Tag: گلوبل وارمنگ

  • 4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے جنہیں قطبین (قطب شمالی اور قطب جنوبی) کہا جاتا ہے دنیا کے سرد ترین برف سے ڈھکے ہوئے مقامات ہیں۔

    عموماً منفی 57 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رکھنے والے یہ علاقے زمین کے درجہ حرارت کو بھی اعتدال میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    تاہم دنیا بھر میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات یعنی گلوبل وارمنگ نے ان علاقوں کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان مقامات کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

    حال ہی میں چند سائنسدانوں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 4 میل طویل ایک برفانی تودہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا اور سمندر پر بہنے لگا۔

    برفانی تودہ ٹوٹنے کی یہ ویڈیو بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ میں ریکارڈ کی گئی۔

    گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ پہلے ہی ایک بلند و بالا برفانی تودے کے آگے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • آئس برگ کی یہ تصویر آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی

    آئس برگ کی یہ تصویر آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی

    آپ نے ہالی ووڈ کی معروف فلم ٹائی ٹینک تو ضرور دیکھی ہوگی جس میں ہزاروں مسافروں سے لدا بحری جہاز ایک برفانی تودے یا آئس برگ سے ٹکرا جاتا ہے۔

    فلم کے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ عرشے پر موجود ہیرو اور ہیروئن کو اچانک آئس برگ دکھائی دیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کے اندر کمروں میں موجود لوگوں کو بھی اپنی کھڑکی سے آئس برگ نظر آتا ہے۔

    ایک بلند و بالا برفانی تودے کو اپنے سامنے دیکھنا یقیناً ایک دل دہلا دینے والا منظر ہوسکتا ہے، وہ بھی کسی ایسے مقام پر جہاں اس کا تصور بھی نہ کیا جاسکے۔

    ایسا ہی ایک منظر اب گرین لینڈ کے ایک گاؤں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔

    بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ اس وقت نہایت غیر یقینی کی صورتحال میں مبتلا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔

    گاؤں میں 169 افراد رہائش پذیر ہیں جن میں سے کچھ کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر برفانی تودے کی براہ راست زد میں ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    یہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں رہنے کی وجہ سے ایسے برفانی تودوں کا یہاں سے گزرنا عام سی بات ہے تاہم اس تودے کی جسامت یقیناً خوفزدہ کردینے کے لیے کافی ہے۔

    خیال رہے کہ گرین لینڈ دنیا کے برفانی خطے یعنی قطب شمالی میں واقع ہے۔ قطب شمالی یا بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔

    اس کا رقبہ 1 کروڑ 40 لاکھ 56 ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ اس کی برف تیزی سے پگھلنے شروع ہوگئی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں یہاں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سبز کائی سے روشن ہونے والے ماحول دوست لیمپ

    سبز کائی سے روشن ہونے والے ماحول دوست لیمپ

    پیرس: فرانس میں زمین کو توانائی کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے سبز کائی سے بنائے گئے بلب تیار کیے گئے ہیں۔ یہ بلب ماحول سے کاربن کے اثرات کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ الجی لیمپس فرانسیسی حیاتیاتی کیمیا دان پیئر سیلجا نے تیار کی ہیں جو ایک عرصے سے خورد بینی مخلوق پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    algae-3

    ان کے مطابق ان کی اس تخلیق سے ہمارے گھروں میں موجود تیراکی کے پول مضر گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر کے درجہ حرات میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) ہو رہا ہے۔

    واضح رہے کہ پانی کے ذخیرے جیسے سوئمنگ پول، تالاب وغیرہ سبز کائی کی افزائش کے لیے بہترین جگہیں ہیں۔

    پیئر کے مطابق یہ لیمپ دوہرا کام کرسکتے ہیں۔ ایک تو ایسی روشنیوں کی فراہمی جو زمین اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی کسی گیس یا توانائی کا اخراج نہیں کرتیں، دوسرا فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو کم کرنا۔

    algae-4

    انہوں نے بتایا کہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کم کرنے کا کام درخت سر انجام دیتے ہیں لیکن سبز کائی میں یہی کام کرنے کی 150 گنا زیادہ صلاحیت موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق دن کی روشنی میں ان لیمپوں کو اگر دھوپ میں رکھا جائے تو یہ دھوپ سے اپنی توانائی حاصل کریں گی جو فوٹو سینتھسس کا عمل کہلاتا ہے۔ یہ وہی عمل ہے جس کے ذریعہ پودے اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں۔

    algae-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ماحول دوست ایجاد ہے لیکن اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

    ایک بجلی سے روشن ہونے والے بلب جتنی روشنی حاصل کرنے کے لیے لاکھوں کائی کے خلیات کی ضرورت ہے اور فی الحال جو لیمپ تیار کیے گئے ہیں وہ بہت مدھم روشنی فراہم کر رہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گرم موسم سے لڑنے کے لیے پلاسٹک کا لباس تیار

    گرم موسم سے لڑنے کے لیے پلاسٹک کا لباس تیار

    واشنگٹن: امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسا کم قیمت لباس تیار کیا ہے جو پلاسٹک بیس سے تیار کیا گیا ہے اور یہ پہننے کے بعد ٹھنڈک فراہم کرے گا۔

    ماہرین کے مطابق یہ لباس ان افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا جو گرم خطوں میں رہتے ہیں اور گرم موسم کا مقابلہ کرتے ہیں۔

    اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر یی کوئی کا کہنا ہے کہ گرم موسموں سے لڑنے کے لیے عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے کے بجائے افراد کو ٹھنڈک پہنچانے پر کام کیا جائے۔

    clothes-1

    پلاسٹک کی آمیزش سے تیار کردہ یہ لباس کاٹن کی طرح نہ صرف جسم سے پسینہ کو خارج کرے گا بلکہ جسم سے نکلنے والی حرارت کو بھی خارج کرے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم سمیت تمام اشیا حرارت کو خارج کرتی ہیں اور یہ حرارت روشنی کی نادیدہ لہروں کی صورت میں ہوتی ہے۔ جسم پر پہنے ہوئے کپڑے اس حرارت کو باہر نہیں جانے دیتے لیکن ان پلاسٹک کے کپڑوں کے ساتھ معاملہ برعکس ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ کپڑے زیب تن کرنے کے بعد لوگوں کو پنکھے یا ایئر کنڈیشن چلانے کی ضرورت کم پڑے گی جس سے توانائی کی بھی بچت ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنے شہر کی گرمی کو آپ بھی کم کرسکتے ہیں

    اپنے شہر کی گرمی کو آپ بھی کم کرسکتے ہیں

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جسے روکنے یا اس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ زمین سے انسانوں کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ یا درجہ حرارت میں اضافہ ہمارے معاشرتی رویوں سے لے کر معیشتوں اور بین الاقوامی تعلقات تک کو متاثر کرے گا۔ درجہ حرارت بڑھنے کے باعث پینے کے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہوجائے گی جس سے پینے کا پانی کمیاب، اور زراعت کے لیے پانی نہ ہونے کے سبب قحط و خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    دوسری جانب بڑھتا ہوا درجہ حرارت برفانی پہاڑوں یعنی گلیشیئرز کو پگھلا دے گا جس سے ان کا سارا پانی سمندروں میں آجائے گا اور یوں سمندر کی سطح بلند ہو کر قریبی ساحلی علاقوں کو تباہ کرنے کا سبب بن جائے گی۔

    مزید پڑھیں: سخت گرمی میں ان طریقوں سے اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں

    اس فہرست میں کراچی کا نام بھی شامل ہے جو پاکستان کا ساحلی شہر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2025 تک کراچی کے مکمل طور پر ڈوبنے کا خدشہ  ہے۔ شہر قائد اس وقت ویسے ہی قیامت خیز گرمی کی زد میں ہے جس کے بعد اسے کم کرنے کے لیے اقدامات بے حد ضروری ہوگئے ہیں۔

    لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ اقدامات کے ذریعہ ہم درجہ حرات کو بہت زیادہ بڑھنے سے روک سکتے ہیں اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کو خاصی حد تک کم کرسکتے ہیں۔


    کاربن کا کم استعمال

    چین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کوئلے کو توانائی حاصل کرنے کے لیے جلایا جاتا ہے اور یہ گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    کوئلہ جلنے کے بعد کاربن گیس کا اخراج کرتا ہے جو ماحول میں حد درجہ آلودگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فضا میں کاربن کی مقدار بڑھا دیتا ہے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    چین سمیت کئی ممالک کوئلے کے استعمال کو کم کرنے پر کام کر رہے ہیں اور اس کی جگہ سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ شمسی توانائی مہنگی تو ضرور ہے مگر پائیدار اور ماحول دوست ہے۔


    برقی گاڑیاں

    گاڑیوں کا دھواں ماحول کی آلودگی اور درجہ حرات میں اضافے کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ تیز رفتار ترقی اور معاشی خوشحالی نے سڑکوں پر کاروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پائیدار روڈ انفرا اسٹرکچر تشکیل دیا جانا ضروری ہے۔ ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم کر کے ان کی جگہ پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بسوں، ریل گاڑیوں اور سائیکلوں کو فروغ دیا جائے۔ یہ دھواں اور آلودگی کم کرنے میں خاصی حد تک مددگار ثابت ہوں گے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والا وقت برقی گاڑیوں کا ہے جو ری چارج ایبل ہوں گی اور ان میں پیٹرول اور گیس کی ضرورت نہیں ہوگی۔


    جنگلات و زراعت

    گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا ہے۔ کسی علاقے کے طول و عرض میں جنگلات لگانا اس علاقے کے درجہ حرارت کو کم رکھنے اور ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹر پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق اگر درختوں اور جنگلات کی کٹائی اسی طریقے سے جاری رہی تو ہم صرف اگلی ایک صدی میں زمین پر موجود تمام جنگلات سے محروم ہوجائیں گے۔

    دوسری جانب زراعت نہ صرف ماحول کو خوشگوار رکھتی ہے بلکہ کسی علاقے کی غذائی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ ماہرین اب شہری زراعت پر زور دے رہے ہیں جس میں شہروں میں عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر زراعت کی جائے۔

    اس سے ایک طرف تو اس عمارت کے درجہ حرات میں کمی آئے گی جس سے اس کے توانائی (اے سی، پنکھے) کے اخراجات میں کمی آئے گی دوسری طرف انفرادی طور پر اس عمارت کے رہائشی اپنی غذائی ضروریات کے لیے خود کفیل ہوجائیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    کیا آپ نے کبھی آسمان سے درختوں کو برستے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ شاید یہ سننے میں آپ کو عجیب لگے لیکن سری لنکا میں ایسا ہو رہا ہے جہاں آسمان سے درخت ’برستے‘ ہیں۔

    سری لنکا میں مختلف خالی مقامات پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کھاد کے ایسے گولے برسائے جارہے ہیں جو کچھ عرصے بعد اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سری لنکا کو یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ صرف گذشتہ چند عشروں میں اس ملک کے آدھے جنگلات کو مختلف مقاصد کے لیے کاٹا جاچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون

    اب سری لنکا کا ارادہ ہے کہ سنہ 2017 تک وہ اپنے اس کھوئے ہوئے اثاثے کو کسی حد تک واپس حاصل کرلے۔

    آسمان سے برسائے جانے والے یہ گولے چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے ہیں جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آتے ہیں۔

    یہ طریقہ کار جاپانی کسانوں کا ایجاد کردہ ہے جنہوں نے کاشت کاری میں انسانی محنت کم کرنے کے لیے اسے ایجاد کیا۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    ہماری زمین پر اس وقت لگ بھگ 3 کھرب درخت موجود ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکے، صرف وہاں رہنے والے مقامی افراد ہی ان درختوں سے واقف ہیں جو جدید سہولیات سے عاری زندگی جی رہے ہیں۔

    ان میں سے کئی درخت ایسے ہیں جو اپنے اندر نہایت انوکھی کہانیاں سموئے ہیں۔ منفرد ساخت، قد و قامت اور رنگت کے حامل یہ درخت اپنےاندر بے شمار خصوصیات رکھتے ہیں۔

    ان میں سے کوئی درخت کئی صدیوں سے موجود ہے، اور وقت کی اونچ نیچ کا گواہ بھی، کچھ درختوں نے بڑی بڑی آفتیں، سیلاب، زلزلے، طوفان، ایٹمی دھماکے سہے لیکن پھر بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑے رہے۔

    مزید پڑھیں: جاپان کا 1 ہزار سال قدیم درخت

    سنہ 1999 میں بیتھ مون نامی ایک فوٹوگرافر نے ایسے ہی نایاب لیکن گمنام درختوں کی تصاویر کھینچ کر انہیں دنیا کے سامنے لانے کا سوچا۔

    اس نے ایسے درختوں کی تلاش شروع کردی جو تاریخی یا جغرافیائی اہمیت کے حامل تھے۔

    ان درختوں کی تلاش کے لیے اس نے طویل تحقیق کی، ملکوں ملکوں کی سیاحت کرنے والوں سے گفتگو کی، لوگوں سے پوچھا۔

    بالآخر اس نے اپنے منفرد سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں وہ پہلے برطانیہ گئی، پھر امریکا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کا سفر کیا جہاں اس نے دور دراز علاقوں میں موجود قدیم اور انوکھے درختوں کی تصاویر کھینچی۔

    یہ درخت طویل عرصے تک موجودگی کے باعث مقامی قوم کے لیے ثقافتی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے درختوں کی کئی اقسام خطرے کا شکار اقسام کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: طویل ترین درختوں کی کلوننگ

    بیتھ مون نے ان درختوں کی تصاویر کو ’ قدیم درخت: وقت کی تصویر‘ کے نام سے پیش کیا۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر درخت کی اپنی الگ ’زندگی‘ ہے۔ ہر درخت کئی عشروں سے موجود ہے اور اس نے وقت کے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

    آئیں ہم بھی ان نایاب اور انوکھے درختوں سے ملتے ہیں۔


    ڈریگن بلڈ ٹری

    یمن کے جزیرہ سکوترا میں پائے جانے اس درخت کی عمر 500 سال ہے۔ یہ درخت ہر قسم کے حالات اور موسموں سے لڑنے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    شاخ در شاخ پھیلا ہوا یہ درخت ایک چھتری جیسا ہے جو بے شمار زندگیوں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔

    سال میں 2 بار گاؤں والوں کو ان درختوں کے تنے کا کچھ حصہ کاٹنے کی اجازت ہے جس سے یہ سرخ رنگ کا قیمتی محلول حاصل کرتے ہیں جو نہایت بیش قیمت ہوتا ہے اور دوائیں بنانے کے کام آتا ہے۔


    صحرا کا پھول

    ڈیزرٹ روز نامی یہ درخت بھی جزیرہ سکوترا میں ہی واقع ہیں۔ انہیں بوتل نما درخت بھی کہا جاتا ہے۔

    جس مقام پر یہ درخت موجود ہیں وہ علاقہ اپنے منفرد اور انوکھے پس منظر کی وجہ سے اس دنیا سے الگ ہی کوئی مقام معلوم ہوتا ہے۔


    اڈنسونیا گرنڈیڈر

    مشرقی افریقی ملک مڈغا سکر کے ساحلی شہر مورندوا میں پائے جانے والے ان درختوں کی لمبائی 100 فٹ تک ہوتی ہے۔ ان درختوں کو جنگل کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔

    ان درختوں کی اوسط عمر 800 سال ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے درختوں کی یہ نایاب ترین قسم اپنے خاتمے کے قریب ہے اور اس قسم کے صرف 20 درخت باقی رہ گئے ہیں۔

    صرف مڈغا سکر میں پائے جانے والے ان درختوں کا یہاں پورا جنگل موجود تھا۔


    کاپوک درخت

    امریکی ریاست فلوریڈا کے پام بیچ پر پایا جانے والا کاپوک درخت دیکھنے میں نہایت منفرد ہیئت کا حامل ہے۔

    فوٹوگرافر نے اس درخت کو سنہ 1940 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں دیکھا تھا۔ ’60 سال میں یہ درخت عظیم بن چکا ہے‘۔

    اس درخت کی جڑیں زمین کے اوپر 12 فٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔


    افٹی ٹی پاٹ

    مڈغاسکر میں ہی موجود یہ درخت چائے دان جیسا ہے لہٰذا مقامی افراد نے اسے یہی نام دے ڈالا۔

    یہ درخت 12 سو سال قدیم مانا جاتا ہے۔ اس کا تنا 45 فٹ کے پھیلاؤ پر مشتمل ہے اور اس کے اندر 31 ہزار گیلن پانی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔


    تیر کے ترکش

    جنوبی افریقی ملک نمیبیا میں پائے جانے والے درختوں کی اس قسم کو زمین پر موجود تمام درختوں میں نایاب اور غیر معمولی ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ درخت صدیوں پرانے ہوسکتے ہیں۔

    یہ درخت 33 فٹ بلندی تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مقامی افراد ان درختوں کی کھوکھلی شاخیں کاٹ کر ان سے تیروں کے ترکش بناتے ہیں۔

    سنہ 1995 میں ان درختوں کے جنگل کو نمیبیا کی قومی یادگار کا درجہ دیا جاچکا ہے۔


    رلکیز بائیون

    کمبوڈیا میں موجود 12 ویں صدی کے ایک بودھ مندر میں موجود یہ درخت کچھ اس طرح موجود ہے کہ یہ اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کا ہی حصہ لگتا ہے۔ درخت کی شاخیں اور مندر کے در و دیوار آپس میں پیوست ہیں۔

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدیم وجود کو سہارا دیے کھڑے ہیں اور صرف مندر کو گرانا یا درخت کو کاٹنا نا ممکن لگتا ہے۔

    مندر کے پیچھے ان درختوں کا جنگل موجود ہے جس نے انسانوں کی جانب سے اس مندر کو ترک کیے جانے کے بعد اس پر ’قبضہ‘ کرلیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زمین پر مصنوعی چھتری پھیلانے کا منصوبہ

    زمین پر مصنوعی چھتری پھیلانے کا منصوبہ

    ہماری زمین اس وقت عالمی حدت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کے خطرے کا شکار ہے جو زمین پر زندگی کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتا ہے، لہٰذا اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے سولر جیو انجینیئرنگ یعنی سورج کی روشنی کو واپس بھیجنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔

    سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والے ایک تحقیقاتی مقالے کے مطابق اس تکنیک کے تحت کئی منصوبے سامنے لائے جاسکتے ہیں تاہم فی الوقت زیر غور منصوبہ فضا میں مصنوعی چھتری پھیلانے کا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کم کرنے کے طریقے

    اس منصوبے کے تحت جہازوں کے ذریعے فضا میں سلفر کے ذرات پھیلا دیے جائیں گے جو سورج کی شعاعوں کو منعکس کر کے واپس بھیج دیں گے۔

    یہ منصوبہ ایسا ہی ہے جیسے بہت بڑا آتش فشاں پھٹنے کے بعد اس سے خارج ہونے والی راکھ فضا میں پھیل جاتی ہے جس کے بعد اس مخصوص مقام پر سورج کی حرارت اور شعاعیں کم مقدار میں پہنچتی ہیں۔

    تحقیق کے مرکزی مصنف عتیق الرحمٰن کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ منصوبہ ناقابل عمل اور پاگل پن لگتا ہے لیکن اس پر زور و شور سے تحقیق سے جاری ہے۔

    انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ابھی وہ اندھیرے میں ہیں کہ آیا یہ تکنیک فائدہ مند ثابت ہوگی یا نقصان دہ۔

    تحقیق کے پہلے مرحلے میں 4 لاکھ ڈالر مختص کیے گئے ہیں جو سائنسدانوں کو دیے جائیں گے تاکہ وہ اپنی تحقیقات پیش کریں۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے مطابقت کا انوکھا طریقہ

    علاوہ ازیں یہ رقم ترقی پذیر ممالک کے سائنس دانوں کو بھی دی جائے گی تاکہ وہ جیو انجینیئرنگ کے مقامی سطح پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کریں۔

    اس مطالعے میں دیکھا جائے گا کہ جیو انجینیئرنگ خشک سالی، سیلاب اور بارشوں پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس منصوبے کو کامیابی سے جامہ تکمیل پہنا دیا گیا اور یہ فائدہ مند ثابت ہوا تو زمین کے درجہ حرارت کو قابو کرنے میں خاصی مدد دے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    آپ نے مصنوعی بارش برسانے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ بارش ان علاقوں میں برسائی جاتی ہے جہاں بارش نہ ہوتی ہو اور وہاں خشک سالی کا خدشہ ہو۔

    مصنوعی بارش کے لیے بادلوں پر کیمیائی مادوں کا مجموعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کہا جاتا ہے جس سے بارش ہوتی ہے۔

    لیکن میکسیکو کے رہائشی اپنی بارش خود ’اگا‘ رہے ہیں۔

    rain-post-2

    دراصل میکسیکو کے کسان اپنے کھیتوں میں پوٹاشیم کے ذرات بو رہے ہیں۔ یہ ذرات اپنی جسامت سے 500 گنا زیادہ پانی جذب کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پانی ان ذروں کے اندر 8 سال تک رہ سکتا ہے۔

    یہ علاقہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے سیزن میں کمی ہوچکی ہے لہٰذا یہاں کے کسان سنگین صورتحال سے دو چار ہیں۔

    rain-post-1

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سائنسدان سرگیو ریکو نے یہ ’خشک بارش‘ خشک سالی کا شکار کسانوں کی مدد کے لیے بنائی ہے۔ اسے کھیتوں میں ڈالنے کے بعد یہ جڑوں کو پانی فراہم کرتا رہتا ہے اور کھاد کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔

    rain-post-4

    rain-post-3

    اسے متعارف کروانے والے ماہر سرگیو ریکو کا کہنا ہے کہ یہ انہیں بے شمار فوائد دے سکتا ہے۔ بڑی بڑی بوریوں میں بارش کو محفوظ کرنے کی صورت میں ان کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

    اسے استعمال کرنے والے کسان خوش ہیں کہ یہ ’بارش‘ ان کی بھوک اور غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔