Tag: گلوبل وارمنگ

  • کراچی میں پھر ہیٹ ویو کا امکان

    کراچی میں پھر ہیٹ ویو کا امکان

    کراچی: صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی رواں برس مئی اور جون میں ایک بار پھر ہیٹ ویو کا نشانہ بن سکتا ہے۔ محکمہ موسمیات نے مئی اور جون میں گرمی میں اضافے کا الرٹ جاری کردیا۔

    محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ شہر قائد مئی اور جون میں شدید گرمی کی لپیٹ میں آجائے گا اور ان 2 ماہ میں موسم خشک رہے گا۔

    ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق کراچی میں درجہ حرارت 2 سے 3 مرتبہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاسکتا ہے۔

    محکمہ موسمیات کراچی میں گرمی بڑھنے اور ہیٹ ویو کے خطرہ کی صورت میں 3 روز قبل الرٹ جاری کرے گا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاؤ

    یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے سال کے آغاز میں ہی انتباہ کردیا تھا کہ رواں برس ملک میں موسم گرما اپنے مقررہ وقت سے قبل آجائے گا۔

    ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات گزشتہ برس اگست کے بعد سے واضح طور پر سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔

    کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے اس بار موسم سرما کے معمول میں تبدیلی ہوئی اور جنوری کے آخر میں شدید سردیوں کا آغاز ہوا۔ اب جبکہ موسم گرما اپنے عروج پر ہے تو اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کم کرنے کے طریقے

    ماہرین متفق ہیں کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے کراچی میں ہیٹ ویو اب ہر سال معمول کی بات بن جائے گی اور اس سے مطابقت کرنے کے لیے حکومت اور عام افراد کو فوری طور پر طویل المدتی اقدامات کرنے ضروری ہیں۔

    یاد رہے کہ سنہ 2015 میں بھی کراچی کو گرمی کی قیامت خیز لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔

    اسلام آباد بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں

    ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی کلائمٹ چینج کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں اور وہاں بھی گرمی میں اضافہ ہورہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں سنہ 2006 میں درجہ حرات 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا اور یہ اپریل کے آخر میں ہوا تھا۔

    تاہم رواں برس اپریل کے وسط میں ہی اسلام آباد کا درجہ حرات 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    مزید پڑھیں: سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    ماہرین اس گرمی میں اضافے کی وجہ موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کو قرار دے رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ کلائمٹ چینج کے نقصانات کا سامنا کرنے کے حوالے سے پاکستان پہلے 10 ممالک میں شامل ہے اور اس کا سب سے بدترین نقصان پورے ملک کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے جو پانی کے ذخائر اور زراعت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    عالمی یوم ارض: تحفظ ماحول کی تعلیم وقت کی ضرورت

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ماحولیات اور کلائمٹ سے متعلق تعلیم اور شعور و آگاہی کا فروغ ہے۔ ماحولیات اور خاص طور پر کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیرات) کے بارے میں تعلیم اور آگاہی حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ دن بدن بڑھتے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سدباب کیے جاسکیں۔

    تحفط ماحولیات کا شعور پاکستان میں کس طرح ممکن؟

    ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ایک حقیقیت ہے اور حقیقت کا ادارک نہ کیا جائے، اس سے آگاہی حاصل نہ کی جائے تو وہ نقصان دہ بن جاتی ہے۔ ’ماحولیات اور خصوصاً کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی کا فروغ وقت کی ضرورت بن چکا ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب وغیرہ یہ سب موسمیاتی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ ایسے میں ہم مشکل صورتحال پیش آنے کے بعد اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں جبکہ یہ کام سارا سال ہونا چاہیئے۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہماری جامعات میں انوائرنمنٹ اسٹڈیز کے الگ سے شعبے بنا دیے گئے ہیں۔ یہ تعلیم اس شعبے میں مہارت تو فراہم کرتی ہے لیکن صرف چند لوگوں کو، ان کے علاوہ ہماری عوام کی بڑی تعداد ماحولیات کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے‘۔

    ان کے مطابق اب جبکہ یہ وقت کی ضرورت بھی بن چکی ہے، تو ماحولیات کو ایک الگ مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچوں میں پہلے دن سے تحفظ ماحولیات اور تحفظ فطرت کا شعور اجاگر ہو سکے۔

    آگاہی کے ذرائع

    رفیع الحق نے ایک اور امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جب ہم اخبارات کے ذریعہ آگاہی کو فروغ دیتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری عوام کی اکثریت اخبار نہیں پڑھ سکتی۔ ’ہمیں ابلاغ کے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو سب کی پہنچ میں ہوں‘۔

    اس ضمن میں ٹی وی پر اشتہارات، دستاویزی فلمیں نشر کرنا، اور ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں ٹی وی بھی میسر نہ ہوں، مسجدوں سے اعلان کروانا، یا وہاں موجود سرکاری محکموں کے توسط سے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ان کا کہنا ہے، ’اگر ہم یہ سب نہیں کریں گے، تو پھر وہی صورتحال ہوگی جو سنہ 2015 میں کراچی کی ہیٹ ویو کے دوران پیش آئی اور 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ ان کے شہر میں آفت کی صورت نازل ہونے والی یہ گرمی کیا ہے، اور کس قدر خطرناک ہے، تو وہ کیوں گھر سے باہر نکل کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے؟

    زمین کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنی زمین اور فطرت کا تحفظ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ چند معمولی باتیں جو بظاہر بہت عام سی لگتی ہیں بعض دفعہ ہمارے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے کام کریں گے، تو یقیناً ہم اپنی ماں زمین کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    غیر ضروری روشنیاں بند کریں۔ مختلف ساکٹس کے بٹن بھی بند رکھیں۔ کھلے بٹنوں کی وجہ سے ساکٹس توانائی خارج کرتے ہیں جو بجلی کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔

    اپنے گھر اور گھر سے باہر جہاں ممکن ہو وہاں پودے اگائیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کیا گیا آگاہی پوسٹر

    بہت سارے پودے اگا کر انہیں خراب ہونے کے لیے چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ کم از کم ایک یا 2 پودے اگائے جائیں تاکہ ان کی دیکھ بھال کر کے انہیں تناور درختوں میں تبدیل کیا جائے۔

    جتنا ممکن ہو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہر شخص کی انفرادی گاڑی ماحول میں فضائی آلودگی اور زہریلی گیسیں شامل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

    پرانے اخبارات کو ردی میں پھینکنے کے بجائے انہیں مختلف کاموں میں استعمال کریں۔ اس طرح سے آپ درختوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    کچرے کو بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے اور جگہ جگہ کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے۔

    پانی کا احتیاط سے استعمال کریں۔ برش کرتے ہوئے نلکا بند کردیں۔

    گوشت کی نسبت پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار ہماری زمین کو نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس گوشت کے ذرائع مختلف جانور درخت اور پتے کھا کر ہمیں گوشت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔

    کاغذ کم سے کم ضائع کریں۔ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں لہٰذا کاغذوں کا ضیاع کرنے سے گریز کریں۔ ایک صفحے کی دنوں جانب لکھائی کے لیے استعمال کریں۔

    مختلف اشیا کو ری سائیکل کریں یعنی انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں۔

    پلاسٹک کی اشیا خصوصاً تھیلیوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ یہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ان کی جگہ مختلف ماحول دوست میٹیریل سے بنے بیگز استعمال کریں۔

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    اپنے بچوں کو بچپن سے ماحول دوست بننے کی تربیت دیں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    ہزاروں سال سے دریاؤں کا ایک مخصوص راستے پر بہنا ایک قدرتی عمل ہے، اور اس راستے میں تبدیلی آنا، یا پلٹ کر مخالف سمت میں بہنا بھی کسی حد تک قدرتی عمل ہے، لیکن اس کی وجہ جغرافیائی عوامل ہوتے ہیں۔

    تاہم کینیڈا کا یوکون دریا صرف چند ماہ کے اندر اپنا رخ مکمل طور پر تبدیل کر چکا ہے اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ہے۔

    اس دریا کے بہاؤ میں غیر معمولی تبدیلی اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئی جب اس کا منبع جو کہ ایک گلیشیئر تھا، اپنی جگہ سے کھسک گیا جس کے بعد گلیشیئر سے بہنے والا پانی دوسرے دریا میں گرنے لگا۔

    اس سے یوکون کی سب سے بڑی جھیل کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی اور سارا میٹھا پانی اب سمندر کی بجائے الاسکا کے جنوب میں بحرالکاہل میں گرنے لگا ہے۔

    مزید پڑھیں: صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

    ماہرین کے مطابق اس گلیشیئر سے پگھلنے والی برف کا بہاؤ شمال کی جانب ہوتا تھا مگر موسمیاتی تغیرات کے سبب برف کی تہہ پگھل کر کم ہوئی اور اب یہ پانی جنوب کی جانب بہنے لگا ہے۔

    اب اس مقام پر، جہاں دریا کا بہاؤ نہیں ہے، پانی کی سطح کم ہورہی ہے اور دریا کی تہہ میں پڑے پتھر اور پتھریلی زمین ظاہر ہورہی ہے۔

    سائنسدانوں نے اسے دریا کی ہائی جیکنگ قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے ایک دریا کا دوسرے دریا کے پانی اور بہاؤ پر قبضہ کر لینا۔

    دریا کے بہاؤ پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اب دریا کا بہاؤ ہمیشہ اسی صورت رہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے سندھ نے زمین نگلنا شروع کردی

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر کسی دریا کے پانی کے بہاؤ کا رخ بدلنے کا عمل ہزاروں لاکھوں سال میں انجام پاتا ہے اور اس کی وجہ زیر زمین پلیٹوں کی تبدیلی یا ہزاروں لاکھوں برس تک زمین کا کٹاؤ رونما ہونا ہے۔

    تاہم یوکون دریا کے بہاؤ میں تبدیلی صرف چند ماہ میں رونما ہوئی ہے جو تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے اور اس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے سرد ترین مقام کی برف پگھلنا شروع

    دنیا کے سرد ترین مقام کی برف پگھلنا شروع

    جاپان کے شہر توکا ماچی کا شمار دنیا کے برفیلے ترین مقامات میں سے ایک ہوتا ہے۔ البتہ اس مقام کے قریب ایک اور چھوٹا سا گاؤں ہے جو اس شہر سے بلندی پر واقع ہے، اور وہاں کس قدر برف پڑتی ہے؟ آج تک اس کی پیمائش نہیں کی گئی۔

    جاپان کے شہر توکا ماچی سے 15 سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ گاؤں تاکا کرا کہلاتا ہے۔

    توکا ماچی میں تو سالانہ 460 انچ برف پڑتی ہے، البتہ تاکا کرا میں کتنی برف پڑتی ہے اس کا تعین آج تک نہ کیا جاسکا، البتہ سطح سمندر سے مزید بلند ہونے کے باعث یہاں توکا ماچی سے کہیں زیادہ برف پڑتی ہے۔

    جاپان کے نوبل انعام یافتہ مصنف نے ایک بار اس جگہ کا دورہ کیا تو انہوں نے لکھا، ’تاروں بھری رات میں زمین سفید لبادہ اوڑھے لیٹی نظر آتی ہے‘۔

    تاہم اب ماہرین موسمیات و ماحولیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کو متاثر کرنے والا کلائمٹ چینج اس مقام پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اور اب یہاں برفباری کی اوسط میں کمی آرہی ہے۔

    مزید پڑھیں: برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاکا کرا کی آبادی صرف 14 افراد پر مشتمل ہے جبکہ توکا ماچی میں 54 ہزار کے قریب لوگ مقیم ہیں، یہ تمام لوگ اس برفانی موسم کے عادی ہیں اور اس کے مطابق اپنا طرز زندگی تشکیل دے چکے ہیں۔

    تاہم اب یہاں کا درجہ زیادہ ہونے کے باعث انہیں طبی مسائل پیش آسکتے ہیں جبکہ اس سخت موسم کے مطابق بنایا گیا ان کا ذریعہ روزگار بھی خطرات کا شکار ہے۔

    یاد رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کے برفانی مقامات شدید خطرات کا شکار ہیں اور یہاں رہنے والی جنگلی و آبی حیات کو بھی معدومی کا خدشہ ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں جس کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافے کا امکان ہے اور یوں تمام دنیا کے ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق قطب شمالی کی برف بھی پگھل رہی ہے اور گزشتہ سال صرف مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔

    جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    برف کے اس قدر پگھلاؤ کے بعد اب ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک

  • زمین 60 ہزار سے زائد اقسام کے درختوں کا گھر

    زمین 60 ہزار سے زائد اقسام کے درختوں کا گھر

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری زمین پر درختوں کی تقریباً 60 ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں؟

    عالمی تنظیم برائے تحفظ نباتاتی باغات بی جی سی آئی نے درختوں کے حوالے سے پہلی جامع تحقیق کی اور اس تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 60 ہزار 65 اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔

    trees-4

    ادارے نے یہ جامع تحقیق دنیا بھر کی 500 مختلف تنظیموں کی مدد کے ساتھ انجام دی۔

    جرنل آف سسٹین ایبل فاریسٹری میں شائع کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں درختوں کی سب سے زیادہ اقسام برازیل میں پائی جاتی ہیں جہاں درختوں کی 8 ہزار 715 اقسام موجود ہیں۔

    مزید پڑھیں: ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ تکمیل کے قریب

    دوسرے درجے پر کولمبیا 5 ہزار 776 اقسام اور تیسرے درجے پر انڈونیشیا 5 ہزار 142 اقسام کا گھر ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جامع تحقیق سے ہمیں درختوں کا مکمل ڈیٹا حاصل ہوگیا جس کے بعد ان کے تحفظ اور بچاؤ کی کوششوں میں مزید بہتری لائی جائے گی۔

    trees-3

    درختوں کی یہ فہرست ان افراد اور اداروں کو بھی مدد فراہم کرے گی جو درختوں کی نایاب اقسام کو محفوظ رکھنا اور انہیں بچانا چاہتے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس فہرست کو مستقل اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے گا کیونکہ عمومی طور پر ہر سال درختوں کی 2 ہزار نئی اقسام کو دریافت کیا جاتا ہے۔

    درختوں کی بڑی تعداد خطرے کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت درختوں کی 9 ہزار سے زائد اقسام خطرے کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ بہت جلد یہ اقسام ختم ہوجائیں گی۔

    ان کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے جس کی وجہ سے جنگل کے جنگل ختم ہو رہے ہیں۔

    trees-2

    ماہرین کہتے ہیں کہ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔ وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔

    اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟

    یاد رہے کہ اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.88 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔

    deforestation

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ کرنے یعنی گلوبل وارمنگ کو بڑھانے کا بھی ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

  • راولپنڈی کا ماحولیات میلہ

    راولپنڈی کا ماحولیات میلہ

    راولپنڈی: صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں انوائرنمنٹ میلہ منعقد کیا گیا جس میں طلبا اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    یہ میلہ نیشنل کلینر پروڈکشن سینٹر کی جانب سے طالب علموں اور عام شہریوں میں ماحول کو لاحق خطرات اور ان میں کمی اور بچاؤ کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے منعقد کیا گیا۔

    4

    3

    میلے کا افتتاح ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات (ای پی اے) کی ڈائریکٹر جنرل فرزانہ الطاف نے کیا۔

    میلے میں طلبا نے ماحولیات اور زمین کی حفاظت سے متعلق ٹیبلوز پیش کیے۔

    10

    12

    11

    انہوں نے سائنس و آرٹ پروجیکٹس کے ذریعے ماحولیاتی خطرات میں کمی کے لیے مختلف آئیڈیاز بھی پیش کیے۔

    7

    6

    5

    8

    9

    13

    14

    طلبا نے ان پروجیکٹس کے ذریعے بتایا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس سے ہونے والے خطرناک نقصانات سے باخبر ہیں اور اپنے ماحول، زمین اور قدرتی وسائل کے تحفظ کا عزم رکھتے ہیں۔

    1

    میلے کے اختتام پر طلبا کو انعامات بھی دیے گئے۔

    ماحولیات سے متعلق مزید مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں

  • بلین ٹری سونامی: منصوبہ 83 فیصد تک کامیاب

    بلین ٹری سونامی: منصوبہ 83 فیصد تک کامیاب

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے کا عالمی تنظیم نے آڈٹ کروایا اور اسے 83 فیصد تک کامیاب قرار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور خیبر پختونخواہ میں بلین ٹری منصوبے کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا بلین ٹری سونامی منصوبے کا عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے آڈٹ کروایا اور کہا کہ یہ منصوبہ 83 فیصد تک کامیاب ہے۔

    مزید پڑھیں: ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ تکمیل کے قریب

    عمران خان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر بلین ٹری اور ماحولیاتی بہتری کے لیے صوبے کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ نے درخت لگا کر دیگر صوبوں کے لیے مثال قائم کی ہے۔

    tree-2

    چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے 5 سال میں 1 ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مہم اس وقت کامیاب ہوگی جب لوگ آپ کے ساتھ ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ صوبے بھر میں 80 کروڑ درخت لگائے جا چکے ہیں جن کی کسی بھی طرح تصدیق کی جاسکتی ہے۔ سال کے آخر تک ایک ارب درختوں کا ہدف پورا کرلیں گے۔

    عمران خان نے بتایا کہ صوبے میں 22 ارب روپے کی 60 ہزار کنال زمین ٹمبر مافیا سے واپس لی گئی۔ زمینیں وا گزار کروانے کے دوران گولیاں بھی چلیں لیکن اہلکار کھڑے رہے۔

    پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثر ملک

    چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی درجہ حرات میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ملک ہے۔ جیسے جیسے گرمی برھے گی، بارش کم ہوتی جائے گی۔ ایسے میں مجھےخوشی ہے خیبر پختونخواہ حکومت نے ماحولیات سے متعلق اقدامات کیے۔

    ان کے مطابق اس مہم کا پورے ملک میں بہت اچھا اثر پڑے گا، اور مستقبل کی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاسکیں گی۔

    یاد رہے کہ سنہ 2015 میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں ماحولیاتی آلودگی اور کلائمٹ چینج جیسے بین الاقوامی خطرات سے نمٹنے کے لیے بلین ٹری سونامی پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت صوبے بھر میں ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ تھا۔

    tree-3

    یہ دنیا کا تیز رفتار ترین منصوبہ ہے اور پوری دنیا میں 3 سال کے عرصے میں کسی بھی ملک نے شجر کاری کا اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کیا۔

  • ٹرمپ کی ماحول دشمن اصلاحات کے خلاف کیلیفورنیا ڈٹ گیا

    ٹرمپ کی ماحول دشمن اصلاحات کے خلاف کیلیفورنیا ڈٹ گیا

    لاس اینجلس: امریکا میں ماحولیات کے لیے سب سے زیادہ سرگرم ریاست کیلی فورنیا ٹرمپ انتظامیہ کی ماحولیاتی پالیسیوں کے سبب قانونی کارروائی کا ارادہ کر رہی ہے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان جاری کشمکش کو امریکی صدر کے اس فیصلے سے ہوا ملی، جس کے تحت اوباما دور میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ اس نئے فیصلے سے امریکا کے مزدوروں کو فائدہ ملے گا اور بالخصوص کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور اس سے مستفید ہوں گے۔

    گورنر اور میئر کے پیغامات

    امریکی صدر کے اس فیصلے کو کیلی فورنیا کے ماحولیاتی گروپس اور سرکاری عہدیداران کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کیلی فورنیا کے گورنر جیری براؤن نے بھی اس کی مخالفت میں ٹویٹ کیا ہے۔

    اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کوششوں کو ختم کرنے کا خیال سوائے ڈونلڈ ٹرمپ کے کسی اور کے دماغ میں نہیں آسکتا ہے۔

    لاس اینجلس کے میئر نے بھی اس مہم میں شریک ہوتے ہوئے امریکی صدر کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے اس نئے فیصلے پر سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کچھ بھی فیصلہ کرے لیکن ہم 2050 تک گرین ہاؤس گیسز کو 80 فیصد کم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا رہیں گے اور دنیا کو ایک صاف ستھرا اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کا مشن جاری رکھیں گے۔

    ٹرمپ کی ماحول کے لیے دشمن پالیسیاں

    اپنی انتخابی مہم کے دوران سے صدر ٹرمپ اپنے مختلف بیانات کے ذریعے ماحولیات اور سائنس کے شعبے کے لیے اپنی غیر دلچسپی ظاہر کر چکے تھے۔

    اپنی انتخابی مہم میں کئی بار ٹرمپ نے کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دیا۔

    ٹرمپ کا انتخابی منشور بھی ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کر چکے ہیں یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    ٹرمپ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ گزشتہ برس اقوام متحدہ میں ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے طے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل سے بھی علیحدہ ہوجائیں گے جس کے بعد دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہننے کا اندیشہ ہے۔

    صدر اوباما ۔ ماحول دوست صدر

    اس سے قبل سابق صدر اوباما نے داخلی سطح پر کئی ماحول دوست منصوبے شروع کر رکھے تھے جو ٹرمپ انتظامیہ ختم کرنے کے درپے ہے۔

    صدر اوباما نے کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے کی منظوری دی تھی اور اس کے لیے انہوں نے ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکن اراکین سے کئی بحث و مباحثے بھی کیے تھے۔

    مزید پڑھیں: صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیگر ری پبلکنز بھی صرف دہشت گردی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کلائمٹ چینج ان کے نزدیک غیر اہم مسئلہ ہے۔

    صدر اوباما کی انسداد ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میں ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ کلائمٹ چینج فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں ہونے والا اضافہ ہمیں اس بات پر مجبور کرے گا کہ ایمرجنسی اقدامات کے شعبوں میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف کیا جائے۔

  • جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔

    رواں برس یہ دن جنگلات اور توانائی کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔ جب ہم جنگلات اور توانائی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا خیال درختوں کی لکڑی کا آتا ہے جسے ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی موجودگی کسی ملک کے ماحول، معیشت، شہری ترقی اور وہاں رہنے والے انسانوں کو مختلف جہتوں سے توانائی فراہم کرتی ہے۔

    forest-1

    جنگلات ماحول کی آلودگی میں کمی کرتے ہیں جبکہ درختوں پر لگے پھلوں کی تجارت کسی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔

    کراچی میں جنگلات اور درختوں کی کمی کی وجہ سے سنہ 2015 میں قیامت خیز گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) آئی جس نے ایک ہزار سے زائد افراد کی جانیں لے لیں۔

    وزیر اعظم کا پیغام

    جنگلات کے عالمی دن پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پیغام دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ درخت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے آئندہ نسل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت آئندہ نسلوں کو سر سبز مستقبل دینے کے لیے کوشاں ہے۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کے باعث ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔

    پاکستان کے 2 نایاب جنگلات

    پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔

    صنوبر کے جنگلات

    بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

    forest-2
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

    یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

    پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    forest-3
    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

    اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔

    تیمر کے جنگلات

    کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    forest-5
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔

    forest-6
    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔

     پاکستان میں درختوں کی کٹائی

    وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔

    ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔

    وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔

    اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟

    اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

  • پھٹیچر کا لفظ غیر رسمی تھا لیکن شور ایسا مچاجیسے قتل کردیا ہو، عمران خان

    پھٹیچر کا لفظ غیر رسمی تھا لیکن شور ایسا مچاجیسے قتل کردیا ہو، عمران خان

    لاہور : پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پھٹیچر کا لفظ غیر رسمی گفتگو میں استعمال کیا تھا لیکن ایساشور مچادیا گیا جیسے میں نے کوئی قتل کردیا ہو۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ نجی گفتگو میں کہے لفظ کو پکڑ طوفان برپا کردیا گیا اور ایسا شور کیا گیا جیسے میں نے قتل کردیا ہو۔

    انہوں نے کہا کہ انصاف اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے رضاکاروں کے ساتھ مل کر اس سال کے آخر تک خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کا ہدف پورا کر لیں گے جب کہ پنجاب میں بھی 10 ہزار درخت لگائیں گے۔

    سربراہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ دنیا کو گلومل وارمنگ کا خدشہ لاحق ہے اس لیے ہمیں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے تو زیادہ سے زیادہ درخت اگانے ہوں گے جس کے لیے پاکستان کے نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا اور اس سلسلے میں انصاف اسٹوڈینٹس فیڈریشن اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔

    انہوں نے سوال کیا کہ اگر نیب نے اسد قیصر کو خط نہیں لکھا تو پھر کس نے لکھے ہیں اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا اور مجھے پورا یقین ہے موٹوگینگ اس کے ذمہ دار ہیں۔

    چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ دونوں بھائی قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے اشتہارات شائر کر رہے ہیں اور اب تک یہ دونوں بھائی 25 سے 30ارب روپے کے اشتہارات کی مد میں پھونک چکے ہیں۔