Tag: گلوبل وارمنگ

  • زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    مزید پڑھیں: صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    پاکستان میں ملیریا کا مرض ایک طویل عرصے سے موجود ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں ملیریا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس ڈینگی اور چکن گونیا بھی سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان امراض کے پھیلاؤ کی وجہ کلائمٹ چینج ہے۔

    فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کا عنوان’کلائمٹ چینج کے انسانی صحت پر مضمرات اور زراعت سے اس کا تعلق‘ ہے۔ تحقیق میں طلبا و اساتذہ دونوں نے حصہ لیا۔

    تحقیق کی سربراہ پروفیسر ثوبیہ روز نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرات میں اضافہ پانی کے معیار اور غذا کو متاثر کر رہا ہے جبکہ یہ قدرتی آفات خصوصاً سیلابوں میں اضافہ کر رہا ہے جس سے مختلف امراض جنم لے رہے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے پرانی خوفناک بیماریاں لوٹ آنے کا خدشہ

    ان کے مطابق ان کی ٹیم نے کلائمٹ چینج اور ملیریا کے درمیان تعلق کی جانچ کے لیے پنجاب کے 15 ضلعوں میں تحقیقی سروے کیا۔

    پروفیسر ثوبیہ روز کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت میں مختلف تبدیلیاں مچھروں کی پیداوار اور نشونما میں اضافے کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ملیریا کے پھیلاؤ میں اضافے کا تعلق کم علمی اور صحت و صفائی کے فقدان سے بھی ہے۔ اس سلسلے میں مظفر گڑھ کا علاقہ ملیریا کا آسان ہدف پایا گیا جہاں صحت کی سہولیات نہایت ناقص اور شرح خواندگی بے حد کم ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظفر گڑھ میں زیادہ تر کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ملیریا کا نشانہ بنتے ہیں جو مختلف ماحول، موسم اور درجہ حرارت میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض موسم مچھروں کے لیے نہایت سازگار ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے حفاظت کریں

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ جو کسان ملیریا کا شکار نہیں ہوئے وہ نسبتاً تعلیم یافتہ تھے، مختلف بیماریوں اور ان کے بچاؤ کے حوالے سے شعور رکھتے تھے جبکہ وہ صحت و صفائی کا بھی خیال رکھتے تھے۔

    ماہرین نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا کہ ہر علاقے کے ماحول اور اس کی صحت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس علاقے کے لیے علیحدہ طبی پالیسی بنائی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    روم: اٹلی کے خوبصورت ترین پانیوں کے شہر وینس میں ایک تاریخی عمارت کو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے بچانے کے لیے پانی سے دیو قامت ہاتھوں نے نمودار ہو کر عمارت کو سنبھال لیا۔

    یہ دیو قامت ہاتھ دراصل سرامکس سے بنائے گئے ہیں جو ایک اطالوی فنکار نے تخلیق کیے ہیں۔

    ان ہاتھوں کا مقصد دنیا کو کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگر اس عمل کے باعث سطح سمندر میں اضافہ جاری رہا تو وینس کا خوبصورت شہر اور اس میں موجود تمام تاریخی عمارتیں ڈوب جائیں گی۔

    وینس کی گرینڈ کنال میں جس مقام پر یہ ہاتھ نصب کیے گئے ہیں وہاں 14 ویں صدی کا ایک تاریخی ہوٹل موجود ہے اور ان ہاتھوں کو بنانے والے فنکار کا کہنا ہے کہ یہ ہاتھ دراصل علامتی طور اس ہوٹل کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    کوئن نامی یہ فنکار کہتا ہے، ’یہ دیو قامت ہاتھ انسانی ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں، لیکن یہی ہاتھ ہماری زمین کو بچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں‘۔

    وہ کہتا ہے کہ دنیا بھر کے موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج اس وقت ہماری بقا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    وینس میں ہونے والی آرٹ کی ایک نمائش کے تحت نصب کیے جانے والے یہ دیو قامت ہاتھ 26 نومبر تک نصب رہیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے  لیے سب سے کم رقم

    بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے لیے سب سے کم رقم

    اسلام آباد: پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 2 سال سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کے لیے مختص کی جارہی ہے۔

    تاہم پاکستان کو کلائمٹ چینج کے حوالے سے جن نقصانات کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ رقم نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں اور پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے 4 منصوبوں کے لیے 1 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم رواں برس کے اقتصادی جائزے کے مطابق وزارت برائے کلائمٹ چینج نے اس میں سے صرف 58 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

    اس امر کو وزارت کی نا اہلی کہیں یا غفلت، البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس شعبے میں (حکومت کی حد تک) ماہرین کی بے حد کمی ہے جو صورتحال کا درست جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرسکیں، اور جو ماہرین پاکستان میں موجود ہیں، حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتی۔

    پاکستان کا کلائمٹ چینج ’445 الفاظ‘ پر مشتمل

    سنہ 2015 میں 2 سال قبل جب دنیا کے بہت سے ممالک کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم لیے پیرس میں جمع تھے (کوپ 21 کانفرنس کے لیے) اور دنیا کو بچانے کے لیے ایک تاریخ ساز معاہدہ اپنی تشکیل کے مراحل میں تھا تب اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہر ملک نے ایک حکمت عملی کی دستاویز جمع کروائی تھی جسے آئی این ڈی سی کا نام دیا گیا۔

    اس دستاویز میں ہر ملک نے کلائمٹ چینج سے ہونے والے اپنے داخلی نقصانات اور ان کے ممکنہ سدباب کا تفصیلی ذکر کیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں کون سا ملک اپنے کاربن اخراج پر کس قدر قابو پائے گا۔

    مختلف ممالک نے ضغیم آئی این ڈی سی جمع کروا کر کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کے لیے یہ معاہدہ کس قدر اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔

    اس وقت پاکستان کا آئی این ڈی سی فقط 445 الفاظ یعنی بہ مشکل ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں اس یک صفحی دستاویز کی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ پاکستان کے صنعتی شعبہ کو ابھی پھلنا پھولنا ہے، لہٰذا ابھی یہ کہنا کہ، ہم اپنے کاربن اخراج میں کتنی کمی کریں گے، قبل از وقت ہوگا۔

    شجر کاری اور کوئلے کے بجلی گھر ۔ متضاد ترقیاتی منصوبے

    یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ صرف چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا افتتاح کر چکے ہیں جو کاربن کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ سال وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کا تحفظ کیا جانا ہے۔

    ایک طرف تو گرین پاکستان پروگرام اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کا منصوبہ، اور دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کی تکمیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ایسے مشیران کی ضرورت ہے جو ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پائیداری، تحفظ ماحول، اور صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھیں جو اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بجلی گھر چین کے مشترکہ تعاون سے بنائے جارہے ہیں جو اس وقت دنیا میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے۔

    چین اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے۔ کوئلے کے اس بے تحاشہ استعمال کے باعث چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار چینیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔

    موجودہ بجٹ میں ماحول کے لیے کیا ہے؟

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بچوں کے ڈائپرز اور سگریٹ کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تو ضرور بتایا، تاہم انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کو لاحق دہشت گردی سے بھی بڑے خطرے کلائمٹ چینج کا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔

    بعد میں جاری کی گئی بجٹ دستاویز تفصیلات کے مطابق رواں برس موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 81 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    جیومیٹرک سینٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے: 3 کروڑ 38 لاکھ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2019 تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

    خشک سالی کے سدباب کے لیے پائیدار زمینی انتظام (سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ): ڈھائی کروڑ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2020 تک مکمل ہوگا۔

    وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر شروع کیا گیا گرین پاکستان پروگرام: اس منصوبے کے تحت جنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے 60 کروڑ 51 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا طے کردہ ہدف سنہ 2021 تک حاصل کرلیا جائے گا۔

    تحفظ جنگلی حیات: گرین پاکستان پروگرام ہی کے تحت اس ضمن میں 10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

    اسلام آباد میں نباتاتی و حیاتیاتی گارڈن: 1 کروڑ 50 لاکھ روپے۔

    زولوجیکل سروے آف پاکستان: 3 کروڑ 60 لاکھ روپے۔ یہ سروے پاکستان کی خطرے کا شکار جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

    دیگر منصوبے

    ان منصوبوں کے علاوہ تحفظ ماحولیات کے نام سے بھی کچھ رقم بجٹ میں شامل ہے جو 11 کروڑ سے زائد (1141 ملین) ہے جو ویسٹ واٹر مینجمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔

    ایک خصوصی پروگرام ‘پینے کا صاف پانی ۔ سب کے لیے’ کی مد میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔ یہ رقم ملک بھر میں پینے کے پانی کو صاف کرنے کے اقدامات اور دور دراز علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کی تقریر میں وزیر اعظم کے ایک پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا جو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    علاوہ ازیں تحفظ ماحول کے لیے بجٹ میں کچھ اور وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے مطابق

    حکومت تمام بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا پانی زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    صنعتوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ پانی کا کم سے کم اخراج کریں۔ یاد رہے کہ کافی عرصہ قبل امریکا سمیت اکثر ممالک میں صنعتوں کو مختلف قوانین کے تحت پابند کیا جاچکا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل یعنی دوبارہ سے استعمال کریں تاکہ پانی کی بچت ممکن ہوسکے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کلائمٹ چینج کا مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر شہری حدود میں توسیع کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے تاکہ شہروں کو ایک حد تک پھیلایا جائے اور بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔

    رواں سال بجٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کلائمٹ چینج کو منصوبہ بندی اور مالیات کے شعبہ سے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر شعبہ میں کسی بھی منصوبہ کے آغاز اور اس کی تکمیل میں کلائمٹ چینج (کے نقصانات) کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ صرف 1 سے 2 سال کے اندر پاکستان کو کلائمٹ چینج کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ دہشت گردی کے نقصانات کے تخمینہ سے بھی تجاوز کرجائے گا۔

    اگر صرف مذکورہ بالا وعدوں کو ہی پورا کرلیا جائے، اور مختص کی گئی رقم کو دانش مندی اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو ہم کلائمٹ چینج کے نقصانات سے خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔

  • پوپ فرانسس کی ٹرمپ کو کلائمٹ چینج پر توجہ دینے کی ہدایت

    پوپ فرانسس کی ٹرمپ کو کلائمٹ چینج پر توجہ دینے کی ہدایت

    ویٹی کن سٹی: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پوپ فرانسس سے ملاقات کے دوران پوپ نے انہیں ایک خط تحفتاً دیا جس میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کی ہدایت کی گئی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنی اہلیہ اور دختر کے ہمراہ ویٹی کن سٹی کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے عیسائیوں کےمذہبی پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کی۔

    ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے روایت کے مطابق ایک دوسرے کو تحائف دیے۔ صدرٹرمپ نے پوپ کو امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد کے بارے میں مبنی کتابوں کا سیٹ پیش کیا۔

    جواباً پوپ نے انہیں ایک دستاویزی خط تحفے میں دیا جس میں انہوں نے کلائمٹ چینج، دہشت گردی اور امن عامہ سے متعلق لکھا ہے۔

    مزید پڑھیں: لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    ذرائع کے مطابق پوپ نے ٹرمپ سے گفتگو کے دوران بھی کلائمٹ چینج کا ذکر کیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوپ نے صدر ٹرمپ کو پیرس معاہدے سے دستبردار نہ ہونے کی بھی تاکید کی جس کی مخالفت ٹرمپ پہلے ہی کرچکے ہیں۔

    روانگی کے وقت صدر ٹرمپ کا کہنا تھا، ’بہت شکریہ پوپ، آپ نے جو کچھ کہا میں اسے یاد رکھوں گا‘۔

    ٹرمپ کی ماحول کے لیے دشمن پالیسیاں

    یاد رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران سے صدر ٹرمپ اپنے مختلف بیانات کے ذریعے ماحولیات اور سائنس کے شعبے کے لیے اپنی غیر دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں۔

    اپنی انتخابی مہم میں کئی بار ٹرمپ نے کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دیا۔

    ٹرمپ کا انتخابی منشور بھی ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کر چکے ہیں یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ماحول دشمن اصلاحات کے خلاف کیلی فورنیا ڈٹ گیا

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    ٹرمپ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ گزشتہ برس اقوام متحدہ میں ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے طے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل سے بھی علیحدہ ہوجائیں گے جس کے بعد دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہننے کا اندیشہ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • موسموں کی بے مہری کا شکار ۔ موہانو قبیلہ

    موسموں کی بے مہری کا شکار ۔ موہانو قبیلہ

    جامشورو: سندھ کے ضلع جامشورو میں واقع منچھر جھیل پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس جھیل میں پانی کا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔

    اس جھیل کی موجودگی کے بارے میں کوئی حتمی تاریخ موجود نہیں لیکن یہ جھیل موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، گویا دنیا کی قدیم ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔

    لیکن تاریخ میں اہم مقام رکھنے والی یہ جھیل اس وقت تباہی و بربادی کا شکار ہے۔

    تاریخی ورثہ برباد ہوچکا؟

    ستر کی دہائی میں سندھ کے مختلف شہروں سے بڑی بڑی نکاسی آب کی لائنیں اور نہریں نکال دی گئیں جو ان شہروں کا فضلہ، صنعتوں کا زہریلا پانی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے زہریلے کیمیائی مواد سے بھرپور باقیات کو اس جھیل میں لانے لگیں۔

    اسی طرح دریائے سندھ کے کناروں کو قابل کاشت بنانے کے لیے وہاں سے نمکین پانی بھی اسی جھیل میں ڈالا جانے لگا۔ یہ کام رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) سسٹم کے ذریعہ کیا جارہا تھا۔

    گو کہ بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ دریائے سندھ کا نمکین پانی بحیرہ عرب میں بہا دیا جائے لیکن فنڈز کی کمی کے باعث یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور یہ پانی منچھر جھیل کو آلودہ اور زہریلا کرتا رہا۔

    lake-7

    سنہ 1990 میں کیے جانے والے ایک تحقیقاتی تجزیے سے پتہ چلا کہ جھیل کا پانی نمکین پانی، کیمیائی مواد اور فضلے کی آمیزش کی وجہ سے زہریلا ہوچکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ یہاں کی آبی حیات اور پودے مر چکے ہیں یا ان کی تعداد میں خطرناک کمی آچکی ہے جبکہ اس پانی سے زراعت بھی ممکن نہیں رہی۔

    جھیل کی آلودگی کے باعث ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا۔

    پاکستان فشر مین فورم کے مصطفیٰ میرانی جو اس جھیل کو بچانے کے لیے سرگرداں ہیں، کہتے ہیں کہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیمز نے بھی جھیل میں صاف پانی کی فراہمی کو منقطع کردیا۔

    جھیل کی لہروں پر تیرتا قبیلہ

    اس جھیل کی ایک اور خوبصورتی یہاں آباد موہانا قبیلہ ہے جن کے گھر جھیل میں تیرتی کشتیوں پر آباد ہیں۔ یہ لوگ کئی نسلوں سے انہی کشتیوں پر رہ رہے ہیں۔

    lake-6

    lake-5

    کشتیوں پر رہنے والے یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر ہیں اور ان کا واحد ذریعہ روزگار مچھلیاں پکڑنا ہے۔

    لیکن برا ہو صنعی ترقی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے کیمیائی مادوں کا جن کی وجہ سے نہ صرف جھیل کا پانی بلکہ جھیل کی ہر شے زہریلی ہوچکی ہے۔

    ان ہی میں ایک ماہی گیر محمد یوسف پرانے دنوں کو یاد کر کے آزردہ ہوتا ہے جب ان لوگوں کی زندگی بہت خوبصورت اور خوشحال تھی۔ محمد یوسف کے لیے اب اس جھیل پر زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    وہ کہتا ہے، ’کچھ عرصہ پہلے زندگی بہت خوبصورت تھی۔ یہاں ہر قسم کی مچھلیاں دستیاب تھیں اور ہماری آمدنی بہت اچھی تھی‘۔

    وہ بتاتا ہے کہ جب اس کے والد شکار پر جایا کرتے تھے تو وہ کئی کلو مچھلی لے کر آتے تھے۔ ’لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب خراب پانی کی وجہ سے مچھلی ختم ہوگئی ہے‘۔

    یوسف اپنی والدہ، بیوی اور 9 بچوں کے ساتھ لکڑی سے بنی ناؤ پر رہتا ہے اور یہ جھیل اس کا گھر ہے۔

    lake-3

    یوسف اور اس جیسے بے شمار لوگ لکڑی سے بنی ان کشتیوں میں کئی نسلوں سے مقیم ہیں۔ کشتی کے اوپر بنائے گئے چھپر پر ان لوگوں کے کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ موجود ہوتی ہیں۔

    کھانا پکانے کے لیے کشتی کے کنارے پر ایک مٹی کا چولہا موجود ہے جس میں آبی پودوں سے آگ جلائی جاتی ہے۔

    lake-2

    یوسف نے بتایا کہ گرمیوں میں وہ چھپر کے اوپر جبکہ سردیوں میں کشتی کے اندر سوتے ہیں۔

    اس کی کشتی کے اندر دو جھولے بھی موجود ہیں۔ ایک کے اندر یوسف کا 40 دن کا بیٹا سوتا ہے جبکہ دوسرے کے اندر قرآن رکھا گیا ہے۔

    لیکن کئی نسلوں سے آباد یہ قبیلہ بھی اب اپنے خاتمے کے دہانے پر ہے۔ مصطفیٰ میرانی کے مطابق یہاں موجود افراد کی تعداد نصف ہوچکی ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تب یہاں 400 کے قریب کشتیاں موجود تھیں جن پر ان کا قبیلہ آباد تھا۔ ان لوگوں کا کھانا پینا، سونا، حتیٰ کہ شادیاں بھی انہی کشتیوں پر انجام پاتی تھیں۔

    لیکن اب غربت کے باعث لوگ اپنی کشتیوں کی مرمت نہیں کروا پاتے جس کے باعث ان کی کشتیاں خستہ حال ہوگئی ہیں۔ مجبوراً انہیں اپنے آبائی مقام کو چھوڑ کر خشکی پر گھر بسانے پڑ رہے ہیں۔

    lake-4

    اب بمشکل ایک درجن کشتیاں ہیں جو جھیل پر تیر رہی ہیں۔

    خشکی پر قابل رحم زندگی

    خشکی پر گھر بسانے والوں میں سے ایک ضعیف شخص سائیں داد ہے جس کی کشتی ٹوٹ پھوٹ کر منچھر کی گہرائیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ سائیں داد کنارے پر گھاس پھونس سے بنے جھونپڑے میں رہتا ہے۔

    سائیں داد کا کہنا ہے، ’ہمارے پاس پینے یا دیگر ضروریات کے لیے پانی نہیں ہے۔ ہمارے پاس کھانا پکانے کے لیے برتن تک نہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں‘۔

    سائیں داد کے بیٹے قریبی شہروں میں روزگار کی تلاش میں جا چکے ہیں جہاں وہ زیادہ تر بندرگاہ پر مختلف کام سر انجام دے رہے ہیں۔

    اس خوبصورت جھیل نے تیزی سے رونما ہوتی صنعتی ترقی کا تاوان اپنی استعداد سے زیادہ ادا کیا ہے۔ نہ صرف یہ جھیل بلکہ اس پر قائم یہ نایاب قبیلہ بھی اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ بقول میرانی، ’یہ جھیل خدا کا تحفہ تھی۔ مگر اب اس جھیل کی خوبصورتی برباد ہوچکی ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج سے پرانی خوفناک بیماریاں لوٹ آنے کا خدشہ

    کلائمٹ چینج سے پرانی خوفناک بیماریاں لوٹ آنے کا خدشہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے بزرگوں کے دور میں بستیوں کی بستیاں موت کے گھاٹ اتارنے والی بیماریاں جیسے چیچک اور طاعون لوٹ کر آسکتی ہیں اور اس کی وجہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج ہوگا۔

    انسانوں کی اس زمین پر آمد کے وقت سے یہاں ایسے جاندار بھی موجود ہیں جو کسی کے لیے فائدہ مند ہیں اور کسی کے لیے نقصان دہ۔ ایسے ہی کچھ جاندار وائرس اور بیکٹریا بھی ہیں جن میں سے بہت کم اقسام انسانوں اور جانورں کے لیے فائدہ مند ہے۔

    ان جراثیموں کی بڑی تعداد نقصان دہ اور مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے جو بعض اوقات نہایت خطرناک اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جراثیم طاقتور ہوگئے، پرانی بیماریاں لوٹ آئیں گی

    تاہم جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی ویسے ویسے کئی امراض پر قابو پالیا گیا اور اب کچھ بیماریاں ایسی ہیں جنہوں نے پرانے دور میں قیامت خیز تباہی مچائی لیکن اب ان کا نام و نشان بھی موجود نہیں۔

    البتہ اب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے گرم ہوتا ہوا موسم (گلوبل وارمنگ) اب ان وائرسوں کو دوبارہ سے جگا سکتا ہے اور انہیں فعال کر سکتا ہے۔

    انکشاف کیسے ہوا؟

    ماہرین پر یہ انکشاف اس وقت ہوا جب گزشتہ برس اگست میں سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سال بچہ انتھراکس کا شکار ہو کر مرگیا۔

    یہ بیماری جانوروں سے لگنے والی چھوت کی بیماری ہے اور اس وقت اس نے مزید 100 افراد کو اپنا شکار بنا کر اسپتال پہنچا دیا۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    animal-2

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں یہ مرض انسانوں کو بھی لگنا شروع ہوگیا اور جلد یہ وبا پورے علاقے میں پھیل گئی۔

    وائرسوں کا پنڈورا باکس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر برس جب موسم گرما شروع ہوتا ہے تو زمین کے مختلف برفانی حصوں پر جمی برف 50 سینٹی میٹر تک پگھلتی ہے تاہم اب جس رفتار سے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اس سے برف پگھلنے کی رفتار اور مقدار میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے سرد ترین مقام کی برف پگھلنا شروع

    تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق یہ عمل مختلف بیماریوں کے وائرسز کا پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہے کیونکہ وائرس اور جراثیم برف میں دفن ہونے کے بعد لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ 20 ویں صدی کے آغاز میں 10 لاکھ کے قریب بارہ سنگھے انتھراکس کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں لہٰذا قیاس ہے کہ ان کے دفن شدہ اجسام زیادہ گہرائی میں نہیں ہوں گے۔

    animal

    اس زمانے میں چونکہ ایسے خطرناک امراض کا شکار جانوروں کو بھی دفن کردیا جاتا تھا لہٰذا جب اس وبائی مرض نے برفانی خطے کو متاثر کیا تو لاکھوں جانوروں کو مختلف مقامات پر دفن کیا گیا۔

    صرف روس میں 7 ہزار میدانوں میں ایسے جانوروں کو دفن کیا گیا۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے امراض چیچک اور گلٹی دار طاعون بھی لوٹ کر آسکتے ہیں جنہوں نے ایک زمانے میں پورے پورے شہر کا خاتمہ کردیا تھا۔

    سنہ 1890 میں سائبریا میں قیامت خیر چیچک کی لہر نے ملک کی 40 فیصد آبادی کا خاتمہ کردیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق اگر ان وائرسوں کا پھیلاؤ پھر سے شروع ہوگیا تو یہ پہلے سے زیادہ خطرناک صورتحال کو جنم دے سکتے ہیں کیونکہ میڈیکل سائنس کی ترقی کی بدولت اب انسانی جسم نسبتاً نازک مزاج ہوگیا ہے اور یہ سخت وائرس اور بیماریاں برداشت نہیں کرسکتا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا دریائے نیل تاریخی اہمیت کا حامل دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریا بھی موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی زد میں ہے اور اس کی وجہ سے دریائے نیل میں شدید اتار چڑھاؤ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوچکا ہے۔ کبھی اس میں اتنا زیادہ پانی ہوتا ہے کہ یہ سیلاب کی صورت باہر آجاتا ہے، اور کبھی اتنا کم کہ خشک سالی کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    ہر سال دریا کے اوسط بہاؤ میں 10 سے 15 فیصد اضافہ یا کمی ہوجاتی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے یہ معیار بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب ہر سال تغیر گزشتہ برس سے کہیں زیادہ مختلف ہوتا ہے۔

    بعض اوقات اس کے بہاؤ میں 50 فیصد کمی یا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    ماہرین کے مطابق اس کا انحصار اس علاقے میں ہونے والی بارشوں پر ہے کہ وہاں کتنی بارشیں ہوئیں، تاہم اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ دریا یا سمندر کے اوپر بننے والے بادلوں کا انحصار بھی دریا یا سمندر کے پانی پر ہی ہوتا ہے، کہ وہ کس نوعیت کے بادل تشکیل دے رہا ہے۔

    تحقیق میں شامل میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے، ’یہ کوئی تحقیقاتی جائزہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو رونما ہو رہی ہے۔ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوگیا ہے‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2015 میں جب ایل نینو شروع ہوا تو کم بارشوں کی وجہ سے دریائے نیل میں پانی کی مقدار کم ہوگئی جس سے مصر میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

    ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس بار ایل نینو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک جاری رہا۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    اس کے بعد سنہ 2016 میں جب (کمزور) لانینا شروع ہوا تو نیل میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا جس سے دریا بپھر گیا اور اس کے سیلابی پانی نے کروڑوں ڈالر کا نقصان اور 26 افراد کو موت کے منہ میں پہنچا دیا۔

    لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    دریائے نیل ہمیشہ سے کئی سیاسی تنازعات کا مرکز بھی رہا ہے لیکن اس کی مہربانیاں قدیم دور سے لے کر اب تک جاری ہیں۔ تاہم اب موجودہ حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دریا مزید کب تک مہربان رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث آم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ

    کلائمٹ چینج کے باعث آم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ

    لاہور: موسم گرما میں آموں کی سوغات پاکستان کی پہچان ہے لیکن ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ رواں سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی وجہ سے آموں کی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق رواں برس ملک کے لیے کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک بدترین سال رہا اور کلائمٹ چینج سے بے شمار نقصانات ہوئے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کے غیر معمولی تغیر نے ملک کی بیشتر غذائی فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈالا ہے اور انہیں نقصان پہنچایا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا ضروری

    ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج نے اس بار جنوبی پنجاب کے ان حصوں کو شدید متاثر کیا ہے جہاں آموں کے باغات ہیں۔

    ان علاقوں میں خانیوال، ملتان، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان شامل ہیں۔

    ان کے مطابق اس حوالے سےصوبہ سندھ نسبتاً کم متاثر ہوا ہے تاہم پنجاب کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس آم کی مجموعی پیداوار 17 لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی تھی جس میں سے دو تہائی پیداوار پنجاب اور ایک تہائی سندھ میں ہوئی۔

    سید فخر امام کے مطابق سندھ میں تو نہیں، البتہ پنجاب میں رواں سال آموں کی پیداوار شدید متاثر ہوجائے گی۔

    پاکستان آم کا اہم برآمد کنندہ

    پاکستان دنیا بھر میں آموں کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کل پیداوار کا 7 فیصد حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔

    یہ برآمدات یورپ سمیت 47 ممالک کو کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال ان برآمدات میں 16 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ اس سال آم کی برآمدات ممکن نہیں ہوسکے گی۔

    مزید پڑھیں: پاکستان سے موسم بہار ختم ہونے کا خدشہ؟

    ان کے مطابق رواں برس مطابق پنجاب میں آم کی اوسط پیداوار میں نصف کمی ہوجائے گی جس کے بعد اسے برآمد کرنا ناممکن ہوجائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ رواں سال مارچ کا مہینہ نسبتاً ٹھنڈا تھا اور اس کے بعد شدید گرد و غبار کے طوفان اور اچانک گرمی میں غیر معمولی اضافہ، وہ وجوہات ہیں جنہوں نے آم سمیت کئی غذائی فصلوں کو متاثر کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آم کی پیداوار اور برآمدات متاثر ہونے سے نہ صرف قومی معیشت کو دھچکہ پہنے گا بلکہ ان ہزاروں افراد کا روزگار بھی متاثر ہوگا جو اس پیشے سے وابستہ ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نو منتخب صدر کی امریکی سائنس دانوں کو فرانس آنے کی دعوت

    نو منتخب صدر کی امریکی سائنس دانوں کو فرانس آنے کی دعوت

    پیرس: فرانس کے صدارتی انتخابات میں ایمانویل میکرون واضح اکثریت حاصل کر کے فرانس کے کم عمر ترین صدر منتخب ہوگئے ہیں اور صدر منتخب ہوتے ہی انہوں نے اپنا پہلا ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کیے گئے اپنے پیغام میں صدر میکرون نے امریکی سائنس دانوں کو فرانس منتقل ہو کر اس خطرے سے لڑنے اور اپنے صلاحیتوں کے اظہار کی دعوت دی ہے۔

    اپنے پیغام میں انہوں نے امریکی سائنس دانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’میں جانتا ہوں کہ کس طرح آپ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کلائمٹ چینج کے بارے میں توہمات کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بجٹ میں بھی بے حد کمی کردی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کے ماحول دشمن اقدامات

    ان کا کہنا تھا، ’لیکن میں آگاہ کردوں کہ مجھے کلائمٹ چینج (کے رونما ہونے) میں کوئی شبہ نہیں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس مسئلے کے بارے میں نہایت خلوص سے کام کرنا ضروری ہے‘۔

    انہوں نے امریکا میں کلائمٹ چینج پر کام کرنے والے افراد کو فرانس آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایجادات اور تخلیق کار بہت پسند ہیں۔ ’ہم ٹیکنالوجی، توانائی اور ماحول دوست ایجادات پر کام کرنے والے افراد کا کھلے دل سے استقبال کریں گے‘۔

    انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ کلائمٹ چینج کے تاریخی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے بھی فرانسیسی بجٹ بھی محفوظ رکھیں گے۔

    یاد رہے کہ کلائمٹ چینج کا یہ تاریخی معاہدہ 2 برس قبل پیرس میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں طے پایا تھا جس میں 195 ممالک نے دستخط کر کے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔

    اس ترقی کے باعث زہریلی گیسوں کا اخراج دنیا بھر کے موسموں میں تبدیلی لارہا ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ کر رہا ہے یعنی کلائمٹ چینج رونما ہورہا ہے۔

    اس کے ساتھ یہ تمام ممالک ماحول دوست اقدامات کرنے اور ماحول کے لیے نقصان دہ عوامل کو کم یا ختم کرنے کے بھی پابند ہیں۔

    مزید پڑھیں: ماحول کے لیے کام کرنے پر شوازینگر کے لیے فرانسیسی اعزاز

    تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے امریکا میں سابق صدر اوباما کے شروع کیے گئے ماحول دوست اقدامات بھی منسوخ کردیے ہیں۔

    اب جبکہ امریکا یہ زہریلی گیسیں خارج کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، اس کا اس معاہدے سے دستبردار ہونا ماحول کی بہتری کے لیے کیے جانے والے تمام اقدامات پر سوالیہ نشان ہے۔

    کلائمٹ چینج سے متعلق مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔