Tag: گلوبل وارمنگ

  • سال 2018 تاریخ کا متواتر چوتھا گرم ترین سال

    سال 2018 تاریخ کا متواتر چوتھا گرم ترین سال

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2018 جدید تاریخ کا ایک اور گرم ترین سال تھا اور یہ مسلسل چوتھا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن (نووا) کی جاری کردہ رپورٹ میں سنہ 1880 سے موسم اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 1880 سے اب تک درجہ حرارت میں مجموعی طور پر 2 ڈگری فارن ہائیٹ یا 1 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2014 اور 2015 کو بھی گرم ترین سال قرار دیا گیا، 2016 ان سے بھی زیادہ گرم رہا جبکہ 2017 اور اس کے بعد اب 2018 ایک اور گرم ترین سال ثابت ہوا۔

    رپورٹ کے مطابق رواں برس برفانی خطوں اور قطبین کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین کے مطابق گرین لینڈ کی برف جسے قطبین کی سب سے فرسودہ اور پرانی برف کہا جاتا ہے وہ بھی پگھلنا شروع ہوگئی۔

    رپورٹ کی تیاری میں شامل محققین کا کہنا ہے کہ متواتر 4 سال تک درجہ حرارت میں اضافہ برفانی خطوں، سمندروں، آبی ذخائر اور زراعت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    خیال رہے کہ 3 دن قبل ہی انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش خطے کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

  • صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پگھل جانے کا خدشہ

    کھٹمنڈو: دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی ایک تہائی برف سنہ 2100 تک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔

    یہ انکشاف انٹرنیشنل سینٹر فار انٹگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی موڈ) کی جانب سے جاری کردہ تجزیاتی رپورٹ میں کیا گیا۔ یہ رپورٹ 5 سال کے اندر تیار کی گئی جس میں 22 ممالک اور 185 اداروں کے 350 سے زائد ماہرین کی مدد لی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2100 تک ہمالیہ اور ہندو کش کی تقریباً ایک تہائی برف پگھل جائے گی جس کے نتیجے میں دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوجائے گی۔

    خیال رہے کہ کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق وسیع برفانی تودوں پر مشتمل ہندو کش اور ہمالیہ کا یہ خطہ انٹار کٹیکا اور آرکٹک خطے کے بعد تیسرا قطب ہے۔ یہ خطہ 3 ہزار 5 سو کلو میٹر پر محیط ہے اور پہاڑوں کا یہ سلسلہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پگھلاؤ کے سبب دریائے یانگزے، دریائے میکونگ، دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آجائے گی جہاں کسان خشک سالی کے دوران برفانی تودوں کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر گزارا کرتے ہیں۔

    اس طغیانی سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جبکہ آس پاس موجود کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ اس خطے میں تقریباً 25 کروڑ افراد پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ ہے۔

    مذکورہ رپورٹ کی سربراہی کرنے والے فلپس ویسٹر کا کہنا ہے کہ یہ وہ ماحولیاتی بحران ہے جس کے بارے میں کسی نے نہیں سنا۔

    ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ 8 ممالک تک پھیلے ہوئے ہمالیہ ہندوکش کے سلسلے میں موجود برفانی تودوں سے ڈھکی ہوئی بہت سی چوٹیوں کو ایک صدی میں چٹانوں میں تبدیل کرچکی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر سنہ 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات بھی اٹھائے جائیں تب بھی سال 2100 تک خطے کی ایک تہائی سے زائد برف پگھل جائے گی، اور اگر ہم رواں صدی کے دوران گرین ہاؤس گیسز کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو دو تہائی برف پگھل جائے گی۔

  • زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ایک طرف تو زمین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگائے کھڑا ہے، تو دوسری جانب سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جلد ہی زمین پر برفانی دور یعنی آئس ایج کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔

    لندن کی نارتھمبریا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگلی ایک دہائی کے دوران زمین پر برفانی دور شروع ہوسکتا ہے جس میں زمین کے تمام بڑے دریا منجمد ہوجائیں گے۔

    یہ پیش گوئی سورج کی مقناطیسی توانائی کی حرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    سنہ 1645 سے 1715 کے درمیان منجمد دریائے ٹیمز

    آسٹرو نومی اینڈ جیو فزکس نامی رسالے میں شائع شدہ اس تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 سے زمین کے درجہ حرارت میں کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور دہائی کے آخر تک زمین برفانی دور کا سامنا کرے گی۔

    ماہرین کی یہ تحقیق اس سے قبل کی جانے والی ایک اور تحقیق کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ گزشتہ تحقیق میں سورج کی دو مقناطیسی لہروں کی حرکت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

    حالیہ تحقیق کے مطابق ان مقناطیسی لہروں میں تیزی سے کمی واقع ہوگی جس کا آغاز سنہ 2021 سے ہوگا اور یہ 33 سال تک جاری رہے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر اس سے پہلے بھی ایک مختصر آئس ایج رونما ہوا تھا جو سنہ 1646 سے 1715 تک رہا تھا۔ اس دوران لندن کا دریائے ٹیمز منجمد دریا میں تبدیل ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کی یہ لہریں اور ان کی حرکت ماضی میں تو برفانی دور کا باعث بنیں، تاہم اب یہ عمل کس قدر اثر انگیز ہوسکتا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کی راہ میں گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت حائل ہے۔

    ان کے مطابق یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مستقبل میں بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنے گا یا گلوبل وارمنگ کا اثر زیادہ ہوگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اگر اب بھی یہ عمل برفانی دور کا باعث بنتا ہے تو یہ زمین کے لیے خوش آئند ہوگا کیونکہ اس سے گلوبل وارمنگ کا عمل سست یا رک سکتا ہے۔

    ’30 سال کے اس عرصے میں یقیناً ہم گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے عوامل کو کم کرسکتے ہیں اور اس کا مستقل حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں، اس کے بعد جب زمین معمول کی حالت پر لوٹ آئے گی تو ہمارے پاس موقع ہوگا کہ ہم گلوبل وارمنگ کو کنٹرول میں رکھ سکیں‘۔

  • آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے انٹارکٹیکا کے برفانی سمندر میں بہنے والے آئس برگ کے مستطیل ٹکڑے کی تصویر جاری کی ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے۔

    ناسا کے تحقیقاتی جہاز سے کھینچی جانے والی یہ تصویر انٹارکٹیکا کے ویڈل سمندر کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑا کسی برفانی تودے سے ٹوٹ کر لگ ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ میں اضافے کے ساتھ برفانی خطے میں موجود گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور تودوں کے مختلف حصوں کے ٹوٹنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

  • شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    شیشے کی بوتلیں ساحلوں کو بچانے میں معاون

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا بھر کی ساحلی زمین سمندر برد ہورہی ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی رہائشی آبادیوں کے قریب آرہا ہے اور یوں ساحل پر آباد شہروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    ساحلی زمین کے غائب ہونے کی وجہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت ہے جس سے برفانی پہاڑ یا گلیشیئرز پگھل کر سمندروں میں شامل ہورہے ہیں یوں سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    تاہم ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی شیشے کی بوتلیں ان ساحلوں کو بچا سکتی ہیں۔

    نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی اس سلسلے میں کام کر رہی ہے اور اسے حیرت انگیز نتائج موصول ہورہے ہیں۔

    یہ کمپنی ایک تیز مشین کے ذریعے شیشے کی بوتلوں کو توڑ کر نہایت باریک ذرات میں تبدیل کردیتی ہے۔

    اس کے بعد اس میں شیشہ کے ذرات اور سیلیکا ڈسٹ الگ کرلی جاتی ہے ساتھ ہی بوتلوں پر لگے پلاسٹک اور کاغذ کے لیبلوں کو بھی الگ کرلیا جاتا ہے۔

    الگ ہوجانے کے بعد اس سے نکلنے والی مٹی بالکل ساحلی ریت جیسی ہوتی ہے۔

    ساحل کیوں سمندر برد ہورہے ہیں؟

    اس وقت دنیا بھر کے ساحلوں کا 25 فیصد حصہ سمندر برد ہورہا ہے۔

    اس کی 2 وجوہات ہیں، ایک زمینی کٹاؤ اور دوسرا قدرتی آفات۔ اس کے ساتھ ساتھ ساحلی ریت کو کئی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جن میں تعمیرات سرفہرست ہیں۔

    ساحلی ریت کو سڑکیں بنانے، کان کنی کرنے، اور سیمنٹ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے مختلف ساحلوں سے ٹنوں ریت اکٹھی کی جاتی ہے۔

    بعض اوقات ایک ساحل کی ریت اٹھا کر دوسرے ساحل پر بھی ڈالی جاتی ہے تاکہ اس ساحل پر کم ہوجانے والی مٹی کا توازن برابر کیا جاسکے۔

    اس طریقے سے نیوزی لینڈ کے کئی ساحلوں کو دوبارہ سے بحال کیا گیا جو سمندر برد ہونے کے قریب تھے۔

    دوسری جانب سنہ 2017 میں ارما طوفان کے وقت امریکی ریاست فلوریڈا میں 12 ہزار ٹرکوں کے برابر ساحلی ریت نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور ہوا میں اڑگئی۔

    اسی طرح کیلیفورنیا کی 67 فیصد ساحلی زمین سنہ 2100 تک سمندر برد ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    اس صورت میں دوسرے ساحلوں سے ریت لا کر خطرے کا شکار ساحل پر ڈالی جاتی ہے تاکہ شہری آبادی کو نقصان سے بچایا جاسکے۔

    نیوزی لینڈ کی ساحلی زمین بھی سخت خطرے میں ہے اور یہ پہلی کمپنی ہے جو ایک قابل قبول حل کے ساتھ سامنے آئی ہے۔

    یہ کمپنی اب تک 5 لاکھ بوتلوں سے 147 ٹن ریت حاصل کرچکی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ 330 ملی لیٹر کی ایک عام بوتل سے 200 گرام ریت حاصل ہوتی ہے۔

    کمپنی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے پہلے وہ نیوزی لینڈ کے ساحلوں کے بچائیں گے اس کے بعد اسے پوری دنیا میں پھیلائیں گے۔

    یہ طریقہ کار نہ صرف ساحلوں کو بچا رہا ہے بلکہ شیشے کی بوتلوں کو کچرے میں پھینکنے کے رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کر رہا ہے جس سے شہروں کے کچرے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

  • چالاک پینگوئن کی چوری آپ کو ہنسنے پر مجبور کردے گی

    چالاک پینگوئن کی چوری آپ کو ہنسنے پر مجبور کردے گی

    برفانی علاقوں میں رہنے والا پرندہ پینگوئن نہایت ہی معصوم سا پرندہ سمجھا جاتا ہے، لیکن جب بات آتی ہے اپنی بقا اور بہتری کی، تو معصوم سے معصوم سے جانور بھی چالاکی دکھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    بی بی سی ارتھ نے پینگوئن کی چالاکی کی ایسی ہی ایک ویڈیو عکسبند کی جسے دیکھ کر آپ بے اختیار ہنس پڑیں گے۔

    برفانی زمین سے محفوظ رہنے کے لیے پینگوئن پتھروں کو جمع کر کے اپنے بیٹھے اور سونے کے لیے جگہ تعمیر کرتے ہیں۔

    اس دوران وہ دور و قریب سے چن چن کر ایسے پتھر جمع کرتے ہیں جو انہیں اور ان کے بچوں کو تکلیف سے بچائیں۔

    تاہم پینگوئنز کے گروہ میں ایک ایسا شرارتی پینگوئن ضرور ہوتا ہے جو اس قدر محنت کرنے کے بجائے دوسرے پینگوئنز کے جمع کردہ پتھروں سے اپنا گھر بناتا ہے۔

    یہ چالاک پینگوئن چونکہ خود دوسروں کے پتھر چراتا ہے لہٰذا اس بات سے بھی ہوشیار رہتا ہے کہ کوئی دوسرا پینگوئن اس کے پتھر چرا کر نہ لے جائے۔

    ایسے میں جب وہ پینگوئن دیکھ لیتا ہے جس کے پتھر چرائے جارہے ہوتے ہیں، تو وہ اسے مار کر دور ہٹا دیتا ہے۔

    خیال رہے کہ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پینگوئن دنیا میں صرف انٹار کٹیکا کے خطے میں پائے جاتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کے باعث متضاد اثرات کا شکار ہے۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

  • پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    بدلتے موسموں اور گرم ہوتے درجہ حرارت نے جہاں انسانوں کی زندگی دشوار بنا دی ہے وہیں جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی بے شمار خطرات پیدا کردیے ہیں۔

    اس میں بڑا حصہ انسانوں کا ہے جو ان جانوروں کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کو بے دریغ کاٹ رہے ہیں جس کے باعث مختلف اقسام کے جانداروں کی معدومی کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

    حال ہی میں ایک رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ رواں دہائی میں پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    برڈ لائف انٹرنیشل کی جانب سے کی جانے والی تجزیاتی تحقیق میں معلوم ہوا کہ اس دہائی کے اندر براعظم امریکا میں پائے جانے والے پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    اس فہرست میں مکاؤ، پوالی، ایک قسم کا الو اور کرپٹک ٹری ہنٹر نامی پرندے شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض پرندے اس لیے بھی معدوم ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی آبادی کم ہوجاتی ہے اور بڑے پرندے انہیں کھا لیتے ہیں تاہم اس فہرست میں کچھ پرندے ایسے بھی شامل ہیں جو جنگلات کے خاتمے کی وجہ سے معدوم ہورہے ہیں۔

    فہرست میں اس کے علاوہ بھی 26 ہزار پرندوں و جانوروں کی اقسام ایسی ہیں جو معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کے لیے تو اب کچھ نہیں کیا جاسکتا تاہم دیگر خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔

  • پورے پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا ہدف ہے، وزیر اعظم

    پورے پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا ہدف ہے، وزیر اعظم

    اسلام آباد : وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ شجر کاری مہم تمام شہروں میں شروع کررہے ہیں، اگر درخت لگانے نہ شروع کئے تو پاکستان ریگستان بن سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم پاکستان عمران نے کہا ہے کہ شجر کاری مہم کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہے، شجر کاری مہم تمام شہروں میں شروع کررہے ہیں، پورے پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا ہدف ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے شروع کی جانے والی ملک بھر میں شجرکاری کرنے کی مہم کے حوالے سے حکومت کے پاکستان کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر بھی ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔

    وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا، 5 سال میں پورے پاکستان کو سرسبز و شاداب کرنا ہے، جو بھی خالی علاقے اور زمین ملے گی وہاں پر پودے لگائیں گے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر درخت لگانے نہ شروع کئے تو پاکستان ریگستان بن سکتا ہے، درخت نہ لگائے تو آلودگی کے مسئلے میں بھی اضافہ ہوگا، شجر کاری مہم کا مقصد آئندہ نسلوں کو بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔

    چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ابھی تک کسی کو جنگلات برباد کرنے کا احساس نہیں تھا، درخت لگانے سے بارشیں ہوں گی یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے کا کہنا تھا کہ چاہتا ہوں سب لوگ گرین پاکستان مہم میں ہمارا ساتھ دیں، پنجاب میں جنگلات کو برباد کر دیا گیا، لکڑیاں کاٹ کر بیچی گئیں، پورے پاکستان کو سرسبز و شاداب بنانے کے لئے پُرعزم ہیں۔

  • اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    ناروے کے برفانی علاقے میں ایک برفانی ریچھ کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جب اس نے وہاں آنے والے ایک سیاحتی بحری جہاز کے گارڈ کو زخمی کردیا۔

    ریسکیو ادارے کا کہنا ہے کہ واقعہ قطب شمالی اور ناروے کے درمیانی حصے میں پیش آیا۔ یہ علاقہ اپنے گلیشیئرز، برفانی ریچھوں اور قطبی ہرنوں کی وجہ سے مشہور ہے۔

    ادارے کے مطابق یہاں کی مقامی حیات کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحوں کی کشش کا مرکز ہے اور واقعے کا باعث بننے والا جہاز بھی سیاحوں کو ہی لے کر آیا تھا۔

    دوسری جانب جہاز کی انتظامیہ نے وضاحت پیش کی ہے کہ ریچھ نے ایک گارڈ پر حملہ کیا تھا جس کے بعد دوسرے گارڈ نے دفاع میں گولی چلائی۔

    گارڈ کی گولی سے برفانی ریچھ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

    تاہم سوشل میڈیا پر انتظامیہ کی اس وضاحت کو قبول نہیں کیا گیا اور لوگوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔

    ایک ٹویٹر صارف نے کہا کہ، ’پہلے آپ ان ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہ میں ان کے بہت قریب چلے جائیں، اور جب وہ آپ کے قریب آئیں تو انہیں مار ڈالیں‘۔

    برفانی ریچھ کی موت کو ماحولیات اور جنگلی حیات پر کام کرنے والے حلقوں میں بھی سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت دنیا کے برفانی علاقوں کی برف کو پگھلا رہا ہے جس کے باعث برف میں رہنے کے عادی ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: لاغر بھالو نے دنیا کے خوفناک مستقبل کی جھلک دکھا دی

    اپنے گھروں کو لاحق خطرات کی وجہ سے برفانی ریچھ کو معدومی کے خطرے کا شکار حیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بحیرہ عرب میں سمندری حیات کی ’قتل گاہوں‘ میں اضافہ

    بحیرہ عرب میں سمندری حیات کی ’قتل گاہوں‘ میں اضافہ

    شہر کراچی کی سرحد پر حد نگاہ تک پھیلا ہوا بحیرہ عرب اپنے اندر متنوع سمندری حیات رکھتا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے کچھ حصے سمندری حیات کے لیے قتل گاہ بنتے جارہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بحر ہند کے کچھ حصے میں جسے بحیرہ عرب کہا جاتا ہے، کچھ مقامات پر ڈیڈ زون بن رہا ہے اور پہلے سے موجود ڈیڈ زون میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ڈیڈ زون سمندر کا وہ مقام ہے جہاں سمندر کی تہہ تک آکسیجن موجود نہیں ہوتی لہٰذا وہاں کسی بھی سمندری حیات کے لیے رہنا ناممکن ہوتا ہے۔

    متحدہ عرب امارات میں واقع نیویارک یونیورسٹی ابو ظہبی کے پروفیسر زہیر لشکر کے مطابق یہ ڈیڈ زون عموماً سمندر کے اندر 100 میٹر کی گہرائی سے شروع ہوجاتا ہے اور 15 سو میٹر کی گہرائی تک چلا جاتا ہے۔ ’گویا یہ ایک ستون سا بن گیا اور یہاں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا‘۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    ان کے مطابق اس کی وجہ عالمی حدت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ ہے۔

    پروفیسر کا کہنا تھا کہ یہ عمل ماہی گیری کو شدید طور پر متاثر کرے گا۔ اس خطے میں موجود ساحلی آبادی کی بڑی تعداد ماہی گیری سے وابستہ ہے اور یہ ڈیڈ زون ان کے روزگار کو متاثر کرے گا۔

    ماہرین کے مطابق یہ سمندری نباتات اور سیاحت پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔