Tag: گلوبل وارمنگ

  • ہمالیائی خطے میں مصنوعی گلیشیئرز کی تخلیق

    ہمالیائی خطے میں مصنوعی گلیشیئرز کی تخلیق

    دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز میٹھے پانی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں جہاں سے گرمیوں میں برف پگھل کر دریاؤں میں آتی ہے۔ ہر سال برفباری میں ان گلیشیئرز پر برف جمنا، اور پھر گرمی کے موسم میں اس برف کا پگھل کر نیچے آںا دنیا بھر میں پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

    تاہم اب درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس کے 2 نقصانات ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ جب ان پگھلتے گلیشیئرز سے بہت سارا پانی دریاؤں میں آئے گا تو دریا کی سطح بلند ہوجائے گی جس سے آس پاس کی آبادیوں کو سیلاب کا سامنا ہوگا۔

    یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہے گا، آہستہ آہستہ گلیشیئرز پگھل کر ختم ہوجائیں گے جس کے بعد دریاؤں میں پانی آنا بند ہوجائے گا اور یوں پانی کی قلت واقع ہوتی جائے گی۔ یہ ان گلیشئرز کے پگھلنے کا دوسر اور خطرناک نقصان ہوگا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    ایک اور وجہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سردیوں کے موسم کی مدت میں کمی ہے۔ اب دنیا بھر میں گرمیاں جلدی آجاتی ہیں، دیر تک رہتی ہیں، اور بہت شدید ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سردیوں کا موسم مختصر وقت کے لیے آتا ہے۔

    گرمی کی شدت کی وجہ سے گلیشیئروں کی برف بھی زیادہ مقدار اور رفتار سے پگھل جاتی ہے۔

    جن مقامات پر گلیشیئرز موجود ہوتے ہیں وہ علاقے دوسرے علاقوں کی نسبت ٹھنڈے ہوتے ہیں اور اس مقام پر رہنے والے انسان اور جنگلی حیات اس ٹھنڈے موسم کے عادی ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    تاہم اب ان مقامات کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور یہاں معمول سے زیادہ گرمی ہو رہی ہے جس سے یہاں کے رہنے والے سخت پریشانی کا شکار ہیں۔

    اس مشکل سے کسی حد تک نمٹنے کے لیے ہمالیائی خطے میں رہنے والے ایک سائنسدان سونم ونگ چک نے ایک انوکھا طریقہ نکالا۔

    لداخ میں واقع ان کے گاؤں میں اب گلیشیئرز سے اتنا پانی نہیں آتا جس سے ان کی زمینیں سیراب ہوں یا پانی کی ضروریات پوری ہیں۔

    چنانچہ انہوں نے گاؤں والوں کی مدد سے مصنوعی گلیشیئرز تخلیق کرنا شروع کردیے۔

    ice-2

    اس کے لیے وہ سخت سردیوں کے موسم میں کسی مقام پر کچھ برف جما کر اس کے اندر ایک پائپ نصب کردیتے ہیں۔ اس پائپ کے ذریعے سے پانی نکل نکل کر گلیشیئر کے اوپر جمتا جاتا ہے جس سے مصنوعی گلیشیئر کی اونچائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    ice-4

    ice-3

    آہستہ آہستہ یہ ایک تکون پہاڑی کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ اسے برفانی اسٹوپا کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ مہاتما بدھ کی دفن شدہ راکھ کے مقام اسٹوپا کے مماثلت سے رکھتے ہیں۔

    یورپی جیو سائنس یونین کا کہنا ہے کہ سنہ 2100 تک ہمالیہ کے 70 فیصد برفانی گلیشیئرز پگھل کر ختم ہوجائیں گے۔

    دوسری جانب درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان میں چترال اور گلگت بلتستان میں واقع 5000 گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گزشتہ برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز سے بہنے والے پانی کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں بھی پانی کی سطح میں اضافہ ہوا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    کلائمٹ چینج فضائی سفر کو غیر محفوظ بنانے کا سبب

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات دن بدن سامنے آتے جارہے ہیں اور حال ہی میں ایک تحقیق میں متنبہ کیا گیا کہ کلائمٹ چینج کے باعث مستقبل کے فضائی سفر غیر محفوظ ہوجائیں گے۔

    انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج مستقبل میں فضائی سفر کو بے حد غیر محفوظ بنا دے گا جس کے بعد پروازوں کے نا ہموار ہونے کے باعث مسافروں کے زخمی ہونے اور دوران سفر ان میں بے چینی اور گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: فضائی حادثے کی صورت میں ان اقدامات سے جان بچانا ممکن

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان ناہموار پروازوں کی وجہ سے جہازوں کو نقصان پہنچنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد جہازوں کی مینٹینس پر اضافی رقم خرچ ہوگی، یوں فضائی سفر، سفر کا مزید مہنگا ذریعہ بن جائے گا۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے شمالی بحر اقیانوس کے اوپر فضائی گزرگاہ کا مطالعہ کیا۔ ماہرین کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافہ پروازوں کی رفتار اور ہمواری پر منفی اثر ڈالے گا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ کلائمٹ چینج کے ان منفی اثرات کی وجہ سے فضائی سفر کی خطرناکی میں 59 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی سفر کے دوران پرواز کا معمولی سا ناہموار ہونا معمول کی بات ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو متلی اور گھبراہٹ میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    تاہم مستقبل کی جو تصویر سامنے آرہی ہے، اس کے مطابق فضائی سفر میں مسافروں کو گہرے زخم لگنے کا خدشہ ہوگا۔

    ان کے مطابق فضائی سفر کی یہ ناہمواری اس قدر خطرناک ہوجائے گی کہ جہاز کے لینڈ کرتے ہی جہاز میں سوار تمام مسافروں کو اسپتال منتقل کرنا ہوگا تاکہ انہیں طبی امداد فراہم کی جاسکے۔

    تحقیق میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا یہ اثرات صرف بحر اقیانوس کے اوپر پروازوں پر مرتب ہوں گے یا دیگر خطوں میں بھی ایسی صورتحال پیش آئے گی۔

    تاہم ماہرین نے یہ ضرور کہا کہ جس علاقے میں موسمیاتی تغیرات کے جتنے زیادہ نقصانات مرتب ہوں گے، وہاں فضائی سفر اتنا ہی خطرناک ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    کلائمٹ چینج سے زمین پر نقصانات کا انوکھا مظاہرہ

    دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور زمین کو اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہی دینے پر بے تحاشہ کام کیا جارہا ہے تاہم ابھی بھی ماہرین اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے اور لوگوں میں زمین اور ماحول سے محبت کا شعور جگانے میں ناکام رہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک مثال بھارت میں بھی پیش کی گئی جہاں لوگوں کو نہایت انوکھے طریقے سے کلائمٹ چینج کے نقصانات کی طرف متوجہ کروایا گیا۔

    بھارت کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں 120 کلو گرام چاکلیٹ سے زمین کا ماڈل بنایا گیا۔

    اس کے بعد ہوٹل میں ہر چاکلیٹ ڈش کے آرڈر کو پورا کرنے کے لیے اسی ’زمین‘ سے چاکلیٹ کاٹا جانے لگا۔

    نتیجتاً ہر آرڈر کے ساتھ زمین کا حجم کم ہونے لگا اور وہ غیر متوازن ہونے لگی۔

    وہاں موجود لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اس عمل کو روک سکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں سوشل میڈیا پر اس زمین کی تصویر اور ایک ماحول دوست پیغام شیئر کرنا ہوگا۔

    ہر سوشل میڈیا پوسٹ کے ساتھ چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں چاکلیٹ دوبارہ شامل کی جانے لگی۔

    تاہم ان سوشل میڈیا پوسٹس کی تعداد، چاکلیٹ ڈشز آرڈر کرنے والے آرڈرز کی تعداد سے نہایت کم تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی چاکلیٹ سے بنی اس زمین میں بڑے بڑے گڑھے بن گئے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔

    اس آئیڈیے کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی اس کوشش کا مقصد لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ اپنی زمین کو پہنچنے والے نقصانات کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود انسان ہی ہیں۔

    کلائمٹ چینج سے متعلق مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    دنیا میں انسانوں کی آمد سے قبل اور ان کی آمد کے ابتدائی کچھ عرصے تک دنیا میں بے شمار قوی الجثہ جانور بھی موجود تھے جو آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے۔

    ایک عام خیال ہے کہ ان جانوروں کی معدومی کی وجہ بدلتا موسم یعنی کلائمٹ چینج تھا۔ یہ جانور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کی وجہ سے رونما ہوتی خشک سالیوں سے مطابقت نہیں کر سکے اور ختم ہوگئے۔

    لیکن حال ہی میں ایک تحقیق نے اس خیال کی نفی کرتے ہوئے انسانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

    جرنل نیچر کمیونیکشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق انسانوں کی اس دنیا پر آمد کے مختصر عرصہ بعد آسٹریلیا کے 80 فیصد بڑے ممالیہ، پرندے اور رینگنے والے جانور معدوم ہوگئے تھے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    اس سے قبل سنہ 2013 میں نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں ایک تحقیق پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ جس وقت انسان اس دنیا پر آیا، اس وقت وہاں موجود قوی الجثہ جانور پہلے ہی معدومی کی طرف گامزن تھے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس وقت انسانوں نے کسی ایک جانور کو بھی شکار نہیں کیا۔ اس وقت موجود زیادہ تر انسان سبزی خور تھے۔

    لیکن اس کے برعکس حالیہ تحقیق میں کہا گیا کہ انسانوں نے اپنی آمد کے بعد بے دریغ شکار کیا جس کی وجہ سے ایک ’عظیم معدومی‘ رونما ہوئی۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے کم از کم ڈیڑھ لاکھ سال قبل زمین پر موجود نباتات اور خوردبینی جانداروں کے رکاز کا بغور جائزہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سال قبل زمین پر مختلف اقسام کی جنگلی حیات اور نباتات موجود تھی، تاہم صرف کچھ ہی عرصے بعد یکایک ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں صرف انسان کی آمد ہی ایسا واقعہ تھی جو زمین پر کسی بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتی تھی۔ یعنی اس دوران ماحولیاتی تبدیلی یا موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے ایسا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا جو جانوروں کی عظیم معدومی کا سبب بن سکے۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    یاد رہے کہ انسان کی اس زمین پر عمر 2 لاکھ سال ہے یعنی 2 لاکھ سال قبل زمین پر انسانوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔

    تحقیق میں واضح کیا گیا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی نباتات معدوم ہوئی ہو یا کسی علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے وہاں کے جانور آہستہ آہستہ موت کا شکار ہوگئے ہوں۔

    گویا اس تحقیق نے واضح طور انسانوں کو جانوروں کی معدومی کی سب سے بڑی وجہ قرار دے دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    براعظم افریقہ میں صحرا زدگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتی ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    افریقہ میں یہ مسئلہ اس لیے سنگین ہے کیونکہ اس خطے میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہاں رہنے والے 1 بلین کے قریب افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ یہاں آلودہ پانی سے مرنے والے بچوں اور بڑوں کی شرح بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں تاہم ان درختوں کی افزائش کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہے جو افریقہ میں ویسے ہی نایاب ہے۔

    desert-2

    البتہ ماہرین نے اس کے باوجود اس کا حل نکال لیا۔

    بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے تجویز کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت صحراؤں میں درخت اگائے جارہے ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صحرائی علاقہ میں کیا گیا۔

    یہاں آب پاشی کے لیے بڑے بڑے پائپ بچھائے گئے جس میں قاہرہ میں واقع ایک ٹریٹ منٹ پلانٹ سے پانی آتا ہے۔

    desert-5

    desert-4

    اس پلانٹ سے آنے والا پانی کسی حد تک آلودہ ہے لہٰذا یہ زراعت کے لیے تو موزوں نہیں البتہ درخت اگانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آلودہ پانی ہمیں سرسبز اور صحت مند درخت تو نہیں دے سکتا، تاہم یہ ایسے درخت ضرور دے سکتا ہے جو صرف فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ٹھنڈی ہوا اور سایہ فراہم کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کی کوشش

    یہاں کے موسم کی وجہ سے درختوں کی افزائش کی رفتار حیران کن طور پر تیز ہے اور صرف 2 سے 3 سال میں یہاں قد آور درخت اگ آئے۔

    صحرا میں اگنے والے اس جنگل کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ صحرائی طوفانوں سے حفاظت فراہم کر رہا ہے جبکہ ان درختوں کی لکڑی تعمیرات اور ایندھن جلانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    desert-3

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے صحرا کے 5 لاکھ ایکڑ کے رقبہ پر درخت اگائے جاسکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت درختوں اور جنگلات کی کٹائی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے زمین کے ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی بھی اہم وجہ ہے جس سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے ہماری زمین پر غیر فطری عوامل جیسے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرہ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔

    اسی صورتحال کی طرف توجہ دلانے کے لیے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ اینڈریاس لی نے جنگلی حیات کی دہری عکسی تصاویر تخلیق کی ہیں۔ جنگلی حیات کی تصاویر کی نمائش کا مرکزی خیال گلوبل وارمنگ تھا۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    ان کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث جنگلی حیات کی کئی اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اور انہوں نے اسی خطرے کو اجاگر کرنے کا سوچا۔

    انہوں نے اپنی نمائش میں 5 ایسے جانوروں کی دہرے عکس میں تصاویر پیش کیں جنہیں ماہرین خطرے کا شکار قرار دے چکے ہیں۔ ان جانوروں کو بدلتے موسموں کے باعث معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    art-5

    بارہ سنگھا۔

    art-1

    برفانی ریچھ۔

    art-2

    چیتا۔

    اینڈریاس نے ان جانوروں کی شبیہہ میں انہیں لاحق خطرات کو ایک اور عکس کی صورت میں پیش کیا۔

    art-3

    ہاتھی۔

    art-4

    برفانی چیتا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر جہاں دنیا بھر کی معیشت، امن و امان اور جنگلی حیات اور انسانوں کے لیے ایک خطرہ بنتا جارہا ہے وہاں ماہرین کے مطابق تاریخ و تہذیب بھی اس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث جہاں ایک طرف کئی شہروں کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ ظاہر کیا جاچکا ہے، وہیں حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث دنیا کے کئی تاریخی مقامات اور تہذیبی ورثے بھی معدوم ہوجائیں گے۔

    یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی تعلیم، سائنس اور تاریخ کے لیے کام کرنے والی ذیلی شاخ یونیسکو کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں ان مقامات کو لاحق مختلف بالواسطہ یا بلا واسطہ خطرات کا جائزہ لیا گیا اور ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کلائمٹ چینج ان میں سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ چونکہ تاریخی مقامات کو ان کی جگہ سے منتقل نہیں جاسکتا لہٰذا اس علاقہ کو لاحق موسمی خطرات جیسے قحط، سیلاب یا شدید موسم سے بچانا ناممکن ہے۔

    رپورٹ میں شامل کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار کچھ مقامات یہ ہیں۔

    مجسمہ آزادی ۔ نیویارک، امریکا

    cc 1

    یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ 225 ٹن تانبے اور لوہے سے بنے ہوئے اس مجسمے کو کسی قسم کے خطرے کا سامنا ہے مگر حقیقت یہی ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اور امریکا میں حالیہ چند برسوں میں آنے والے کئی طوفانوں نے اس مجسمے کو بھی خطرے کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    سنہ 2012 میں آنے والے سینڈی طوفان کے باعث وہ جزیرہ جس پر یہ مجسمہ قائم ہے، 75 فیصد سے زائد سمندر برد ہوچکا ہے جبکہ اس کے قریب واقع ایلس جزیرہ بھی تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق تاحال تو یہ مجسمہ کسی نقصان سے محفوظ ہے لیکن موسمی تغیرات کے باعث سطح سمندر میں اضافہ اور بڑھتے ہوئے طوفان اس کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔

    میسا وردی نیشنل پارک ۔ کولوراڈو، امریکا

    cc2

    کولوراڈو میں واقع تاریخی میسا وردی نیشنل پارک قحط کے باعث تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور بارشوں میں کمی کے باعث پارک میں واقع قدیم اور تاریخی درختوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    دوسری جانب درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث درختوں میں آگ لگنے کا خدشہ بھی ہے۔

    cc3

    خشک سالی کے باعث یہاں رہنے والے مقامی افراد پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں مٹی کے کٹاؤ کا عمل بھی جاری ہے جس کے باعث یہ پارک شدید خطرات کا شکار ہے۔

    کارٹیجینا کا قلعہ ۔ کولمبیا

    cc-4

    کولمبیا میں غرب الہند کے ساحل پر واقع کارٹیجینا کا قلعہ یہاں کے طویل عسکری استعماریت کا یادگار ہے۔ یہ ملک کے تاریخی و تفریحی مقامات میں سے ایک ہے اور سطح سمندر میں اضافے کے باعث تباہی سے دوچار ہے۔

    یہ قلعہ ابھی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تاہم اس کی بحالی کے لیے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔

    راپا نوئی نیشنل پارک ۔ چلی

    cc-5

    چلی کے مشرقی جزیرے میں واقع یہ نیشنل پارک کسی نامعلوم تہذیب کی یادگار ہے اور ماہرین ابھی تک مخمصہ کا شکار ہیں کہ یہاں بنائے گئے سر آخر کس چیز کی نشانی ہیں۔

    cc-7

    اس تہذیبی ورثے کو سمندر کی لہروں میں اضافے اور زمینی کٹاؤ کے باعث معدومی کا خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اس تہذیبی یادگار اور اس کے نیچے موجود جزیرے دونوں کے لیے خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    اسٹون ہینج ۔ انگلینڈ

    cc-6

    دس ہزار قبل مسیح کی نیولیتھک تہذیب کی یادگار پتھروں کا یہ مجموعہ جسے اسٹون ہینج بھی کہا جاتا ہے، خطرے کا شکار ہے۔ اس کی وجہ تو یہاں پائے جانے والے چھچھوندر ہیں تاہم ان کی افزائش کا سبب کلائمٹ چینج ہی ہے۔

    زمین میں کھدائی کرنے والے اس جانور کی افزائش درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث بڑھ رہی ہے جس سے اس تاریخی مقام پر زمینی کٹاؤ ہوسکتا ہے۔ انگلینڈ کی بارشیں اور ان کے باعث پیدا ہونے والے سیلاب بھی اس مقام کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    دنیا میں تیزی سے بڑھتا درجہ حرات کئی زندگیوں کے لیے بے شمار خطرات کھڑے کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    معدومی کے خطرے کا شکار حیات کی فہرست میں ایک نام برفانی ریچھ کا بھی ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کی براہ راست زد میں ہے۔ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت دنیا کے برفانی علاقوں کی برف کو پگھلا رہا ہے جس کے باعث برف میں رہنے کے عادی ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

    bear-3

    حال ہی میں ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کےمطابق گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ ان ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ تیزی سے ان کے قریب آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان ریچھوں کو وہیل اور شارک مچھلیوں کے جان لیوا حملوں کا خطرہ ہے۔

    ماہرین نے وضاحت کی کہ برفانی علاقوں کی برف پگھلنے سے سمندر میں موجود وہیل اور شارک مچھلیاں ان جگہوں پر آجائیں گی جہاں ان ریچھوں کی رہائش ہے۔

    علاوہ ازیں ریچھوں کو اپنی خوراک کا بندوبست کرنے یعنی چھوٹی مچھلیوں کو شکار کرنے کے لیے مزید گہرے سمندر میں جانا پڑے گا جہاں شارک مچھلیاں موجود ہوں گی۔

    bear-1

    ماہرین نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک شارک کے معدے میں برفانی ریچھ کے کچھ حصہ پائے گئے تھے جس کی بنیاد پر یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین یہ تعین کرنے میں ناکام رہے کہ آیا اس شارک نے ریچھ کو شکار کیا، یا پہلے سے مردہ پڑے ہوئے کسی ریچھ کو اپنی خوراک بنایا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خونخوار شارک مچھلیاں ان ریچھوں کے ساتھ ساتھ سگ ماہی (سمندری سیل) کو بھی اپنا شکار بنا سکتی ہیں۔

    اب تک یہ برفانی حیات ان شکاری مچھلیوں سے اس لیے محفوظ تھی کیونکہ برف کی ایک موٹی تہہ ان کے اور سمندر کے درمیان حائل تھی جو بڑی مچھلیوں کے اوپر آنے میں بھی مزاحم تھی۔

    شارک مچھلیاں اس برف سے زور آزمائی سے بھی گریز کرتی تھیں کیونکہ اس صورت میں وہ انہیں زخمی کر دیتی تھی، تاہم اب جس تیزی سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پگھل رہی ہے، اس سے یہاں بچھی ہوئی برف کمزور اور پتلی ہو رہی ہے۔

    bear-4

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 15 سے 20 سالوں میں آرکٹک سے برف کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا۔

    اس سے قبل عالمی خلائی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا گیا تھا۔ ناسا کے مطابق گزشتہ برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے اور یہاں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    سائنسدانوں کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ گردوں کے امراض میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور پانی کی کمی کو گردوں کے شدید امراض کی وجہ بتایا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس کے باعث دیہاتوں میں رہنے والے افراد زیادہ متاثر ہوں گے۔

    امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ جانسن کا کہنا ہے کہ گرم علاقوں میں کلائمٹ چینج کے اثرات اور گرمی میں اضافہ گردوں کے شدید امراض پیدا کرے گا اور یہ پہلی بیماری ہوگی جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے وبائی صورت اختیار کرجائے گی۔

    تحقیق کے مطابق ان امراض سے کاشت کار زیادہ متاثر ہوں گے جو سخت گرمی کے دنوں میں بھی کھیتوں میں کام کریں گے۔

    تحقیق کرنے والوں سائنسدانوں نے بتایا کہ اس کا تعلق پانی کی کمی سے بھی ہوگا۔ بارشوں میں کمی، گرمی میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جب پانی کی قلت یا کمی ہوجائے گی تو گردوں کے امراض عام ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھوکے اور لاغر بھالو نے دنیا کے خوفناک مستقبل کی جھلک دکھا دی

    بھوکے اور لاغر بھالو نے دنیا کے خوفناک مستقبل کی جھلک دکھا دی

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک وائلڈ لائف فوٹو گرافر پال نکلن نے جب کینیڈا کے برفانی علاقوں کا دورہ کیا تو وہاں اتفاق سے انہوں نے بھوکے ریچھ کی ایک دردناک ویڈیو ریکارڈ کر ڈالی جسے دیکھ کر لوگ افسردہ ہوگئے۔

    پال نکلن نے کینیڈا کے برفانی علاقے بفن آئی لینڈ کا دورہ کیا اور یہیں ان کی ملاقات اس قریب المرگ ریچھ سے ہوئی۔ پال کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں ہزاروں برفانی ریچھ دیکھے ہیں لیکن یہ پہلا ریچھ تھا جسے دیکھ کر وہ بہت اداس اور مایوس ہوگئے۔ ’ہم روتے ہوئے اس ریچھ کو فلما رہے تھے‘۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نہایت لاغر ریچھ جس کی ہڈیاں بھی نمایاں ہورہی ہیں، برف سے خالی چٹیل میدان میں کھانے کی تلاش میں سرگرادں ہے۔ جس علاقے میں وہ رہتا ہے وہ کبھی برف سے آباد ہوگا لیکن اب وہاں کی ساری برف پگھل چکی تھی اور دور تک ایک خالی میدان تھا۔

    ریچھ کے پاؤں بھی سوجے ہوئے لگ رہے تھے جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ اس کے مسلز کسی بیماری کا شکار ہوگئے ہیں۔

    وہاں قریب میں ایک کچرے کا ڈبہ پڑا ہوا تھا۔ بھوکا رییچھ اس ڈبے میں سے کچھ کھانے کی تلاش کرتا رہا، وہاں سے اسے کھانے کےلیے کچھ مل تو گیا تاہم وہ ایسا نہ تھا جو اس لاغر ریچھ کو توانائی فراہم کرتا یا اس کی بھوک مٹاتا۔

    یہ ’کھانا‘ کھانے کے بعد ریچھ بے دم ہو کر زمین پر لیٹ گیا۔ اس کی بند ہوتی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ بمشکل چند روز تک زندہ رہے سکے گا۔

    سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پال سے پوچھا گیا کہ جب وہ وہاں ریچھ کے قریب تھے تو انہوں نے ریچھ کو کچھ کھانے کے لیے کیوں نہ دیا۔

    پال کا جواب تھا کہ ریچھ کے قریب جانے کے لیے بے ہوش کرنے والی گن اور اس کے ساتھ بھاری مقدار میں مچھلی کی ضرورت تھی تاکہ اس ریچھ کی بھوک مٹائی جاسکے اور یہ دونوں اشیا ہمارے پاس نہیں تھیں۔

    پال نے یہ بھی بتایا کہ کینیڈا میں برفانی ریچھوں کو کچھ بھی کھلانا غیر قانونی ہے کیونکہ ریچھوں کی اپنی ایک مخصوص خوراک ہے جسے وہ خود ہی حاصل کرتے ہیں۔

    اس ویڈیو نے دنیا کے مستقبل اور برفانی ریچھوں کی بقا کے بارے میں بے شمار سوالات کھڑے کردیے۔

    یاد رہے کہ عالمی درجہ حرارت میں تیز رفتار اضافے اور تبدیلیوں یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا میں موجود برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم برفانی بھالوؤں کو کھو دیں گے؟

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 15 سے 20 سالوں میں قطب شمالی سے برف کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا جس سے برفانی بھالوؤں سمیت دیگر برفانی جانوروں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

    ماہرین کے مطابق بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث بھالوؤں کی رہائش کے علاقوں اور خوراک میں بھی کمی آرہی ہے۔ سمندری آلودگی کے باعث دنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے جو ان بھالوؤں کی اہم خوراک ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔