ ۔

    World4

    مزید برآں ، ہرسال 8 جون کو سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام الناس میں سمندروں اور ان میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور انہیں آلودگی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے محفو ظ رکھنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے جو موضوع منتخب کیا گیا ہے وہ ہے

    صحت مند سمندر، صحت مند کرہ ارض

    سمندر زمین پرموجو د حیاتیاتی نظام (ایکو سسٹم) کا اہم ترین حصہ ہیں اور آلودگی سے پاک سمندر کرہ ارض پر صحت مند ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار کے حامل ہیں۔

    World2

    ماحولیا ت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث پاک بحریہ ماحول اور سمندر وں کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لئے دونوں عالمی ایام کو باقاعدگی سے مناتی ہے ۔

    اس سال ماہِ صیام کے آغاز سے قبل پاک بحریہ میں یہ دونوں ایام مشترکہ طور پر 3جون کو منائے گئے ۔ عوام الناس اور متعلقہ ایجنسیوں اور محکموں میں ماحول اور سمندروں کی اہمیت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جن میں ساحلوں کی صفائی کی مہم اور سیمینار اور لیکچرز شامل ہیں۔

    اس سلسلے میں پاک بحریہ کے تعلیمی اداروں میں معلوماتی مقابلے اور پاکستان میری ٹائم میوزیم میں رنگا رنگ میلے کا انعقاد بھی شامل ہیں۔

    اس موقع پر چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اللہ نے اپنے پیغام میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سمندروں کو مختلف نوعیت کے خطرات سے تحفظ فراہم کرنے اور ماحولیات بالخصوص سمندری ماحول کی بہتری کے لیے پاک بحریہ ہر ممکن کوشش کرے گی۔

    انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ پاک بحریہ اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کی خاطر سمندر اور ماحول کے تحفظ کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی۔

     

  • اگلے 6 سال میں ہاتھیوں کی نسل ختم ہونے کا خدشہ

    اگلے 6 سال میں ہاتھیوں کی نسل ختم ہونے کا خدشہ

    نیروبی: جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلو ڈبلیو ایف) نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ہاتھیوں کا شکار ایسے ہی جاری رہا جیسے ابھی ہے تو اگلے 6 سال میں تنزانیہ سے ہاتھیوں کا وجود مٹ جائے گا۔

    تنزانیہ میں سیلس گیم ریزرو ہاتھیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔ سیلس سفاری پارک ایک سیاحتی مقام بھی ہے جو ہر سال تنزانیہ کی قومی آمدنی میں 6 ملین ڈالر کا اضافہ کرتا ہے۔

    ivory-3

    ivory-4

    سن 1970 میں جب اسے قائم کیا گیا اس وقت یہاں ہاتھیوں کی تعداد 1 لاکھ 10 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 15 ہزار رہ گئی ہے۔ ڈبلو ڈبلیو ایف کے مطابق 2022 تک سیلس سے ہاتھیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس کی واحد وجہ ہاتھی دانت کے حصول کے لیے ہاتھیوں کا شکار ہے۔

    افریقہ میں ہر سال اس مقصد کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔ تنزانیہ میں پچھلے 5 سال میں ہاتھیوں کی آبادی میں 65 کمی ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: زمبابوے میں 14 ہاتھیوں کو زہر دے کر ہلاک کردیا گیا

    ماہرین کے مطابق ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت نہ صرف ان کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔ اس غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی حاصل ہے۔

    ivory-2

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنٹری ڈائریکٹر امانی نگوسارو کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کی آبادی کو بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہاتھیوں کے شکار اور ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔

    گذشتہ سال ہاتھیوں اور گینڈوں کی معدوم ہوتی نسل کے تحفظ کے لیے افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بنایا گیا جس کا پہلا اجلاس گذشتہ ماہ منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں کینیا کے صدر سمیت افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس کے آخر میں 100 ٹن کے ہاتھی دانت اور 1.35 ٹن کے گینڈے کے سینگ کے ذخیرے کو نذر آتش بھی کیا گیا۔

    ivory-1

    واضح رہے کہ ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

  • دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    کراچی: ماہرین کے مطابق دنیا کا مستقبل 5 ’پیز‘ پر مشتمل ہے۔ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک۔ یہ 5 ’پی‘ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف یعنی سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کا حصہ ہیں اور تمام اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی جامعہ این ای ڈی میں سسٹین ایبل ترقیاتی اہداف پر تربیتی ورکشاپ منعقد ہوئی۔ ورکشاپ میں تمام شعبہ جات کے ماہرین، این جی اوز کے نمائندے، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا اراکین نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    اس موقع پر شہری ترقیاتی امور کے ماہر فرحان انور نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے بارے میں بتایا کہ اقوام متحدہ نے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد اب سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان اہداف کو 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    ورکشاپ میں کراچی کی ہیٹ ویو بھی موضوع بحث رہی۔ ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کا حصہ ہے۔ کلائمٹ چینج اور ماحولیات کا تعلق سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں سے پلینٹ یعنی کرہ ارض سے ہے۔ اس موقع پر پیرس میں ہونے والی کلائمٹ ڈیل بھی زیر بحث آئی جس میں عالمی درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ کرنے پر 195 ممالک نے اتفاق کیا۔ یہ ڈیل بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت، ماحولیاتی نقصانات، اس کی وجہ سے قدرتی آفات اور قحط یا خشک سالی جیسے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    تمام ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ اس ڈیل پر ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد شروع کیا جائے اس سے پہلے کہ ماحولیاتی نقصانات شدید ہوتے جائیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پیس دراصل عالمی بھوک، وسائل کی کمی، قحط اور تعلیم کی کمی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ انہی کی عدم فراہمی شدت پسندی کو فروغ دیتی ہے اور القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ایسے ہی محروم لوگوں کو اپنا ہدف بنا کر ان کا برین واش کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    ترقیاتی اہداف میں شامل پروسپیرٹی ڈویلپمنٹ سیکٹر کا احاطہ کرتی ہے۔ پیپل یعنی لوگوں کے اہداف ان کی صحت، تعلیم اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف میں پارٹنرشپ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اب تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہے چاہے وہ ایشیا کے ہوں یا افریقہ کے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی افریقی ملک میں کوئی آفت آئے تو امریکہ یا ایشیا اس سے محفوظ رہے۔ تمام ممالک کو علاقائی سطح پر تعاون کر کے اپنے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

  • ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    دنیا بھر میں اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔ پوری دنیا کو اس وقت جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ۔

    ماہرین کے مطابق پچھلے 10 سے 15 سال میں جس قدر موسمیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں، اتنی پچھلے 200 سالوں میں نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ تیزی سے ہوتی صنعتی ترقی ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں بے شمار صنعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کئی ممالک میں صنعتی زونز بناد یے گئے۔ ترقی پذیر ممالک میں تو شہر کے بیچوں بیچ اور رہائشی علاقوں میں بھی صنعتیں قائم ہوگئیں یوں دنیا کا موسم تیزی سے تبدیل ہونے لگا۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    اس موسمیاتی تبدیلی سے سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ پوری دنیا کی حدت میں اضافہ ہوگیا۔ مختلف ممالک میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ گرمی پڑنے لگی۔ گرمی کی وجہ سے گلیشیئرز بھی پگھلنے لگے یوں سطح سمندر میں اضافے کے باعث سیلابوں کا خطرہ بھی بڑھ گیا۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے کئی ساحلی شہر 2050 تک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    موسم کی تبدیلی سے فصلوں کی افزائش پر بھی اثر پڑا۔ علاوہ ازیں قحط اور پانی کی کمی جیسے مسائل نے بھی کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    بھارت میں بھی شدید گرمی کے باعث اب تک نہ صرف 200 افراد ہلاک ہوچکے ہیں بلکہ جنگلوں اور جھونپڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات اور کئی ریاستوں میں پانی کی شدید کمی کے مسائل کا سامنا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارتی ریاست بہار میں کھانا پکانے پر پابندی عائد

    کراچی بھی اس وقت تاریخ کے گرم ترین موسم کی لپیٹ میں ہے۔ پچھلے سال کراچی میں ہیٹ ویو آئی جس میں پارہ 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا اور اس جان لیوا گرمی نے 1700 افراد کی جان لے لی۔ اس سال بھی گرمی کے موسم میں کئی بار ہیٹ ویو کی پیشن گوئی ہے جس کے لیے تیاریاں کی جاچکی ہیں اور شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: کراچی ہیٹ ویو، اسے ہوّا مت بنائیں

    یہاں ہم آپ کو کچھ ایسی ہی تدابیر بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ ہیٹ ویو کے دنوں میں خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

    :زیادہ سے زیادہ پانی پئیں

    hw-1

    پانی آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو معمول پر رکھتا ہے چنانچہ گرمی کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔

    :بچوں کو بند کار میں نہ چھوڑیں

    hw-2

    دن کے اوقات میں اگر باہر جانا ہو تو بند گاڑی میں کبھی بھی بچوں یا جانوروں کو نہ چھوڑیں۔ یہ عمل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    :اپنا شیڈول ترتیب دیں

    hw-3

    شدید گرمی کے دنوں میں باہر نکلنے سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ باہر نکلنے والے کام صبح سورج نکلنے سے پہلے یا شام کے وقت نمٹالیں۔

    :باہر نکلتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    hw-4

    گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپ کا استعمال کیجیئے۔ سورج کی براہ راست تپش سے جتنا زیادہ محفوظ رہیں اتنا ہی بہتر ہے۔

  • سوئیڈن تاریخ کا پہلا فوسل فیول سے پاک ملک

    سوئیڈن تاریخ کا پہلا فوسل فیول سے پاک ملک

    سوئیڈن کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ بہت جلد فوسل فیول سے پاک پہلا ملک بننے والے ہیں۔ سوئیڈن قابل تجدید توانائی یعنی ری نیو ایبل انرجی کے منصوبوں پر 546 ملین ڈالر کی سرمایہ کرے گا۔

    سوئیڈن کی حکومت کے مطباق ان کا یہ اقدام پیرس میں ہونے والے معاہدے کی تکمیل کی طرف ایک قدم ہے اور 2016 کے بجٹ میں یہ ان کی پہلی ترجیح ہوگا۔

    s1

    سوئیڈن پہلے ہی اپنی بجلی کا ایک تہائی حصہ غیر فوسل فیول تونائی کے ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔ سوئیڈن حکام کا کہنا ہے کہ وہ شمسی توانائی، قابل تجدید توانائی کے ذخائر، الیکٹرانک بسوں، ماحول دوست کاروں اور ماحول سے مطابقت رکھنے والی پالیسیوں پر زیادہ سرمایہ کاری کریں گے۔

    s2

    سوئیڈن پہلا ملک نہیں جو قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر توجہ دے رہا ہے۔ اس سے قبل امریکی ریاست ہوائی نے بھی امریکہ کی پہلی فوسل فیول سے پاک ریاست بننے کے منصوبے کا اعلان کیا، اس سال کے آغاز میں کوسٹا ریکا 75 دن تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی پر منحصر رہا، ڈنمارک نے بھی پچھلے سال جولائی میں اپنی بجلی کی 140 فیصد ضروریات کو پون بجلی (ہوا سے بننے والی بجلی) کے ذریعے پورا کیا۔

  • صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

    صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

    صحارا کے صحراؤں میں مٹی کے نیچے ایک دریا دریافت کیا گیا ہے جس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ وہاں کبھی پودے اور جانور رہا کرتے تھے۔

    موریطانیہ کے صحرائی علاقے میں ریڈار سے لی گئی تصاویر میں 500 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ایک دریا نظر آرہا ہے۔ یہ تصاویر جاپانی سیٹلائٹ سے لی گئی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ قدیم زمانے میں یہ دریا مغربی صحارا میں بہتا ہوا اس حصے تک جاتا تھا جسے اب الجیریا کہا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس دریا کا پانی مختلف چینلز کے ذریعے سمندر تک جاتا ہوگا۔ اس دریا کو دریافت کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ دریا پودوں اور جانوروں کی پانی کی ضروریات پورا کرتا ہوگا۔ اگر یہ دریا اس وقت فعال ہوتا تو دنیا کا بارہواں بڑا دریا ہوتا۔

    ماہرین کی جانب سے جاری کیے جانے والے نقشے کے مطابق دریا بہت منظم طریقے سے رواں تھا اور یہ آگے جا کر موریطانیہ کے سمندر میں گرتا تھا۔

    ساؤتھ ہمپٹن میں نیشنل اوشینوگرافی سینٹر کے محقق رسل وائن کا کہنا ہے کہ یہ دریافت جغرافیہ کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے ہمیں پتہ چلا کہ افریقہ کا یہ صحرا 5 سے 6 ہزار سال پہلے ایک زرخیز خطہ تھا۔

    ان کے مطابق یہ ان لوگوں کے لیے ایک ثبوت ہے جو کلائمٹ چینج کو نہیں مانتے، کہ کس طرح کلائمٹ چینج کی وجہ سے ایک سر سبز و زرخیز خطہ ایک صحرا میں تبدیل ہوسکتا ہے۔